ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 28 جون، 2014

کوششیں اور مقدر پر یقین / ممتازملک ۔ پیرس




کوششیں اور مقدر پر یقین
ممتازملک ۔ پیرس

                                         
                                       

خدا کی حکمتیں بھی نرالی ہیں کسی کی امیدیں تو یوں بر لاتا ہے کہ گویا پھلوں سی لدے پیڑ کی جھکی ہوئی ڈال ہے کوئی اور ہاتھ بڑہائے اور جتنا چاہے لے لے ۔ 
اور کچھ لوگوں کے لیئے ہزار محنتوں کے بعد بھی لگایا ہوا کھجور کا کوئی درخت ہو ۔ جب تک کمزور اور بے پھل رہا لگانے والے کی پہنچ میں رہا  جوں جوں پھل دینے کی امید  کے دن پاس آتے ہیں لگانے والے کی پہنچ سے دور ہوتا جاتا ہے ۔ اب اسکی ہڈیوں کا زور سلامت رہا اور وہ اس درخت کے پھل تک پہنچنے کے لیئے زندہ رہا تو شاید کچھ چکھ بھی لے ورنہ وہ پھل اسکا جو اس تک پہلے پہنچ گیا ۔اسی کو قسمت کہتے ہیں ، مقدر کہتے ہیں ، تقدیر کہتے ہیں ۔ بے رحم تقدیر !
کسی کو دینے کو ترستی ہے اور کسی کو پانے کی چاہ میں ہی مار دیتی ہے ۔ جبھی تو ایک ہی باغ میں کھلنے والے ہر پھول  کا نصیب ایک سا نہیں ہوتا ۔ کوئی پھول سہرے میں گندھتا ہے تو کوئی قبر پر چڑھا دیا جاتا ہے ۔ 
تیل ایک ہی کولہو سے نکلتا ہے ایک ہی کنویں سے نکالا جاتا ہے  کوئی دیئے مینںجا کر اجالا پھیلاتا ہے اور کوئی تیل کسی پر چھڑک کر اسے  زندگی کی قید سے آذاد کر دیتا ہے ۔
 کسی کو قتل کرنے پر بھی پھولوں کا ہار پہنایا جاتا ہے اور کسی کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی پاداش میں موت کی سزا سنا دی جاتی ہے ۔ یعنی کسی کا پسینہ بھی خون اور کسی کا خون بھی پانی ۔
یہ نصیب ہی تو ہے کہ کسی کو جیتے ہوئے بھی چیتھڑے میسر نہیں تو کسی کو پیوند خاک ہو کر بھی ریشم سے ڈھانپا جاتا ہے ۔ 
نصیب سے لڑنے والے بیوقوفوں کی بھی دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے  ۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی لوگوں کو بڑے بڑے پندو نصاح بھی کرتے ہیں لیکن جب اپنے  پہ بات آتی ہے تو وہی انسان چاہے کسی بھی درجے پر ہو اپنے آپ کو زبردستی سب سے اعلی و ارفع بنانے کی احمقانہ کوشش ضرور کریگا ۔ اس سے بڑی کیا بدنصیبی  ہے  اس شخص کے لیئے کہ اسے اپنے ہی اسباق یاد نہیں رہتے اور وہ دل کے کسی گوشے میں اس سوچ کا کفر کر چکا ہوتا ہے کہ جو کچھ کیا ہے وہ میں  نے کیا ہے ۔ خدا کی ذات کی نفی اسے بار بار جھٹکے دے رہی ہوتی ہے لیکن اسے اس بات کا خوف ہی نہیں رہتا کہ وہ کسے چیلنج کر رہا ہے ۔  مقدر کی لکھی خوشی ہو یا دکھ کوئی چاہے یا نہ چاہے اسے اٹھا نے ہی ہیں ۔ کوششیں اچھی ہوتی ہیں اگر جائز حدود کے بیچ رہ کر کی جائیں ۔ کوششیں جرم اور گناہ ہو جاتی ہیں جب کسی اور کی گردن پر پاؤں رکھ کر کی جائیں تو ۔ 

محبوب ہیں وہ اسکے کبھی ان میں جگہ پا 

لاچار سے لوگوں میں نہ یوں خود کو بڑا کر


جو کہ ہیں طلب گارجاہ ہشم انہیں کہہ

ان عاشق دنیا کے نہ تو در پہ پڑا کر


بے مایہ یہ جھنجھٹ ہیں تو بے فیض کلامی

بچنا ہے تو تُو ذہن پہ پہرے کو کڑا کر


ہر چیز اپنی جا پہ ہی اچھی نظر آئے

ہیرے کو کبھی جا کے نہ پیتل میں جڑا کر 


ہاتھوں کو بنا کاسہء نہ آ نکھوں کو سوالی

نہ اپنی خودی کو یوں فقیروں میں کھڑ اکر


ہر ایک کو ہے اپنے اصل پر ہی پلٹنا

دیوار کے لکھے کو شب و روز پڑھا کر


جتنا بھی ہے منظور خدا وہ ہی ملے گا

مُمتاز مقدر کی لڑائی نہ لڑا کر


کلام / مُمتازملک
......................




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/