ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 30 مئی، 2015

● (4) زندہ قبریں/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے



(خاص تحریر ماؤوں کے دن کے حوالے سے)
گھریلو معاملہ؟ 
پرتشدد گھر/
 زندہ قبریں
ممتاز ملک .پیرس



        (4) (پرتشدد گھر) 
                 زندہ قبریں 


ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین گھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدد کا 
شکار ہوتی ہیں یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہی دل میں ایک پرانی یاد کا درد 
اٹھا۔ اس وقت میں شاید سکول کی دسویں کلاس میں تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے۔ اسی لیئے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا ہمارا خاص شغف تھا . چاہے اس کے بدلے گھر والوں سے اپنی کتنی بھی خاطر کروانی پڑ جائے. انہیں  دنوں ایک جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھتی تھی مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں. کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،کیوں اس کے دانت نہیں توڑتی بے. کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں. لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے. اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی دیوار پر . خاص بات یہ کے اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا. کبھی اس بات پر پیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی۔ دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا۔ رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ، تیری ماں مر گئی ہے کیا؟ 
ہنس کیوں رہی ہو تیری ماں کا بیاہ ہے کیا؟ 
کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا؟
یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ؟ 
آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا ؟ 
افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے ؟ 
گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا ؟ 
گلاس پورا کیوں بھرا، پانی ضائع کرتی ہو؟ یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ 
ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتاہے کوئی نارمل 
آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا . 
ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئی اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے . اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدد کی رپوٹ ہم نے اس وقت کے ایک 
ادارہ کو(جس کا ان دنوں گھریلو مظالم سے بچانے کے لیئے نام لیا جاتا تھا .) 
بھجوا دیا کہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس 
خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے. بڑے دنوں کے انتظار کے بعد 
آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ یہ ایک 
گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے. یہ سن کر وہ 
خاتون زاروزار روئی اور بولی بیٹا میں نے کہاتھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں، 
کتابوں میں ہی ہوتی ہیں، مجھ جیسی عام سی گھریلو عورت کو بچانے کے لیئے 
کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا ،مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھو ل بڑھ 
جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں ماپ 
اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے۔ میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں۔ صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جاتا ہے، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے کیوں؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی تھا۔ آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا؟ 
آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے چند سال بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اسکی ادھ کھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ دیکھا میں نے کہا تھا نا 
کہ کوئی پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی عورت کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا . ان مردہ نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ میں اس سے زندہ نظریں بھی نہ ملا سکی اورشرمندگی اور صدمے کے مارے بیساختہ میری 
آنکھ سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ 
                          ●●●
          تحریر: ممتازملک.پیرس
      مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
                    اشاعت: 2016ء
                          ●●●


جمعرات، 21 مئی، 2015

شارٹ کٹ




شارٹ کٹ 
ممتازملک ۔ پیرس



ہر آدمی ہی جلدی میں ہے ۔ ہر انسان مصروف ہے ۔ ہر کوئی بھاگ رہا ہے ۔ لیکن کس چیز کے پیچھے ؟ ہر انسان کل بھی دو روٹی کھاتا تھا آج بھی دو روٹی ہی کھاتا ہے ۔ ہر انسان کے تن پر کل بھی تین کپڑے تھے آج بھی دو یا تین کپڑے ہی ایک وقت میں ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کو سونے کے لیئے کل بھی ایک بستر کی جگہ چاہیئے تھی اور آج بھی اتنی ہی جگہ چاہیئے ۔ ہر انسان کی قبر کل بھی دو گز کی تھی اور آج بھی دو گز ہی اس کا مقدر ہونا ہے ۔ کفن کا سائز بھی ایک ساتھا اور ہے ۔ پھر ایسی کون سی بھوک ہے جسے مٹانے کے لیئے آج کا انسان ہر رشتے کو کاٹتا جا رہا ہے ، ہر حد کو پھلانگتا جا رہا ہے ، ہر دل کو کچلتا جا رہا ہے ، ہر حرمت کو پامال کرتا جا رہا ہے ۔ قیامت کی کیا یہ وہی گھڑی یا نشانی نہیں ہے ،جس میں ہر آدمی دوڑ رہا ہے وقت کا ہر  سال مہینہ ، مہینہ ہفتہ اور ہفتہ دن جیسا گزر رہا ہے ۔ لیکن کسی سے پوچھا جائے تو اتنی مصروفیات میں بھی نہ کسی کے دل کو قرار نصیب ہے ،نہ ہی کوئی مالی سکون کی بات کرتا ہے ،اور نہ ہی کوئی شکر گزار ہے، ہر ایک شاکی ہے کسی نہ کسی بات پر ۔ کیا وجہ ہے ؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم جن کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اصل میں ہم وہ ڈیزروو ہی نہیں کرتے ۔ اور جب ہم کسی اور کا حق اپنے نام کرنے جاتے ہیں تو بے سکونی تو مقدر بننا ہی ہے ۔ ہمارے پاس محنت کرنے کا تو وقت نہیں ہے لیکن ہمیں عہدہ بھی دوسرے محنت کرنے والے سے بڑا چاہیئے ۔ ہم دوڑ میں تیزی سے بھاگنا نہیں چاہتے لیکن گولڈ میڈل اپنے ہی گلے میں لٹکا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں کھانا بنانا تو سیکھنا نہیں ہے ،لیکن ہمیں دوسرے کی پکاۓ ہوئے پکوان کو اپنے ہی نام سے پیش کرنے کا شوق بھی بہت ہے ۔  گویا کہ ہر ایک مصروف تو ہے لیکن وہ محنت جو کر رہا ہے وہ کچھ سیکھنے کے بجائے شاید دوسرے سیکھے ہوؤں کا کام اپنے نام کرنے میں مصروف ہے ۔ کچھ لوگ محنت سے کچھ بنانے میں مصروف ہیں تو باقی اسی فیصد اس کی محنت پر اپنے نام کا ٹھپہ لگانے میں مصروف ہیں ۔ لیکن یہ سمجھنے میں اور کتنی دیر لگے گی کہ  زندگی کسی بھی شارٹ کٹ کی اجازت نہیں دیتی ۔ یہاں جو کچھ کرنا ہے اگروہ اصل ہو گا جبھی اس انعام بھی سکون کی صورت میں ملے گا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم گندم بوئیں اور آم کی فصل کی امید کریں  ۔ امیدیں بھی جب تک حقیقت کے دائرے میں رہیں تبھی پوری ہونے کی امید بھی رہتی ہے ۔ جب یہ امیدیں حقیقت کے دائرے سے باہر ہو جاتی ہیں تو پھر خواب بن جاتے ہیں اور خوابوں کا کیا ہے، ان کے نصیب میں تو ٹوٹنا لکھ ہی دیا گیا ہے ۔ محبتیں بھی اتنی ہی کی جانی چاہیئیں کہ جتنا اس کے ختم ہونے پر دکھ سہنے کا حوصلہ ہو، تبھی اگلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے ۔ شارٹ کٹ سے ملنے والی خوشی ہو یا کامیابی دونوں ہی شارٹ ہوتی ہیں ۔ زندگی میں پائیدار کامیابی اور خوشی کے لیئے بھرپور محنت اور نیت کی اچھائی دونوں ہی اہمیت رکھتی ہیں ۔ شارٹ کٹ کو اسی لیئے ہم چور دروازہ کہتے ہیں ۔ اور گھروں کے مالک چور دروازوں سے کبھی نہیں آیا کرتے ۔ سکون ہی تو دل کا مالک ہوتا ہے ۔ اور اس کا اصل داخلہ اصل دروازے ہی سے ہو سکتا ہے  ۔ مالک اور چور میں کوئی تو فرق ہونا ہی چاہیئے ۔ کہ نہیں ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 13 مئی، 2015

● پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔ ہیں جی !!!!!!!!!! / کالم





پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔
 ہیں جی !!!!!!!!!!
تحریر/ممتازملک ۔ پیرس 



پاکستانی مردوں کو اچھا شوہر سمجھنے والی غیر ملکی خواتین کیساتھ ان مردوں کا رویہ اور اتنی اچھائیوں کی وجہ جاننے کا ہمیں بہت ہی خبط ہوا تو ہم نے اس پر ان تجربات سے گزری خواتین کو اس موضوع پر بات کرنے کے لیئے تیار کرنے کی ٹھانی  ۔ 
میری ملاقات  کئ ایسی غیر ملکی خواتین  سے ہوتی رہتی ہے جو پاکستانی مردوں کو آئیڈیل شوہر سمجھنے کے بھرم میں مبتلا ہو تی ہیں .ہمیں بھی ان پر   ریسرچ   کر نے کا شوق چرایا خاص طور پر اس وقت جب ایک عرب ملک کی خاتون نے فرمایا کہ میرا شوہر پاکستانی ہے اور اب میری بہن جو پینتیس سال کی ہو کر بھی اس لیئے شادی نہیں کر رہی کیونکہ وہ بھی کسی پاکستانی  شوہر کی تلاش میں ہے .ہم نے جب ان کے شوہر کے بارے میں دریافت کیا تو بولیں میں نے اور میری ایک یورپئین دوست نے پاکستانی مردوں کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ان سے شادیاں کیں۔
میں پوچھا مثلا کیا خوبیاں دیکھیں ؟تو گویا ہوئیں کہ جیسے میرے میاں نے مجھے کبھی کسی سے ملنے سے نہیں روکا .ہمیں جتنی رقم درکار ہو آج تک دینے سے منع نہیں  کیا .ہمیں کبھی سسرالیوں کے جھنجھٹ میں نہیں ڈالا. یہاں اس کا کوئ عزیز آ بھی جائے تو کیٹرنگ آرڈر کر دیگا اور ہمیں کبھی ان کی خاطروں میں نہیں الجھاتا. ہفتے میں کئی بار اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ بنا کر کھلاتاہے .ہمیں اور ہمارے بچوں کو سال میں جب چاہیں چھٹیوں میں ہماری من چاہی جگہ پر بھیجتا ہے .میں جیسا چاہوں لباس پہنوں سلیولیس ہو یا منی سکرٹ اسے کوئ مسئلہ نہیں ہے .ہر خاص دن پر چاہے میری یا میرے بچوں کی یا شادی کی سالگرہ ہو یا عید تہوار نیا سال ہو یا ویلنٹائین کہے بنا ہمارے تحفے اور پروگرام ارینج کرتا ہے . بلا کے خوش لباس ہیں پاکستانی شوہر  . میں کہیں بھی کتنی بھی لمبی سیر کے لیئے جاؤں اس نے مجھے کبھی نہیں روکا ٹوکا. میرے لیئےاور بچوں کے لیئے دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے تحائف لائے بنا نہیں رہتا.............
میرے کانوں میں یہ سب سن کر جانے کس کس خیالی مندر کی گھنٹیاں بچتی رہیں اور آنکھوں میں ان تمام پاکستانی مظلوم خواتین کی صورتیں گھومتی رہیں .جنہیں ان کے پاکستانی  آئیڈیل شوہروں نے کھانے میں نمک کم اور زیادہ پر مار مار کر ادھ مُوا کر دیا .کبھی لڑکی پیدا کرنے پر قتل کر دیا یا طلاق دے دی کبھی اپنی امّاں کو خوش کرنے کے لیئے اس کی کھال کے جوتے بنائے. کبھی بھائ کی محبت میں پیٹ ڈالا .کہیں ساری ساری زندگی ان کا اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنا روک دیا .کہیں دو وقت کی روٹی کے لیئے عورت کو ایک لونڈی سے بدتر حالات میں رہنے پر مجبور کر دیا .اور میں سوچنے لگی یا اللہ ساری دنیا کو پاکستانی مردوں کا بلند اخلاق اور کردار نظر آ گیا . ہم پاکستانی عورتوں کو بھی ایسے ہی پاکستانی شوہر عطا فرما دے کہ جن کی کہانی ان غیر ملکی خواتین نے سنائی ہے . لیکن اس سے پہلے کہ میں چند ماہ بعد اگلی ملاقات پر ان میں سے ایک غیر ملکی خاتون سے یہ پوچھتی کہ اس برانڈ کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کس مارکیٹ سے ملتے ہیں اس خاتون نے چھوٹتے ہی اپنے گھر والوں کی خیریت بتاتے ہوئے خبر دی کہ اس کی اور اس کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کی طلاق ہو گئ ہے .
پوچھا کیوں؟ تو بولی اپنے ایک بھائ کو گھر لے آیا تھا اور بولا کہ یہ ایک ہفتہ میرے پاس رہیگا . اس کا خیال رکھنا .تو میں نے جھٹ کہا کہ میاں اسے کسی ہوٹل میں ٹہراؤ . بس اسی پر بات طول پکڑ گئ اور طلاق ہو گئی .  اب اسکا سارا کاروبار اور گھر پچاص فیصد میرے ہیں . ویسے پاکستانی مرد بڑے آئیڈیل شوہر ہوتے ہیں. میں دوسری شادی بھی کسی پاکستانی  سے ہی کرنے کا سوچ رہی ہوں . یہ بہت عیش کراتے ہیں آپ کی ایک یورپئین دوست کا شوہر بھی پاکستانی  ہے نا!
 ہم نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا تو ہنس کر بولی ارے ہاں اس کا تو تین سال پہلے ہی طلاق ہو گیا تھا. اس نے تو پہلے ہی سارا بینک بیلنس اپنے نام کروا لیا تھا اب وہ کہیں نوکری کرتا ہے اور سنا ہے کوئ  پاکستانی مسکین سی لڑکی بیاہ کر لایا ہے . .. ..

اور میں  سوچتی رہ گئی کہ سولہ سال عیش کرانے کے باوجود جو عورتیں سولہ منٹ آپ کی خوشی کا کوئی کام نہیں کر سکتیں اور آپ ان کے آئیڈیل بننے کے لیئے ذلالت بھرا آئیڈیل بننے کو تیار ہو جاتے ہیں (کبھی ہو سکے تو جو مردانگی یہ اپنی پاکستانی بیویوں کو دکھاتے ہیں کبھی ایک بار ہی سہی ان بدیسی بیویوں کو بھی  دکھا کر تو دیکھیں کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے ) ان پاکستانی مردوں سے کوئ پوچھے کہ بھائ کبھی سولہ دن بھی اپنی پاکستانی بیوی کیساتھ انکی مرضی کے گزارے ہیں ۔ اگر گزارے ہوتے تووہ تاحشر تمہاری غلام ہو جاتی . اور انہیں دنوں کی دید میں تمہاری محبت کی یاد میں ہی تم سے شکوہ کیئے بنا ساری عمر گزار دیتی ۔ جبھی تو کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کالے رنگ دا بادام ہوسی 
جیوندیاں وی تیری آں
مویاں مٹی وی غلام ہوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعہ، 8 مئی، 2015

سولر انرجی ، وقت کی سب سے بڑی ضرورت / ممتازملک۔ پیرس



سولر انرجی
                        وقت کی سب سے بڑی ضرورت       
   ممتازملک۔ پیرس 





یورپ میں جب سورج نظر آتا ہے تو لوگوں کے چہرے کھل جاتے ہیں ۔ گھومنے پھرنے کے پروگرام بننے لگتے ہیں ۔ نئی تازگی محسوس کی جانے لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں سال کے تقریبا دس ماہ تو بادل رہتے ہیں یا پھر بارش اور ٹھنڈ کا زمانہ رہتا ہے مشکل سے دو ماہ کا ہی عرصہ سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود آج کل جہاں دیکھیں، یورپ بھر میں سولر انرجی کو جذب کرنے کے لیئے سولر پلیٹس لگی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ حالانکہ یہاں پر پن چکی سے بجلی پیدا کرنا زیادہ بہتر اور مفید ہے کیونکہ یہاں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں اور تقریبا ہر وقت اور ہر علاقے میں ہوا اچھی خاصی رفتار سے موجود رہتی ہے ۔ جبکہ سورج کی ساری حِدّت سولر پلیٹس میں جذب ہونے کے باعث یہاں اکثر ہی ہڈیاں ٹوٹنے کی شرح کسی بھی گرم ملک کے مقابلے میں کہیں ذیادہ ہے کیونکہ خوراک میں یا فوڈ سپلیمنٹس میں اگر وٹامن ڈی کا استعمال باقاعدہ نہ کیا جائے تو ہڈیاں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ذرا ذرا سی چوٹ بھی ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اس لیئے یہاں پر سولر انرجی کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیئے ۔ 
جبکہ ایشین ممالک میں جہاں سورج سال کے گیارہ ماہ خوب گرمی اور روشنی بکیھرتا ہے  اور گرمی کی شدت لوگوں کے لیئے سوہان روح بن کران کی  زندگیوں کے لیے بھی خطرناک ہو جاتی ہے ۔اکثر گرمیوں میں لوگوں کی اموات کی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جس میں ان کی موت کی وجہ صرف گرمی کی شدت ہی ہوتی ہے ۔ غریبوں کا حال تو اور بھی برا ہوتا ہے ۔ انہیں تو کُھلے آسمان کے نیچے ہی نہ صرف مذدوری کرنی ہے، سودا بیچنا ہے اور سفر بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی کرنا ہے لہذا ان کی صحت بھی براہ راست گرمی کی شدت سے متاثر ہوتی ہے ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سورج کی تپش کو کم کیا جائے اس کے لیئے آپ سورج کا وولٹج تو کم نہیں کر سکتے ۔ایک ہی کام کر سکتے ہیں کہ سورج کی اس بھرپور نعمت کو زحمت بننے سے بچایا جائے اور بہتر انداز میں استعمال میں لایا جائے ۔ تصویر کا دوسرا اور زیادہ خوفناک رُخ یہ بھی ہے کہ پہاڑوں پر ایک تو برف پڑ ہی کم رہی ہے۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ سورج کی ماحولیاتی تبدیلی کے زیر اثر ہونے والی تپش کی اضافت کو بھی جب تک استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پہاڑوں کی برف کو اور گلیشئیرز کو تیزی سے پگھلنے سے نہیں روکا جا سکتا ۔ جبکہ یہ ہی گلیشئیرز ہمارے پانی کا منبع ہیں ۔ جس پر ہماری زندگیوں اور ہماری زراعت کا دارومدار ہے ۔ پانی کا یہ منبع ہی نہ رہیں تو ملک ریگستان بن جاتے ہیں ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں توانائی کا شدید بحران ہے اور ہمماری تمام انڈسٹریز اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ان سب کا ایک ہی بہترین حل ہے کہ سورج کی توانائی کو بھرپور انداز میں سولر انرجی کے طور استعمال کیا جائے ۔اس کے لیئے حکومت کو بھی سولر پلیٹس اچھے معیار کی اور کم سے کم قیمت میں مہیا کرنے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ۔ وہ نوجوان جو اسی شعبے میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔ان کے علم سے بھرپور استعفادہ حاصل کیا جائے۔

انہیں ان پلیٹس کو جدید اور مذید بہتر بنانے کے لیئے بھرپور مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ ہمیں سستی توانائی مہیا ہو سکے ۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر پاکستان میں حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود اس کا رویہ ہر سولر انرجی کے لیئے کام کرنے والے ماہر کیساتھ حوصلہ شکن ہی کیوں ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اس فیلڈ میں کام کی پیشکش کی تو حکومت وقت نے نخوت سے ناک سکیڑ لی ۔ ڈاکٹر ثمر مند  اور داکٹر قدیر کا آج سے بیس سال پہلے کا اخباری خوشخبری بیان"کہ اسی سال ہم قوم کو سولر انرجی اور سولر چولہوں کا تحفہ دینگے ۔" پڑھ کر ہم آج تک اسی انتظار میں رہے کہ آج آئے یہ سولر چولہے یا کل آئے ۔ لیکن   لیکن ہائے ! افسوس کہ پورے ملک کی معیشت کی اس توانائی کمیابی کے کارن اینٹ سے اینٹ بج گئی لیکن نہ آئی سولر انرجی اور نہ آئے سولر چولہے ۔ جانے  کس سوچ میں پاکستانی حکومتوں نے قوم کا یہ قیمتی وقت تباہ کر دیا ۔ ہمیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہو سکتا ہے تمام حکومتیں اسی بات پر غورو فکر میں مدتیں پوری کرتی رہی ہیں کہ یہ جو ہے سورج ،اس پر ٹیکس کیسے لگائیں گے ۔ آخر جو ہے، ہم کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بھئی تم نے ٹیکس نہیں دیا لہذَا ہم جو ہے ،تمہارے گھر کا سورج کاٹ رہے ہیں ۔ آخر جو ہے ،حکومت کو کوئی فیدہ بھی ہونا چاہیئے سورج دینے کا ۔ جو ہے ، کیا خیال ہے ۔ ملک و قوم کے مفاد میں اس تاخیر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 4 مئی، 2015

اٹھو جہاں بدل دو۔ کالم



اٹھو جہاں بدل دو
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ مثلا کل تک ہمارے ہاں جو خاتون گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی       خریداری میں کسی بھی چیز ک لیۓ گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،
دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائ ، شوہر یا بیٹے کی کمائ سے ہمدردی نہیں کر سکتی ہیں ۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیۓ بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائ میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائ جاۓ ۔گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔ یہ سب کیا ہے ۔کوئ مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی کچھ کر رہی ہیں لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئ تردد نہیں کرے گا ۔اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیۓ کمانے لیۓ کیا کیا محنت کی گئ ہے ۔ ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیۓ لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔ کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔رشتہ لینے کے لیۓ تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے لیکن کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
  ۔۔۔۔۔

