



1۔ مدت ہوئ عورت ہوۓ ۔ ممتاز قلم۔ 2۔میرے دل کا قلندر بولے۔ 3۔ سچ تو یہ ہے ۔ کالمز۔ REPORTS / رپورٹس۔ NEW BOOK/ نئ کتاب / 1۔ نئی کتاب / 2۔ اردو شاعری ۔ نظمیں ۔ پنجابی کلام۔ تبصرے ۔ افسانے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز سو لفظی کہانیاں ۔ انتخاب۔ نعتیں ۔ کالمز آنے والی کتاب ۔ 4۔اے شہہ محترم۔ نعتیہ مجموعہ 5۔سراب دنیا، شاعری 6۔اوجھلیا۔ پنجابی شاعری 7۔ لوح غیر محفوظ۔کالمز مجموعہ
قربانی کیجیئے تماشا نہیں
ممتازملک. پیرس
آج کل بیرونی برائے فروخت اذہان خرید کر ہمارے نیم ملا اور ملانیاں کماو ٹی وی پر زور و شور کیساتھ فرضی عبادات میں کیڑے نکالنے اور انہیں متنازعہ بنانے میں دن رات ایک کیئے ہوئے ہیں . انہیں ہر اسلامی عبادت وقت کا ضیاں اور اللہ کی راہ میں خرچ فضول خرچی لگتا ہے . لیکن نہیں دکھے گا تو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ستر ہزار کا موبائل اور جثے پر پہنا تیس ہزار کا جوڑا کبھی بھی فضول خرچی نہیں لگے گا . اور نہ وہ اس کی رقم کسی ضرورت مند کو دینے کا کبھی سوچیں گے.
یہ سچ ہے کہ حج زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے. اس سے زیادہ کی استطاعت ہے تو اس رقم کو کسی اور کو پہلی بار کے لیئے حج بدل میں دیا جا سکتا ہے. لیکن سال میں ایک بار عید الاضحی کے موقع پر قربانی ہر کمانے والے، اپنے گھر اور سواری رکھنے والے پر اللہ کی راہ میں جانور کی صورت پیش کرنا اللہ کا حکم ہے اور اسے کوئی بھی مائی کا لعل چیلنج نہیں کر سکتا . اور جو ایسی ناپاک جسارت کرے اسے دین اسلام سے اپنا تعلق ختم سمجھنا چاہیئے .
دوسری جانب معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو گھر میں دس لوگ بھی کما رہے ہیں سارا سال سارے اللے تللے، ہوٹلنگ، شاپنگ ہر موقع پر دس دس ہزار کے چار چار جوڑے بن رہے ہیں لیکن جیسے ہی عید قرباں کا موقع آتاہے تو گھر بھر میں فقر و فاقہ کا رونا پڑ جاتا ہے . اکثر تو خود کو سچا ثابت کرنے کے لیئے دو چار ہزار روپے کسی سے قرض بھی لے لیا جاتا ہے. تاکہ قسم کھا سکیں کہ بھائی ہم تو مقروض ہیں ہم پر قربانی فرض نہیں ہے . اور ملک سے باہر بیٹھے باپ، بھائی اور بیٹے کو آرڈر بک کروا دیا جاتاہے کہ بھئی اتنے بکرے کرنے ہیں ، اس اس کے گھر تو ران جانی ہے ورنہ ہماری ناک کٹ جائے گی .
گویا قربانی کرنا اسی قربانی کے دنبے کا فرض ہو گیا .جو پہلے ہی پاکستان میں بیٹھے مفت خوروں کے لیئے روز ذبح ہوتا ہے .
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک گھر میں چھ چھ لوگ کما رہے ہیں لیکن قربانی کا ایک ہی بکرا آئیگا اور اکثر باہر والے کی کمائی کا آئے گا .
چاہے اس بھیجنے والے نے اپنے بچوں کو قربانی کا گوشت سنگھایا بھی نہ ہو اس دن. کہ ایک کی کمائی پر ایک ہی قربانی کی گنجائش تھی .
سو وہ تو پچھلوں کو رانیں،دستیاں اور تکے کھلانے کو بھیج دیا .
اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں اس دن بھی قصائی سے خرید کر گوشت.
گویا آپ دو طرح سے گناہگار ہوئے.
1- اس کے گھر میں فساد ڈالا( جو سسرالیوں کا پسندیدہ شیوہ ہوتا ہے ).
2- اسے قربانی کی سنت اپنی اولاد کو دکھانے اور سکھانے سے محروم کر دیا .
(وہ تو آپ کی آنتوں اور چھچھورپنے کی نظر ہو گئی ).
سب سے خاص بات قربانی ہر انسان کے اپنے مال ہر لگتی ہے . اپنے گھر میں رہنے والا ،اپنی سواری رکھنے والا ، ہر مسلمان صاحب نصاب ہوتا ہے . سارا سال موج اڑانے والے اور قربانی پر دبئی سے، امریکہ سے ،یورپ سے، باپ، بھائی اور بیٹے کی کمائی کا انتظار کرنے والے یاد رکھیں کہ وہ قربانی اس رقم کے بھیجنے والے کی ہوئی نہ کہ آپ کی جانب سے . اس لیئے محلے میں ٹیڑھے ٹیڑھے ہو کر چلنے سے پرہیز کریں . مرنے کے بعد آپ کے کام اس قربانی کے جانور کی اوجڑی بھی نہیں آنے والی 😲
ممتازملک
..............
ایکسرے مشین 😲
پاکستانی مردانہ نظریں ایکسرے مشین کو پھاڑ کر اس کا بھی ایکسرے کرنے میں ماہر قرار دی گئی ہیں .
بقول شخصے
ایکسرے اور سونو گرافی ماہرین نے ہاتھ جوڑ کر کر ان سے اپنی خدمات پیش کرنے کی درخواست کی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ
استاد جی جہاں ہمارا کام ختم ہوتا ہے آپ تو شروع ہی وہاں سے ہوتے ہیں .....😲😲😲😲
او تیری ی ی ی ی
ممتازملک
جو پھوپھی پھوپھا کو روز کوٹتی تھی کیونکہ وہ تھا ہی" قابل کٹ " اسی لیئے جس دن وہ اسے نہ کوٹتی تو محلے کے من چلے اسے گلی سے گزرتے وقت خاص آواز لگاتے کہ
پھپھا کٹ نی...
یوں یہ بات زبان زد عام ہو گئی . اور بگڑتے بگڑتے ہوئے پھاپھا کٹنی بن گیا.
ممتازملک
آج کل بیرونی برائے فروخت اذان خرید کر ہمارے کم او ےی وی زور و شور کیساتھ فرضی عبادات میں.کیڑے نکالنے اور انہیں متنازعہ بنانے میں.دن رات ایک.کیئے ہوئے ہیں . انہیں.ہر اسلامی عبادت وقت کا ضیاں اور اللہ.کی راہ میں خرچ فضول خرچی لگتا ہے . لیکن نہیں دکھے گا تو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ستر ہزار کا موبائل اور جثے پر پہنا تیس ہزار کا جوڑا.کبھی بھی فضول خرچی نہیمنلگے گا . اور نہ وہ اس کی رقم کسی ضرورت مند کو دینے کا کبھی سوچیں گے.
یہ سچ ہے کہ حج زندگی میں ایکنہی بار فرض ہے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے تو اس رقم کو کسی اور کو پہلی بار کے لیئے حج بدل میں دیا جا سکتا ہے لیکن سال میں ایک بار عید الضحی کے موقع پر قربانی ہر کمانے والے، اپنے گھر اور سواری رکھنے والے پر اللہ کی راہ میں جانور کی صورت پیڈ کرنا اللہ کا حکمنہے اور اسے کوئی بھی مائی کا لعل چیلنج نہیں کر سکتا . اور جو ایسی ناپاک جسارت کرے اسے دین اسلامنسے اپنا تعلق ختم سمجھنا چاہیئے .
دوسری جانب معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو گھر میں دس لوگ بھی کما رہے ہیں سارا سال سارے اللے تللے، ہوٹللنگ،شاپنگ ہر موقع پر دس دس ہزار کے چار چار جوڑے بن رہے ہیں لیکن جیسے ہی عید قرباں کا موقع آتاہے تو گھر بھر میں فرق فاقہ کا رونا پڑ جاتا ہے . اکثر تو خود کو سچا ثابت کرنے کے لیئے دو چار ہزار روپے کسی سے قرض بھی لے لیا جاتا ہے تاکہ قسم کھا سکیں کہ بھائی ہم تو مقروض ہیں ہم قربانی فرض نہیں ہے . اور ملکنسے باہے بیٹھے باپ بھائی اور بیٹے کو آرڈر بک.کروا دیا جاتاہے کہ بھئی اتنے بکرے کرنے ہیں اس اس کے گھر تو ران جانی ہے ورنہ ہماری ناک کٹ جائے گی .
گویا قربانی کرنا اسی قربانی کے دنبے کا فرض ہو گیا .جو پہلے ہی پاکستان میں بیٹھے مفت خوروں کے لیئے روز ذبح ہوتا ہے .
اکثر دیکھا ہے ایک گھر میں چھ چھ لوگ کما رہے ہیں لیکن قربانی کا ایک ہی بکراآئیگا اور اکثر باہر والے کی کمائی کا آئے گا .
چاہے اس بھیجنے والے نے اپنے بچوں کو قربانی کا گوشت سنگھایا بھی نہ ہو اس دن. کہ ایک کی کمائی پر ایک ہی قربانی کی گنجائش تھی .
سو وہ تو پچھلوں کو رانیں،دستیاں اور تکے کھلانے کو بھیج دیا .
اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں اس دن بھی قصائی سے خرید کر گوشت.
گویا آپ دو طرح سے گناہگار ہوئے.
1- اس کے گھر میں فساد ڈالا( جو سسرالیوں کا پسندیدہ شیوہ ہوتا ہے ).
2- اسے قربانی کی سنت اپنی اولاد کو دکھانے اور سکھانے سے محروم کر دیا .
(وہ تو آپ کی آنتوں اور چھچھورپنے کی نظر ہو گئی ).
سب سے خاص بات قربانی ہر انسان کے اپنے مال ہر لگتی ہے . اپنے گھر میں رہنے والا ،اپنی سواری رکھنے والا ، ہر مسلمان صاحب نصاب ہوتا ہے . سارا سال موج اڑانے والے اور قربانی پر دبئی سے، امریکہ سے ،یورپ سے، باپ، بھائی اور بیٹے کی کمائی کا انتظار کرنے والے یاد رکھیں کہ وہ قربانی اس رقم کے بھیجنے والے کی ہوئی نہ کہ آپ کی جانب سے . اس لیئے محلے میں ٹیڑھے ٹیڑھے ہو کر چلنے سے پرہیز کریں . مرنے کے بعد آپ کے کام اس قربانی کے جانور کی اوجڑی بھی نہیں آنے والی 😲
ممتازملک
غوآں کی سیر
ممتازملک. پیرس
فیس بک ہر تو ہزاروں کی فرینڈ لسٹ موجود ہے لیکن کچھ لوگ اپنی تہذیب ،شائستگی ،خلوص اور ہم.مزاجی کی وجہ سے دل میں الگ ہی جگہ بنا لیتے ہیں .
ایسے ہی دوستوں میں سے کچھ بہت اہم دوست ہیں فرانس کے شہر" غوآں " Rouen میں رہنے والے سلیم خان اور بیگم طاہرہ سلیم خان ہیں . جو کچھ ماہ قبل ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو کر کے بطور خاص مجھے ملنے کے لیئے تشریف لائے اور بڑی محبت سے مجھے اپنے شہر آنے کی دعوت بھی دی .
کل چودہ اگست 2016 مجھے اپنی فیملی کے ساتھ اس پیارے سے دوست جوڑے کیساتھ دن گزارنے کا موقع ملا . موٹر وے سے پیرس سے غوآں کا فاصلہ گاڑی میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا اور دو تین مقامات پر یہ ٹریفک رش اور بلاک ہونے سے تین.سے چار گھنٹے ہر محیط یو گیا . موسم بھی 29 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی خوب گرم تھا . شیخ صاحب گاڑی ڈرائیوو کرتے اور بچئ اونگھتے رہے . اور میں موبائل پر نیٹ پر ادھورا کام مکمل کرتی رہی یا آپ سب کے لیئے راستے میں آنے والی ہر خوبصورت عمارت اور منظر کو موبائل کیمرے پر قید کرتی رہی .
اس شہر میں بہت خوبصورت پرانی اور نئی تعمیرات کی آمیزش نے اسے میری نظر میں پرانی ہالی وڈ کی فلموں میں نظر آنے والا شہر بنا دیا ہے
بہت سے خوبصورت چرچز،دریا اور ساحل سمندر کے علاوہ ہرے بھرے کھیت، شپنگ، چونے جیسی سفید پہاڑیوں نے اسے ایک دلکش سیاحتی مقام بنا دیا ہے .
سلیم خان اور بیگم طاہرہ سلیم خان کی مہمان ہمیشہ یاد رہیگی .
اس خوبصورت سفر کی تصویری داستان پیش ہے آپ سب کے لیئے .......