ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 6 فروری، 2019

■ اسلام کے چوکیدار / کالم ۔ لوح غیر محفوظ




اسلام کو کسی چوکیدار کی ضرورت نہیں ہے 
                              (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

اسلام محبت اور بھائی چارے کا مذہب  ہے ۔ لیکن فی زمانہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے خوش نصیب ہی  ان بدنصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیں اسلام کے نہ بنیادی فرائض کا علم ہے اور نہ ہی اسلامی اصولوں کا ان کی زندگیوں میں کوئی گزر ہے ۔ ہم مسلمان ہیں اس لیئے کہ ہم مسلمان باپ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ 
زیادہ سے زیادہ ہم میں سے کوئی  کبھی کبھار یا دن  میں کبھی نماز ہی پڑھ لیتا ہے۔ پیسہ ہوا تو حج اور عمرہ ادا کر لیا ۔
 وہ بھی محض دنیا دکھاوے کے لیئے، ورنہ ہر سال 40 پچاس لاکھ مسلمان حج ادا کر کے بھی واپسی پر اپنے کردار میں کسی قسم کی کوئی مثبت تبدیلی کیوں نہیں لا پاتے ۔ کیونکہ انہوں نے یہ نماز ، حج اور روزے محض رسما ادا کیئے ۔ اس کی روح سے ناواقف اس کے فیوض و برکات سے محروم ۔ ہم اس وقت تک خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے جب تک ہمارے کردار ،قول و فعل سے متاثر ہو کر کسی غیر مسلم کو  اس مذہب کی جانب رغبت حاصل نہ ہو سکے ۔ 
 اس کی تازہ مثال ہالینڈ کا وہ ممبر پارلیمنٹ جو سالوں سے اسلام دشمنی میں پیش پیش رہا ۔ مسلم دشمنی میں ان کے  شدت انگیز بیانات جن کی شناخت رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ان اسلام مخالف خیالات کو کتابی شکل دینے کا آغاز کر دیا ۔ اسلام کے ہر نکتے پر اعتراضات ڈھونڈنے کے ارادے سے انہوں  نے اسلام کو پڑھنا شروع کیا ۔ جیسے جیسے اسلام میں اندھیرے ڈھونڈنے والے نے اس کے جس نکتے کو ہاتھ لگایا وہ ایک چراغ کی صورت اس کے دل میں روشن ہوتا چلا گیا ۔۔ اندھیرے کی یہ کتاب کیا مکمل ہوتی اس کی روح میں ایمان کا فانوس روشن ہو گیا ۔  
وہ خود اس بات پر حیران ہے کہ وہ کس ارادے سے اسلام کو پڑھنے بیٹھا اور کیا لیکر واپس لوٹا ۔ تو ثابت ہوا کہ دین کو پڑھنے اور سچے دل سے پڑھنے کی شرط بھی ہے اور ضرورت بھی۔  آپ کے دل و دماغ کیا آپکی روح تک میں پہنچنے کے سارے راستے وہ خود ہی بنا لیگا ۔ 
ہم پیدائشی مسلمان ساری عمر خود کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کے گمان میں ہر ایک کو کافر قرار دینے میں گزار دیتے ہیں ۔ فرقہ بازیوں نے ہمیں کبھی اللہ کی کتاب کھولنے کی توفیق ہی نہ ہونے دی ۔ اور ہم نے اپنا دین مولویوں اور علماء کی زبانوں کے سپرد کر دیا ۔ گویا ہمارے حصے کا دین بھی انہوں نے پڑھنا ہے اور ہمارے حصے کی سزائیں بھی انہوں نے ہی کاٹنی ہیں ۔ بس جب وہ ہمیں آواز دینگے ہم اندھے،گونگے،بہرے بن کر، دین کے چوکیدار بن کر وہ جس پر کہیں اس پر حملہ کر دیں ۔ اسے کاٹ دیں ۔ اسے تباہ کر دیں ۔ کیونکہ 
 اس طرح ہمیں اللہ کے دین کی چوکیداری کے بدلے میں جنت ملے گی ۔ کیا واقعی ؟؟؟
جس اللہ نے کن کہہ کر یہ کائناتیں تخلیق کیں، وہ ہماری ہی چوکیداری کے سہارے اپنے دین کو بچائے ہوئے ہے ؟ 
وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کو مروانے والا ہم جیسے کمزور ایمان اور رنگ برنگے عقائد کے سوداگروں کے ذریعے اس دین کو باقی رکھے ہوئے ہے ؟
انا للہ وانا الیہ راجعون ہماری ایسی سوچ اور گمان پر بھی ۔۔
دنیا بھر میں آج بھی  جب بھی کوئی ایمان لاتا یے تو اسلام دشمنی ہی میں اللہ کے کلام کو کھنگھالنے بیٹھتا ہے اور پھر اس بحر بیکراں میں نایاب موتی چنتے چنتے اتنی دور، اتنی حسین اور مکمل دنیا میں گم ہو جاتا ہے کہ نہ اسے اپنی تاریک آذادیاں یاد رہتی ہیں اور نہ کھوکھلی خوشیاں ۔۔۔
سو ہم سب کو بھی اللہ کی کتاب کو خود سے کھول کر صرف اپنے ایمان کی اصلاح کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ تاکہ ہم بھی اس سمندر سے موتی نہیں تو نہ سہی کچھ سیپ ہی چن سکیں ۔ اس دین کو اللہ نے مکمل کر دیا ہے ۔ اس کی حفاظت کا وعدہ اس نے کیا ہے اور اس سے بڑھکر کوئی وعدے نبھانے والا بھی نہیں ہے ۔ اس لیئے اس کے دین کے چوکیدار بننے سے اچھا ہے کہ ہم اپنے ایمان اور کردار ، اپنے اعمال اور اپنے نفس کی چوکیداری کریں ۔ اسی میں ہماری بخشش و فلاح دونوں پوشیدہ ہیں ۔ 
                    ●●●



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/