ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 15 اپریل، 2014

شہید جمہوریت یا نوحہء بے حسی ۔



 
شہید جمہوریت
  یا
 نوحہء بے حسی
ممتاز ملک۔ پیرس


کینیڈی نے کہا کہ ''  ایک آدمی  مر سکتا ہے ایک ملک ابھر سکتا ہے ڈوب سکتا ہے لیکن نظریہ ہمیشہ ذندہ رہتا ہے '' بے شک یہ ایک حقیقت ہے لوگ تو دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن نام اسی کا ذندہ رہ جاتا ہے جو کوئی نظریہ ، کوئی کام ، کوئی کردار چھوڑ جاتا ہے ۔ یہ چھاپ صرف باتوں میں ہی نہیں بلکہ دلوں پہ چھوٹتی ہے ۔  جسے کوئی مٹانا چاہے بھی تو مٹا نہیں سکتا ۔ ایسا ہی ایک تاریخی کردار ذوالفقار علی بھٹو کا بھی رہا۔ بحیثیت انسان ہمیں ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہم اس بات کو کیسے جھٹلائیں کہ  بھٹو نے اپنی سمجھداری سے پاکستان کے نوے ہزار قیدی آذاد کروائے ، ہمیں اس بات سے بھی انکار نہیں کرنا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی پہلی اینٹ بھٹو نے ہی رکھی ،  دنیا بھر میں بکھری ہوئی اسلامی ریاستوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا سہرا بھی اسی بھٹو کے سر ہے ،پاکستان جیسے  اس وقت کے سب سے بڑے  اسلامی ملک کے ساتھ بے آئین ہونے کی کالک کو بھی بھٹو نے ہی آئین دیکر مٹایا ، پاکستان کا میڈیا  جو آج کھلم کھلا ہندوستانی ایجنٹ کا کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے اسی میڈیا پر یکجہتی پیدا کرنے اور صوبوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سب سے ذیادہ کام بھٹو نے ہی کیا ۔ پاکستانی میڈیا جہاں آج ڈھونڈنے سے بھی پاکستانیت نظر نہیں آتی اور اپناریڈیو ٹی وی ، اخبار اٹھاتے کھولتے ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ یہ پاکستانی ہی ہے. وہاں بھٹو دور کے ٹی وی کو کھول کر ریڈیو سن کر دیکھیئے آپ کو بھی میری بات سے اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ واقعی ایک ملک کی یہ ہی  میڈیا پالیسی ہونی چاہیئے ۔ فوجی آمروں کے پنجے میں جکڑے پاکستانیوں  کو جمہوریت کی راہ بھٹو نے ہی دکھائی ۔ ہمیں پورا حق ہے کہ ہم کسی کے نقطئہ نظر سے اختلاف کریں لیکن ہمیں اس بات کا بلکل کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کسی کے ذندگی بھر کے کئے ہوئے کاموں پر اپنے منافرت کا پانی پھیر دیں ۔ ہماری قوم کا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ ہم نہ تو کسی کے اچھے کاموں کا اعتراف کرتے ہیں نہ ہی اسےجیتے جی وہ مقام دیتے ہیں جو اسکا حق  بنتا ہے۔ ہم مردہ پرست لوگ ہیں۔ اس کے جانے کے بعد اسکا جیوے جیوے تو گاتے ہیں۔ اس کے تصویریں اسکے نعرےبیچ کر جیبیں  تو بھرتے ہیں۔ لیکن اس کےوہ نطریات جس کے لیئے اس نے اپنی جان سولی پر لٹکا دی ، اس کی نہ تو قدر کریں گے نہ انہیں اپنی ذندگی میں اپنانے کی کوشش کریں گے ۔  اور یہ ہی ہماری ناکامی کی وجہ ہے ۔ کیا آج بھٹو کے دشمنوں سے بدلا لینے کا یہ بہترین طریقہ نہیں تھا کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ پورا کر کے پیپلز پارٹی  سب کے منہ بند کر دیتی ۔ لیکن افسوس بھٹو کے نعرے کو بھی اس کے مزار کی چادر بنا لیا گیا ۔ جسے ایک کے بعد ایک مجاور آتا ہے چومتا ہے آنکھوں سے لگاتا ہے اور چند روز بعد اس پر ایک اور چادر کا چڑھاوا چڑھا جاتا ہے ۔ یوں تو میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میرا یہ ماننا ہے کہ جو بھی شخص آپ کے ملک کے لئے قوم کے لیئے اچھا کام کرے اچھی کوشش کرے ، اسے ہر صورت سراہا جانا چاہیئے اور نمک حرامی کی روایات کو اب توڑ دینا چاہیئے ۔
