اشتیاق عالم کا اردو مجموعہ کلام
قندیل
اشتیاق عالم صاحب ہندوستان کے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر ہیں جنکا پہلا مجموعہ کلام قندیل آج ہمارے ہاتھ میں ہے۔
ان کا کلام پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کو اپنی چھوٹی سی عمر میں بھی کتنی گہرائی میں دیکھتے ہیں۔ اس زندگی کو دیکھنے کے لیئے ان کا اپنا ایک نظریہ ہے ، اپنی ایک سوچ ہے، انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ اسے اپنے پیمانے پر کس طرح سے جانچیں گے۔ وہ بہت صاف گوئی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس پر دسترس بھی رکھتے ہیں ۔
جیسے ایک جگہ وہ فرماتے ہیں
بے حیائی کے قصیدے پڑھ رہی ہیں تتلیاں
برسر گلشن ہے آنکھوں سے حیا روٹھی ہوئی
بد سلوکی کر رہے ہیں بچے اب ماں باپ سے
ہے دعا سے یوں بھی تاثیر دعا روٹھی ہوئی
اسی کلام میں وہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں
کہہ دیا تھا حال غم میں نے امیر شہر سے
اس خطا پر مجھ سے ہے میری انا روٹھی ہوئی
راستوں کی بھیڑ میں کھویا ہوا ہوں آج بھی
منزل مقصد ہے مجھ سے رہنما روٹھی ہوئی
ان کی کلام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر جس دکھ اور تکلیف کو یا خوشی کو سہتے ہیں، روحانی طور پر ان جذبات کے بارے میں اسی گہرائی سے سوچتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ
خون بہتا ہے دیدہ تر سے
زخم جب لب کشائی کرتے ہیں
جب زباں کھولتا ہوں میں اپنی
سب کے سب لب کشائی کرتے ہیں
چپ ہیں اہل ادب تو محفل میں
بے ادب لب کشائی کرتے ہیں
ان کا انداز گفتگو ہے غضب
وہ غضب لب کشائی کرتے ہیں
کیئے بیٹھے تھے جو زبانیں بند
وہ بھی اب لب کشائی کرتے ہیں
اسی طرح سے ان کے ایک اور کلام پر نگاہ ڈالیئے تو آپ کو چھوٹی بحر کے علاوہ بڑی بحر میں بھی بہت ہی خوبصورت اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جیسے کہ
حقیقتوں کو جو کر رہے تھے رقم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
لہو سے تحریر تربتر ہے قلم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
اسی طرح آگے فرماتے ہیں کہ
محافظوں کے حوالے کر کے مکان اپنا جو سو رہے تھے
وہ لٹ چکے ہیں وہ رو رہے ہیں حرم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
قبیلے والوں کو کیا ہوا ہے سمجھ رہے ہیں اسی قائد
قیادتوں کے جنوں میں جس کے قدم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
ان کے بہت سے اشعار آپ کو بہت خوبصورت شعراء کرام کے کلام کی یاد دلائیں گے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں
ہو تناور لاکھ لیکن سر بسر خطرے میں ہے
چل رہی ہے تیز آندھی ہر شجر خطرے میں ہے
اب ہوائیں موت کا فرمان لے کر آگئیں
ہر نگر کو اب ہے خطرہ ہر نگر خطرے میں ہے
آسماں پر اڑنے والے اب زمیں پر لوٹ آ
تو ہے خطرے میں تیرا ذوق سفر خطرے میں ہے
ہر طرف چھائی ہوئی ہے تیرگی اس وقت تو
کچھ نظر آتا نہیں شاید نظر خطرے میں ہے
اسی طرح سے ان کے اگے کے چند اشعار آپ حوالے کے لیئے ملاحظہ فرمائیں اور ان کو ان کی اس کتاب "قندیل" میں ڈھونڈ کر پڑھیئے۔ آپ بہت لطف لیں گے ۔
سو بار ستم توڑے گئے ہیں میرے دل
پر سو بار میرے دل پہ ستم ٹوٹ چکے ہیں
پینے کا پلانے کا زمانہ وہ نہیں اب
پینے کے پلانے کے بھرم ٹوٹ چکے ہیں
ایک اور کلام ملاحظہ فرمائیے
مشکل نکلنا جس سے ہے ایسا ہے جال موت
جس میں کسی شکار کی مرضی نہیں چلی
سیلاب چشم تر سے یہ روکا نہ جا سکا
اشکوں پہ آپشار کی مرضی نہیں چلی
گویا کہ ان کا کلام اپ کو اردو ادب کی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ دکھائی دیتا ہے میری بہت سی دعائیں اور نیک خواہشات اشتیاق عالم کے لیئے۔
دعاگو:
ممتازملک
پیرس فرانس
شاعرہ ،کالم نگار، نعت خواں، نعت گو، افسانہ نگار ، کہانی کار، عالمی نظامت کار۔
بانی و صدر ادبی تنظیم
" راہ ادب فرانس"
ڈائیریکٹر فرانس،
گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی
Mumtazmalik222@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں