کچھ نام
کچھ نام زباں پر ہوتے ہیں
کچھ رہتے دل میں گھر کر کے
کچھ ناطے وقت گزاری کے
کچھ رشتے باہیں بھر بھر کے
کچھ اشک تو رہتے پلکوں پر
ہر جنبش پر جو گر جائیں
پر ان اشکوں کا کیا کیجیۓ
جو دل میں بہیں دریا بن کے
آ پار کریں دریا ہم بھی
آجانچیں اسکی گہرائ
لازم تو نہیں کہ مر جائیں
ہم چار قدم غم کے دھر کے
مظلوم بھی ظالم ہوتا ہے
جو سہتا ہے پر کہتا نہیں
اٹھو آواز اٹھا لو اب
پھر ہاتھ گھماؤ اک دھر کے
یا سینہ تان کے نکلو تم
یا مر جاؤ خاموشی سے
کوئ اسکو یاد نہیں کرتا
لاکھوں گزرے ہیں کھا مر کے
اک بدمعاش ہزاروں پر
کیسے بھاری ہو سکتا ہے
کیوں کہ تم اسکے غلاموں میں
مُمتاز کھڑے ہو بت بن کے
کلام / مُمتاز ملک
..................
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں