ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 26 ستمبر، 2014

نعت ۔ حضور آ گئے ہیں


حضور آ گئے ہیں
ممتازملک ۔ شاعرہ

حضور آ گئے ہیں حضورآ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی 
نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
نگاہوں کا میری غرور آ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں، حضور آ گئے ہیں 

کہ جن کے لیئے یہ زمیں آسماں بھی 
جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی 
وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں 
حضور آ گئےہیں،حضور آ گئے ہیں

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی
جو سب کی عقیدت کی وجہہ بنی تھی
وہ حسن و عمل کا شعور آگئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں،حضور آگئے ہیں

،،،،،،،،،،،،،،،،

پیر، 22 ستمبر، 2014

لنگوٹیئے یار/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



لنگوٹیئے یار
ممتازملک ۔ پیرس

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ایک ہی گلی محلے میں کھیل کود کر شرارتیں کرتے ہنستے روتے ،ساتھ بڑے ہونے والے بچے سب کے سب الگ الگ سوچ اور صلاحیتیں لیکر بڑے ہوتے ہیں ۔ اس مین کچھ تو مالی حالات کا اثر ہوتا ہے ۔ اور کچھ میں انکے گھریلو سوچ اور ذہنیت بہت اثر انداز نظر آتی ہے ۔ کوئی بچہ تمام تر مالی وسائل اور سہولتیں ہوتے ہوئے بھی کوئی خاطر خواہ تعلیمی قابلیت نہیں دکھا سکتا تو کچھ بچے ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ذندگی کے شدید تھپیڑوں میں بھی اپنا قد اور مقام وہاں تک لیجاتے ہیں کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی انکے مخالفوں کو بھی ان کی جانب دیکھنے کے لیئے سر اٹھانا ہی پڑتا ہے ۔ ایک ہی گلے محلے کے بچے جن میں کوئی ایم اے ، ایم بی اے اور پی ایچ ڈی کرتا ہے ۔تو کوئی اسمبلی میں قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے لگتا ہے ۔ اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اسی گلی کی نکڑ پر ریڑھی لگاتا ہے ،تو کوئی اسی گلی کے ہوٹل میں میز صاف کرتا ہے اور کل کے ہمجولیوں کو چائے پیش کرتا ہے ۔ کوئی موٹر سائیکل کی مرمت کرتا نظر ہے ۔ تو کوئی میجر صاحب بن کر ملک قوم کی حفاظت کا بیڑا اٹھا تا ہے ۔                                                             
کتنی عجیب بات ہے ایک ہی زمین ، ایک سی خوراک ، ایک سی آب وہوا ، لیکن نتیجہ کسقدر مختلف ۔ اسے پرورش کا فرق کہیں ، اس بچے کا نصیب کہیں یا خدا کی شان ، سب سچ ہے ۔ لیکن سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ رب العالمین جس سے جو کام کروانا چاہے کروا ہی لیتا ہے ۔ چیونٹی سے ہاتھی کومروانا بھی یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ اپنے سوا کسی کی بھی بڑائی پسند نہیں کرتا ۔ لیکن انسان کے جھکنے اور عاجز ہو جانے سے کسقدر محبت رکھتا ہے ۔ کہ اسے ان سب کے عوض کس کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے ۔ کہ وہ انسان خوداپنی اونچائی پر حیران کھڑادیکھتا رہ جاتا ہے ۔ بے عقل اور کم ذات اپنے مراتب کے بعد اپنے انداز و اعمال سے اپنے بدذات اور متکبر ہونے کا اعلان کرتا  گردن اکڑاتا فرعون بنتا نظر آتا ہے ۔ تو عقل وشعور والا ، بانصیب عاجز ہو کر اپنی گردن مالک کے حضور زمین سے جوڑتا اور شکر کے الفاظ اور انداز ڈھونڈتا نظر آتا ہے ۔                  
بچپن کے یہ ساتھی جن میں کچھ تو آگے نکل جانے والوں سے بے انتہاء محبت اور فخر ظاہر کرتے ہیں ۔لیکن ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو انہیں ان کی ماضی کی محرومیوں کے آئینے میں چھوٹا دکھانے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے ہیں ۔ ہم تو اسے حسد ہی کہیں گے ۔ ان کی کم ظرفی کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ انہیں بھری محفل میں ان کے کسی بچپن کے کسی نام یا عرفیت ( جسے ہم چھیڑ بھی کہہ سکتے  ہیں )سے  پکار کر اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کبھی چُن چُن کر انکی ایسی شرارتیں یا باتیں لوگوں کی موجودگی میں سنانے لگیں گے جن سے انکی محفل میں سُبکی ہو ۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی مرتبے پر پہنچنے کے بعد چاہتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنے بچپن کے ساتھیوں سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ ہر انسان وہیں کسی سے ملنے کی خواہش کریگا جہاں اسے اپنی عزت محسوس ہو ۔ بلکہ اکثر ان لوگوں کو گیٹ پر سے ''صاحب گھر پر نہیں ہیں'' کہہ کر بھی ٹرخا دیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی محفل میں یا ٹی وی پر اپنے کسی بچپن کا ساتھی نظر آئے تو بڑی نخوت سے ناکام دوست ساتھ بیٹھے کو یہ جملہ ضرور کہے گا کہ '' ارے یہ تو فلاں فلاں کا بیٹا ہے میرا لنگوٹیا یار تھا  اسے تو میں کبھی منہ بھی نہیں لگاتا تھا ، اسکے پاس تو فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے ،یا اس کے توجوتے بھی پھٹے ہوئے ہوتے تھے  وغیرہ وغیرہ  آج پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے ''۔ کہہ کر خود کو اونچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں تو خدا نے اس کی پہنچ سے بھی دور کر دیا اور خود انکے حِصّے میں کیا آیا لنگوٹئے یار کے نام پر چند بوگس جملے ،اور کلیجے سے نکلتی ٹھنڈی آہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

کپڑےذیور اورمیک اپ / ممتازملک ۔ پیرس



کپڑے زیور اور میک اپ
ممتازملک۔ پیرس

”کپڑے زیور اور میک اپ“ یہ وہ پٹیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں مردوں نے خواتین کی آنکھوں پر بڑے چاؤ سے باندھ دی ہیں ـ اس لئے نہیں کہ وہ اِن سے محبت بہت کرتے ہیں ( کاش ایسا ہی ہوتا ) بلکہ ان خواتین کا سارا دھیان اِن کی زندگی کی ساری ترجیحات کپڑے زیور اور میک اپ کو بنا دیا گیا ہے ـ
اِن کی علم سے محبت٬ خداداد صلاحیتوں اور انکی پیشہ وارانہ مہارت کو اِن چیزوں کے نیچے دفن کر دیا گیا ہے ـ جِس ملک کی 52 فیصد آبادی کو اِن امراض میں مبتلا کر کے ترقی کا خواب دیکھا جائے تو ہمیں تو ایسا ہی لگتا ہے ٌجیسے کسی گنجے کو جیب میں کنگھی رکھنے کا شوق ہو جائے ـ

اور تو اور ہمارے ٹی وی نے بھی اِن چیزوں کو جنون بنانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ـ کبھی مارننگ شوز کی صورت ،تو کبھی نیوز ریڈرز کے بناؤ سنگھار کو ابھار کر، تو کبھی ڈراموں میں جانے کس کس ملک کا فیشن ٹھونس کر، اور رہی سہی کسر فیشن شوزکے خصوصی پروگرامز اِس طرح پیش کر کے جیسے ہمارے مذہب اور تہذیب کا بہت ہی خاص حصہ ہے ـ اور اگر ہم نے انہیں نہ اپنایا تو خدا جانے کیا قیامت آجائے گی ـ

مہنگے ہوں یا سستے ،کپڑے زیور اور میک اپ، جتنی سہولت سے اِن خواتین کو مہیا کر دیا جاتا ہے ـ یا اِن میں اِن چیزوں کی دیوانگی بڑہانے پر محنت کی جاتی ہےـ کیا ہی اچھا ہو کہ اس بڑہاوے کو خواتین میں کتابوں سے محبت ،تعلیمی مدارج میں بلندی اور کسی بھی شعبہ میں مہارت حاصل کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے استعمال کیا جاتا تو آج حالات کتنے اچھے ہوتے کیونکہ علم جس کے اندر داخل ہوتا ہے یہ کپڑوں زیور میک اپ کا عشق اُس کے اندر سے ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتا ہے ـ اُس کے اندر مَثبت اندازفکر پیدا ہوتا ہے ـ اپنے خاندان معاشرے کے لئے کچھ اچھا کرنے کی سوچ اُسے تمام فضول مشغلوں سے دور کر دیتی ہے ـ
علم سے اُن میں سادگی پیدا ہوگی اور یہی سادگی ہمارے معاشرے میں مردوں کے مالی اور ذہنی دباؤ کو کم کرے گا اور گھروں میں یہی بات سچی محبت پیدا کرنے کی وجہ بنے گی ـ دنیا کے جس بھی ترقی یافتہ ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں قوموں کی کامیابیاں تعلیم کو مردوں اور عورتوں میں عام کر کے انہیں کتابوں سے ،الفاظ سے، محبت سکھا کر انہیں بِلا تفریق ہر پیشے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں دکھانے کا موقعہ دے کر ہی حاصل کی گئی ہے ـ اور ذرا سی حقیقت پسندی آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ سب سے زیادہ شر اور فساد گھر میں بیٹھی بے علم ،خالی ذہن اور بے مقصد زندگی گزارنے والی عورت ہی پھیلا رہی ہے ـ اس کو اپنیخُدا داد ذہنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقعہ جب تک نہیں 
دیا جائے گا تب تک ترقی کا خواب دیکھنے والوں کو ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں
 کہ بھائ
” نہ نو من تیل ہوگا نہ ہی رادھا ناچے گی٬٬

...........................


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/