شاعرہ : شازملک
شعری مجموعہ کلام: دل کا نیلا سمندر
تبصرہ: ممتازملک
تاریخ: 6ستمبر 2025ء
محترمہ شاز ملک صاحبہ جو کہ نہ صرف کالمز لکھتی ہیں۔ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتی ہیں۔ افسانے بھی لکھتی ہیں۔ انکے ناولز بھی آ چکے ہیں۔ آج ان کی جو کتاب میرے زیر موضوع ہے۔ اس کا نام ہے "دل کا نیلا سمندر" اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کو احساس ہوتا ہے کہ شاز ملک صاحبہ نے اپنی شاعری کے سفر کو کیسے سیڑھی بہ سیڑھی طے کیا ہے۔ زینہ بزینہ انہوں نے آج تک کی منزل کو طے کیا ہے۔ اور بہت خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے اپنے ہر طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ چاہے وہ صوفیانہ انداز میں صوفی رنگ کے ساتھ ہوں تو بھی بڑے بھرپور انداز میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چاہے وہ روایتی انداز میں ایک عورت کی دل کی آواز بن کر نسائی لہجہ ہو ، جو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان کے ہاں نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے شعروں پر ان کی بنت اور ان کی پکڑ دونوں بہت واضح دکھائی دیتی ہیں ۔ فرانس میں ان کے قیام کے سالہا سال کے بعد بھی ان کی شاعری میں وہ جو ایک دیسی پن ہوتا ہے وہ جو ایک ہمارا مشرق کا ٹچ ہے وہ آج بھی ان میں اسی طرح سے محفوظ ہے۔ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ بہت مان کے ساتھ محفوظ ہے۔ وہ اس پر نہ تو کہیں شرمسار ہیں نہ ہی اس پر کسی کم مائیگی کا احساس ان پر غالب دکھائی دیتا ہے ۔ وہ بہت فخر کے ساتھ اپنے مشرق کو قبول کرتی ہیں۔ اور اپنی مشرقی اقدار پر نہ صرف انہیں قبول کرتی ہیں بلکہ فخر بھی کرتی ہیں۔ یہی بات ان کی شاعری اور ان کی تحریر کی خوبصورتی کا ایک بہت بڑا خاصہ بھی ہے اور بہت بڑا حصہ بھی ہے ۔ جیسے ان کے چند اشعار جو میری نظر میں انہیں اور ان کے خیالات کو بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ذرا ان پر غور کیجئے
"یہ گہرے زخم ہیں کیسے کہاں یہ بھر سکیں گے
تیرے لفظوں کے تیروں نے کیئے ہیں چھید من میں "
اسی طرح سے ایک اور جگہ فرماتی ہیں
"مجھے تو لے گئے کاندھوں پہ وارث زندگی کے
مگر اک آہ قیدی ہے ابھی دار و رسن میں "
حقیقتوں سے لڑتا ہوا لہجہ ملاحظہ فرمائیں
"جہاں الجھی فضائیں ہوں گھٹے الفاظ کا دم
بتائے شاز کیسے دل جیے ایسی گھٹن میں "
جب انا پر چوٹ پڑتی ہے تو ایک عورت اپنے پورے لبادے کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔
غلط فہمی میں مت رہنا انا کے بام پہ جا کر
جو ہالہ ہے تمہارے گرد یالہ چھین سکتی ہوں
ایک اور جگہ کیا خوبصورت لہجہ ہے کہ ۔۔۔۔
•تیری توقیر بچ جاتی میرا بھی مان رہ جاتا
اگر موسم خزاں قائم صدا رہتا تو بہتر تھا
•میری شدت پسندی نے مجھے تنہا کیا لیکن
لبوں پہ بن کے تو حرف دعا رہتا تو بہتر تھا
•تغافل میں عداوت میں محبت میں سخاوت میں
بھرم تیرا بنایا ہے بنا رہتا تو بہتر تھا
