ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 28 ستمبر، 2018

قومیت کس اصول پر ؟ کالمز


قومیت کس اصول پر؟
ممتازملک. پیرس

دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت بھی کرتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی قومیت بھی حاصل کرتے ہیں.  جیسا کہ کم ترقی یافتہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں یہ رجحان بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہوں  . ہر ملک کا کسی دوسرے ملک کے  باسی کو قومیت دینے کے اپنے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں.  ان میں کچھ لوگ سیاسی پناہ کی بنیاد پر بھی دوسرے ممالک کی قومیتوں کی درخواست دیتے ہیں. جن پر کافی غوروخوض  اور انکوائری کے بعد فیصلہ دیا جاتا ہے.  عمومی قومیت کے لیئے بھی ایک لمبا عرصہ برائے کاروائی لیا جاتا ہے.  اور کاروائی کیساتھ اس قومیت کے حصول کے لیئے درخواست کنندہ کا کچھ شرائط پر پورا اترنا لازم ہوتا ہے.  جیسا کہ
* اس  شخص کو اس ملک کی قومی زبان کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے. 
*وہ اس ملک میں کیوں رہنا چاہتا ہے اس بات کا اطمینان بخش جواب دینا ہوتا ہے. 
* وہ اس ملک کے جغرافیائی حالات اور تاریخ کے بارے میں خصوصی جوابات دے سکتا ہو.
*وہ اس ملک میں  کسی جرم میں سزا یافتہ  اور پولیس کیس میں ملوث تو نہیں ہے. 
*یہ شخص باقاعدہ ٹیکسز کی ادائیگی کرتا ہے کہ نہیں ؟
*اس کا کاروبار  ملک کے قوانین کے مطابق ڈیکلئیر ہے کہ نہیں ؟
*اس کے اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کیسے ہیں ؟
* وہ کتنی جلد رہائش بدلتا ہے ؟
ان تمام شرائط و تحقیقات کے بعد یہ یقین کیا جاتا ہے ک اس درخواست دہندہ برائے قومیت نے آپ کے ملک میں کوئی قانون شکنی نہیں کی, کبھی کوئی جرم نہیں کیا , تب جا کر اسے قومیت یعنی نیشنیلٹی کا اہل قرار دیا جاتا ہے. 
جبکہ پاکستان میں اس میں سے کسی بھی اصول و ضوابط کی پابندی کو کسی بھی فرد واحد سیاستدان کی بیک جنبش قلم یوں مٹا دیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مذاق ہو. جبکہ اصل میں وہ پاکستان کی پوری قوم کیساتھ مذاق کر رہا ہوتا ہے . ان معاملات پر خاموشی اور نظر انداز پالیسی کا مطلب ہے اجتماعی تباہی...
کچھ طرفدار جھٹ سے بیان داغتے ہیں کہ کیوں جناب پاکستانی بھی تو دوسرے ممالک ک قومیت لیئے بیٹھے ہیں تو افغانیوں کو بھی پاکستان کی نیشنیلٹی آنکھیں موند کر کیوں نہ دیدی جائے ؟
ان سب کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ پاکستانی جو اپنی معاشی ابتری یا دہشتگردی کی فضا سے باہر جانے پر مجبور ہوئے وہ ان ممالک میں ہر امن ترین شہری کے طور پر سالوں سے ہر قانون کی پاسداری کرتے رہے ہیں کبھی انہیں ان ممالک نے اپنی قومیت دینے پسند کیا ہے اور یہاں کے اقوام نے  انہیں خوشی سے قبول کیا ہے. جبکہ افغانیوں کو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی وجہ سے نہ تو پسند کیا جاتا ہے اور نہ ہی قبول.  کہ ان کے مزاج کی درشتی اور قانون شکنی, کسی طور انہیں پرامن شہری  نہیں بنا سکتی.
ہمیں حیرت ہے کہ افغانیوں کے لیئے جب ان اصولوں پر بات کی جاتی ہے تو کچھ لوگ ہمیں عجیب و غریب تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں اور  جن  کتابوں کے وہ بھی  یورپیئن مصنفین کی کتابوں کے حوالے دیکر پڑھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے  وہ جو اس جنگ کے اپنے اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے فارمولے کے تحت لکھی گئی ہیں . اب ہم ان پر اعتبار کریں ؟
لیکن
ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں  سے  پاکستان میں ان افغانوں کی وجہ سے بدلتے دیکھا، تباہ ہوتے دیکھا،
اس پر سے آنکھیں بند کر لیں اور اعتبار نہ کریں ..
یہ کیسا مشورہ ہے ...
جبکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ
ہندوستان نے ،ایران نے ، اس وقت اپنے بارڈر  افغانوں کے لیئے نہ کھول کر نہایت دانشمندانہ فیصلہ کیا ..
افغانیوں ک جنگ کا ذمہ دار پاکستان نہیں تھا .
بلکہ افغانیوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینا اور پناہ دینے کا فیصلہ پاکستان کی تاریخی غلطی تھی.  جس کی قیمت ہم نے چالیس سال چکائی ہے.  ہھر بھی  اس قوم کو جب بھی موقع ملا پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے کبھی باز نہ آئے.
  اب جب ان کے ملک میں حالات بہتر ہو رہے ہیں تو ان کا پاکستان میں قیام کا کیا مطلب ہے؟  پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کو گالیاں دینے سے کروڑ درجے بہتر ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کراپنی مرضی کی زندگی گزاریں. 
ویسے بھی قوم کی رائے کے بنا کوئی بھی قانون کیسے بن سکتا ہے؟  چالیس سال سے ان  افغانیوں کی دہشتگردی بھگت کر اب بھی اگر ہم نہ بولے تو کل کو اسی قومیت کے بہانے پاک افغان بارڈر کو بے نام کر کے وہاں کے ہر درندے کے لئے راستہ کھل جائے گا ,جسے اس پار دھکیلنے کے لیئے ہماری قوم اور فوج نے اپنی  ہزاروں قیمتی جانیں قربان کر دی ہیں.  کیا ان کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا جائے.....
جبکہ اگر قومیت دینی ہی ہے تو ان بہاریوں کو کیوں بھلا دیا جاتا ہے جو سینتالیس سال سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کئے گئے ہیں.  ان کا جرم ہے پاکستان سے محبت.  مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے باوجود وہ اپنی نسلیں کٹوا رہے ہیں لیکن اپنے سینے سے پاکستانی پرچم کو جدا نہیں کرتے.  پاکستان کے لیئے روتے ہیں اور پاکستان کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں. گندی تنگ و تاریک مہاجر بستیوں سے انہیں آذاد کروائیے.  ان سے بڑھ کر پاکستان سے محبت تو خود پاکستان میں رہنے والے پاکستانی بھی ثابت نہیں کر سکتے. خدارا حکومت پاکستان سے دست بستہ ہماری گزارش ہے کہ پاکستان دشمنوں اور دہشتگردوں  کو پاکستانی قومیت (نیشنیلٹی) دینے کی بجائے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو اس کا حقدار ہونے کی بنیاد پر پاکستان میں آباد کیجیئے.  کہ آپ کیساتھ رہنے کا پہلا حق محبت کرنے والوں کا ہوتا ہے نہ کہ آپ کی پلیٹ میں کھا کر اسی میں چھید کرنے والوں کا....
                        --------

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/