ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 25 دسمبر، 2020

● جناح سے قائد تک اسوہ حسنہ و نظریہ پاکستان / کالم




جناح سے قائد اعظم تک
 نظریہ پاکستان 
تحریر: ممتازملک.پیرس



پاکستان کی تخلیق ایک خواب تھی تو پاکستان کا بانی بھی کسی طلسماتی شخصیت سے کم نہ تھا ۔ انگریزی بولتا تھا انگریزی سوٹ پہن کر جوان ہوا ۔ لیکن دل میں عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایسی تڑپ رکھتا تھا کہ سوچنا شروع کیا تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار کو سینے سے لگا لیا ۔ پھر چاہے سولہ برس کا جناح برطانیہ کی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت اس کے ماتھے پر لکھا اسم محمد ص ع و  دیکھ کر اپنے قدم وہیں جما لیتا ہے تو بھلے یورپ کی چکاچوند میں اپنے کردار کی حفاظت کرتا ہوا، ہر وقتی مفاد سے دامن بچاتا ہوا، ہر منافقت سے الگ تھلگ رہ کر اپنے تقوی کا حقیقی امتحان دیکر یہ ثابت کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان کا لباس کیا ہو،  سے زیادہ کتنا مہذب ہو ، مکمل ہو یہ ضروری ہے اور اس کے کردار کی پاکیزگی اسے ہر حال میں مدنظر رکھنی چاہیئے ۔ 
محمد علی جناح سے قائد اعظم بننے کے سفر کے دوران ہر قدم پر اسوہ حسنہ کو اپنے فرمودات، نکات،  گفتار و کردار کا لازمی حصہ بنائے رکھا۔ 
مثلا سادہ الفاظ میں بیان کریں تو نظریہ پاکستان پیش کرنے والے کی اپنی زندگی  ایمان داری، امانت داری ، خودداری ، حیاداری، کردار کی پاکیزگی کی اعلی مثال تھی۔  پاکستان کا حصول اس لیئے کہ یہاں مسلمان اپنی مذہبی آزادی کیساتھ اور اقلیتیں اپنے عقائد کے مطابق محفوظ اور آذاد زندگی گزار سکیں ۔ جہاں قانون سب کے لیئے یکساں ہو۔ تمام صوبوں کو ان کی ضرورت کے حساب سے آسانیاں حاصل ہوں ۔ پاکستانی ہونا سب سے بڑی قومیت ہو اور ہر ایک کے لیئے قابل فخر ہو ۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہو ۔ میرٹ کی بنیاد پر روزگار اور عہدوں کی تقسیم ہو ۔ انصاف ہر ایک کی دسترس میں ہو ۔ معاشی طور پر کوئی طبقہ کسی دوسرے کے حقوق کو پامال نہ کر سکے ۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کو شرانگیزی پھیلانے کی اجازت نہ ہو۔ ادارے خود کو عوام کا ملازم سمجھیں ۔ قومی خزانہ کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو ۔ وطن کی ترقی اور خوشحالی ہر پاکستانی کی زندگی کا مشن  ہو۔ 
سبھی علاقائی زبانوں کو ان کے علاقوں میں احترام ملے اور اردو ہماری قومی زبان ہو۔ دنیا میں ہم باوقار قوموں میں شمار کیئے جائیں ۔ آج ہم قائد کے اسی نظریئے کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے ۔ ہماری بدنیتیاں ، ہوس زر ، کردار کی کمزوری نے آج ہمیں اس نظریے سے چوہتر سال کی دوری پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اپنا اپنا احساب ہمیں خود کرنا ہو گا  اپنے اللہ کے سامنے  خود کو  جوابدہ مانتے ہوئے۔
قائد کے حسین خواب کو تعبیر میں ڈھالنا ہم پر قائد کی جانب سے فرض ہے ۔ یہ وہی قائد ہے جنہیں ہمارے اجداد نے سچ کی آواز سمجھ کر گواہی دی تھی کہ یہ جو کہتا ہے سچ کہتا ہے اس لیئے دنیا کو دکھا دو کہ تن من دھن یعنی جان مال آبرو آل اولاد ہر شے کو ایک ارادے کے  لیئے قربان کرنا کیسا ہوتا ہے ۔ اس اعتبار نے دنیا میں ہجرت اور قربانیوں کی  تاریخ رقم کر دی ۔ ایک ایسے تاریخ جس پر  آج تک وہ لوگ شرمندہ ہیں جو اس وقت اس آواز پر لبیک کہنے کی جرات نہ کر سکے اور آج ہر قدم پر انہیں "بابا جی ٹھیک کہتے تھے" کہہ کر اشک بہاتے ہیں۔ دو قومی نظریہ کا مذاق اڑانے والے آج قائد کے پیغام کو یاد کر کے اپنی زخم چاٹنے پر مجبور ہیں کہ آج کے بعد بھارت میں رہنے والا ہر مسلمان  ہر روز ہندووں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے دلاتے مر جائے گا  اور  وقت نے ثابت کیا کہ محمد علی جناح کا قائد اعظم تک کا سفر ہر لمحہ ہر گھڑی اور لفظ لفظ ایک باکردار اور سچے رہنما کا سفر تھا ۔ آج تک دنیا کا کوئی دوست یا دشمن جس کے کردار میں چاہ کر بھی کوئی کمی کوئی برائی تلاش نہ کر سکا ۔ 
     اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
دل تیری محبت سے یہ معمور رہینگے


ہم آج بھی تیرے دیئے اسباق کو لیکر
کرتے ہیں چراغاں رہ عشاق کو لیکر 
دل لے کے ہتھیلی پہ یہ منصور رہینگے 
اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
                          ●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/