ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 29 جنوری، 2013

شکر گزار ہونا

Add caption

[3شکر گزار ہونا
میں نے سیکھا ہے کہ
ہمیں زندگی میں اُن لوگوں کا تو شکر گزار ہونا ہی چاہیئۓ
جو زندگی میں ہمیں ہمارا ہاتھ پکڑ کر کچھ کرنا سکھاتے ہیں
کسی قابل بناتے ہیں اور ہمارے مددگار ہوتے ہیں ؛
لیکن
ہمیں اُن لوگوں کا تو اور بھی زیادہ شکر گزار ہونا چاہیۓ
جنہوں نےہمیں گرانے کی ؛جھکانے کی؛ ہرانے کی کوششیں کیں
کیوں
کیوں کہ ان کے کانٹے بچھانے پر ہی تو آپ نے کانٹے چننا سیکھا
ان کے رکاوٹ ڈالنےکی وجہ سے ہی تو آپ نے رکاوٹوں کو پار کرنا
سیکھا؛رکاوٹوں کی دوڑ کو دوڑنا ہی نہیں جیتنا بھی سیکھا؛
اسے جیتنے کا حوصلہ کیا۔
ایک لمحے کو سوچیۓاگریہ رکاوٹیں ڈالنے والے نہ ہوتے تو حضرتِ انسان
کیا کرتا۔کیسے ہار کے بعد جیت کا مزہ لیتا؛کیسےآنسوؤں کے بعد
ہنسی سے لطف اندوز ہوتا۔ خزاؤں میں پتّے گرتے ہیں
تو نئ کونپلوں کے پھوٹنے کی امیدبھی تو پیدا ہوتی ہے نا۔
اسی طرح ہرانے والا آپ کو جیتنے کا نیا جزبہ بھی
عطا کرتا ہے۔چاہے آپ اسے ضد کہیں یا حوصلہ جو بھی ہے
ieyہمیں شکر گزار تو ہونا چاہ
تحریر۔ممّتازملک

پیر، 14 جنوری، 2013

اٹھو ملک بچانے نکلو / ممتازملک ۔ پیرس


اٹھو ملک بچانے نکلو
ممتازملک ۔ پیرس

جنازے سڑک پر رکھے لوگ اس بات کا انتظار کریں کہ کوئ مسیحا آۓ اور ہمارے آنسو پونچھے ، ہمارے سر پر ہاتھ رکھے ۔ ہمارے زخموں پر مرہم رکھے ۔ کون آرہا ہے ، کون آیا ۔ کون آۓ گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئ نہیں ، کوئ نہیں ، کوئ نہیں ۔
اسی کو تو ہم رو رہے ہیں ۔ طاہرالقادری صاحب پر انگلیاں اٹھانے والوں کو شرم کرنی چاہیۓ ۔ ملک کے کس حصے میں امن ہے سکون ہے ، روٹی ہے ، بجلی ہے ،حفاظت ہے ۔ جنازوں پر رونے والوں کے لیۓ آنسو پونچھنے کا وقت نہیں ، رحمان ملک ہوٹلوں میں عیاشیاں کرنے میں مصروف ہے ، زرداری نے بے غیرتی کا ورلڈ ریکارڈ توڑتے ہوۓ بلاولی بنکر میں پناہ لی ہوئ ہے، رینٹل وزیر اعظم بونگیاں مار رہا ہے محل میں میں بیٹھ کر ۫ ۔ کوئ لاشیں لیۓ خون جما دینے والی سردی میں آہ و فغاں کر رہا ہے ۔ جوان لڑکیاں مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں اشکبار نگاہو ں سے آسمان کی جانب دیکھ رہی ہیں کہ الہی کیا ہمارا کوئ پرسان حال ہے ۔ کیا ہم اپنے ہی ملک میں ہیں ۔ آج امریکی ایجنٹس نے امریکی ایجنڈہ پورا کرتے ہوۓ ملک کو سن 47 کے مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ۔ آج لٹیروں اور ڈاکوؤں کا ٹولہ ڈوب مرنے کے بجاۓ ہر اس شخص کو بیرونی ایجنٹ کہنے میں اپنا زور صرف کر رہا کہ جو بھی اس ملک کے پسے ہوۓ عوام کے لیۓ آواز اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے بکاؤ لوگ اپنی قیمت کھری کرنے میں مصروف ہیں ۔ مرہم رکھنے والے ہاتھ مرچیں لیۓ گھوم رہے ہیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے بڑے کروفر کے ساتھ اپنے پانچ سالہ عیاشانہ دور کے مکمل ہونے پر جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں گویا روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے ۔ اور کتنی دیر ہے کہ جس کے بعد یہ تحت اکھاڑے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے ۔اب آگیا وہ وقت مذید انتظار کی گنجائش ختم ہو چکی ہے ہر بولنے والے کی آواز کو دبانے کو ہر اوچھا ہتھکنڈہ اپنا کر اپنے بےایمان اور چور ہونے کا اعلانیہ اظہار کر دیا گیا ہے ۔ فرینڈلی اپوزیشن کے نام پر دوسرا گروپ کھلم کھلا قومی خزانہ لٹا کر اپنے زہنی عیاش ہونے کا ثبوت دیۓ جا رہا ہے ، اور اپنی باری کے انتظار میں ایک جوکر کو عوام میں   قلابازیاں لگانے کے لیۓ رحمان ملک کے نام سے چھوڑ دیا ہے ۔جب کہ وقت خود ہر جرم کا نشان اسی جوکر کے گھر کی جانب لے کر جا رہا ہے ۔ اب بھی اگر کوئ یہ سوچ کر گھر میں دبک کر بیٹھنا چاہتا ہے کہ جی ہمیں کیا پڑی ایک طاہرالقادی کے پیچھے لگنے کی یا عمران خان کے پیچھے جانے کی تو انپہیں معلوم ہو جانا چاہیۓ کہ ان کے یہ آنسو پوچھنے والے ان کی خون پسینے کی کمائ خزانے سے چوس کے ان کے لیۓ نہیں لڑ رہے بلکہ ان عوام اور لاکھوں تارکین وطن کی طاقت پر لڑنے کے لیۓ میدان میں آۓ ہیں ۔ جو اپنے کروڑوں پاکستان میں رہنے والے خاندانوں کی حفاظت کے لیۓ لفظوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں اپنا تن ، من دھن داؤ پر لگا کر سروں پر کفن باندھ کر پاکستان بچانے کے لیۓ چوروں اور لٹیروں کا خاتمہ کرنے کے لیۓ اس جنگ میں کود چکے ہیں ۔ خدارا آنکھ کھول کر دیکھو پوری حکومتی مشینری کو اس وقت اپنی غنڈہ گردی کے زریعے عوامی طاقت کو کچلنے پر لگا گیا گیا ہے ۔ جسکا صاف مطلب ہے کہ اس مشنری کا کام عوام کی حفاظت نہیں بلکہ سرکاری غنڈوں اور ان کے پلوں کی حفاظت کرنا رہ گیا گیا ہے ۔ ۔ زرا سا ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر نظر ڈال لیں تو آ پ کو معلوم ہو جاۓ گا کہ جب حکمران ریشمی کپڑے پہننے لگیں ، لونڈیوں اور طوائفوں سے اولادیں پیدا کرنے لگیں اور وہی اولادیں کل کو ملک کے تخت پر رقص کریں ، جب فوجیوں کے دروازوں پر بھی گارڈز مقرر کیۓ جائیں ، حکومتی نمائندے محلوں میں رہنے لگیں ، اور دربان مقرر کرنے لگیں ، اپنے ملک سے زیادہ بیرینی کرنسی کی غلامی کرنے لگیں ، عوام بم دھماکوں میں تو پھٹنے کو تیار ہوں لیکن سامنے آکر بدبختوں کا منہ توڑ کر سینے پر تمغہ شہادت سجانے کو تیار نہیں ، تو سمجھ لیں کہ تباہی یقینی ہے جو لوگ ظلم تو سہتے ہیں بغاوت نہیں کرتے ،، ان سے بڑا ظالم اور کوئ نہیں ہو سکتا ۔ کسی شخص کی ذات سے اختلاف ہے تو ضرور کرو لیکن یہ بھی ضرور سنو کہ کون کب ، کہاں ، کیا کہہ رہا ہے ، اور کیا کر رہا ہے ۔ کیا یہ جمہوریت ہے تو لعنت ہے ایسی جمہوریت پر ۔ اس جمہوریت کو ڈنڈے کے زور پر سیدھا کرنے کی گھڑی آن پہنچی ۔ اٹھو ملک بچانے نکلو ، اپنی اپنی اولادوں کو ،اور عزت بچانے نکلو ، اٹھو ملک بچانے نکلو ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

