ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 30 اکتوبر، 2015

بڑے بے آبرو ہو کر۔ کالم


بڑے بے آبرو ہو کر
ممتازملک. پیرس


عمران خان نے دوسری بار بھی اپنے لیئے کسی مناسب خاتون کا انتخاب نہیں کیا . نہ انہیں اپنے خاندان کی عزت اور نام کا خیال رہا . نہ انہیں اس عورت کے کردار اور شہرت پر نظر ڈالنے کا ہوش رہا . دونوں بار مادر پھر آزاد اور بے کردار خواتین ہی زندگی میں شامل کیں . اب یہ تو ہونا ہی تھا . جس آدمی کو بارہ کروڑ پاکستانی خواتین میں سے ایک بھی خاتون اس قابل نہ لگی کہ وہ اس کے ساتھ زندگی عزت سے گزار سکتا ہے تو وہ کس منہ سے ہماری خواتین سے ووٹ مانگنے کے لیئے ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے . اور خواتین بھی کیا سوچ کر اس کی زندہ باد کرتی ہیں . یہ آج تک سمجھ سے باہر ہے .
کہنے والے یا شخصیت پرست ہم سے یہ بھی کہیں گے کہ جی آپ کو کیا یہ تو ان کا نجی معاملہ ہے . لیکن ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ جب بھی کوئی ملک کسی بھی شخص کو کسی بھی وجہ سے ہیرو کا درجہ دیتا ہے تو اس اعزاز کے بدلے میں  اس کی نجی آزادی بھی اس قوم کے نام ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی گفتار، کردار،اطوار  سب پھر اس کے ذاتی نہیں رہتے بلکہ اس ملک یا قوم کا مجموعی کردار  اسی کی ذات کے آئینے میں دیکھے اور جانچے جاتے ہیں . 
بقول عمران خان کے انہوں نے ایک پلے بوائے جیسی  جسے عام زبان  میں  بے دینی اور لوفری کی زندگی گزاری ہے . اور عیاشی کا کوئی کام نہیں چھوڑا . یہاں تک کہ ان کی والدہ ان کے سدھرنے اور کسی باکردار  پاکستانی لڑکی کو بہو بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا سے رخصت ہو گئیں . بہنوں کی رائے بھی ان کی نظر  میں ان کی زندگی کے کسی موڑ پر کبھی اہم نہیں رہی . جس کا ثبوت ان کی دوبار ایسی خواتین سے شادی کی صورت میں سامنے آیا جن کی پہچان صرف ان کا آزاد بلکہ بے حد آزاد کردار ،ان کے معاشقے  اور بے لباسی ہی رہا . وہ عمران خان جو پاکستان کے عوام کو ہر موقع پر اپنا احسان مند دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس ملک میں پیدا ہو گیا . اسے کبھی اس ملک کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کا خیال نہیں آیا جو اس کے کہنے پر اسے اپنے لیئے امید کی کرن سمجھ کر اپنا مسیحا  تک بنانے کو اس لیئے تیار ہو گئے کہ ان کے پاس کوئی باکردار آدمی میدان میں تھا ہی نہیں .