ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 2 ستمبر، 2024

تبصرہ ۔ بشری فرخ



کتاب۔ اور وہ چلا گیا 
شاعرہ۔ ممتازملک
تبصرہ۔ بشری فرخ صاحبہ




اس نیلے اسمان کی چھتری کے نیچے ایک وسیع و عریض کائنات اپنی لامحدود روشنیوں اور تاریکیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے اور اس کائنات آب و گل کا انمول ترین نگینہ بشر ہے ۔ جو اپنے اندر عجائبات کی ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔ یہ بشر جب اس آخرت کی کھیتی پر قدم رکھتا ہے تو اس جہان رنگ و بو کی کسی نہ کسی شے کی جستجو میں ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس بشر کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ودیعت کی گئی ہے اور اسی بنا پر اللہ جل شانہ نے اسے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا اور زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔
 یہی تلاش و جستجو جب اظہار کی متقاضی ہوئی تو انسان نے اپنے لیئے نت نئی راہیں استوار کیں کہ جن کے ذریعے باقی دنیا تک اپنا پیغام پہنچا سکے۔ کبھی ایجادات، کبھی دریافت، کبھی مصوری، کبھی موسیقی کی صورت اور جب جذبات و احساسات کی بات ہوئی تو قلم کا سہارا لے کر نثر اور شاعری کی بنیاد رکھ ڈالی۔ وطن عزیز میں اگر شاعری کی بات کی جائے تو ان 75 سالوں میں بہت بڑے بڑے نام ابھر کر سامنے ائے ہیں۔
 لیکن زیادہ تر حضرات کے۔ خواتین کا حصہ اس لیے کم کم رہا۔ کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا شاعری کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیئے شروع شروع میں خواتین مردانہ ناموں سے لکھتی تھیں۔  آہستہ آہستہ  معاشرے میں شعور بیدار ہونا شروع ہوا تو بہت ساری اہل قلم خواتین سامنے آتی چلی گئیں اور اج ادا جعفری سے لے کر کشور ناہید تک اور پروین شاکر سے لے کر شبنم شکیل تک آسمان ادب پر ستارے بن کر جگمگا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اپنی منفرد شاعری سے اپنا مقام بنا رہی ہیں۔
 ممتاز ملک کا شمار بھی ایسی ہی شاعرات میں ہوتا ہے جو علم و ادب سے والہانہ لگاؤ کے سبب شعر و سخن سے وابستہ ہیں اور اپنی منفرد پہچان بنا رہے ہیں ۔ 
سامعین کرام شاعری کی کوئی صنف بھی ہو اس میں اگر شاعر کے گہرے اور سچے جذبات کار فرما نہ ہوں تو شعر دل کی گہرائیوں میں نہیں اتر سکتا ۔
ممتاز کا اپنا اسلوب اور اظہار خیال اپنا پیرایہ ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرائی اور گہرائی لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اپنے نہاں خانہ احساس سے ابھرنے والے دلکش اور عمیق خیالات کو سلیقے اور کرینے سے نفاست کے ساتھ قلم بند کیا۔ ان کی شاعری ان کے وسیع تجربے اور تیز مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ جس میں سلیس زبان اور سادہ الفاظ کی انتخاب میں ایک خاص روانی پیدا کر دی ہے۔ زندگی کی تمام تر تلخیوں حقیقت زمانے کی بے مروتی عداوت نفرت اخلاقی اقدار کی پامالی غرض کہ زمانے کے تمام منفی رویوں نے ان کے قلم کو روانی عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے اس کے اصل روپ میں اپنے قاری کے سامنے رکھ دیا  کیونکہ ممتاز اپنی عملی زندگی میں بھی ایک بے باک،  صاف کو اور کھری انسان ہیں۔ اس لیئے ان کی شاعری بھی رنگ آمیزی کا عمل دخل نہیں ہے۔
 اپنے وطن سے دور پیرس میں بسنے والی اس شاعرہ کی شاعری میں اپنی دھرتی ماں سے محبت کی مہک، انسانیت کے دکھ ، معاشرتی مسائل اور وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک سچا مسلمان ہونے کے ناطے اپنے رب اور محبوب رب کی محبت میں غرق ممتاز ملک کا کلام
" اور وہ چلا گیا" یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان کا آخری پڑاؤ نہیں ہے۔ 
ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں
 ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا میرے خدا ہو جا

 جب بھی سجدے میں سر جھکے تو لگے
 جنتوں کی کسی قطار میں ہوں

 یہ بگولوں نے دی خبر ہم کو
 دل کے صحرا میں رقص جاری ہے
 کھردری کھردری اداسی ہے 
مخملی مخملی خماری ہے

 اس نے لفظوں کا صور پھونکا ہے
 اب سنبھلنا تو اضطراری ہے

 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
 میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھاری ہم پہ

 ممتاز مجھ پہ جانے پتھر کہاں سے برسے 
احساس کے شہر کا لہجہ تو ریشمی ہے 

خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
 ساتھ کیا دیں گے نظر مجھ سے چرانے والے

یہی نہیں بلکہ انہیں اس سے بہت آگے جانا ہے۔
ممتاز ملک کو مبارکباد اور بہت ساری دعاؤں کے ساتھ
 بشری فرخ
(پرائیڈ اف پرفارمنس)
 چیئر پرسن 
کاروان حوا لٹریری فورم 
پشاور پاکستان



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/