پیر، 27 اپریل، 2015

ملک سے باہر سیاسی جماعتیں چاہتی کیا ہیں ؟/ ممتازملک ۔ پیرس



ملک سے باہر
 سیاسی جماعتیں چاہتی کیا ہیں؟ 
ممتازملک ۔ پیرس




کافی دنوں سے ہم یہ مطالعہ کر رہے تھے کہ کن کن ممالک کی سیاسی جماعتیں کس کس ملک میں کام کر رہی ہیں تو یہ جان کر حیرت بھی ہوئی کہ کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس کی سیاسی جماعت کسی اور ملک میں ونگز بنائے عوام کو بانٹنے میں مصروف ہو ۔ ویسے تو کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جو کام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا وہ بھی ہمارے ہاں فخریہ پیکش کے طور پر کیا جاتا ہے ، تو یہ کون سا ایسا مشکل کام ہے کہ جو نہیں ہو سکتا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تو ان سیاسی جماعتوں کا وجود پاکستان سے باہر قائم کر کے ہم پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کو کوئی اچھا پیغام دے رہے ہیں یا کوئی بھلائی کا کام کر رہے ہیں تو پھر تو واقعی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن معاملہ اس کے بلکل برعکس ہے پاکستانیوں کو پہلے ہی اس بات کی عادت بھی ہے اور شوق بھی کہ کب ،کہاں، کسے گرا کر آگے بڑھا جائے اور کہاں کس کی گردن پر پاؤں رکھ کر اپنے قد کو اونچا کیا جائے وہاں یہ جماعتیں اپنے اپنے قد کو اونچا کلرنے کے سوا کسی کام کی نظر نہیں آتی ہیں ۔ نہ ہی ان کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی میں کوئی اتحاد پیدا ہو رہا ہے بلکہ سچ پوچھیں تو انتشار مزید بڑھتا جا رہے ۔ اب تو حال یہ ہورھا ہے کہ گھر میں آئے ہوئے سمدھیوں سے بھی اس بات پر منہ ماری شروع ہو چکی ہے کہ ایک کہتا ہے میری پارٹی اچھا کام کرتی ہے اور دوسرا اپنے قائد کو قائد اعظم ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا ہوتا ہے ۔ آئے ہوئے اچھے بھلے رشتے اس لیئے مسترد کیئے جا رہے ہیں کہ دونوں گھرانوں کے سیاسی عقائد نہیں ملتے ۔ خاص طور پر ان گھرانوں کے مردوں کو ان سیاسی پارٹیز کے نام پر اگر بڑھکیں مارنے کا شوق ہے تو سمجھ لیں کہ اب وہ اپنے بچوں کے ہی دشمن بن جائیں گے اور انہیں کہیں بھی دوسرے خاندان میں شامل ہونے کے لیئے آسان راستہ مہیا نہیں کریگا یہ بات اس وقت اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب لڑکی کے والد یا بھائی ڈائیریکٹ پارٹی بازی میں ملوث ہوں ۔ گھروں میں جھانکیں تو میاں بیوی میں بھی پارٹی کے نام پر جھگڑے بڑھتے بڑھتے بے سکونی کی اور کہیں تو طلاق کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ ہم ملک سے باہر روزی کی تلاش میں اور پاکستان کا نام عزت دار ملکوں کی فہرست میں ڈالنے کے لئیے نکلے تھے اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں اور کاروباری میدان میں بلکہ اخلاقی میدان میں بھی ایک بلند معیار اپنائیں۔ جس کے لیئے اگر ضروری ہے تو ہم یہاں کی مقامی سیاست پر نظر رکھ کر اور شمولیت کر کے اپنی کمیونٹی کے مسائل کو بہتر انداز میں متعلقین تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ لیکن افسوس ہم جب بھی کوئی کام کرتے ہیں اس میں بے تکی چھلانگ لگا دیتے ہیں ۔ نہ اس کے لیئے کوئی تربیت حاصل کرتے ہیں نہ ہی کوئی ہوم ورک کرتے ہیں ۔ شاید ہمارے لیئے ہی کسی نے کہا ہے کہ 
کمال ڈریور نہ انجن کی خوبی
خدا کے سہارے چلی جاری ہے 
تو کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان کے مسائل کو پاکستان میں رہنے والوں کے اوپر چھوڑ دیا جائے کہ وہاں جن مسائل سے وہ دوچار ہیں وہی اس بات کا بہترین ادراک رکھتے ہیں کہ اسے کیسے حل کیا جائے ۔ ہم یہاں دور بیٹھ کے عالمی تناظر میں کوئی اچھا مشورہ تو دے سکتے ہیں ، مالی مدد بھی کر سکتے ہیں ، لیکن یہاں انہی پارٹیز کے بت بنا کر انہیں پر آئے دن نت نئی لڑائیاں شروع کر کے انہیں کے لیڈران کے نام پر ایک دوسرے کی بات کو برداشت کیئے بنا محاذ کھول کر ہم اپنی کمیونٹی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ ہر آدمی اپنے اپ کو دنیا کا مصوم ترین انسان سمجھتا ہے اور اپنی پارٹی لیڈر کو دودھ سے دھلا ہوا ۔ قوت برداشت زیرو رکھنے والی قوم کو پہلے اپنے اخلاقی معیار بہتر بنانے پر پورا زور صرف کرنا چاہیئے اس کے بعد ہی ہم کسی  پارٹی کے لیئے آواز اٹھائیں تو ہی مناسب ہو گا ۔ اور اپنے لیڈران کے بت پوجنے کے بجائے اگر ہم انہیں بھی ایک عام انسان ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے ان کے کردار اور قول و فعل پر بھی کڑی نظر رکھنے کا اصول اپنا لیں تو دیکھیئے گا نہ تو کوئی سوئیس بینک بھرنے کی جرات کریگا نہ ہی کسی کو جہاز اسے سودے بازی کر کے بھاگنے کے لیئے اڑان بھرنے کی اجازت دیگا نہ تو کوئی اخلاقی کمزوریوں پر اترائے گا اور نہ کوئی مذہب کا نام لیکر حلوے بانٹنے اور تھال چاٹنے کا کام کرے گا ۔ 

(نوٹ ۔ یہ تحریر کسی بھی خاص فرد کو نشانہ بنا کر نہیں لکھی گئی ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد صرف بیرون ملک پاکستانیوں کی آپسی رنجشوں کو بڑھانے والے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالنا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کسی کی دلآزاری ہوئی ہو تو پیشگی معزرت چاہتی ہوں ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 12 اپریل، 2015

بے مقصد مقابلہ بازی / ممتازملک.پیرس



بے مقصد مقابلہ بازی

ممتازملک.پیرس




بے مقصد مقابلہ بازی

ممتازملک.پیرس




فیس بک پر آج ایک پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا .یہ ایک لطیفہ تھا کہ ایک آدمی 
نے بیوی کی چادر سے ناک پونچھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ میری چادر گندی 
ہو گئ جبکہ ماں کی چادر سے ناک پونچھی تو اس نے کہا میں دوسری چادر لا 
دیتی ہوں یہ تو میلی ہے .
صاحب پوسٹ نے اپنی طرف سے ماں کو اعلی اور بیوی کو کمتر ثانت کرنے 
پر پورا زور قلم صرف کر دیا .حالانکہ ان دونوں رشتوں کا کبھی کسی بھی 
لحاظ سے کوئ تقابل بنتا ہی نہیں. 
بلکہ سچ کہیں تو مردوں کے غلط مقابلہ بازی نے ان دو پیارے رشتوں کو آمنے 
سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے .اور خود مرد سارے فتنوں کی جڑ ہو کر بھی 
معصوم بن جاتا ہے .بھلا بتائے کوئ کہ ماں کا بیوی سے اور بیوی کا ماں سے 
کیا مقابلہ .ماں آپ سے بیس پچیس سال بڑی ہوتی ہے .آپ کی ذمہ داری لیتے 
ہوئے آپ کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے .جبکہ بیوی آپ سے بھی دس دس بیس 
بیس سال چھوٹی ہے .اس کے باوجود آپ کے خاندان کا بوجھ اٹھاتی ہے آپ کی 
اولاد کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے . میرے خیال میں دنیا کا کوئ احمق آدمی ہی 
ماں اور بیوی کا مقابلہ کریگا. ماں ماں ہوتی ہے اور بیوی بیوی ہوتی ہے بیوی 
کے لاڈ اٹھانا آپ کی کوئ مجبوری نہیں ہوتی .نہیں اٹھانا تو مت کیجیئے شادی۔
ماں اپنے بچے کو اپنی زمہ داری پر جنم دیتی ہے اسے پروان چڑھاتی 
ہے اس کے ناز نخرے اٹھاتی ہے   جبکہ  شوہر اپنی بیوی کی زمہ داری سارے 
سماج کے سامنے اٹھاتاہے .جو کہ سب سے بڑی سنت ہے یہاں تک فرمایا گیا 
ہے کہ بیوی کے منہ میں محبت سے نوالہ رکھنا سب سےبڑی نیکی ہے اور 
صدقہ سے بھی بہتر ہے ۔
اپنی ماں کے بیٹے بنئے اپنی بیوی کے بیٹے بننے کی کوشش کریں گے تو 
ساری عمر دکھی ہی رہیں گے.

                     .............................