کیونکہ جو باکردار ہیں ان کی جیب عمران خان کی طرح نوٹوں سے بھری ہوئی نہیں ہیں . اس لیئے وہ اس میدان میں پاؤں رکھنے کا سوچنے کا بھی حق نہیں رکھتے . اور ہمارے معصوم نوجوان دن رات اس کی طرفداری میں لوگوں سے بدتمیزیاں کرتے ،سر پھاڑتے  اور  جھگڑتے  ہوئے اپنے آپ کو کس حد تک گرا لیتے ہیں کہ بس ہمارے لیڈر کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھائے . لیکن کیا کرے ان کے لیڈر کا کردار ہمیشہ "چن چڑھے کل عالم دیکھے " کے مصداق عیاں رہا ہے . اس سے یہ بات بار بار ثابت ہو جاتی ہے کہ عمران خان صرف خود سے محبت کرنے والا ایسا مغرور انسان ہے جس نے اپنے ساتھ سولہ سال جد و جہد کرنے والے ان مڈل کلاس کارکنان کو اس وقت لات مار کر کونے میں پھینک دیا کہ جب ان کی امیدوں کی کشتی پار لگنے ہی والی تھی .  سالوں کی محنت اس لیئے نہیں کی گئی تھی کہ دوسری جماعتوں کے آزمائے ہوئے ڈاکو اور لٹیرے اس جماعت کو اپنا نیا اڈا  بنا لیں . جو چلے ہوئے کارتوس اپنی جماعتوں میں پشتوں سے اس ملک کی جڑیں کاٹنے کا کام کرتے رہے اسے اس مغرور لیڈر نے عام آدمی کی سولہ سالہ شبانہ روز محنتوں سے ایمانداری سے بھری دودہ کی بالٹی میں  گندگی کی پوٹ کی طرح لا کر پھینک دیا اور اپنی عقل کے خوب ڈھول پیٹے کہ میں نے اس کو توڑ لیا اور اس کو موڑ لیا لیکن یہ نہ مانے کہ میں نے اپنے مخلص ترین کارکنان کو کام کا موقع آنے اور اس ملک کی تقدیر سنوارنے کا وقت آتے ہی چھوڑ لیا بلکہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی .اور آزادی رائے کا ڈھنڈھورا پیٹنے  والے نے ہر اس آدمی کو چن چن کر نشانہ بنایا جس نے اس کے کسی فیصلے پر آواز اٹھائی یا احتجاج کیا. اب بھی وقت ہے عمران خان صاحب کہ اپنے غرور اور  تکبر کے زعم  سے باہر نکلیئے کہ اللہ کبھی کسی مغرور کو سزا دیئے بنا نہیں رہتا . اس ملک کا جوان اگر آپ کیساتھ کھڑا ہے تو اسے اپنی حرکتوں اور  پندرہ سالہ لونڈے جیسے کارناموں  سے مزید لوگوں سے بھڑنے اور شرمندہ ہونے پر مجبور مت کریں . آپ کی عمر کے لوگ نانا داد بنے اپنی نسلوں کو بھی سنبھالتے ہیں اور فیصلوں میں پختگی بھی دکھاتے ہیں . جبکہ آپ نے آج تک اپنی ہی ذات کے لیئے بھی کوئی اچھا فیصلہ نہیں کیا . آپ میں اتنی ہی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ اس ملک کی خواتین سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں کہ جن کے مقابلے پر ننگی ناچنے والیاں اور ٹشو پیپر کی طرح بوائے فرینڈ بدلنے والیاں آپ کی اولین پسند بنی رہیں . اور آپ انہیں لا لا کر پاکستانی خواتین کا مذاق اڑاتے رہے ہیں  . اور دعوی یہ کہ ہم پاکستانی عورتوں اور بچوں کو انصاف دلائیں گے . افسوس صد افسوس کہ ہمیں اپ جیسے کردار اور گفتار کے آدمی کو بھی لیڈر کہنا پڑتاہے  جو اپنے گھر کابھی لیڈر نہ بن سکا جس میں اتنا حوصلہ نہیں کہ کہ اپنے گلچھڑوں کی قیمت ہی عوام کو بتا سکے کہ کون سا شوق  اسے کتنے میں پڑا .....  اور خاص طور پر یہ دو شوقین خواتین کا شوق انہیں کتنے میں۔۔۔۔
                ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2015

ڈینش شعرو ادب کی مکمل تاریخ





A HISTIRY OF DENISH LITRETURE
ڈینش شعرو ادب کی مکمل تاریخ
صدف مرزا کے قلم سے
700 صفحات پر مشتمل ایک تاریخی کتاب
ممتازملک ۔  پیرس


دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی خواتین گئیں ان میں سے سوائے انگلش بولنے والے 

ممالک کے ان خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بہت کم رہی ہے جنہوں نے ان ممالک میں

جا کر باقاعدہ وہاں کی زبانیں سیکھی ہوں ۔ یا وہاں باقاعدہ کوئی ملازمت اختیار کی 

ہو ۔ ماسوائے چند ایک خواتین کے ۔ انہی خواتین میں سے یہ تعداد اور بھی محدود 

ہو جاتی ہے جب ان کا تذکرہ علم و ادب کے حوالے سے کیا جائے ۔ بلکہ یہ کہنا بے 

جا نہ ہو گا کہ مردوں میں بھی یہ تعداد آٹے میں نمک ہی کے براہر ہے ۔ لیکن آج ہم 

خود کو بجاء طور پر بہت خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسی پاکستانی 

خاتون کے استقبال کا موقع مل رہا ہے جنہوں نے نہ صرف اردوزبان میں پاکستان 

اور جہاں جہاں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے کی ادبی دنیا میں بہت تیزی سے 

اپنی جگہ بنائی اور نام پیدا کیا .بلکہ ڈنمارک جیسے ملک میں ڈینش زبان میں نہ 

صرف مہارت حاصل کی بلکہ ڈینش اور اردو کے امتزاج سے ایک خوبصورت اور 

شاندار کتاب پر کام کیا اور اسے اس پایہ کی تخلیق بنانے کے لیئے اپنی زندگی کے 

سات سال صرف کیئے کہ جسے نہ صرف پاکستانی اور ڈنمارک کے ادبی حلقوں 

نے بھرپور پذہرائی بخشی بلکہ اسے ڈنمارک کی یونیورسٹی کے ادبی سیکشن میں 

پڑھائے جانے کے لیئے بھی بہترین کتاب قرار دیتے ہوئے اسے وہاں کے نصاب 

میں شامل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ 


یہ خاتون ہیں محترمہ صدف مرزا صاحبہ ۔ 

اب ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کسی بھی قاری کے لیئے بہت ہی مشکل ہے کہ 

یہ خاتون شاعرہ اچھی ہیں یا نثر نگار ۔ یہ مکالمہ اچھا لکھتی ہیں یا کہانی اچھی بنتی 

ہیں کیونکہ ان کی ہر تحریر شروع کرنے والے کو اختتام تک باندھے رکھنے کا ہنر 

جانتی ہے ۔ 

آج ہم جس شاندار کتاب کی پہلی بین االاقوامی تقریب رونمائی کے لیئے یہاں پیرس 

میں منتظر ہیں ۔ وہ کوئی عام سا موضوع اور سو پچاس صفحات پر مشتمل تخلیق 

نہیں ہے بلکہ سات سو صفحات پر مشتمل ایک بھرپور ضخیم کتاب ہے . جو 

ڈنمارک کی تاریخ کو مختلف حوالوں سے ستائیس حصوں میں بیان کرتی ہے ۔ اس 

کتاب میں پتھروں کے دور سے لیکر اب تک کی زبان کی ترقی کےسفر کا احوال 

بیان کیا جاتا ہے تو اس سے وابستہ ان تمام سماجی اور سیاسی حالات پر بھی نظر 

ڈالی جاتی ہے جو کہ اس سفر میں وقوع پذیر ہو رہے تھے ۔ اس کتاب میں وہ 

تاریخی حقائق بھی بڑے جامع انداز میں بیان کیئے گئے ہیں جو کہ یہاں کےہر دور 

میں ادب اور ادبی حالات پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں ۔ 

ہر ملک کی طرح ڈنمارک میں بھی وہاں کے پاسپورٹ کے لیئے وہاں کی زبان اور 

معاشرت سے آگاہی ایک بنیادی شرط ہے. تو یہ ضرورت بھی اس کتاب کے 

مطالعے سے بجا طور پر پوری ہوتی ہے . 

اس کتاب کے مطالعے سے آپ کو نہ صرف ڈنمارک کے بلکہ پورے سکینڈے نیویا 

کے حالات سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے .

یہاں ہم سکینڈے نیویا اور ڈنمارک کے اس زمانے میں جھانکتے ہیں جہاں وائی کنگز 

کے حالات بکھرے ہوئے ہیں تو کہیں دیو ملائی کہانیاں زندگیوں کا حصہ بنی ہوئی 

ہیں . کہیں توہم پرستی کی ایسی دنیا آباد ہے کہ کسی بھی عورت کو کوئی بھی اسکی 

کسی ہمت اور جرات کے جواب میں چڑیل قرار دلوا کر زندہ جلا سکتا تھا . ایک خاتوں کے لکھاری ہونے کا خیال یا شاعرہ ہونے کی صلاحیت بھی اس کا جرم قرار دے دی جاتی ہے. جہاں اس کی زندگی کو اس حد تک تنگ کر دیا جائے کہ وہ خود اپنی موت کو گلے لگا لے .

ڈینش بادشاہوں کے لیئے محلاتی سازشیں ہوں یا قید و بند اور جلاوطنی کی ڈراونی 

داستانیں یہ سب کچھ ایک شاعر کی نظر سے کیا منظر پیش کرتا ہے اور ایک 

شاعر کا قلم اس درد کو کیسے بیان کرتا ہے . یہ سب کچھ اور اس سے بھی کہیں 

زیادہ طلسم اس کتاب میں بند ملے گا . یہ کتاب آپ کو ایک پرانی دنیا کو نئے انداز 

میں دریافت کرنے کا موقع عطا کرتی ہے .

اس کتاب میں اپنے اپنے ادوار کے معروف ڈینش شعراء کے کلام کے خوبصورت 

تراجم بھی شامل کیئے گیئے ہیں جو ہمیں اس وقت کےزہنی معیار سے آگاہی بخشتے ہیں .
اس کتاب میں پچلھے پانچ سو سالوں میں ڈنمارک میں ہونے والے تمام شاہی ادوار کا بھرپور جائزہپیش کیا گیا ہے جو اپنے اپنے زمانوں میں ادبی کاموں پر اپنے اثرات چھوڑتے رہے ہیں۔ بادشاہوں کا یہ ہی زمانہ جب عالمی جنگوں کے دوراہے پر پہنچتا ہے تو ادب کی دنیا کا انداز ایک اور رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے جہاں ایک جانب لاکھوں کروڑوں لوگوں کی اموات کے نوحے سنائی دیتے ہیں تو ان گنت جدائیوں اور ناقابل یقین ملاپ کے قصے بھی نظر آتے ہیں ۔ کہیں یہ عالمی جنگیں ملکوں ملکوں تباہی کے آثار چھوڑتی اور سرحدوں کے ازسر نو تعین کی جانب انسانوں کو بڑھاتی ہوئی اختتام پذیر ہوتی ہیں تو کہیں مختلف معاملات میں خواتین کی شمولیت کے احساس کو انتہائی ضروری قرار دیتے ہوئے مختلف تحریکوں کے آغاز کی نوید سناتی ہیں ۔ 
یہاں پر یورب بھر میں عموما اور ڈنمارک میں خصوصََا ان نسائی تحریکوں کا حوالہ دینا بھی انتہاتئ ضروری ہے جنہوں نے ٹھیک آج سے ایک صدی قبل ڈنمارک کی خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کو یقینی بنا کر ڈنمارک کی ترقی میں خواتین کے کردار  کے لیئے راستے کھولے بلکہ ان کی ہر شعبے میں شمولیت کی ضرورت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ کہ اس کے بعد خواتین کو اپنے حقوق کے لیئے ان کے تحفظ کے لیئے بے شمار راستے ملتے چلے گئے ۔ لیکن ان خواتین کی قربانیوں اور صدیوں کی جد جہد کو یہ ڈنمارک ہی نہیں بلکہ پورا یورب سلام پیش کرتا ہے ۔ کہ جس کی وجہ سے یہاں ایسے قوانین بنانے کی راہ ہموار ہوئی جس نے عورت اور بچوں کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ ان کی تعلیم اور زندگی کے ہر بنیادی حق کے حصول کے لیئے ہر قدم پر انکی پشت پناہی کی ۔ 
گویا سات سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب آپ کو ڈنمارک کے پچھلے پانچ سو سال کے ارتقائی سفر پر لیجاتی ہے ۔ جہاں ڈینش ادب آپ کو ہر رنگ کی حقیقت 
سے روشناس کراتے ہوئے تاریخ کے انمٹ نقوش آپ کے ذہن پر چھوڑتے ہوئے آپ 
کو سوچوں کے بھنور میں جُھلاتے ہوئے آج کے ڈینش اردو کے اس حسین سنگ مِیل پر لا کر حیران کھڑا کرتا ہے ۔
اپنے اپنے ادوار کے معروف ڈینش شعراء کے کلام کے خوبصورت تراجم بھی اس کتاب کا اہم حصہ ہیں ۔
جس میں یہ ملاحظہ فرمایئے
Thomas Hansen Kingo 1634-1703
THOMAS KINGO
دنیا سے اکتاہٹ اورعقبی سے الفت 1634 - 1703
Hans Adolf Brorson
Hver har sin skæbne
مقدر سب کا اپنا ہے (1681) ( 1694 - 1764)

خوبصورت ترین گلاب مل گیا
ہینس ایڈولف Den yndigste Rose er funden 1732
"De levendes Land" (1824)
Nikolai Frederik Severin Grundtvig 1783 – 1872 
زندوں کا جہاں یا زندوں کی سرزمین

اکتا دینے والا زمستانی موسم رخصت ہو چکا ہے

Ambrosius Stub (1705-1758)
 1740 Den kedsom vinter gik sin gang
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Ewald, Johannes Da jeg var syg
’’ شاہ کرسچن بلند مستول کے پاس ایستادہ تها ""
جب میں علیل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 Johannes Ewald 1743

"GULDHORNENE" 1802
 طلائی سینگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 Adam Gottlob

کشور حسین شاد باد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ڈنمارک ، میرے اجداد کی سر زمیں
 Danmark, mit Fædreland 1850 دلکش ہے ہماری ماں بولی
 1859 Sophus Claussen سوفس کھلائوسن (1865-1931)
 ”Imperia” امپیریا 1909 Poul Henningsen 1894- 1967 1940
1915- 2004
ہمارے ہونٹوں پر مہریں لگائی جا سکتی ہیں اور ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاجوردی گلِ لالہ Den blå anemone

Kaj Munk 1943
Halfdan Rasmussen
Bare en regnvejrsaften.

1944
صرف موسمِ برسات کی ایک شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض کہ ہر نظم بے مثال ہے اور اپنے اندر ایک پورے دور کو سمیٹے ہوئے نظر آتی ہے ۔ پاکستانی کی حیثیت سے آج ہم محترمہ صدف مرزا صاحبہ کے بے حد مشکور ہیں کہ جنہوں نے پھر سے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی بیٹیاں دنیا میں کہیں بھی موقع ملتے ہی اپنا ہنر منوانا اور اپنے پرچم کو سربلند کرنا خوب جانتی ہیں .
 محترمہ صدف مرزا صاحبہ ہم آپ کو پوری قوم  اور خصوصََا اہل پیرس کی جانب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور آپ کی مزید ترقی کیلئے نیک خوایشات کا تحفہ آپ کی نظر کرتے ہیں ۔ کیونکہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے آگے
دنیاوی تحائف بیکار نظر آتے ہیں .
پاکستان زندہ باد
پاکستانی بیٹیاں پائیندہ باد                               
                                       .....................
                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 12 اکتوبر، 2015

●(14) ڈومیسٹیک وائیلنس کب تک گھریلو معاملہ / کالم۔ سچ تو یہ ہے





(14) ڈومیسٹیک وائیلنس کب تک
گھریلو معاملہ
تحریر: ممتازملک۔ پیرس

  


ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین اپنےہیگھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدّد کا شکار ہوتی ہیں ۔ یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہیں دل میں ایک پرانی یاد کا درد اٹھا۔  یہ اس وقت  کی بات ہے جب میں شاید نویں یا دسویں جماعت کی طالبہ تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی  کہ ہر ایک کا مسئلہ میرا ہی مسئلہ لگتا تھا ، حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج بھی تھی کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے ۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی نے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کا عادی کر دیا تھا ۔ یہ انہی دنوں کی کربناک یاد ہے جب  میں ایک  قریبی جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھا کرتی تھی ۔ مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ، ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی ،اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں ، کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،  کیوں اس کی ٹانگ نہیں توڑتی. بےگناہ کیوں اتنا تشدّد برداشت کرتی ہیں ۔ کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے ۔ اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی پتھر کی دیوار پر . خاص بات یہ کہ اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری  نہیں تھا ۔ کبھی اس بات پر پِیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے  ہوئے بات کیوں کی . دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا . رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ؟ تمہاری ماں مر گئی ہے کیا ؟ ہنس کیوں رہی ہو تمہاری ماں کا بیاہ ہےکیا؟کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا  یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا . افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے . گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا . گلاس پورا کیوں بھرا ۔ پانی ضائع کرتی ہو. یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینََا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتا ہے ۔ کوئی نارمل آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئے اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدّد کی رپوٹ  بنا کر ہم نے اس وقت کے ایک ایسے ادارے کے نام بھجوا دی کہ جو ان دنوں ایسے معاملات پر ایکشن لینے کا مجاز تھا  تاکہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے ۔  بڑے دنوں کے انتظار کے بعد آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ ''یہ ایک گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے  میں کچھ نہیں کر سکتے ''یہ سن کر وہ وہ خاتون  زاروزار روئی اور بولی'' بیٹا میں نے کہا تھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں۔ کتابوں میں ہی ہوتی ہیں مجھ جیسی عام سے گھر کی عورت کو بچانے کے لیئے کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا۔ مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھول بڑھ جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں باپ اس لیئے بیاہ دینے کے بعد  ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر  سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے   . میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے ."اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدّد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں . صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے ، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جارھا ہے ، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر لوگوں کو نچوڑا جاتا ہے ، تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے ، کیوں ؟؟؟؟؟؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی ہوتا ہے . آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا ؟ آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اس کی ادھ کُھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ" دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ کوئ پاکستانی  قانون کسی عام سی پاکستانی خاتون کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا ". میرا سر جھک گیا اور بیساختہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی . .....●●●                      تحریر ۔ممتازملک                  مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے     اشاعت: 2016ء                  ●●●                                      

پیر، 5 اکتوبر، 2015

شکریہ برائے دفاع پاکستان




گزشتہ ماہ 20ستمبر 2015 کو لاکونیوو میں دفاع پاکستان کے سلسلے میں منعقد ہونے والے پروگرام میں ہم اپنی اور  تمام کمیونٹی کی جانب سے مالی معاونت کرنے والی تمام پاٹیز کے شکر گزار ہیں ۔ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان مسلم لیگ ق ، پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں .ان تمام پارٹیز کی معاونت نے اور  تمام عیدیداران اور کارکنان نے اس پروگرام کی تیاری اور انعقاد  کو ممکن بنایا ۔ جس کے لیئے ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں   کہ وہ آئندہ بھی اپنا بھرہور تعاون جاری رکھیں گے۔
ممتازملک ۔  پیرس

