آذاد پرندوں کی طرح گھوم رہی ہوں
سرشار ہوں فطرت پہ اور جھوم رہی ہوں
پیسوں کے عوض کچھ نہیں بکتا ہے جہاں پر
کردار کی جب ہی تو میں معصوم رہی ہوں
انسانیت ہے نام میرا تجھکو پتہ کیا
دنیا میں تو اکثر ہی میں معدوم رہی ہوں
درپردہ گناہوں کا ہے بازار سجایا
ہاں سامنے لوگوں کے میں مخدوم رہی ہوں
روکا نہیں جب تک کسی ظالم کے ستم کو
اس پل تلک میں خود بڑی مظلوم رہی ہوں
ممتاز میری روح میں ہلچل ہے یہ کیسی
شاید یہ اثر ہے کہ میں محکوم رہی ہوں
۔۔۔۔۔۔
سرشار ہوں فطرت پہ اور جھوم رہی ہوں
پیسوں کے عوض کچھ نہیں بکتا ہے جہاں پر
کردار کی جب ہی تو میں معصوم رہی ہوں
انسانیت ہے نام میرا تجھکو پتہ کیا
دنیا میں تو اکثر ہی میں معدوم رہی ہوں
درپردہ گناہوں کا ہے بازار سجایا
ہاں سامنے لوگوں کے میں مخدوم رہی ہوں
روکا نہیں جب تک کسی ظالم کے ستم کو
اس پل تلک میں خود بڑی مظلوم رہی ہوں
ممتاز میری روح میں ہلچل ہے یہ کیسی
شاید یہ اثر ہے کہ میں محکوم رہی ہوں
۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں