ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 19 جنوری، 2019

حب بتان سیاہ ست ۔ کالم


         حب بتان سیاہ ست
                    (تحریر: ممتازملک ۔پیرس) 


آج جب ہر طرف پاکستان سے باہر رہ کر بھی  پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے عشق اور بخار میں غرق ہو چکے ہیں انہیں بات کرتے ہوئے نہ کسی دلیل  کی پرواہ ہوتی ہے ، نہ کسی کے احترام سے غرض ۔ منہ سے جھاگ اڑاتے ، ہذیان بکتے ہوئے یہ لوگ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ہماری قوم کے ماتھے پر وہ کلنک کا ٹیکہ ہیں جو اپنی روح بجا طور پر  سیاسی مفاد پرست شیطانوں کے پاس گروی رکھ چکے ہیں ۔ 

 ۔ اور کسی بات کا کریڈٹ ہماری سیاسی پارٹیوں کو، ان کے لیڈران کو جائے یا نہ جائے لیکن بیہودگی ، بدزبانی اور لچر پن کا کلچر متعارف کروانے میں ان کا نام بجا طو پر سر فہرست رہیگا ۔ ۔ دنیا بھر کے ممالک میں سیاسی  پارٹی کا کام صرف اپنے ملک کے اندر سیاسی بحث مباحثے کرنا  اور لوجک کی بنیاد پر دوسرے کی رائے سننا بھی ہے ، اس پر غور بھی کرتے ہیں اور بڑی اعلی ظرفی کیساتھ اس کی مخالفت ہی نہیں  حمایت بھی کرتے ہیں اس کے لیئے سامنے والا چاہے کتنی ہی شدید مخالفت رکھنے والی پارٹی کا نمائندہ یا کارکن ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن بھلا ہو ہماری سیاسی جماعتوں کا، جنہوں نے کوئی نہ کوئی بت تراش کر سارے کارکنان کو اس بت کی پرستش پر لگا دیا ۔ اب بت پرستوں کے مذہب میں  اس کی اپنی پیدائش پر کسی کا اعتراض تو قبول ہے ، لیکن اگر نہیں قبول تو اس بت کی شان میں کوئی بھی سچ سننا یا اعتراض کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ یہ ہی فرق ہے پاکستان کی  ناکامی اور دنیا کی ترقی کا ۔ جب تک ہمارے ملک میں سیاسی بت تراشی اور بت پرستی ختم نہیں ہو گی، یہاں سے بت پرستوں کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ ملک سے محبت بھی توحید کی طرح ہی ہوتی ہے ۔ جس طرح  خدا ایک ہے اسی طرح ہر انسان کی مدر لینڈ ، دھرتی ماں،  مادر وطن بھی ایک ہی ہوا کرتی ہے ۔ قومیتیں یا نیشنیلٹیاں چاہے وہ کتنے بھی ممالک کی حاصل کر لے، لیکن اس کا خمیر جس مٹی سے اٹھا ہے ۔ نہ وہ اس سے انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے نظرانداز کر سکتا ہے ۔ اسی لیئے اس ملک سے وفاداری ہمارے خون میں بہنی چاہیئے ۔ یہ کیسی وفاداری ہے جو کسی بھی ایک لیڈر یا بت کے نام سے وقف ہونے کے بعد ، نہ ہمیں کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے ۔ اور آنے والا ہر طوفان ہمیں برباد کرنے کو تیار ہو اور ہمارا اسے پھونک سمجھ کر نظر انداز کرنا، بہت بڑی حب ال بتاں سمجھ لیں ۔
یاد رکھیں :
ایمان کی لڑائی میں بس ایمان ہوتا ہے  نہ اس میں کوئی کسی کا باپ ہلوتا ہے اور نہ بیٹا ۔ نہ کوئی رشتہ ہوتا ہے اور نہ مفاد ۔ ہمارا مقصد صرف سچائی اور ایمان ہوتا ہے ۔ جس میں ایمان نہیں، اسمیں سچائی نہیں ، ہمارے ملک کی بھلائی نہیں ، پھر نہ وہ ہمارا لیڈر ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ ایک اچھا انسان ہو سکتا ہے ۔      
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/