   پچلھے دنوں 5 اپریل 2014 کوپیرس کے علاقہ لاکورنیوو میں  بھٹو مرحوم کی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی نے ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں پارٹی کارکنان نے قران خوانی کی اور فاتحہ خوانی ہوئی اس کے بعد  ایک پروگرام رکھا گیا جس میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان سے زیادہ دوسرے سیاسی اور غیر سیاسی مکتبہ فکر کے خواتین و حضرات کی بڑی تعداد کی اسمیںشرکت تھی جنہوں نے بھٹو کی پاکستان کےلیئے کی گئی خدمات کو بڑے بھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ جو کہ انتہائی خوش آئیند اور حوصلہ افزاء بات ہے ۔ اور جس سے اس بات کو بھی بڑھاوا ملتا ہے کہ اب  سوچ بدل رہی ہے اپنی پارٹی کے سوا کسی اور کو قبول نہ کرنے کا بت اب ٹوٹ رہا ہے ۔  جو کہ بہت ہی خوش آئیند ہے ۔ پروگرام کے منتظم جناب کاممران گھمن صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور انکی آمد پر انکا شکریہ ادا کیا ۔ پارٹی کے جنرل سیکٹری جناب ملک منیراحمد صاحب نے بہترین انداز میں سٹیج سیکٹری کے فرائض اد کیئے ۔ اور خوبصورتی کیساتھ تمام پروگرام کو لیکر چلے ۔ تلاوت کلام پاک حافظ حبیب الرحمان  نے بہت خوش الحانی سے پیش کی ۔ ایک بچے ارسلان افتخار نے نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ سلم پیش کی اور پھرحافظ معظم صاحب نے نہایت پرسوز انداز میں نعتیہ کلام سنا کر سب کو مسحور کیا ۔ سینیئرنائب صدر جناب کامران گھمن صاحب صدرمحفل  تھے صدرجناب ذاھد اقبال خاں صاحب علالت کی وجہ سے نہ آ سکے لہذا انہوں نے  اورجنرل سیکٹری پنجاب پیپلز پارٹی   لطیف کھوسہ نے ٹیلی فون پر اپنے خیالات کا اظہار کیا    مقررین میں ذاھد ہاشمی پاکستان پیپلز پارٹی آذاد کشمیر کے صدر ، عارف مصطفائی تحریک انصاف کے سینیئیر کارکن،ہیومن رائٹس کے چئیر میں چودھدری  صفدر برنالی صاحب   نے خطاب کیا ۔ پروگرام کی انتظامیہ میں ایم اے صغیر اصغر صاحب میڈیا ایڈوائزر ، چیف آرگنائزر قاری فاروق احمد فاروقی صآحب، فنانس سیکٹری صوفی محمد سرفرازصاحب شامل تھے ۔ جبکہ مالی معاونت کامران گھمن صاحب نے کی ۔                                                      خواتین میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شعبئہ خواتین کی پہلی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ جو کہ کمیونٹی میں ایک نہایت محترم مقام رکھتی ہیں اور ایک پڑھی لکھ باشعور، نہایت خوش مزاج اورملنسار خاتون ہیں جو اپنےخاندان کی ذمّہ داریوں کیساتھ اپنی تمام مصروفیات کو نبھاتی ہیں اور اس بات کا ایک بیّن ثبوت ہیں کہ اگر آپ میں اہلیت ہے آپ میں کوئی صفت ہے تو آپ کو اس کے لئے کوئی غلط راستہ اپنانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا کام ہی آپ کو لوگوں سے ایک نہ ایک دن منوائے گا ۔ روحی  بانو صاحبہ نے بڑے بھرپور انداز میں بھٹو صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا اور اپنی  اسی موقع پر آمد ہوئی ایک فی البدیہہ نظم بھی پیش کی جسے شرکائے محفل نے بہت سراہا ۔   دیگر خواتین  مقررین میں تحریک انصاف کی ترجمان محترمہ شاہدہ افضل صاحبہ ، ڈیلی تاریخ کی ریذیڈینٹ ایڈیٹرمحترمہ طاہرہ سحر صاحبہ  اورجوائنٹ ایڈیٹر دیجائزہ ڈاٹ کام ، کالمسٹ ،اورشاعرہ  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انصاف کا آغاز اپنے اپنے گھروں سے کرنے پر زور دیا ۔  معروف کالمسٹ ۔ رائٹر اور مدر آف پی ٹی آئی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کا پیغام روحی بانو صاحبہ نے پڑھ کر سنایا۔ جس میں انہوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ ہمیں بے قدری کی اس روش کو اب ترک کرنا ہو گا جس نے ہماری  بڑی بڑی قیمتی اور نایاب ہستیوں  کو ان کا جائز مقام نہ دیکر انہیں گمنام کرنے کی کوششوں میں خود کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا ۔ اس پروگرام کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسمیں اکثر لوگوں نے اپنی خواتین اور بچیوں  کیساتھ شرکت کی  ۔ اور اسے ایک فیملی پروگرام بنا دیا ۔ تمام پروگرام کا فوکس کسی رنگا رنگی اور شو بازی کے بجائے اصل موضوع ہی رہا ۔ یہ ہی فرق ایک نمائشی پروگرام اورایک بامقصد پروگرام میں ہوتا ہے ۔ جسے پوری طرح حاصل کیا گیا جس کے لیئے انتظامیہ بہرطور مبارکباد کی مستحق ہے ۔ کسی نے اپنے ذہنی قابلیت کے ذور پر بڑا بھرپور تبصرہ کیا کہ ارے یہ کیا یہ تو چولہے چوکے والی خواتین کو لاکر اسٹیج پر کھڑا کر دیا گیا ہے تو ان تمام  ایسی سوچ رکھنے والوں  سے بہت احترام اور محبت کیساتھ عرض ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے، کوئی ملک بنتا ہے ،کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کی بنیاد اور اسکی طاقت یہ ہی چولہا چوکا عزت اور کامیابی کیساتھ کرتی ہوئی عورت ہی ہوتی ہے ۔ وگرنہ جو عورت اپنا ہی  چولہا چوکا اور گھرنہ سنبھال سکے تو وہ دوسروں کے چولہے کی راکھ میں ہی پھونکیں مار مار کر اپنا سر منہ کالا کرتی رہتی ہے ، وہ بھلا کسی کے لیئے کیا اچھا کر سکے گی ۔ دنیا کی کوئی تحریک فیشن پریڈ کرنے والوں اور فوٹو سیشن کرنے والوں کے ہاتھوں کبھی کامیاب نہیں ہوئی اگر ہوئی ہے تو ہمیں بھی ضرور بتایئے گا کہ شاید ہمارے علم میں بھی اضافہ ہو جائے ۔ روحی بانو صاحبہ کو اس پروگرام کی کامیابی کا خاص سہرا جاتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پڑھی لکھی سلجھی ہوئی خواتین خانہ کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر انہوں نے اپنے اوپر خواتین کے اعتماد کو ظاہر کیا ۔ بھٹو کے چاہنے والوں سے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ جس معاشرتی انصاف ، رواداری ، برابری کے لیئے بھٹو صاحب نے اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا اس کا تقاضہ ہے کہ اپنے اندر صبر ، تحمل اور برداشت پیدا کریں ۔ دوسروں کی جانب سے ہونے والی تنقید کو اپنی اصلاح کے لیئے استعمال کریں اور بھٹو کے نظریئے کے مطابق جاگیر دارانہ اور خاندانی سیاستوں کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ انسانوں کو پرستش کرنے کی بجائے ان کے دیئے ہوئے اچھے اصولوں پر اپنی زندگی کے راستے متعین کریں ۔ لوگ آتے جاتے ہیں  لیڈرز بھی مل جاتے ہیں لیکن ملک بار بار نہیں بنا کرتے ۔ گھر اور ملک بنانے میں صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن اسے توڑنے میں چند لمحے ہی کافی ہوتے ہیں ۔ ہمیں ہمارے لیڈرز کی یہ قربانیاں ضائع ہونے سے بچانی ہیں تو ہمیں پاکستان بچانا ہے ۔ 
 موج اٹھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو آخر اپنا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/