بدھ، 8 اپریل، 2015

مخلصانہ مشورہ






مخلصانہ مشورہ
ممتازملک ۔ پیرس



عزت عزیز ہےتوسارے مردوں کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ عورتوں کی لڑائیوں سے دور رہیں ۔یہ لڑائی چاہے ساس بہو کی ہو ، نند بھاوج کی ہو، دیورانی جٹھانی کی ہو یا پھر دو بہنوں کی ۔ کیونکہ ان دو میں کوئی ایک ضرور ہی جھوٹ بول رہی ہوتی ہے ۔ یا ادھوری بات پیش کر رہی ہوتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ عورت جب خود دل سے چاہے دوسری عورت کے ساتھ سارا جھگڑا منٹوں میں رفع دفع کر لے گی ۔ لیکن اس جھگڑے میں کسی بھی طور سے حصہ لینے والے مرد ایک تو اپنا منہ کالا کروا لیتے ہیں ۔ دوسرا تاحیات دشمنی کا بیج بو جاتے ہیں ۔ جو بعض اوقات انکے بعد انکی نسلوں تک زہر پھیلاتا رہتا ہے۔جیل جانے والے اکثر مردوں کا ریکارڈ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان کے جیل یاترا کے بندوبست میں سب سے بڑا کردار کسی  نہ کسی عورت نے یا عورت کے جھگڑے نے ہی ادا کیا ہے ۔ 
دور نہ جائیں دنیا کا پہلا جھگڑا بھی عورت ہی کے کارن ہوا ۔ اور لگتا ہے قیامت کا اعلان بھی کسی عورت کے جھگڑے کو ہی قرار دیا جائے گا ۔ پیارے بھائی کسی نہ کسی کی محبت کے پلڑے میں اپنی حمایت کا وزن ڈالتے ہوئے اپنے دماغ کے لاکر کو تالا لگا کر اس کی چابی ایسی جگہ پھینکتے ہیں کہ پھر چاہتے ہوئے بھی یہ لاکر کھولنا چاہیں تو بھی چابی ان کے ہاتھ آنے تک جذبات کے لٹیرے اردگرد کے سارے رشتوں کا خزانہ لوٹ چکے ہوتے ہیں ۔ اس جھگڑے سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہی ہے کہ گھر میں خواتین کی جنگ چھڑتے ہی گھر کے مرد گھر سے باہر کا رخ کریں ۔ اور واپسی پر بھی کوئی بھی خاتون چاہے ماں ہو بہن ہو یا بیٹی  یا بیوی ہو ،اگر آپ کے کان میں صُور پھونکنا چاہے  تو اسے مضبوط لہجے میں بتا دیں کہ خبردار مجھے عورتوں کے کسی جھگڑے کی رپورٹ نہیں چاہیئے ۔ اور اگر ان خواتین نے انہیں اس میں الجھانے کی کوشش کی تو آپ گھر سے باہر رہنے کا کہیں ٹھکانہ کر لیں گے ۔ ایسی صورت میں ان کا خرچہ پانی بھی بند کر دیجیئے ۔  اور اگر کبھی خدا نخواستہ ایسا سچ مُچ کرنا بھی پڑ جائے تو ضرور کیجیئے ۔ نتیجہ چند روز میں آپ کے سامنے ہو گا ۔  ساری اکڑفوں اور ساری بددماغیاں اصل میں بیکار بیٹھنے کی وجہ ہی سے ہوتی ہیں اگر یہ ہی خواتین یا پڑھ رہی ہوتیں یا کہیں کام کر رہی ہوتیں یا کوئی اور مصروفیت رکھتیں تو ایسے پھڈے کبھی ہوتے ہی کیوں ۔ خیر اس میں بھی آپ مردوں کو ہی بہت شوق ہوتا ہے کہ زرا زرا سی بات پر ناک کٹ کر ہاتھ میں آ رہی ہوتی ہے ۔ گھر کی عورت کہیں پڑھائی کریگی تو ناک کٹ جائے گی کہیں نوکری کرے گی تو ناک کٹ جائے گی ۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ایک مرد کی زندگی میں دو ہی چیزیں  اہم ہوتی ہیں ایک اسکی ناک اور ررررررررررردوسری دوسری بھی اس کی ہی ناک ۔ 
چچا غالب سے معذرت کے ساتھ 
ناک نے تم کو نکما کر دیا 
ورنہ سنا ہے آدمی تم بھی تھے اس سے پہلے کام کے 
واہ واہ واہ کیا بات ہے ۔
خواتین کی اکثریت کو عادت ہوتی ہے خوامخواہ مظلوم بننے کا ۔ کسی نے انہیں پھول سے مارا یہ تو وہ آپ کو ایسے سنانے بیٹھیں گی جیسے کسی نے ان کی گردن کاٹ ہی کاٹ دی ہو ، جب کہ جسے انہوں نے گملا اٹھا کر دے مارا ہو یا سر منہ کھول کر موچی سے ٹانکے لگوانے کے لائق بھی نہ چھوڑا ہو اس کا ذکر بھی ایسی فرمائیں گی جیسی کم بخت خود ہی تو اپنے آ پ کو روئی سے مار رہا تھا اپ ایسے پڑا ہے جیسے ٹرک کے نیچے آ گیا ہے ۔ 
لہذا پیارے بھائیوں پھر وہی بات کہ عزت عزیز ہے تو خواتین کے ہر طرح کے جھگڑوں سے دور رہیں ۔ کیا خیال ہے ؟
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 2 اپریل، 2015

مہمان نوازی ۔ ممتازملک ۔ پیرس




مہمان نوازی ، پھول اور بچے
ممتازملک ۔ پیرس


ڈنمارک کے کوپن ہیگن ائیر پورٹ پر اترتے ہی 35 منٹ چلتے چلتے بے حال ہم پہنچے سامان کے پٹے پر ۔ جلد ہی  اپنا سوٹ کیس دکھائی دیا تو خوشی ہوئی کہ مزید انتظار نہیں کرنا پڑیگا ۔ ٹرالی پر سامان ٹکایا اور باہر جانے والے دروازے سے نکلتے ہی سرخ کوٹ میں خوشی سے ہاتھ لہراتی ہوئی صدف مرزا ہمارے سامنے تھیں لپٹ کر محبت سے گلے ملیں، پیار سے چہرہ چوما، اور یوں لگا کہ ہم کہیں اور نہیں بلکہ اپنی ہی بہن کے گھر اپنی ہی عزیز ہستی کے گھر آ گئے ہوں ۔ ان کے ساتھ میں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ کیساتھ یہ ہماری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی ۔ جو بہت ہی پیار سے ملیں ۔ معلوم ہوا کہ ایک اور فلائیٹ سے پیرس سے ہماری معروف شاعرہ ثمن شاہ صاحبہ بھی آ چکی ہیں انہیں کا انتظار ہے ۔ پندرہ منٹ میں انہیں بھی سامان کی ٹرائی کیساتھ باہر آتے ہوئے دیکھا تو سبھی محبت سے ایک دوسرے سے ملے بلکل ایسا لگ رہا تھا جیسے سکول کالج کی بچیاں کسی ٹرپ کے لئے اکھٹی ہوئی ہیں ۔ سب کی خوشی دیدنی تھی ۔ سہارا ٹائمز کے کیمرہ مین اور صدف صاحبہ کے کولیگ  زبیر بھائی  نے ہمیں اپنی گاڑی میں  صدف جی کے گھر تک پہنچایا ۔ اور رخصت لی ۔ گھر پہنچتے ہیں ہمیں وارننگ ملی کہ کڑیو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہے اس میں کھانا بھی کھانا ہے اور تیار ہو کر آج کے پروگرام میں بھی پہنچنا ہے ۔ ہمارے فریش ہونے تک صدف جی نے کھانا جو میز پر لگایا تو ہم حیران رہ گئے کہ اس قدر مصروف خاتون نے کیا تھا جو نہیں بنا رکھا تھا ۔ دوسروں کے گھر میں فرش پر بھی گدا ڈال کر سو جانے والی صدف مرزا اپنے گھر میں اس قدر لوازمات سجائے بیٹھی تھیں اور بصد اصرار ایک ایک لقمہ کھانے پر مصر تھیں کہ کہنا پڑا کہ بی بی کیا بچے کی جان لو گی کِھلا کِھلا کر ۔                  
بھاگتے دوڑتے گاڑی کے آنے کی خبر سنتے ہیں فلیٹ سے نیچے کو لپکے۔ پروگرام سے واپسی پر رات دس گیارہ بجے پھر وہی مدارات ۔  اور تو اور دو دن کے لیئے کروز نامی شپ میں ہم چاروں خواتین کا قیام ، ناروے کا دورہ کروانا ہو یا جتنے روز بھی ان کے ہاں ہمارا قیام رہا ہر لمحہ ہمارے کھانے پینے کا خیال ، سونے کا خیال ، ٹرانسپورٹ کا انتظام غرض کہ ہمیں کسی بھی بات کے لیئے نہ تو سوچنا پڑا ، نہ ہی کوئی تردّد کرنا پڑا . پروگرامز کے دوران بھی ہر مہمان کی عزت اور مرتبے کا پورا پورا خیال رکھا ۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ ہماری اوقات سے زیادہ ہمیں عزت دی ۔ یہاں ہمیں وہ بونی عظیم ہستی بھی یاد آئی کہ جو دو دو ماہ قبل منّتیں کر کے پروگرام کروانے کے لیئے کسی کو تیار کرتی ہیں ۔ اس کے نام پر مہمان اکٹھے کرتی ہیں اور عین پروگرام کے دوران اس میزبان کو نہ صرف پہچاننے سے انکاری ہوتی ہیں بلکہ سٹیج پر اس لیئے اس کی کرسی تک نہیں لگواتی کہ کہیں اس کی بونی ہستی کا وزن اور ہی کم نہ ہو جائے ۔ اس لیئے صدف مرزا صاحبہ کے لیئے یہ ہی کہوں گی کہ انہوں نے حق میزبانی سے بھی بہت زیادہ کیا ہم سب کیساتھ ۔ وگرنہ میرے سامنے تو ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں خود کو عظیم ثابت کرنے والی بونی ہستیاں دوسرے ملکوں سے مہمان بلا کر انہیں مدعو تو کرتی ہیں ،مگر نہ تو انہیں پہنچنے کا مقام بتایا جاتا ہے نہ ہی کوئی پروگرام کا شیڈول دیا جاتا ہے اور تو اور کئی تو انہیں ٹیلفون پر بھی سلام دعا کرنے سے غائب ہو جاتی ہیں اور کئی تو گھر آنے کی دعوتیں دیکر گھر سے ہی غائب ہو جاتی ہیں یا پھر دروازوں کے پیچھے چھپ کر گھر پہ ہی نہ ہونے کا بھی سوانگ رچاتی ہیں ۔ ایسے زمانے میں خود اسقدر مصروف ہستی ہونے کے باوجود اس طرح گھر بلا کر مہمانوں کی ہر ہر بات کا خیال رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جسے دیکھ کر یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے کردار کی بلندی دیکھنا ہو تو اس کی میزبانی کا جائزہ لے لینا چاہیئے ، اور اس میزبانی میں صدف مرزا صاحبہ کو بلاشبہ پورے نمبر دیئے جا سکتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ کام کرنے والی خواتین یا لکھنے والی خواتین ایک اچھی گھردار نہیں ہو سکتی ہیں تو ان کے لیئے تو ایسی تمام خواتین ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم کو جاری رکھا اپنی اولاد کو بہترین پرورش بھی دی اور اعلی تعلیم بھی دلوائی اور انہیں لڑکا اور لڑکی کے فرق کے بغیر مکمّل گھرداری بھی سکھائی ۔ جس کی وجہ سے بیٹی آج چوبیس برس کی عمر میں اپنا گھر بھی کامیابی سےچلا رہی ہے اور شادی کے بعد ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوں اپنی میڈٰیکل کی تعلیم بھی مکمل کر چکی ہیں اور مزید تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ بیٹا بھی یونیورسٹی کا ایک لائق طالب علم ہے ۔ لیکن ماں کی ایک ایک بات کی فکر کرنے اور خیال کرنے والا پیارابرخوددار بھی ہے ۔  ایسے گھر تبھی بنتے ہیں جب مائیں اپنی خواہشیں اور معمولات کو اپنے مچوں کی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیتی ہیں ۔ وگرنہ خود رات کے دو دو بجے مخلوط محفلوں میں بیٹھی خواتین اپنی اولادوں کو اپنی ہی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتی تو اکثر ہی دکھائی دے کھاتی ہیں ۔ اور انہیں یہ کہنے کا بھی موقع نہیں مل پاتا کہ 
                     اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت 
 اولادوں کی پرورش کوئی مذاق نہیں ہوتا اس کے لیئے خون جگر ہی نہیں دینا پڑتا بلکہ اپنے دماغ کا پانی بھی پلانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر اولاد نامی پودے تندرستی سے پروان چڑھتے ہیں ۔ یہ نہ ہو تو انہیں مرجھاتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق اور سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

بدھ، 1 اپریل، 2015

ڈنمارک فائل/ کانفرنس






حضور آ گئے ہیں
ممتازملک ۔ شاعرہ

حضور آ گئے ہیں حضورآ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی 
نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
نگاہوں کا میری غرور آ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

کہ جن کے لیئے یہ زمیں آسماں بھی 
جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی 
وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے 

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی
جو سب کی عقیدت کی وجہہ بنی تھی
وہ حسن و عمل کا شعور آگئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آگئے ہیں

،،،،،،

مقالہ

فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ
ممتازملک ۔ پیرس
                     
                         

یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے  دنیا میں عروج حاصل کیا ۔   لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی   من مانی  کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین  کے  ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں  "خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں "کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا 

 ہے کہ اس دوران   14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس 

میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔

 نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ 

نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس

 واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے 

ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا 

سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور 

کا نفاذ ہوا

 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ 

اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 

جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو  جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی 

عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو 

خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔  اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن 

محفوظ نہ تھی۔ ۔ 94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 

آخر کار 8 جون 1795ء کوفرانس کے ولی عہد  کو بھی قتل کردیا گیا۔  یوں صدیوں 

کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔  مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار 

آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔

دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے 

رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔ اس لیئے یہاں بھی خواتین  نے 

بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس 

میں شاہی ادارے  نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ 

انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان  شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوںکا 

زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب 

فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا  ۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ 

لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا 
ہی پڑا ۔ انقلاب فرانس ابھی عوامی  حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغاز تھا ابھی اور 

بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے ۔ 

 انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا ۔ اس کے 

باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین جسے کون دوغسے  '' کا نام دیا گیا ، 

 کے مطابق  خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی ۔اپیل کے باوجود بھی 

انہیں یہ حق نہیں دیا گیا ۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کی 

بات تھی  ۔   انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائیل میں ووٹ کا حق صرف مالی 

حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا ۔ 

خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کر 

نے میں جلد بازی کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیا ۔  

اسی سسلے میں (1882 ) میں فرانسسی لیگ

اور فرانسسیسی یونین کے "SUFFRAGETTETS KI " سُفغاژیٹ کی "

"OLYMPE dE GOUGES  " اولامپ دُو گوز"

"خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے " (1791)(1905)

اور کئی اور تنظیموں نے بڑا کردار ادا کیا ۔اور مذید  کئ مراحل حقوق کے حصول 

میں پیش پیش رہے ۔ 

لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے ااس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور 

تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میںJuliot Curie  جیولیٹ 

کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے  مشکل شعبے میں 

حاصل  کیا ۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے  دنیا کو فرانس کی 

خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا ۔ 

فرانسسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ  کی بیوہ  گلبرٹ بروسولیٹ  کے بےمثال 

کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا ۔  

 اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر 

پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں  مزید 10 سال لگ گئے ۔ 

1944 ء 21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے 

ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں  خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا 

اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئ کہ خواتین نہ صرف ووٹ 

میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے 

برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئ ۔

 یوں اگلے سال  1945 ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلے بار اپنے حق رائے دہی 

کو استعمال کیا  ۔  یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے 

احساس کو اجاگر کیا ، اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی 

مین کردار ادا کرنا شروع کیا ، سچ یہ ہی ہے  کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف 

کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف 

خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔

                         فرانس زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
                                     .......................



شہر دغا
 city of betrayers

کلام / ممتاز ملک

POETES / MUMTAZ MALIK



وہ تجھے پیار کے بولوں سے دیوانہ کر کے

They will make u crazy with their sweet talks

چھوڑ جائے گا کسی روز بہانہ کر کے

   one day they will leave u make an excusse

زہر بنیاد میں تھا شہد چٹایا برسوں

poison was in his basse years  of years irock them honey

پھر اسے منہ میں رکھا اس نے زُبانہ کر کے

then he keep in the mouth by name of tongue

جانے کتنے تهے مسافر جنہیں منزل نہ ملی

many were travlers who can't  find  the destination

میں بھی آیا یہ کہا جن کو روانہ کر کے

i am also coming say whom after sending


سادگی دیکھ تیری مجھکو بھی رونا آیا


i weaped to see your simpelsity

فطرتیں کون بدل پایا زمانہ کر کے

nature can't change after years too



بھول جا اسکو تیری یاد کے قابل وہ نہیں

forget him he can't able to memorise

کیا ملے گا یوں اسے یاد روزانہ کر کے
what will u get to memorise him daily

ہم فسانے کو بھی سچائ سمجھ کر روئے
we  weaped on fiction like a reality
بات سچی بھی وہ کرتا ہے فسانہ کر کے
he talk about reality like a fiction

         قہقہے پهیل  گئےاسکے ہوا میں اکثر  
his lafter spreed in the air often  
سسکیاں جس نے دبائ ہیں خزانہ کر کے    
                        who hide there sob like a treasures                 
                           
 ان میں جرات نہ تھی کہ  ہم سے مقابل ہوتے
they can't dear to compeat me
                       بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے                          
    he talk to another and make target me 


دوستی نام ہے ٹھوکر پہ نئی ٹھوکر کا 

friendship is the name of knock after new knock
جو بھی آیا وہ گیا مجھ کو سیانہ کر کے
whatever came ، he went ،to gave me a wisdom

تو منافق نہیں ممتاز یہ ہے شہر دغا
 u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers 
ہو جا بےفکر تو اس دل کو توانا کرکے
unconcern about  it ،make heart strong
......................





نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
 poetes/ Mumtaz malik



نوحہ غم ہے اس پہ کیا کہئیے
this is wailing grife what i say on this
ہر گھڑی آنکھ نم ہے کیا کہئیے 
the eye is moist in every moment what i say

چیرتی جا رہی ہے روحوں کو
it is ripping  the souls 
 درد جتنا ہو کم ہے کیا کہئیے
how many pain is bit now what i say

زہر لفظوں میں گُھل گیا اتنا
poison micksed in my words
 چاشنی اب عدم ہے کیا کہئیے 
how many suger is  nill now what i say



ہائے آوارگی کا کیا شکوہ 
 ah what is the complain about wandring 
 سب کا شکوہ ستم ہے کیا کہئیے
all complains r oppress what i say  

اتنے پهولوں پہ خاک ڈالی ہے 
how many flowers buried
میری گردن بهی خم ہے کیا کہئیے
my neck is falldown what i say

ہم نہ پہچان پائے لاشے کو
we can't recognize the body
دوستی سرقلم ہے کیا کہئیے
friendship is severed head what i say

گھر میں میرے ہو روشنی کیسے
how can light in my house
کب چراغوں میں  دم ہے کیا کہئیے
when the power in the lamps

ماتمی شور کر گیا بہرا
the noise of mourning make me deaf
 اور بصارت الم ہے کیا کہئیے
 and the vision is another pain  what i say
جس کی چادر چهنی اجالے میں
who  lost theire onner in the light
 زندگی شام غم ہے کیا کہئیے
life is sorrow evning for him what i say

جو بهی اٹھتا ہے امن کی جانب
whatever arise towards the peace
لڑکهڑاتا قدم ہے کیا کہئیے
it's floundring step what i say

 منزلوں تک پہنچ نہیں پاتا
can't reache on the destination
 سوچ میں ہی سُکم ہے کیا کہئیے
the fault in the thinking whats i say



اب تو ممتاز دل کی تختی پر
now Mumtaz on the bord of my heart
درد ہی تو رقم ہے کیا کہئیے
the write only pain what i say

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




مدّت ہوئ عورت ہوۓ 


مجھ سے سہیلی نے کہا
my friend say to me

ممتاز ایسا لکھتی جا
Mumtaz write something like this

جس میں ہوں کچھ چوڑیوں
whatever anounce the voice of bangeles

چھنکارکی باتیں
talk of their sound

کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے
some mentions about fola  


اِظہار کی باتیں
talks of expretion

اُڑتے سنہری آنچلوں میں
 in the golden flying sckarf

موتیوں کی سی لڑی
like string of pearls


پہلی وہ شیطانی میری
my first naughty

پہلی وہ جو میری ہنسی
my first lafght

بالی عمر کی دِلکشی
attraction of young age


وہ بچپنے کی شوخیاں
pranks of chaildhood

خوابوں میں خواہش کے سراب
wisheland in the dreams

دھڑکن کی وہ سرگوشیاں
 conspirecy of heat beat


گوٹا کِناری ٹانکتے
make embroidery and lasess


اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن
stuknuss of needle in the fingur


دانتوں میں اُنگلی داب کر
prees the fingur in the teeth

ہوتی شروع پھر سے لگن
  start again that dedication


پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 
when was sound first


یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
this heart ،do u remember

وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
wrold of colors and  perfumes

اب بھی کیا آباد ہے
still alive


میں نے کہا میری سکھی
i said my friend

دنیا کیا تو نے نہ تکی
u don't saw this wrold


مصروف اِتنی زندگی
the life was so busy

کہ چُوڑیاں پہنی نہیں
i don't wear bangels

جو چُنریاں رنگین تھیں
colorfull scarfs

وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں
  flying after took sunlight

میری عمر کی تتلیاں
butterflies like my age

اب اور جانِب مڑ گئیں
they move another sides

اب دوپٹوں پر کبھی نہ
now never on the scarf

گوٹا موتی ٹانکتی ہوں
make me embroidery

سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب
not stuk the needle in my fingur

د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں
i sew my heart

خوشبوؤں کے دیس سے
to the wrold of perfumes

میں دُور اِتنی آگئ
i  came to far

جینے کی خاطر
for servaival

 مرد سا
like a man

انداز میں اپنا گئ
i change my self


رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے
fulfill the relations


فرض ادا کرتے ہوۓ
and done my duties

تُو نے جو چونکایا لگا
u startled me

مدّت ہوئ عورت ہوۓ
long time passed when i was a women

MUDDAT HOI AURAT HOEY

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سربستہ راز

سربستہ راز

سربستہ رازوں کو اب میں جان رہی ہوں  
  چھپے ہوۓ لہجوں کو اب پہچان رہی ہوں

    سیدھے رستوں کی متلاشی رہی ہمیشہ
   اس کے ہر اک موڑ سے میں انجان رہی ہوں

   اپنا لکھا آپ جو پڑھنے بیٹھی جانا  
 میں تو سب کے غم کا اک دیوان رہی ہوں  

 جس کی دیواروں میں درد بسیرا کر لیں 
  میں خاموش سا ایسا ایک مکان رہی ہوں 

   مجھ میں آوازوں کی گونج سنی جاتی ہے 
  صدیوں سے ہی شاید میں ویران رہی ہوں

   کبھی یہاں نقارے گونجا کرتے تھے  
  حیرت کا اب لوگوں کے سامان رہی ہوں   

ہر اک چوٹ کے بعد قدم جماۓ پھر سے 
  جینے کا میں ہر باری امکان رہی ہوں  

 کبھی خوشی کا اوڑھ لبادہ کبھی غموں کی چادر 
 ہر اک رنگ مِیں مَیں تو بس مہمان رہی ہوں 

  روشن امیدوں کو قأیم رکھنا ہو گا  
  ہمت والوں کی میں تو مسکان رہی ہوں 
  
 اب اک ہی افسوس مجھے مُمتاز رہے گا
 دیر بہت کر کے میں یہ سب مان رہی ہوں 
....................
بنا تیرے بھی مکمل ہے


بنا تیرے بھی مکمل ہے یہ حیات میری
اسی سفر مین رواں ہے یہ کائینات میری

ادھوری چھوڑ گئے تم جو اک زمانے میں
اکیلے آج مکمل کروں گی بات میری

فلک کے چاند ستاروں نے حال دیکھا ہے
حیات کس نے کی دنیا میں بے ثبات میری

ہوا کے رخ کو بھی میں اپنے حق میں کر لوں گی
بڑے عذاب لگائے ہوئے ہیں گھات میری

جو مجھ سے واسطہ رکھے اسے پتہ ہو گا 
میں تم کو عیب بتاؤں یا پھر صفات میری

جنہوں نے نام سے ممتاز پہلی بار کہا 
 وہ سن چکے تھے کسی طور مناجات میری



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو میرے رُخ


یہ جورُخ پہ میرے ملال ہے
یہ تیری وفا پہ سوال ہے

مجھے غم نہ تم نےکبھی دیا
یہ محض تمہارا خیال ہے

میں تیرے لیئے ہی بکھر گئی 
تو نہ جان پایا کمال ہے

یہ جو ساز زیست ہے بج رہا 
نہ ہی سر ہے اب نہ ہی تال ہے

ممتاز اس کو یہ کہہ بھی دو
تیرا ساتھ ہے یا وبال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عورت

یاد رکھنا کہ اک عورت سے ہوئے ہو پیدا
یاد رکھنا کہ اک عورت ہی کی آغوش میں ہو 

اب تیرے ہاتھ سے محفوظ نہیں وہ عورت
کیا کیئے جاتے ہو بتلاؤ تو کچھ ہوش میں ہو

پہلے ہی گھر میں چراغوں کی بڑی قلت ہے
کیوں دیئے گھر کے بجھانے کیلیئے جوش میں ہو

ساری دھرتی کو نہ آآ کے یوں ناپاک کرو
جانے بربادی کی کس لہر میں کس دوش میں ہو

رحم آتا نہیں کھلتی ہوئی کلیوں پہ جنہیں 
باغ ویران ہوئے خوابئہ خرگوش میں ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 



کبھی ملی نہیں بے فکریاں


کبھی ملی نہیں بے فکریاں زمانے کی
تگ و دو ہم نےبڑی کی تھی انکو پانے کی

نہ بچنا جس کامقدر تھا کیسے بچ پاتا
بھلے سے کی تھیں بڑی کوششیں نبھانے کی

مجھے منانا کوئی اسقدر گراں تو نہ تھا 
ہے دیر اب بھی بھلے تیرے اک بہانے کی

ازل سے معاف کیئے جا رہے ہیں ہم انکو
پڑی ہے آج ضرورت یہ کیوں جتانے کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