جمعہ، 4 جنوری، 2013

پاکستانی کرپٹ پولیٹیکل سسٹم کے لیۓ تیزابی غسل تیار ہے / ممتاز ملک ۔ پیرس



پاکستانی کرپٹ پولیٹیکل سسٹم کے
لیۓ تیزابی غسل تیار ہے
ممتاز ملک ۔ پیرس
23 دسمبر2012 کا اجتماع کیا ہوا لُٹیروں کے بٹیرے اُڑ گۓ ۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑ گئ ہے ، کہاں تو اسے ایک مُلا کا جلسہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور کہاں یہ ایک منظم اور بےمثال اجتماع ثابت ہوا ۔ لوگوں کے ایک جمع غفیر نے اس بار انقلاب کے دروازے کی کنڈی یہ کہہ کرہلا دی ہے کہ سیدھا ہونے والو ،،،،،، سیدھا ہونے کے لیۓ اب اور مہلت کی گنجائش ختم ہوئ ۔ 60 سال سے اس ملک کو گٹر بنانے والو صفائ کا لمحہ آن پہنچا ۔اب اس صفائ میں اپنا حصہ ڈالو گے یا ہم گند کے ساتھ گندوں کو بھی دھو ڈالیں ۔ بظاہر خود کو مطمئن دکھانے کی ناکام کوشش میں مصروف حکومتی اور نام نہاد اپوزیشن کے ایوانوں میں زلزلہ آچکا ہے ۔ اس کا ثبوت ان کے نمائندوں کے آۓ روز کے سٹُوپڈ سوالات سے ہم سب ہر روز ملاحظہ فرما رہے ہیں ۫ ۔ کبھی علامہ صاحب کی کردار کشی ، کبھی ان پر گندے بہتان ۔ کبھی ان کی سیکیورٹی واپس لینے جیسے کمینے اقدامات ، کبھی ان کے خطابات میں سے ٹکڑے اکٹھے کر کے بے سروپا افواہیں ۔ غرض کیا ہے جو نہیں کیا جا رہا ۔ لیکن پھر بھی پاکستانی اب مذید بیوقوف بننے کو ہر گز تیار نہیں ہیں ۔ پاکستانیوں کی برداشت کی گاگر بھر چکی ہے ۔ اور چھلکنے کو تیار ہے یہ گاگر چھلکی تو اس میں بھرا پاکستانیوں کے صدموں آہوں خساروں ، دکھوں لاچاریوں ،بیماریوں دھوکوں کا تیزاب اس پورے کرپٹ سسٹم کو جلا کر راکھ کر کے ہی دم لے گا ۔ جن لوگوں کو اس بات پر شبہ تھا کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے ۔ تو ان کے منہ پر کرارہ چانٹا 29 دسمبر 2012 کو بے لوث پاکستانیوں نے آدھا گھنٹے میں یعنی 30 منٹ میں 30 کروڑ روپے اکٹھے کر کے لگا دیا ۔ مخالفوں نے گھر بیٹھے دانتوں میں اپنی انگلیا ں داب لیں ۔ کہاں تو اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کو کوئ دنیا بھر سے چند لاکھ چندے میں دینے کو تیار نہیں تھا اور کہاں ایک ہی کال پر کروڑں روپے کا ڈھیر لگا دیا گیا ۔ یہ بات ہوتی ہے اعتبار کی ۔ اس بات کا یقین جبھی تو کمزور نہیں ہوتا کہ ہماری قوم ایک بیمثال قوم ہے ۔ اسے صرف ایماندار قیادت کی ضرورت ہے جو اس کی توانائیوں اور قربانیوں کو ملکی ترقی میں صحیح طور سے استعمال کر سکے ۔ پھر وہ کوئ بھی پارٹی ہو ۔ اس میں موجود وہ مخلص کارکن جو اپنے دلوں میں خدمت کی تڑپ رکھنے کے باوجوں صرف اس لیۓ خدمت کے موقع سے محروم رکھے جاتے ہیں کہ نہ وہ کھاتے ہیں نہ ہی کھانے دیتے ہیں ۔ وہ قوم کے پیسے کو خود پر حرام سمجھتے ہیں ۔ لہذا ایسے دیوانوں ،جیالوں پروانوں کو دلاسے اور آسرے دے کر کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے ۔ پانچ کروڑ کا ٹکٹ خرید کر جو پروانہ الیکشن لڑے گا وہ اسے500 کروڑ میں بدلنے کا تو دیوانہ ہو گا ہی ۔ لہذا اسی ڈاکو راج اور لٹیرے وڈیرے سسٹم کو ہی آخری غسل دینے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں ۔ رہی بات کہ کون ان غسل دینے والوں میں شریک ہوتا ہے کس کا کیا ریکارڈ ہے اسے بھول کر یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ غیرت کسی کو کبھی بھی آسکتی ہے ۔ اور گناہوں کا راستہ کوئ کبھی بھی ترک کر سکتا ہے۔ یہ پاکستان سب کا ہے۔ یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ جہاں بہنوں کے ،، ماؤؤں کے دوپٹے جو چاہے اپنے نام کے آگے لگے دُم چھلے کے زور پر چھین لے ۔ جس کا جی چاہے اپنے لُٹیرے اور وڈیرے خطاب کے بل پر قوم کے کانسٹیبل کی آنکھیں نکال کے اس کے بدن کے ٹکڑے کر کے پولیس کو اپنی رکھیل کی طرح استعمال کرے ۔ پاکستانی قوم نے تہیہ کر لیا ہے کہ پاکستانی پولیٹیکل سسٹم کو انقلاب کے تیزاب سے غسل دینے کا وقت آگیا ہے ۔ پاکستان ہے تو پارٹیاں ہزار اور اگر پاکستان کو خدانخواستہ کچھ ہوا تو یہ چوہے جہازوں کے ڈوبنے سے پہلے اپنے بریف کیس تیار رکھنے والوں میں سے ہیں ۔ لیکن اس بار ان کو بھاگنے کا موقع دینے کا پاکستانیوں کا کوئ موڈ نہیں ہے ۔
سلطانی ٔجمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آۓ مٹادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
طاہر القادری صاحب کسی بھی پارٹی کے خلاف نہیں ہیں سب پارٹیز میں اچھے اور مخلص لوگ بھی ضرور ہوں گے ۔ سو فیصد برائ جہاں ہو اس پارٹی کا تو وجود ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ لڑائ ہم سب کی سلامتی کی لڑائ ہے اس بدمعاش نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کی لڑائ ہے تاکہ ہر پارٹی کے مخلص لوگوں کو اپنے پاکستان کے لیۓ خدمات سرانجام دینے کا موقع مل سکے ، اور ایسا ضرور ہو گا انشااللہ ۔ 14 جنوری 2013 کو انقلابی مارچ میں ہر وہ شخص شامل ہو گا جو پاکستان سے پیار کرتا ہے ۔ جو قانون سے پیار کرتا ہے ۔ جو اپنی ماؤؤں بہنوں سے پیار کرتا ہے ۔ جو تعلیم سے محبت کرتا ہے ۔ جو عہد فاروقی سے محبت کرتا ہے ۔دنیا کی سب سے بیمثال قوم کے نمائندے ہیں ہم ۔ جنہیں دنیا نے اُن مشکلوں میں اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوۓ دیکھا ہے کہ جن میں سُپر پاورز نے بھی ہاتھ کھڑے کر دییۓ ہو ں ۔ کہ اگر ہم بھی ہوتے تو ان سے کبھی نہیں نپٹ سکتے تھے ۔ اسکا مطلب صرف ایک ہی ہے کہ جس روز ہم نے اپنی خامیوں سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا وہی ہما ری ترقی کا پہلا دن ہو گا۔ خدا پاکستان کو سلامت رکھے اور خوشحال بناۓ ۔آمین
،، ارادے جن کے پُختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطُم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ،،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،        

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/