ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 4 فروری، 2019

گدی نشین مفت خورے۔کالم



        گدی نشین مفت خورے 
                     (تحریر/ممتازملک۔پیرس)



ہر سال اوقاف کے زیر انتظام ہونے کے باوجود ہزاروں درباروں خانقاہوں پر زائرین کی جانب سے چڑھایا جانے والا اربوں روپیہ کہاں جاتا یے ۔  اس کا حساب کتاب کون لیگا ۔ 
یہ وہ اربوں روپیہ ہے جس کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہے ۔ کبھی خاندان میں کسی ایک بزرگ نے اللہ سے لو لگائی، کم کھایا کم سویا ، تقوی اختیار کیا ۔ اور اللہ کی محبت میں لوگوں کو اپنے علم کا فیض بانٹتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اب خاندان کو فکر ہوئی کہ ابا جی نے جو شہرت اور عزت کمائی ہے ۔ مراقبے اور چلے کاٹے ۔ وہ سب ان کیساتھ ہی دفن ہو چکے ہیں ۔ باقی گھرانے میں سے شاید کوئی نماز کا پابند بھی ہو یا نہ ہو ۔ لیکن ابا جی  یا دادا یا نانا جی کی پگڑی کو کسی نہ کسی کے سر فکس کر دیا جائے تاکہ رونق میلہ لگا رہے ۔ لیکن ہاں اب یہ سب مفت میں نہیں ہو گا بلکہ کوئی صندوق بھی رکھا جائے جہاں ہر آتا جاتا اپنی خوشی سے کچھ نہ کچھ ڈالتا جائے ۔ تو پھر وہ بکسے بھرنے لگے ۔میلے ٹھیلے پر لوگوں کی توجہ مبذول کرا کے انکی تعداد بڑھائی گئی ۔ چرس اور گانچے کے شوقینوں کے لیئے بھی کئی ترکیبیں اختیار کی گئیں ۔ لنگر خانے بھی  کھولے گئے اچھا کیا ۔ لیکن اس لنگر خانے کی آڑ میں بھی ہر حکومت کے آئے گئے کو خصوصی خدمات پیش کی گئیں ۔
جس کا مطلب ہوتا ہے "سرکار آنکھیں بند رکھو "۔ کیوں کہ اس گدی دو گدی پر بیٹھنے والا گدی نشین نہ تو کوئی خاص دینی علم رکھتا ہے ، نہ اس کی کوئی روحانی حیثیت اور درجہ ہے ، نہ اس کا کوئی کوئی مثالی کردار ہے ، نہ کوئی چلہ نہ کوئی مراقبہ۔۔   یعنی وہ ایک پھوکا کردار ہے جسے اس پگڑی کے نیچے چھپا دیا گیا ہے ۔۔ 
اس لیئے حکومت سرکار آنکھیں بند رکھتی ہے کہ نہ کوئی اس صندوق اور صندوق کے نیچے بنے زیر زمین کمروں میں نوٹوں کی بوریوں کا حساب کتاب ہوتا ہے ،نہ اس پر ٹیکس لگتا ہے اور نہ ہی اس پیسے کو کسی فلاحی کام میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ گدی نشین خاندان اس مال مفت پر بنا محنت کے عیاشی کی  زندگی بسر کرتے ہیں ، اثررسوخ کے مالک بن جاتے ہیں اور لوگوں کو دینی بلیک میلنگ کا شکار کر کے جس سیاسی ٹولے کو چاہیں اس کے آگے قربانی کے دنبے کی طرح پیش کر دیتے ہیں ۔ بلکہ بیچ دیتے ہیں کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا ۔ 
ہمارے ملک میں جب بھی حساب کتاب کا شوراٹھتا ہے تو اسے صرف اور صرف سیاسی انتقام کے لیئے ایک پارٹی کسی دوسری پارٹی پر یا کوئی خاص طاقت کسی دوسری حکومت سے مخصوص مفادات کے حصول کے لیئے ایڑی چوٹی کا ذور لگانے پر خرچ کر دیا جاتا  ہے ۔ یوں جب وہ مفادات حاصل ہو جاتے ہیں تو کل کا چور پھر سے آج کا شاہ بنا دیا جاتا یے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ سارا سلسلہ محض مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔ ہمارے ٹیکسیشن ،اوقاف نیب اور ایسے دوسرے اداروں کی توجہ  آخر باقی شعبوں میں ملک کو چونا لگانے والوں کی جانب کیوں نہیں جاتی ۔ جس میں سب سے بڑا کاروبار ان مزاروں کی مفت کی کمائی پے ۔ اس کمائی کا ایمانداری استعمال کیا جائے تو ملک بھر میں ہر یتیم اور بیواہ کو بہترین وضائف دیکر پڑھایا لکھایا اور اہل ہنر بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے ۔  ضرورت مندوں کو  اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیئے  کارخانے لگائے جا سکتے ہیں ۔ آسان بلا سود کاروباری قرضے دیئے جا سکتے ہیں ۔ غریب خاندانوں کو مفت راشن فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ دستکاری سکول اور سینٹر بنائے جا سکتے ہیں ۔ ہسپتالوں میں ہر شہری کو مفت ادویات و علاج فراہم کیا جا سکتا ہے ۔  غرض کہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ لیکن اس مال پر دربار بنا کر چند خاندان مسلط ہیں ۔ اوراس مال کو جیسے چاہیں اڑا رہے ہیں ۔ خدارا اس جانب توجہ دیجیئے ۔ ملک بھر سے غربت کے خاتمے میں ان درباروں کی کمائی اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے ۔ 
لیکن اس کے لیئے ضروری ہے کہ ان حساب کتاب لینے والے محکموں میں بھی ایماندار لوگ تعینات کیئے جائیں جنہیں ان گدی نشینوں سے زیادہ خدا کو جواب دینے کی فکر اور اس کا ہی خوف بھی ہو ۔ جنہیں احساس ہو کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیئے "سب اوکے" کی رپورٹ دیکر وہ اس ملک کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ سکنے والے ممکنہ فوائد کو ملیامیٹ کر کے دونوں جہانوں میں دوزخ کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ اس لیئے ایمانداری اور خدا خوفی کی شرط جتنی ان افسران پر لاگو ہوتی ہے ۔ اس کا انہیں بھرپور احساس دلانے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔   
                      ۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/