قدرت کے تحا ئف ہیں



قدرت کے تحا ئف ہیں



قدرت کے تحا ئف ہیں تیری ذ ات میں شامل
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل

دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ہے
جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل

اے ماں تیری ہستی میں میرا نام چُھپا ہے 
یہ بات الگ ہے تیرے درجات میں شامل 

خدمت ہو محبت ہو کہ قُربانی کا جذبہ
کچھ خاص ہیں یہ تیرے کمالات میں شامل

کیسی ہے عجب بات تیرے بعد بھی اب تک
ہائے ماں میرا کہنا بھی وظیفات میں شامل

ہر چوٹ میں لب سے ہے تیرا نام نکلتا 
ہے ذکر تیرا میری عبادات میں شامل 

مُدت ہوئی بچھڑے ہوئے پرسوچ میں اب بھی 
جیسے ہو یسیری سی خیالات  میں شامل

مُمتازاس کے ساتھ بجے چین کی بنسی
بعد اسکے زندگی بھی ہے ظلمات میں شامل

کلام/ممتازملک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھوک

اے کاش ایسا ہوتا  
 تصویر دیکھکر ہی 
کاغذ پہ بھوک مٹتی
کوئی بھوک سے نہ مرتا
کوئی دودھ کو نہ روتا
کوئی جاں سے نہ گزرتا
نہ کہیں پہ  جسم بکتا
نہ ہی رقص مرگ ہوتا
کوئی جرم بیگناہی 
کی سزا کبھی نہ بھرتا 
کوئی آنسوؤن سے اپنے 
یوں گلے کو تر نہ کرتا 
کوئی خون میں کسی کے 
ہاتھوں کو تر نہ کرتا
کوئی مجرموں کے گھرکا
پانی کبھی نہ بھرتا 
بم باندھ کر بدن سے
بچہ کبھی نہ مرتا 
راشن کی لائنوں میں 
کوئی ماؤں کو نہ ہرتا
اور رات کے قہر میں
 ماں نہ تلاش کرتا
بجلی جو اس پہ گرتی
ماں کے لیئے نہ ڈرتا
عزت کے دشمنوں سے 
سودے کبھی نہ کرتا
نہ کہیں قرار لٹتا 
نہ کہیں مزار ہوتا
نہ ہی میں بھی ہوتی عورت
نہ ہی تو بھی یار ہوتا
نہ میں بیچتی حیا کو
 نہ تو بے قرار ہوتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



خاموشی دکھ کے دریچوں سے گزر کر اکثر 
میرے دل کے کسی ویرانے میں بس جاتی ہے 

کسی سہمے ہوئے معصوم سے بچے کی طرح 
بے وجہ اپنے ہی دکھ پہ خودی ہنس جاتی ہے

منتظر آنکھ ہمیشہ سے کسی دید کو ہے
پر کبھی دید بھی آنکھوں کو ترس جاتی ہے 

جو کوئی پیار سے اس دل کو دلاسا دیدے
بس اسی لمحے بنا سوچے برس جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


محبت بانٹنے نکلے



محبت بانٹنے نکلے

محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے

ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے

جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے

لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں 
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے

وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آذما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے

قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو
 عورت سے لڑنے کی
 کبھی کوشش نہیں کرنا
اگر یہ ہار جاتی ہے 
تو حیرت اس پہ مت کرنا 
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
مگر جب جیت جاتی ہے 
تو تب حیران کرتی ہے 
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
بھلا کیوکر یہ سمجھو گے
کہ وہ جو ہارنے والا تھا 
وہ بھی اس کا اپنا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سُن محرم ميرے 


سُن محرم ميرے آج زار
تو ركھ لے ميری لاج زار

نہ رول مجهے مطلب كے لئے
تو بن جا صحيح سرتاج زار

سن باتيں جاہل لوگوں کی
نه مجهکو کر محتاج زرا

یه دنیا اڑیل ٹٹو ہے
نه سمجه انہیں الحاج بڑا

گر میری نظرمیں رہنا ہے
تک چهوڑکے جهوٹا سماج ذرا

کوئی آنکه نہ مجھ پر اٹھ پائے
کر غیرت کا اندراج زرا

ممتاز نه جس میں ره پائے
کس کام محل یه تاج زرا


.......








شہر دغا
 city of betrayers

کلام / ممتاز ملک

POETES / MUMTAZ MALIK



They will make u crazy with their sweet talks



   one day they will leave u make an excusse



poison was in his basse years  of years irock them honey



then he keep in the mouth by name of tongue



many were travlers who can't  find  the destination



i am also coming say whom after sending




i weaped to see your simpelsity



nature can't change after years too





forget him he can't able to memorise


what will u get to memorise him daily


we  weaped on fiction like a reality

he talk about reality like a fiction

          
his lafter spreed in the air often  
   who hide there sob like a treasures                 
                           

they can't dear to compeat me
                                                 
    he talk to another and make target me 




friendship is the name of knock after new knock

whatever came ، he went ،to gave me a wisdom


 u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers 

unconcern about  it ،make heart strong
......................





نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
 poetes/ Mumtaz malik




this is wailing grife what i say on this

the eye is moist in every moment what i say


it is ripping  the souls 

how many pain is bit now what i say


poison mixed in my words

how many suger is  nill now what i say




 ah what is the complain about wandring 

all complains r oppress what i say  


how many flowers buried

my neck is falldown what i say


we can't recognize the body

friendship is severed head what i say


how can light in my house

when the power in the lamps


the noise of mourning make me deaf

 and the vision is another pain  what i say

who  lost theire onner in the light

life is sorrow evning for him what i say


whatever arise towards the peace

it's floundring step what i say


can't reache on the destination

the fault in the thinking whats i say




now Mumtaz on the bord of my heart

the write only pain what i say

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




مدّت ہوئ عورت ہوۓ 



my friend said to me


Mumtaz write something like this


whatever anounce the voice of bangeles


talk of their sound


some mentions about fola  



talks of expretion


 in the golden flying sckarf


like string of pearls



my first naughty


my first lafght


attraction of young age



pranks of chaildhood


wisheland in the dreams


 conspirecy of heat beat



make embroidery and lasess



stuknuss of needle in the fingur


prees the fingur in the teeth


  start again that dedication



when was sound first



this heart ،do u remember


wrold of colors and  perfumes


still alive



i said my friend


u don't saw this wrold



the life was so busy


i don't wear bangels


colorfull scarfs


  flying after took sunlight


butterflies like my age


they move another sides


now never on the scarf


make me embroidery


not stuk the needle in my fingur


i sew my heart


to the wrold of perfumes


i  came to far


for servaival


like a man


i change my self



fulfill the relations



and done my duties


u startled me


long time passed when i was a women

MUDDAT HOI AURAT HOEY



...........................







مدّت ہوئ عورت ہوۓ 


مجھ سے سہیلی نے کہا

ممتاز ایسا لکھتی جا

جس میں ہوں کچھ چوڑیوں

چھنکارکی باتیں

کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے

اِظہار کی باتیں

اُڑتے سنہری آنچلوں میں

موتیوں کی سی لڑی

پہلی وہ شیطانی میری

پہلی وہ جو میری ہنسی

بالی عمر کی دِلکشی

وہ بچپنے کی شوخیاں

خوابوں میں خواہش کے سراب

دھڑکن کی وہ سرگوشیاں

گوٹا کِناری ٹانکتے

اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن

دانتوں میں اُنگلی داب کر

ہوتی شروع پھر سے لگن


پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 

یہ دل تجھے کچھ یاد ہے

وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا

اب بھی کیا آباد ہے


میں نے کہا میری سکھی

دنیا کیا تو نے نہ تکی

مصروف اِتنی زندگی

کہ چُوڑیاں پہنی نہیں

جو چُنریاں رنگین تھیں

وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں

میری عمر کی تتلیاں

اب اور جانِب مڑ گئیں

اب دوپٹوں پر کبھی نہ

گوٹا موتی ٹانکتی ہوں

سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب

د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں

خوشبوؤں کے دیس سے

میں دُور اِتنی آگئ

جینے کی خاطر
 مرد سا
انداز میں اپنا گئ

رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے

فرض ادا کرتے ہوۓ

تُو نے جو چونکایا لگا

مدّت ہوئ عورت ہوۓ
                                   MUMTAZ  MALIK

                                                  .........................



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 































































































































شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/