ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 28 اکتوبر، 2018

بزم اہل سخن کا مشاعرہ




تقریب مشاعرہ 
رپورٹ/ممتازملک ۔پیرس 

بزم اہل سخن کے زیراہتمام ستمبر 2018ء  ایک خوبصورت شعری نشست کا انعقاد 
پیرس کے ایک مقامی ریٹورینٹ میں ایک خوبصورت شعری نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں پیرس کی سبھی ادبی تنظیمات کے شعراء کرام نے بھرپور شرکت کی.  پیش ہیں پروگرام کی کچھ تصویری جھلکیاں 


 
دائیں جانب سے پچھلی رو میں  عاکف غنی,  ایاز محمود ایاز,  آصف جاوید آصی,  توقیر,  عاشق حسین سیالکوٹی,  وقار بخشی, 
اگلی رو میں دائیں جانب سے شیخ نعمت اللہ ,نصیب گِل, ممتازملک,شمیم خان ,نبیلہ آرزو  
































































پیر، 22 اکتوبر، 2018

راہ ادب کی شعری نشست


رپورٹ :
ممتازملک.  پیرس
گزشتہ روز 20 اکتوبر 2018 ء اتوار کے روز پیرس کے ایک نواحی ہال میں فرانس میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب " کے زیر اہتمام ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا.  جس میں پیرس کی تقریبا سبھی ادبی تنظیمات سے شعراء کرام نے بھرپور شرکت کی.  پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا.  محترمہ روحی بانو صاحبہ نے سورہ اخلاص کی تلاوت کی سعادت حاصل کی.  حمد باری تعالیٰ پڑھنے کا شرف پنجابی سنگت کے معروف شاعر جناب عاشق حسین سیالکوٹی کو حاصل ہوا.  جبکہ نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پڑھنے کا شرف راہ ادب کی صدر محترمہ ممتاز ملک کو حاصل ہوا. 
پروگرام کی صدارت  تنظیم پجابی سنگت کے سرپرست اعلی جناب مقبول شاکر صاحب نے فرمائی.  جبکہ اعزازی صدارت پنجابی سنگت کے صدر جناب زعفران صاحب, بزم اہل سخن ویمن ونگ کی صدرمحترمہ شاز ملک صاحبہ, جنرل سیکرٹری محترمہ نبیلہ آرزو صاحبہ نے کی.  اور اپنے کلام سے بھی حاضرین کو مستفید کیا.
پروگرام کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کی نظامت کرنے والی ممتاز ملک نے پروگرام کا آغاز اور اختتام وقت مقررہ پر کیا . 
اپنا کلام پیش کرنے والے دیگر شعراء کرام میں شامل تھے بزم اہل سخن کے صدر جناب عاکف غنی,  جنرل سیکرٹری  جناب ایاز محمود ایاز,  جناب آصف جاوید, پنجابی سنگت کے ممتاز احمد ممتاز, جناب عاشق حسین سیالکوٹی, راہ ادب سے محترمہ روحی بانو,  محترمہ شمیم خان اور محترمہ ممتاز ملک.
پروگرام میں خصوصی شرکت سرپرست اعلی بزم اہل سخن جناب شیخ نعمت اللہ صاحب اور غوآں سے تشریف لائے خصوصی ادب نواز دوست محترم سلیم خان صاحب اور ان کی بیگم محترمہ طاہرہ سلیم صاحبہ نے فرمائی.  جس کے لیئے ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا. 
پروگرام کے آخر میں راہ ادب کی جانب سے  ان کی صدر ممتاز ملک نے شرکاء محفل  کو یہ پیغام دیا اور ان سے یہ درخواست کی  کہ جس طرح دنیا بھر کی زبانوں میں کتب فرانس میں بک ریکس پر دستیاب ہیں اسی طرح یہاں کے بااثر اور مالی طور پر آسودہ  پاکستانیوں کو  آگے بڑھ کر یہاں کےبااختیار افراد سے مل کر اردو کتب کو بھی یہاں کی لائبریریوں اور بک سٹالز پر پہنچانے کی اجازت اور انتظام کرانا چاہیئے.  تاکہ یونیورسٹیوں میں شعبہ اردو ہونے کے باوجود یہاں کے مقامی افراد کی جو اکثریت  اردو رسم الخط سے واقف نہیں ہے , انہیں اس سے واقف کرایا جاسکے.  اور اردو زبان کے فروغ کے لئے عملی کوششوں کا آغاز کیا جانا چاہئے.
پروگرام کے آخر میں مہمانوں کی تواضح  کلیئے ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا.  یوں اس خوبصورت پروگرام اور شام کا اختتام بہت سی دعاؤں اور امیدوں پر ہوا. 
                       .........
     

جمعہ، 12 اکتوبر، 2018

بہتی محبت

بہتی محبت
ممتازملک  . پیرس

اسکا اپنی ماں سے رشتہ کھانا پکانے، کپڑے دھونے،صفائی کرنے اور اسے جیب خرچ دینے سے زیادہ کچھ نہیں تھا. جسے وہ محبت کا نام دیا کرتا تھا اور جب زندگی میں ان کاموں کا متبادل ملتا رہا یہ محبت بھی کم ہو کر بوجھ لگنے لگی. فون پر ماں سے بات کرنا بھی جان چھڑانے جیسا تھا.
آج ماں کی موت کی خبر نے اسکے وجود کو اندر سے یکدم خالی کر دیا،تنہائی کا احساس اتنی شدت سے اس پر حاوی ہوا کہ اسکی آنکھیں واقعی محبت بہانے لگیں، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی.

اتوار، 30 ستمبر، 2018

انور کمال انور کی شاعری


ہندوستانی شاعر
انور کمال انور
تبصرہ.  30 ستمبر 2018ء
انور کمال انور ایک ایسے شاعر ہیں جو حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں.  وہ خواب نہیں دکھاتے, وہ آئینہ دکھاتے ہیں.  اور اس آئینے میں اپنی صورت اکثر لوگوں کو اچھی نہیں لگتی.  وہ جذباتی ہیجان پیدا کر کے لوگوں سے داد سمیٹنا نہیں چاہتے.  بلکہ سچائی کے روبرو کھڑا کر کے اسے اس بات پر سوچنے کے لیئے مجبور کرنا چاہتے ہیں ,کہ جو کچھ ہمارے ارد گرد غلط ہو رہا ہے وہ سب ہماری ہی غلطیوں کی وجہ سے غلط ہے اور اگر اسے کوئی ٹھیک کر سکتا ہے تو وہ خود ہم ہی ہیں . حالات  سے نظریں چرانا انہیں پسند نہیں ہے.
بنیادی طور پر انور کمال انور  کی شاعری  پڑھنے والے کو جھنجھوڑتی  بھی ہے اور خواب سے جگا کر حقیقت کی زمین پر کھڑا بھی کرتی ہے. 
میری دعا ہے کہ وہ اپنے اشعار سے زمانے کو مثبت انداز میں بدلنے کا خواب پورا ہوتا دیکھ پائیں. 
آپ کی کامیابی کے لیئے ہمیشہ دعاگو رہونگی...
ممتازملک.
  پیرس.فرانس

جمعہ، 28 ستمبر، 2018

قومیت کس اصول پر ؟ کالمز


قومیت کس اصول پر؟
ممتازملک. پیرس

دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت بھی کرتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی قومیت بھی حاصل کرتے ہیں.  جیسا کہ کم ترقی یافتہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں یہ رجحان بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہوں  . ہر ملک کا کسی دوسرے ملک کے  باسی کو قومیت دینے کے اپنے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں.  ان میں کچھ لوگ سیاسی پناہ کی بنیاد پر بھی دوسرے ممالک کی قومیتوں کی درخواست دیتے ہیں. جن پر کافی غوروخوض  اور انکوائری کے بعد فیصلہ دیا جاتا ہے.  عمومی قومیت کے لیئے بھی ایک لمبا عرصہ برائے کاروائی لیا جاتا ہے.  اور کاروائی کیساتھ اس قومیت کے حصول کے لیئے درخواست کنندہ کا کچھ شرائط پر پورا اترنا لازم ہوتا ہے.  جیسا کہ
* اس  شخص کو اس ملک کی قومی زبان کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے. 
*وہ اس ملک میں کیوں رہنا چاہتا ہے اس بات کا اطمینان بخش جواب دینا ہوتا ہے. 
* وہ اس ملک کے جغرافیائی حالات اور تاریخ کے بارے میں خصوصی جوابات دے سکتا ہو.
*وہ اس ملک میں  کسی جرم میں سزا یافتہ  اور پولیس کیس میں ملوث تو نہیں ہے. 
*یہ شخص باقاعدہ ٹیکسز کی ادائیگی کرتا ہے کہ نہیں ؟
*اس کا کاروبار  ملک کے قوانین کے مطابق ڈیکلئیر ہے کہ نہیں ؟
*اس کے اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کیسے ہیں ؟
* وہ کتنی جلد رہائش بدلتا ہے ؟
ان تمام شرائط و تحقیقات کے بعد یہ یقین کیا جاتا ہے ک اس درخواست دہندہ برائے قومیت نے آپ کے ملک میں کوئی قانون شکنی نہیں کی, کبھی کوئی جرم نہیں کیا , تب جا کر اسے قومیت یعنی نیشنیلٹی کا اہل قرار دیا جاتا ہے. 
جبکہ پاکستان میں اس میں سے کسی بھی اصول و ضوابط کی پابندی کو کسی بھی فرد واحد سیاستدان کی بیک جنبش قلم یوں مٹا دیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مذاق ہو. جبکہ اصل میں وہ پاکستان کی پوری قوم کیساتھ مذاق کر رہا ہوتا ہے . ان معاملات پر خاموشی اور نظر انداز پالیسی کا مطلب ہے اجتماعی تباہی...
کچھ طرفدار جھٹ سے بیان داغتے ہیں کہ کیوں جناب پاکستانی بھی تو دوسرے ممالک ک قومیت لیئے بیٹھے ہیں تو افغانیوں کو بھی پاکستان کی نیشنیلٹی آنکھیں موند کر کیوں نہ دیدی جائے ؟
ان سب کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ پاکستانی جو اپنی معاشی ابتری یا دہشتگردی کی فضا سے باہر جانے پر مجبور ہوئے وہ ان ممالک میں ہر امن ترین شہری کے طور پر سالوں سے ہر قانون کی پاسداری کرتے رہے ہیں کبھی انہیں ان ممالک نے اپنی قومیت دینے پسند کیا ہے اور یہاں کے اقوام نے  انہیں خوشی سے قبول کیا ہے. جبکہ افغانیوں کو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی وجہ سے نہ تو پسند کیا جاتا ہے اور نہ ہی قبول.  کہ ان کے مزاج کی درشتی اور قانون شکنی, کسی طور انہیں پرامن شہری  نہیں بنا سکتی.
ہمیں حیرت ہے کہ افغانیوں کے لیئے جب ان اصولوں پر بات کی جاتی ہے تو کچھ لوگ ہمیں عجیب و غریب تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں اور  جن  کتابوں کے وہ بھی  یورپیئن مصنفین کی کتابوں کے حوالے دیکر پڑھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے  وہ جو اس جنگ کے اپنے اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے فارمولے کے تحت لکھی گئی ہیں . اب ہم ان پر اعتبار کریں ؟
لیکن
ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں  سے  پاکستان میں ان افغانوں کی وجہ سے بدلتے دیکھا، تباہ ہوتے دیکھا،
اس پر سے آنکھیں بند کر لیں اور اعتبار نہ کریں ..
یہ کیسا مشورہ ہے ...
جبکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ
ہندوستان نے ،ایران نے ، اس وقت اپنے بارڈر  افغانوں کے لیئے نہ کھول کر نہایت دانشمندانہ فیصلہ کیا ..
افغانیوں ک جنگ کا ذمہ دار پاکستان نہیں تھا .
بلکہ افغانیوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینا اور پناہ دینے کا فیصلہ پاکستان کی تاریخی غلطی تھی.  جس کی قیمت ہم نے چالیس سال چکائی ہے.  ہھر بھی  اس قوم کو جب بھی موقع ملا پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے کبھی باز نہ آئے.
  اب جب ان کے ملک میں حالات بہتر ہو رہے ہیں تو ان کا پاکستان میں قیام کا کیا مطلب ہے؟  پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کو گالیاں دینے سے کروڑ درجے بہتر ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کراپنی مرضی کی زندگی گزاریں. 
ویسے بھی قوم کی رائے کے بنا کوئی بھی قانون کیسے بن سکتا ہے؟  چالیس سال سے ان  افغانیوں کی دہشتگردی بھگت کر اب بھی اگر ہم نہ بولے تو کل کو اسی قومیت کے بہانے پاک افغان بارڈر کو بے نام کر کے وہاں کے ہر درندے کے لئے راستہ کھل جائے گا ,جسے اس پار دھکیلنے کے لیئے ہماری قوم اور فوج نے اپنی  ہزاروں قیمتی جانیں قربان کر دی ہیں.  کیا ان کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا جائے.....
جبکہ اگر قومیت دینی ہی ہے تو ان بہاریوں کو کیوں بھلا دیا جاتا ہے جو سینتالیس سال سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کئے گئے ہیں.  ان کا جرم ہے پاکستان سے محبت.  مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے باوجود وہ اپنی نسلیں کٹوا رہے ہیں لیکن اپنے سینے سے پاکستانی پرچم کو جدا نہیں کرتے.  پاکستان کے لیئے روتے ہیں اور پاکستان کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں. گندی تنگ و تاریک مہاجر بستیوں سے انہیں آذاد کروائیے.  ان سے بڑھ کر پاکستان سے محبت تو خود پاکستان میں رہنے والے پاکستانی بھی ثابت نہیں کر سکتے. خدارا حکومت پاکستان سے دست بستہ ہماری گزارش ہے کہ پاکستان دشمنوں اور دہشتگردوں  کو پاکستانی قومیت (نیشنیلٹی) دینے کی بجائے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو اس کا حقدار ہونے کی بنیاد پر پاکستان میں آباد کیجیئے.  کہ آپ کیساتھ رہنے کا پہلا حق محبت کرنے والوں کا ہوتا ہے نہ کہ آپ کی پلیٹ میں کھا کر اسی میں چھید کرنے والوں کا....
                        --------

جمعرات، 27 ستمبر، 2018

لنچ بکس

میرا لنچ بکس آپکے بیگ میں تو نہیں آ گیا آپی
جی نہیں بھاگو
دیکھ تو لیں پلیز
میں نے اپنا لنچ اسکے سامنے کھاتے ہوئے اسے جھاڑا..
گھر پر ہوم ورک کیلیئے کتابوں کیساتھ  اسکا لنچ بکس بھی نکل آیا. جسے دیکھ کر مجھے برا تو لگا اور مجھے اس سے معذرت بھی کرنی چاہئے تھی لیکن میں ٹہری ڈھیٹ.  معذرت اور میں ہو ہی نہیں سکتا.
جپکے سے اسکا لنچ بکس کچن میں رکھا اور امی سے اسکے بھول جانے پر جھاڑ بھی پلوا دی . کتنا مزا آیا . اسنے آنکھ دباتے ہوئے سہیلی کو  گویا اپنا کارنامہ سنایا .

پیر، 24 ستمبر، 2018

احترام محرم الحرام .نبی کے گھرانے کا کرب و بلا


احترام محرم الحرام ,
نبی کے گھرانے کا کرب و بلا
ممتازملک.  پیرس


سال دو ہزار سترہ کی طرح پیرس میں پاکستانی ایمبیسی کی چھتر چھایہ میں  ماہ محرم میں ناچ گانوں, میلوں ٹھیلوں کا بھرپور اور اعلانیہ اہتمام کیا جا رہا ہے.  پاکستانی یہاں بھی شاید قایدیانی فتنے کے بھرپور حملے کی ذد میں آ چکے ہیں . جن کے خلاف بروقت اقدامات اٹھانا ازحد ضروری ہیں . سفیر پاکستان  کو اس وقت کون سا مشاورتی گروپ ہے جو مکمل ہوم ورک کے بغیر  اس طرح کے کاموں میں ملوث کر رہا ہے.  ان کے لیئے اس بات کا کھوج لگانا نہایت ضروری ہے.  اور ایسے لوگوں کے خلاف بھرپور ایکشن لینے کی بھی ضرورت ہے.  تاکہ دین اسلام کا مذاق اور مسلمانوں کی دلآزاری  کا ازالہ کیا جا سکے.
   اب یہ بات یقینی بنانےکی ضرورت ہے کہ پورے ماہ محرم الحرام  میں  کوئی گانے بجانے والا, ہنسی مذاق والا پروگرام پاکستانی کمیونٹی کہیں بھی منعقد نہیں کرے گی.
کوئی بھی مسلمان یہ کیسے گوارہ کر سکتا ہے کہ ایک طرف جنت کے سرداران کے پیاسے لاشے جلتی ریت ہر گرائے جا رہے ہوں, نیزوں پر ان کے سر اچھالے جا رہے ہوں  اور دوسری جانب ہم مسلمان,  ان کے نانا کی شفاعتِ کی طلبگار اُمَتی  گانے بجانے اور ٹھٹھے مخول میں وہ لمحات گزار رہے ہوں .  جن کے غم  پر ان کے نانا ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اپنی زندگی ہی میں آنسو بہایا کرتے تھے. 
کیا اس مہینے یہ غم منانا نبی ص ع و کی سنت نہیں ہے ؟
بلا کسی فرقے بندی کے بحیثیت مسلمان میں یہ ہی کہوں گی کہ
غم حسین میں رونا میری عبادت ہے
قبول ہوں جو یہ آنسو بڑی عنایت ہے

اس سلسلے میں سوشل نیٹ ورک پر کچھ تحریریں بھی دیکھنے کو ملی.  جن پر
کچھ لوگوں کی آراء پڑھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ بھائی اسلام اب چودہ سو سال پرانا ہو گیا ہے اس لیئے اب اس کے رواجوں کو ماڈرن ہو جانا چاہئے.
ایسی باتیں کرنے والوں کوشرم آنی چاہئیے . یہ جنازے کسی  ماجھے اور گامے کے نہیں تھے یہ آل رسول ص ع و,  اہل بیت اطہار کے جنازے تھے جن کے لیئے یہ دنیا بنی.  جن کے لیئے ہمارے نبی پاک آنسو بہایا کرتے تھے.  جن کے غم میں رونے والے کے لیئے خاتون جنت نے اپنی شفاعت کو لازم قرار دیدیا. یہ جنت کے جوانوں  کے سردار  اور ان کے کنبے کے لاشے تھے.  جس پر اچھا مسلمان ہی نہیں غیر مسلم اور کافر بھی سن کر آنسو بہاتا ہے.  اور آج کا نام نہاد ماڈرن اور (دراصل جاہل) مسلم مذاق اڑانے کے لیئے ناچ گانے اور میلے ٹھیلے کا انعقاد کر رہا ہے . ہمیں  امید ہے یہ سارے ماڈرن نام نہاد مسلمان اپنے ماں باپ کے جنازے پر بینڈ باجے کا اور ان کی برسیوں پر میوزیکل نائٹ کا اہتمام ضرور کرتے ہونگے.  نہیں کرتے تو اب ضرور کرینگے.  اور اپنی بخشش کے لیئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آواز کبھی نہیں دینگے.  کیوںکہ نبی پاک کو پکارنا بھی تو چودہ سال پرانا رواج ہو گیا ہے نا.  ... ان کا خدا تو اس سے بھی زیادہ پرانا ہو چکا ہے.  تو خدا بھی نیا ڈھونڈ لیجیئے...
ہم جو پہلے ہی اپنے ایمان کی کمزوری پر نوحہ کناں ہیں ہمیں چاہیے کہ
ایسے پروگراموں میں شامل ہو کر اپنے ایمان کو خطرے  اور آزمائش میں نہ ڈالیں.  تاکہ کل کو نبی پاک ص ع و  کو منہ دکھانے کے قابل تو رہ سکیں.
اللہ پاک ہم سب کو اپنی دین پر چلنے
اور اس دین کو لانے والوں کی سنت نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.  آمین
ممتاز ملک.  پیرس

منگل، 18 ستمبر، 2018

اہل بیت کے نام ۔ پس زنداں ۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


     
  پس زنداں 
(کلام/ ممتازملک.پیرس)

کربل کے اس شہید کو تم کیا کہو بھلا
سارے جہاں کا درد کلیجے میں لے گیا

ننھے علی اصغر کا جگر چھلنی ہو گیا
بالے علی اکبر کی بھی میّت کو ڈھو گیا

معصوم کلی صغرای مدینے میں رہ گئ
بچپن سکینہ کا پسِ زندان کھو گیا

جس کا فلک نے بال بھی دیکھا نہ تھا کبھی 
وہ فاطمہؓ کی دختر وجاں اور ذاکرہ

 کھینچی جو سر سے چادر زینب غضب ہوا 
کیا روزِ حشر تھا کہ آسماں  بھی
رو پڑا

آلِ رسولﷺ جان بھی قربان آپ پر
پھٹنے لگے ہے میرا کلیجہ بھی تڑپ کر

منظر وہ کربلا کا مجھے یاد آۓ جب
 رونے لگے ہے روح میری مجھ سے جھڑپ کر 

ایسے درندہ صفت بھی ہیں اُمیِٔ رسولﷺ
اُن کی دعاؤں کو بھی کیا آپﷺ نے قبول

جو زندگی گزار دیں ممتاز  بےاُصول
     اولاد ہے یزید کی دنیا میں اب ملول
۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 13 ستمبر، 2018

بڑے بڑے محل کس لیئے...



....بڑے بڑے محل کس لیئے

ممتاز ملک. پیرس
                                     

                             
دنیا بھر میں جہاں ترقی کرنے کی خواہشمند قومیں ایک سسٹم اور اصول  و ضوابط کے دائرہ کار میں خود کو منظم کر رہے ہیں وہیں پر وہ اس بات کو ھی سمجھ رہے ہیں کہ  زمین کا بے مصرف رہنا یا رکھا جانا بھی اتنا ہی بڑا ظلم ہے جتنا بڑا ظلم بڑے بڑے احاطہ زمین کو بڑے بڑے گھر اور محل بنا کر بے استعمال چھوڑ دینا. گھر کے رہنے والے دو چار افراد ہوں  اور انکے رہنے کو آٹھ دس ایکڑ  پر مشتمل گھر ان کی خدمت پر معمور پچاس افراد, پھر اس گھر اور فاضل زمین کی دیکھ بھال بذات خود عیاشی کے ضمرے میں آتی ہے.   
                                        
سوچنے کی بات ہے کیا یہ ہی پیسہ اور زمین کسی اور بہترین مصرف میں نہیں لائے جا سکتے تھے.  جبکہ اس ملک کے لاکھوں لوگ دو کمروں کے فلیٹ کو بھی ترس رہے ہوں.
حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ ایسیے قوانین بنا کر اس پر پوری قوت سے عملدرآمد کرائے کہ جس کے تحت ایک خاندان (جس میں میاں بیوی اور ان کے بچے شامل ہیں ) کو زیادہ سے زیادہ مالی حیثیت رکھتے ہوئے بھی دس مرلے سے بڑے گھر رکھنے کی ہر گز اجازت نہ دی جائے.  دس مرلے کا گھر  دنیا کے بڑے بڑے کامیاب ترقی یافتہ ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی میسر نہیں ہیں. ایسے میں ایک مالدار آدمی کے لیئے اتنا بڑا گھر رہنے کو بہت ہونا چاہیئے.  باقی زمینوں پر  اچھے معیاری فلیٹس بنا کر ہمارے صدر ,وزیراعظم اور دیگر اراکین کو دیئے جا سکتے ہیں.
جبکہ اس فاضل زمین کو بہترین عوامی پارکس میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے. جس میں جاگنگ ٹریکس بنائے جانے چاہئیں.  تاکہ عوام کو صحت افزاء ماحول فراہم کیا جا سکے . 
‏1096 کنال کا وزیراعظم ہاؤس اور 70 کنال کا پنجاب ہاؤس راولپنڈی اعلی درجے کی یونیورسٹیوں میں، گورنمنٹ ہاؤس مری Heritage ہوٹل میں، 700 کنال کا گورنر ہاؤس لاہور میوزیم اور پارک میں تبدیل ہونے کے اعلانات کو جلد سے جلد عمل میں لایا جانا چاہئے. 
اور آئندہ کے لیئے بھی ایسی قانون سازی ہونی چاہئے کہ دس مرلے سے بڑے گھر اور ایک آدمی کے  نام ایک ہی گھر سے زائد گھر نہیں ہونے چاہئیں ۔ 
‏وزیر اعلی پنجاب کا ایک دفتر کرافٹ اور کنونشن سنٹر میں اور 16.5 ایکڑ کا سٹیٹ گیسٹ ہاؤس لاہور اور قصر ناز گیسٹ ہاؤس کراچی کو فائیو سٹار ہوٹلز بنانے کی تجاویز بھی قابل تقلید ہیں.  لیکن کیا حکومت وسیع و عریض آرمی ھاؤس، کور کمانڈرز ھاؤس اور محل نما میسوں میں بھی یونی ورسٹیاں اور عجائب گھر بنارہی ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ خوشحالی کی جانب ایک شاندار آغاز ہو گا.  کلاس کے فرق کو دور کرنے  کا حل بھی یہ ہی ہے .  کیونکہ جب تک کلاس کا یہ فرق دور نہیں کیا جائے گا جیسے
ایک ہی جتنے گھروں میں رہنا,  ایک ہی سرکاری سکول سے ایک جیسا نصاب پڑھنا , اور ایک جیسے صحت کی سہولیات تک سب کی رسائی تب تک امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر ہونے سے نہیں روکا جا سکتا.  نہ ہی ہم اپنے ملک سے ہڈحرامی اور اقرباء پروری کا خاتمہ کر سکتے ہیں. اس لیئے سترسال میں جو جو سینگ یہاں اشرافیہ کی  سر پر اُگ چکے ہیں انہیں کاٹنے کا وقت آ چکا ہے.  

                     ..........

اتوار، 19 اگست، 2018

دل.کی زمین


دل کی زمیں

جب تک دل پر چوٹ نہ پڑے کوئی کسی کا درد محسوس نہیں کر سکتا .
جیسے منوں بیج بھی کسی زمین پر پھینک دیا جائے وہاں کوئی پودا نہیں اگے گا.
کوئی کونپل پھوٹ بھی گئی تو چند روز میں ہی ہواوں کا بوجھ اسے مٹی کر دیگا .
جبکہ ہل کی نوک جب زمین کا سینہ چیرتی ہے تو اس مٹی میں ڈالا ہوا کم بیج بھی بہت سی فصل دیجاتا ہے .
انسان کا دل بھی ایسی ہی زمین ہے جسے درد کی چوٹ ہل کی نوک کی طرح چھید کر اس میں احساس کا بیج بو دیتی ہے . جس پر ہمدردی اور محبت کے پھل اور پھول  کھلتے ہیں .
🌷🌸🌹🍀🍓🍒🌻🌼🌺🌾🌽
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس


لڑکیاں جانور نہیں ہیں

مرد کی زبان





مرد کی زبان وہ جھاڑی ہے جس میں عورت کا دوپٹہ لمحوں میں تار تار ہو جاتا ہے.
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
ممتاز ملک پیرس 

جواب



جواب
تحریر:
(ممتازملک.پیرس)

سلطان احمد اب ساٹھ  سال کے پیٹھے میں داخل ہو چکے تھے سر تو کیا نتھنے اور سینے کے بال بھی سفید ہو چکے تھے. 
 لیکن اپنے آپ کو کمسن ہی گردانت تھے.  سو راہ چلتی ہر خاتون کو اس ادا سے دیکھتے جیسے وہ نہ صرف اس دنیا کے آخری گبرو ہیں بلکہ اس کرہ ارض پر گویا  آخری مرد بھی وہی ہیں . 
وجہ شہرت بھی موصوف کی ہر آتی جاتی خاتون کو دیکھ کر سرد آہ بھرنا ہی تھی.  
سلطان احمد کی بیوی آسیہ جو عمر میں نہ صرف اس سے دس  برس  چھوٹی تھیں بلکہ ناک نقشے میں بھی اس سے ہزار درجہ بہتر تھیں.
 لیکن نہ جانے سلطان احمد کون سا نظر باز شربت پیئے بیٹھے تھے کہ راہ چلتی بھنگن کو بھی  تاڑنا نہ بھولتے.
جبکہ اپنی بیوی کو نظر بھر کر دیکھنے کا بھی کبھی انہیں خیال نہ آیا.  
ان پر یہ بات سو فیصد لاگو ہوتی تھی کہ حرام ہی میں لذت ہے , حلال تو بس عزت ہے ۔
گلی کی خواتین کی زبانی آسیہ بیگم آئے دن سلطان احمد کے احوال سے باخبر ہوتی رہتی تھی اور دل ہی  دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتی تھیں.  لیکن اس کا کوئی علاج اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا.  
پہلے پہل اسے خیال آیا کہ ہو سکتا وہ اب شوخ وشنگ رنگوں سے اجتناب برتنے لگی ہیں اور ہار سنگھار سے بیزار ہو گئی ہیں اور سلطان احمد کو یہ سب اچھا لگتا ہو جبھی وہ ایسی چھچھوری حرکتیں کر رہے ہیں . اسے احساس دلانے کے لیئے..
 آج آسیہ بیگم نے پانچ سال پرانا جامنی رنگ کا جوڑا الماری سے نکالا جو اس وقت اس نے بڑے چاؤ سے بنوایا تھا لیکن ایک دو بار ہی پہنا ہو گا کہ دو چار اس کی امَاں کی عمر کی خواتین کے اسے بوڑھا ہونے کا احساس دلانے اور ہلکے رنگ پہننے کی تنبیہہ پر اس نے الماری میں پیک کر کے رکھ چھوڑا تھا.  لیکن آج اسے احساس ہوا کہ انسان جیسی صحبت میں بیٹھتا ہے رفتہ رفتہ ویسا ہی سوچنے اور کرنے لگتا ہے.  سوچ کا اثر ہی عمل میں چھلکنے لگتا ہے . پینتالیس برس کی عمر میں ستر برس کی اکثر بیوہ اور آدم بیزار بڑھیاؤں کیساتھ  بیٹھنے کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ جوانی میں ہی بوڑھی اور سہاگن ہوتے ہوئے بیواؤں سے حلیئے میں رہنے لگی تھی .
 بڑے اہتمام سے اس نے جوڑا استری کیا.  نہا دھو کر بال سنوارے . تو آئینے نے بھی اس کی نظر اتاری.
اس نے سوچا سلطان احمد کو راہ راست پر رکھنے کے لیئے کسی کی چار باتیں بھی سننا پڑیں تو سن لونگی.
اس نے سنگھار میز کے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا . میرون سرخی اور آنکھوں کے کاجل نے اسے دس برس پیچھے دوڑا دیا تھا.  
سلطان احمد کی ستائشی نظریں ہی اس کی أس تیاری کا انعام تھیں .
یہ ہی سوچ کر وہ اپنے کمرے سے باہر صحن میں آئی تو
کہاں ہو بھئی...
 سلطان احمد کی پکار سن کر
اس نے مڑ کر اپنے شوہر کو دیکھا جو خضاب کی کٹوری ہاتھ میں لیئے کھڑا تھا  اور واش بیسن کے آئینے میں دیکھتے ہوئے ٹوٹھ برش سے اپنے سر کے بال رنگ رہا تھا .
شوہر نے اسے دیکھا
تو اس کی میرون سرخی اور کاجل کی دھار دیکھ کر زور سے ہنسا
 اور نخوت اور طنز کے ملے جلے لہجے میں کاٹ دار انداز میں بولا
 " ہوں بوڑھی گھوڑھی لال لگام"
یہ سنتے ہی غم ،صدمے اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو گیا ،اس نے اس کے سامنے دیوار کا  شیشہ میاں کے منہ پر دے مارا اور خضاب کے کٹوری اس کے ہاتھ سے چھین کر سارا خضاب اسکے منہ پہ مل دیا اور خوب دیوانہ وار بولتی اسے مارتی چلی گئی ....میں بوڑھی گھوڑی جو تیرے سے پورے دس   سال چھوٹی اور تو چھنہ کاکا....بے غیرت
                  ۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/