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2015

& نیل کٹر ۔ افسانچہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی





نیل کٹر
         ممتازملک. پیرس          

اس روز ایک  فرنچ نوجوان تیزی سے میری بوتیک میں داخل ہوا . اور کاونٹر پر مجھے کھڑے دیکھ کر بولا
 آپ کے پاس نیل کٹر ہے؟
میں نے مسکرا کر اور حیران ہو کر اس سے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ 
 ،نہیں جناب ہمارے پاس نیل کٹر تو نہیں ہے 
  وہ تھوڑا جھلایا  اور مجھے تقریبا ڈانٹتے ہوئے بولا
کیوں نہیں ہے آپ کے پاس نیل کٹر ؟
ہونا چاہیئے تھا نا ......
اور پیر پٹختے ہوئے بوتیک سے باہر نکل گیا .
اور میں  نے دل میں پنجابی میں شرمندگی کے ساتھ کہا 
"پائن کسے کول نیل کٹر نہیں وی ہوندا "
(بھائی کسی کے پاس نیل کٹر نہیں ہوتا)
اب جب چند نیل کٹر رکھے تو یہ ہی سوچا کہ بھئی کوئی نیل کٹر کا مارا ادھر آ ہی سکتاہے . (جسے اس کے ناخنوں نے کہاں کہاں شرمندہ  کروایا ہو ) بیچارہ مایوس تو نہ جائے. 
              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                             





پہنچے ہوئے

     


  پہنچے ہوئے صدف مرزا

ممتازملک  . پیرس





ہماری کبھی کبھی کی  گھریلو مددگار(  جو نام کی ہی نہیں مزاج کی بھی رانی ہیں ) نے بڑے پر خیال انداز میں ہم سے رازادانہ  انداز میں پوچھا 

باجی ممتازملک صیبہ  کے خیال اے میں وی ڈان مارک والے باجی صدف صیبہ دی بیعت نہ ہو جاواں ....
(باجی ممتازملک صاحبہ  کیا خیال ہے میں ڈنمارک والی باجی صدف کی بیعت نہ کر لوں )
ہیں کیا کہہ رہی ہو رانی جی، آپ کو کس نے کہا کہ وہ کسی کو بیعت کرواتی ہیں .
ہم نے اچھل کر پوچھا 
تو مزید رازادانہ انداز میں جواب  آیا 
نہیں باجی ممتازملک صیبہ جس ویلے تسی کار نئیں سی نہ ، تے ڈان ماراک والے باجی صدف  صیبہ نے دسیا سی کہ 
میں بڑے بڑے سیاڑیں مرید کیتے نے...
من لگدا اے اناں دا پیری فقیری دا وی کم اے . باجی بڑےےےے پہنچے ہوئے نے .(جب آپ گھر پر نہیں تھیں نہ تو ڈنمارک.والی باجی صدف صاحبہ  نے بتایا تھا کہ انہوں نے بڑے بڑے سیانوں  کو اپنا مرید کیا ہے . 
مجھے لگتا ہے ان کا پیری فقیری کا بھی   کام ہے . باجی بڑی ی ی  پہنچی ہوئی ہیں .  
اور صدف  مرزا کی اس شرارت نے مجھے اس معصوم  رانی جی کو ڈانٹنے کے باوجود ہنسا ہنسا دیا . 
میں نے کہا رانی جی
آہو باجی بڑےےےےے پہنچے ہوئے نے .
پہلے وہ گھر سے کام پر پہنچتی ہیں پھر وہ کام سے گھر بھی پہنچ جاتی ہیں ،
ہوئے نہ پہنچےےےےےے  ہوئے 
چلو کام تے شاواشے
صدف مرزا شاواشے
تہاڈا ککھ  نہ جائے
                        ..........

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/