ہمارے ہاں کی خواتین کی اکثریت جب ملک چھوڑتی ہے تو ملک سے پہلے ذہنی طور پر وہ اپنی اقدار اپنی روایات اور اپنے معاشرے سے جڑے ہوئے کئی حسین جذبات کو بھی چھوڑ دیتی ہے یہ عام طور کی پریکٹس میں دیکھا گیا ہے کہ سب سے پہلے ان کے لیے لباس میں یہ فرق دکھائی دے گا اور پھر کھانے پینے میں تو فرق دکھنا شروع ہو ہی جاتا ہے ۔ کچھ شاید فطری تقاضے بھی ہوتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ماحول کے ساتھ کچھ چیزیں بدلنی پڑ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ چیزوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یا اسے فیشن کے طور پر اپنا لیا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر اپنی چیزوں کو اپنی اقدار کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور پھر یہی سوچ ان کے عملی زندگی میں دکھائی دینے لگتی ہے ۔۔ ایک طرف مسلمان یا پاکستانی ہونا کمپرومائز ہونے لگتا ہے ۔۔ہمیں کئی بار دکھائی دیتا ہے کہ وہ لوگ اپنے اقدار کو اپنی اولاد تک نہیں پہنچا پاتے ۔ ہماری سوچ نظریات کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر بہت تیزی سے آگے دوڑ رہے ہیں۔ اس دوڑ میں صرف ایک چیز جیت رہی ہوتی ہے، پیسہ دولت اور وہ نام اور مقام جس کے پیچھے ان کی کوئی شناخت نہ رہے۔ ان لوگوں کو اپنی شناخت پہ شاید شرم انے لگتی ہے ۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ ہو سکتا ہے آپ لوگوں کے خیالات مجھ سے مختلف ہوں۔ میں ان کی بھی بالکل قدر کرتی ہوں۔ ہر ایک کو اپنے خیالات رکھنے کا پورا پورا حق اور آزادی حاصل ہے ۔ لیکن مجھے تبصرے کی ذمہ داری دی گئی تو میں اپنا فرض سمجھتی ہوں کہ پوری ایمانداری کے ساتھ اس بات کو بیان کروں۔ مجھے شاز ملک صاحبہ کے ساتھ ملتے ہوئے کئی سال کا عرصہ ہو چکا ہے شاید 2017ء سے۔ ہماری ملاقات بہت دوستانہ انداز میں ہماری ہونے لگی تو جب آپ کسی کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ جب آپ کسی سے کسی تعلق میں آتے ہیں۔ نزدیک ہوتے ہیں۔ خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ آپ کی سوچ ایک دوسرے پر واضح ہوتی ہے تو بہت ساری چیزیں آپ جاننے لگتے ہیں ایک دوسرے کے بارے میں۔ وہاں جا کر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ شازملک صاحبہ ان خواتین میں شامل ہیں جو اپنے مشرق پر اپنے مشرقی ہونے پر کہیں بھی آپ کو شرمسار دکھائی نہیں دیں گی۔ وہ بہت فخر سے بات کرتی ہیں ۔۔اور یہ چیز ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ اور جب آپ کے لہجے خالص ہوتے ہیں۔ جب آپ کی سوچ خالص ہوتی ہے اور اس میں کوئی جھول نہیں ہوتا اس میں کوئی سودے بازی نہیں ہوتی تو یقینا دل کی بات دل تک ضرور پہنچتی ہے۔ ان کی کتاب کو پڑھنے کے بعد میری بہت ساری دعائیں ان کے لیئے ہیں۔ اللہ تعالی ان کو اگے بھی بہت ساری کامیابیاں عطا فرمائے۔ بہت ساری ترقیاں دکھائے اور پروردگار ہم سب کو ایک دوسرے سے حسد اور جلن سے محفوظ رکھے ۔ اور ہم سب کو خصوصا لکھاریوں کو ایک دوسرے کی کامیابیوں پر خوش ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بہت ساری دعائیں آپ کے لیئے ،❤️💚💐📚
مبصرہ:
ممتازملک
پیرس فرانس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں