ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 18 اپریل، 2024

ٹھیکہ۔ شعر


ہر بار صلح کرنے کا ٹھیکہ نہیں میرا
ہوں میں بھی سزا دینے پہ قادر اسے کہدو
(ممتازملک)

عشق۔ شعر




عشق جو چویا لعنت لکھ
اک دی گچی اک دی اکھ 
ممتازملک 😜

منگل، 9 اپریل، 2024

پنجابی کلام ۔ حمد۔ اکھیاں نمانیاں


حمد باری تعالیٰ
کلام:
(ممتازملک۔پیرس)

جو گدڑیاں توں لعل نکالے میرا خدا
آیاں بلاواں سر تو جو ٹالے میرا خدا

خوشیاں چہ وی اداس جیا رہںڑاں رواج اے
ورنہ غماں دی جند چہ پالے میرا خدا

دامن تے دوستاں نے سبھاں دا کیتا اے تار
رنجش نہ کوئی میر تے نکالے میرا خدا
 
ہر اک قدم تے جو میں گراں میری غلطیاں
ہر اک قدم تے ودھ کے سنبھالے میرا خدا

جس تک پہنچ وی میرے خیالاں دی دور ہے
اونہوں سمندراں چوں گھنگھالے میرا خدا 

جس توں نہ ہو سکے میری دلجوئی اک وی پل
مینوں کرے نہ اوس دے حوالے میرا خدا

ہر وار جد گھرے آں مصیبت جہان وچ
ممتاز ودھ کے عزتاں بچا لے میرا خدا
.........
نوٹ:
(میرے اردو کلام سے میرا کیا گیا پنجابی ترجمہ )
(ممتازملک۔پیرس)


ہفتہ، 6 اپریل، 2024

ہر گلی میں مسجد کیوں ؟ کالم


        ہر گلی میں مسجد کیوں؟
         تحریر :
          (ممتازملک .پیرس)


ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر دوسری گلی میں ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ کہیں پلاٹ پر قبضہ کرنے کے لیئے، کہیں بہن بھائی کوئی دنیا میں نہیں رہا تو اس کی زمین پہ قبضہ کرنے کے لیئے۔ مسجد کو ایک دکان کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ اسے چندے اکٹھے کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر لوگ نوٹ چھاپ رہے ہیں اور دوسری بات جو سب سے زیادہ خوفناک ہے وہ یہ کہ ایسی بند گلیوں میں مسجدیں بنانے کی وجہ سے اس گلی کے سارے لوگ، سارے بچے، ساری خواتین، غیر محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے خود دیکھا ہے ایک سے ایک بڑھ کر نشئی ،تماشائی، بردہ فروش اور دو نمبر قسم کے لوگ ایسی گلیوں کے چکر صرف اس لیئے لگاتے ہیں کہ نماز پڑھنے کے نام پر مسجد کے نام پر اس طرف سے گزنے کا بہانہ موجود ہے ۔چاہے انہیں وضو کرنا  بھی نہ آتا ہو ۔  لیکن وہ ایسی گلیوں میں گزر کر وہاں کے کھیلتے بچوں کو، بچیوں کو، عورتوں کو آتے جاتے نظر میں رکھتے ہیں۔ ان کی ریکی کرتے ہیں اور پھر حسب ضرورت مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے ان گلیوں میں شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جن گلیوں میں مسجدیں ہوتی ہیں وہاں سب سے زیادہ گھروں میں چوریاں ہوتی ہیں، بچے اغوا ہوتے ہیں، عورتیں گھروں سے بھگائی جاتی ہیں یا اغوا کی جاتی ہیں۔ جب ہمارے دین کے اندر یہ بات موجود ہے کہ جتنے قدم اٹھا کر مسجد کی طرف جاؤ گے اتنا ہی ثواب ہوگا ، پھر کیا وجہ ہے کہ ہر گلی میں ایک مسجد بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ چاہے وہ مسجد سارا سال ویران بیابان پڑی ہو، لیکن کسی نہ کسی بہانے لوگ مسجد کا چکر لگاتے ضرور ہیں۔ نماز کے وقت چاہے صفیں خالی ہوں لیکن اس کے علاوہ مسجد کا چکر لگانے کے لیئے بہانے بہانے سے کسی بھی وقت ایک طرح سے ان کو لائسنس مل چکا ہوتا ہے کہ مسجد کا نام لے کے جب چاہیں اس گلی میں داخل ہو جائیں۔
  پہلے وقتوں میں لوگ پوچھا کرتے تھے۔ جب گلی میں کوئی نیا بندہ نظر آتا تھا تو پوچھا جاتا تھا کہ کیوں بھئی کدھر جا رہے ہو ؟ آپ کس کے گھر کے مہمان ہو ؟ لیکن اب مسجد کے بہانے ایک بڑا اچھا ویلڈ بہانہ ان کے ہاتھ میں موجود ہوتا ہے کہ پوچھو کہاں جا رہے ہو ؟ جی مسجد جا رہے ہیں ۔اچھا جی کہاں سے آ رہے ہیں؟  مسجد سے آ رہے ہیں۔ اب اس مسجد آنے اور جانے کے بہانے کے بیچ میں اگر ان سے آپ کبھی نماز سنانے کا کہہ دیں  تو یقین کیجئے ان میں اکثر لوگوں کو پوری نماز بھی نہیں آتی ہوگی۔ ان کا حلیہ دیکھیں، ان کا انداز دیکھیں لیکن وہ ایسی گلیوں میں مسجدوں کے بہانے جا کر نت نئے جرائم  سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔  اس لیئے کھلی جگہوں پہ مسجدیں بنائی جائیں۔  مین سڑک کے اوپر بنائیں۔ جہاں سے سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہوں آتے جاتے لوگ دکھائی دیں۔  کون ، کہاں، کس وقت، کب آیا اور کب گیا۔  لوگوں نے اللہ کے گھر کو، مسجدوں کو مذاق بنا لیا ہے۔ قیامت کیوں نہ آئے، قیامت کو آ ہی جانا چاہیئے۔ جو کچھ حرکتیں ہو رہی ہیں چھوٹے بچے جس طرح سے ریپ کیئے جا رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں گلیوں سے اٹھائی جا رہی ہیں۔ بچے سپارہ پڑنے جاتے ہیں۔ بچے قران پاک کی تعلیم کے نام پر  جاتے ہیں کہیں پہ مولویوں کا شکار بن رہے ہیں۔ کہیں پہ وہاں پہ اپنے سے بڑے پڑھنے والے طالب علموں کا شکار بن جاتے ہیں ۔ریپ ہو جاتے ہیں۔ اور جنسی حملوں کا شکار بنتے ہیں۔ اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ان تمام  مساجد کو بند کیا جائے۔ ان کو لائبریری میں تبدیل کر دیا جائے یا پھر کوئی  نرسری اور پرائمری سکول بنا دیا جائے۔ لیکن وہاں سے ان مسجدوں کو بند کیا جائے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بے حرمتی ہے مسجد کیوں بند کی جائے تو یاد رکھیئے مسجد کی ایک مثال ہمارے پاس مسجد ضرار کی صورت میں موجود ہے جہاں جب فتنہ اور فساد کی صورتحال پیدا ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس مسجد کو گرانے کا حکم اللہ کے حکم سے دے دیا ۔ یعنی یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آنے والے وقت میں اگر مسجدوں کو کسی غلط کام کے لیئے استعمال کیا جائے تو اسے گرانے یا بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تو برائے مہربانی اسے اپنی مونچھ کا بال بنانے کے بجائے لوگوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔ گلیوں محلوں سے مسجدوں کو بند کیجیئے اور اسے بڑی سڑکوں پر اور مین مقامات پر لے کر آئیں اور جس علاقے میں جتنے نمازی ہوں وہاں پر ایک تعداد کو مختص کرنے کے بعد اگر وہاں دوسری مسجد کی ضرورت ہو تو تب مسجد بنانے کی اجازت دی جائے ورنہ اسی پچھلی مسجد پر ہی اکتفا کیا جائے تمام صاحب اختیار لوگوں سے گزارش ہے کہ اس معاملے پہ غور فرمائیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر بات کو چھوٹی سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس پہ مذہب کا تڑکا لگا کر اسے لوگوں کو پروسنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یوں آج ہمارا پورا ملک جرائم کا اڈہ بن چکا ہے ۔ خدا کے لیئے ان باتوں پر غور کیجیئے۔
                    ------

جمعہ، 5 اپریل، 2024

& ہیپی سسرال۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی



آج وہ بے حد پریشان تھی تھی اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر کرے تو کیا کرے ۔
 آج اس کی شادی کو پورے پانچ سال ہو چکے تھے ۔ لیکن اسے ساس کا سکھ کبھی نصیب نہیں ہوا۔ 
ساس بھی کیا چیز تھی۔ وہ جب سے شادی ہو کر آئی۔ بڑے ارمان سے اپنے گھر میں قدم رکھا تھا کہ آتے ہی ساس کو لات مار کر نکالے گی۔ بات بات پر جھگڑا کرے گی۔ لیکن وہاں ایسا کیا  ہوا،
 اس کے تو نصیب ہی پھوٹ گئے ۔
ساس ہے کہ کیا بلا ہے ۔ پہلے دن سے ہی بلکہ شادی سے پہلے سے ہی اس کی کوئی بھی ایسی فرمائش  نہیں تھی جو پوری نہ کی ہو۔ شادی کے بعد گھر میں قدم رکھنے سے لے کر آج تک ہر بات میں صدقے واری جاتی تھی۔ اس نے کئی بار بدتمیزی بھی کی ، جھگڑا کرنے کا موقع بھی بننے دیا  لیکن اس عورت کی فطرت پر حیران ہوں کہ وہاں سے لڑنے کا کوئی موقع نہیں دے پا رہی تھی ۔
بھلا وہ بھی کوئی گھر ہوا ۔جہاں دو برتن ہوں اور کھٹکیں نہ ۔
یا ان کی آواز باہر نہ جائے ۔
لوگ تماشہ نہ دیکھیں اور چار عورتیں بیٹھ کر چغلیاں غیبتیں نہ کریں۔ ساس بہو  کے رشتے کا مزا ہی کیا ہوا۔ 
شادی کے پہلے ہی مہینے بھر میں اس نے جانے کیا کچھ کر کے دیکھ لیا۔
 شادی کے اگلے ہی روز ناشتے کی میز پر میں یہ کھاؤں گی اور یہ نہیں کھاؤں گی کہہ کر انہیں چڑھانے کی خوب کوشش کی لیکن ساتھ ساس صاحبہ نے کون سی چیز تھی، جو میز پر نہیں رکھی پراٹھے، پوریاں، چنے، چائے بھی اور لسی بھی اب بھلا یہاں تک کہ ڈبل روٹی بھی سینڈوچز کی صورت موجود تھی
 یا اللہ وہ نقص کس چیز میں نکالے ۔ پائے بھی نان کے ساتھ میز کی رونق بڑھا رہے تھے۔ کوئی چیز چھوڑ تو دینی تھی تاکہ وہ کہتی کہ وہ نہیں ہے تو مجھے وہ کھانی ہے۔ ابلے ہوئے اور فرائی بھی انڈے تک تو موجود تھے۔
 اس کا موڈ کچھ مکدر سا ہو گیا، لیکن کوئی بات نہیں امید پہ دنیا قائم ہے
 یہ سوچ کر اس نے دن کے کھانے اور رات کے کھانے پر نظر رکھی، لیکن نا جی ہر چیز بہترین لاجواب اس کے کہنے سے پہلے اس کے سامنے موجود تھی۔
 اس نے بھی مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔
 ساسو ماں تو جیسے کسی ٹھنڈی مٹی سے بنی ہوئی تھی۔ اس کی کسی اعتراض کے جواب میں مجال ہے جو ماتھے پر بل ڈالا ہو۔
 حالانکہ اس نے تو اچھا بھلا سنا تھا شادی کے بعد گھر میں قدم رکھتے ہی ساس اور نند کے تیوری کے بل یوں چڑھتے ہیں ۔ جیسے منڈیوں میں بھاؤ لیکن واللہ یہاں تو ساسو بیگم بچھتی چلی جا رہی ہیں۔
 اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔ 
شاید گھر میں میری کوئی نند نہیں ہے ۔
 اگر وہ ہوتی تو گھر میں کتنی رونق ہوتی۔
 ادھر سے گھوریاں پڑتیں۔ ادھر سے کان میں کھسر پھسر سنائی دیتی۔ ادھر سے اس میں کیڑے نکالے جاتے۔ یہاں سے میں ترکی بہ ترکی جواب دیتی
 واہ واہ واہ واہ سوچیئے کیا رونق ہوتی گھر میں۔ 
ساسوں ماں نے تو گھر میں اس رونق کا موقع ہی نہیں آنے دیا۔
 بیٹی شادی میں مہمان بنکر آئی تھی  اور ساتھ میں اس کو رخصت کر دیا کہ جاؤ بیٹا رات کو ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔ کل ولیمے میں ملاقات ہوگی اور اسے اپنے گھر رخصت کر دیا ۔ 
یہ کوئی بات ہوئی بھلا۔
 ذرا نہ سوچا کہ گھر میں رونق کون لگائے گا ۔
خیر میں نے بھی آہستہ آہستہ ان کی آزمائش کے امتحان لینے شروع کر دیئے۔
 اس روز تو انہوں نے اپنا پسندیدہ جوڑا استری کے لیئے رکھا تو زینیہ نے جا کر سٹینڈ پر کھڑے ہو کر زبردستی ان سے لے کر استری کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
 ساسو جی بھی ہنس کر ، 
ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری خوشی
کہہ کے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ اور میں نے آج اپنے گھر میں ایک جنگ عظیم کا ماحول بنانے کے لیئے اور اس مزے کو انجوائے کرنے کے لیئے، اس تھرل کو حاصل کرنے کے لیئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی سوچی۔
 میں جانتی تھی یہ سوٹ میری ساس کو بہت پسند ہے اور آج یہی ہمارے گھر میں رونق کی وجہ بنے گا۔
 یہی سوچ کر میں نے اس نازک سے ریشمی سوٹ کے لیے استری کو فل پہ گرم کیا اور اچھی طرح جب استری کے دھوئیں نکلنے لگے میں نے اس قمیض پر اس طریقے سے استری کو رکھا۔
 بلکہ چپکا دیا کہنا زیادہ مناسب رہیگا کہ واہ واہ واہ واہ لمحوں میں ہی تہوں کی تہوں سے کپڑا غائب ہو چکا تھا۔ پوری استری کا ڈیزائن چھپ چکا تھا اب مجھے پورا یقین تھا کہ 
      اج رولا پوے پوے 
میں نے معصوم سی شکل بنائی اور ساسو ماں کے پاس حاضری دی۔
 ممی جی، ممی جی وہ نا ، وہ نا مجھ سے غلطی ہو گئی۔
 اس نے قمیض انکے سامنے کی اور اس کے استری سے جلے سوراخ میں سے جھانکتے ہوئے بولی
 آپ کی قمیض۔۔۔۔
 ساسو ماں نے غور سے قمیض کو دیکھا اور اس کی شکل کو دیکھا۔ تھوڑا سا افسوس ان کے چہرے پہ لہرایا پھر انہوں نے اسے ایک طرف رکھ دیا۔
 کہا۔۔
 کوئی بات نہیں بیٹا تمہارا ہاتھ تو نہیں جلا
 تم تو ٹھیک ہو نا؟
 بھاڑ میں جائے قمیض۔ دیکھ دیکھ کر ویسے ہی دل بھر چکا تھا کوئی بات نہیں۔
 وہ ممی جی سٹینڈ بھی جل گیا ہے ۔وہاں بھی استری چھپ چکی ہے۔ 
اس نے مزید بم پھوڑا
 اچھا چلو دیکھ لیں گے۔ خیر ہے کوئی بات نہیں۔ تمہیں استری کرنا نہیں آتی۔ تو مت کرو۔ میں تو خود ہی کر رہی تھی تمہاری فرمائش پر تمہیں دے دیا لیکن کوئی بات نہیں۔
 ممی جی آپ غصہ تو نہیں؟
اس نے ڈرامائی پریشانی سے پوچھا
نہیں بیٹا غصے کی کیا بات ہے۔ مجھ سے بھی تو جل سکتی تھی۔ اور تمہاری نند یہاں ہوتی تو اس کے ہاتھوں سے بھی جل سکتی تھی۔ بس اس قمیض کی قسمت ہی یہیں تک تھی۔
 مجھے دل میں شدید افسوس ہوا اتنی خوبصورت قمیض کے جلانے پر ۔
لیکن اس سے زیادہ غصہ اس بات پر آیا کہ ساسو ماں کو ذرا خیال نہیں آیا کہ 
 اتنا نقصان کر دیا میں  انکا سوٹ جلا دیا ۔سٹینڈ جلا دیا ۔سٹینڈ پر پڑا کور تک جل چکا تھا اور یہ اتنی ٹھنڈی مٹی سے بنی ہے ۔
مجال ہے لڑنا تو چھوڑیں ڈانٹ ہی دیا ہو مجھے،
 تاکہ میرے دل کو تھوڑا چین آتا،  قرار آتا ۔
مجھے تو ان کی حس ساسیات پر شک ہونے لگا تھا ۔
یہ واقعی میری ساس ہیں بھی کہ نہیں ۔ ہو سکتا ہے پڑوسن ہو یہ۔
جسے میرا شوہر فیصل ساس بنا کر لے آیا ہو۔
 کھانے میں میں نے نمک زیادہ کر دیا تو خاموشی۔
 پہلے تو مجھے کھانا بنانے نہیں دیتی تھی اور جب میں نے برباد کر دیا تو بھی خاموشی ایک مسکراہٹ۔
 اس روز میں نے جان بوجھ کر باتھ روم کا نل خراب کر دیا پانی بہہ کر ساری طرف پھیلتا رہا تو خاموشی۔
 کوئی بات نہیں بیٹا مجھ سے بھی تو ہو جاتا نا ۔۔
 اور آج میں نے ان کی اتنی خوبصورت مہنگی پیاری شرٹ کو جلا دیا اور پھر خاموشی۔ پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ۔۔ 
 یار یہ کیسی خاتون ہے ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے۔
اس کے دونوں بچوں کی پیدائش کے دورانیہ میں انہوں نے اس کا انتا خیال رکھا ۔ جو منہ سے نکلا وہی پکا ۔ جہاں جانا چاہا ۔ کبھی نہیں روکا ۔ نہ جانا چاہا تو کوئی زبردستی نہیں کی۔ اس کے میکے سے کوئی بھی آ جاتا تو اس کی مثالی آؤ بھگت ہوتی۔ ہر عید تہوار پر وہ اپنے سمدھیانے میں زینیہ کے ہاتھوں ضرور کچھ نہ کچھ تحائف بھواتیں ۔ 
اس کے بچے کب گود سے نکل کر چلنے لائق ہو گئے ۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا
وہ کبھی اپنے بچوں کے لیئے راتوں کو نہیں جاگی۔ یہ کام بھی اس کی ساس نے مسکراتے ہوئے خوشی خوشی اپنے ذمے لے لیئے ۔ 
بچے اپنی دادی پھوپھو کی محبت میں اس قدر تمیز دار تربیت یافتہ کہ بچوں کی ننھیال بھی انکی مثال دیا کرتی۔ 
لیکن اس پانچ سال کے عرصے میں اس کے دل میں کپتی جھگڑالو بہو بننے کے سارے ارمان آنسو بہاتے رہے۔ 
آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اتنی روکھی پھیکی زندگی جینے میں کیا مزا ہے۔
 نہ زندگی میں کوئی اونچی آواز ہے نہ ہنگامہ ہے نہ شور نہ شرابہ ۔ نہ کوئی جھگڑا، نہ ہی رونق رہ گئی میری زندگی میں۔
 یا اللہ جنہیں چاہیئے ان کو ایسی ساس دیتا ۔
میں نے تجھ سے کب مانگی تھی ایسی ٹھنڈی امن کی فاختہ ساس۔ میں تو کسی چڑیل ساس سے مقابلے کی پوری تیاری اور ارمان کیساتھ اس گھر میں نازل ہوئی تھی ۔
 لیکن آج پانچ سال کے صبر کے بعد میں نے فائنل فیصلہ کر لیا تھا مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا اس نے جب فیصل کو یہ بات بتائی تو وہ ہکا بکا ہو گیا 
کیا مطلب تمہاری اس بات سے۔۔۔
 کیا تکلیف ہے تمہیں یہاں۔
 ہر چیز تمہیں کہنے سے پہلے میسر ہے میری ماں جھگڑا کرنے والی نہیں۔ فساد کرنے والی نہیں۔ مقابلہ کرنے والی نہیں۔
 یہی یہی یہی تو تکلیف ہے مجھے کہ کیوں نہیں، کیوں نہیں کیا میرے ساتھ یہ سب کچھ
 کیا میں گھر کی بہو نہیں۔
 کیا میں تمہاری بیوی نہیں۔
 کیا وہ واقعی تمہاری ماں نہیں۔
 کیا وہ میری ساس نہیں۔
 تو پھر کیا وجہ ہے کہ مجھے یہ ساری سہولتیں میسر نہیں۔
 او مائی گاڈ۔۔ کون سی سہولتیں۔ کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ اس قسم کی سہولتیں۔یہی جو ابھی آپ نے بتائی

ہر چیز وقت پر میسر ہے ۔کہنے سے پہلے ہر چیز موجود ہوتی ہے ۔کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کرتا۔ کوئی چک چک نہیں ۔کوئی چخ چخ نہیں ۔کوئی ہنگامہ نہیں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے بھلا ۔نہ کوئی ڈانٹا ڈپٹ ۔  لڑائی نہ جھگڑا۔
 لے دے کر ایک نند سے امید ہوتی ہے کہ وہ آئے گی۔ تھوڑا سا گھر میں مرچ مصالحے کا تڑکا لگے گا۔
 وہ بھی آتی ہے ۔سب کچھ ہیپی ہیپی ہوتا ہے اور وہ دو چار گھنٹے رک کر سب کچھ گولو گولو کر کے نکل جاتی ہے ۔
نہ کسی چیز میں وہ نقص نکالتی ہے ۔نہ جھگڑا کرتی ہے۔ کیونکہ آپ کی اماں ایسا نہیں چاہتیں۔
 انہیں تو پسند ہی نہیں کہ میں خوش ہوں ۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
 اماں ایسی ہیں؟
 کیسی ہیں اماں؟
یہی کہ اگر وہ خود نہیں لڑتیں جھگڑتیں۔ اعتراض کرتیں۔ تو بیٹی کو ہی کہتیں۔ انہیں ہی تھوڑی پٹی پڑھا کر میرے آکے چھوڑ دیا کریں کہ جاؤ جا کر اس کے ساتھ یہ اعتراض کرو ۔یہ نقص نکالو۔ گھر میں کوئی ہلہ گلہ ہو، رونق ہو، کوئی تھوڑا سا شور شرابہ ہو،
 اتنا ٹھنڈا گھر مجھے نہیں رہنا۔ اتنے ٹھنڈے گھر میں ۔
مجھے ہنگامہ چاہیئے۔ ہلچل چاہیئے شور چاہیئے ۔
زینو مجھے لگتا ہے تمہیں کسی ماہر نفسیات سے یعنی سائیکیٹرس کو ملنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ساری علامات نارمل نہیں ہیں۔ لوگ سکون چاہتے ہیں ۔ خاموشی چاہتے ہیں۔  امن چاہتے ہیں اور تم  انہی سے الرجی ہو۔
 یہ سب کچھ تھا تو تم شادی سے پہلے بتاتی تاکہ ہم سوچتے ہمارے گھر کا آئیڈیل ماحول، محبت کرنے والا ماحول تمہیں راس نہیں آ رہا۔ یہ زیادتی ہے۔
 تمہیں ایسا ماحول میں کہاں سے لا کر دوں۔
 اس کی ساس جو دروازے کے باہر اس کی آواز میں اپنا ذکر سن کر ٹھٹک چکی تھیں۔
 یہ سب سن کر مسکرائی اور الٹے پیروں واپس کچن میں جا چکی تھیں۔
 انہوں نے وہاں جا کر کچھ سوچا ان کی مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔
 انہوں نے اپنی تیوری پر بل چڑھائے اور آواز دی۔
 زینو زینو بیٹا کچن میں آؤ
  ان کی اواز سن کر اور تھوڑی سی نارمل سے ہٹ کر آواز سن کر زینیہ حیران تھی 
وہ کچن کی جانب چل دی ۔
جی ممی جی۔۔
کیا کر رہی تھیں 
کچھ نہیں ممی جی بس یونہی۔ فیصل سے بات کر رہی تھی۔
 ٹھیک ہے فیصل کام پر چلا گیا
 جی ممی جی۔
 تو اب تم بھی کام پر لگ جاؤ ۔۔
جی ممی جی
 کیا کام کرنا ہے۔
 یہ کچن کے برتن نکالو اور ان کو اپنی جگہ پہ ٹھیک سے دوبارہ سے صاف کر کے رکھو۔
 لیکن ممی جی یہ تو ٹھیک ہیں
 تو پھر سے ٹھیک کر دو
 لیکن ممی جی اس کی ضرورت نہیں ۔
جب میں نے کہا ضرورت ہے ۔تو ہے۔
 اس نے ذرا سخت لہجے میں کہا زینیہ کے دل میں خوشی سے باجے بجنے لگے
 ارے واہ آواز اونچی ہو رہی ہے۔ شور ہو رہا ہے اور ضد کی جا رہی ہے۔۔۔
 واہ واہ واہ واہ کیا مزیدار ماحول ہے ۔
یہی تو۔۔۔ یہی تو مجھے چاہیئے تھا 
 ساسو جی نے اپنی تیوری پہ بل چڑھائے اس کے ہاتھ میں صفائی کے لیئے کپڑا پکڑا کر وہاں سے یہ کہتے ہوئے روانہ ہو گئی کہ
 یہ سارا صاف ہونا چاہیئے۔ بہت ہو گیا آرام۔ گھر ہے کوئی ہوٹل نہیں ہے یہ۔ 
کہ  دوسرے کام کرتے رہیں گے ۔چلو شاباش
 ارے واہ اور میں کوئی آپ کی نوکرانی ہوں کہ میں یہ سارے کام کروں۔ اس نے بھڑک کر لڑتے ہوئے ہاتھ نچا کر کہا
 کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔
جو لوگ اپنے گھر میں کام کرتے ہیں۔ وہ نوکر ہو جاتے ہیں۔ میں یہاں صبح سے شام تک اپنی جان کھپاتی ہوں۔ تو کیا میں نوکرانی ہوں یہاں کی ۔
ایک لمحے کے لیے زینیہ کچھ پریشان سی ہوئی لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس نوک جھونک سے لطف لینا شروع کر دیا ۔
پورا کام ختم کرو۔ ابھی تو سالن بھی چڑھانا ہے۔۔
 واہ واہ واہ واہ اور ہاں مشین میں کپڑے ڈال لینا ۔
ہفتہ بھر سے مشین میں کپڑے نہیں ڈلے۔۔
 ارے واہ واہ واہ واہ تکرار تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ زینیہ کا دل بھنگڑے ڈال رہا تھا۔
 اب لگا نا کہ میں کسی گھر میں ہوں۔ کیا بات ہے واہ واہ واہ ساسو ماں بھلا ہو آپ کا۔
 اس کے دل نے پکارا اور اسی بحث بازی میں وہ کپڑا اٹھائے کچن کی الماری کو درست کرنے لگی ۔ نوک جھونک جاری تھی۔
 اس نے سب سے پہلے موبائل اٹھایا اور فیصل جو پریشان گھر سے نکلا تھا یہ سوچ کر کہ زینیا گھر چھوڑ کر چلی گئی ہو گی۔
 اس کی کال دیکھ کر فورا فون اٹھایا۔
 ہاں زینیا کیا ہوا ۔
فیصل آپ آرام سے آفس جائیں اور آرام سے کام کیجیئے 
 کیوں سب ٹھیک ہے نا
 اجی ٹھیک ؟ ٹھیک سے بھی ٹھیک میرے دل کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے .جائیے اور بے فکر ہو جائیے .
مجھے اب اسی گھر میں رہنا اور ساسو ماں منظور ہیں۔ منظور ہیں۔ منظور ہیں۔ 
اس نے کہہ کر قہقہہ لگایا اور فون بند کر دیا
فیصل بیچارا خوشی اور حیرت کے میلے جلے اثرات اور کچھ پریشانی یکجا کیئے ہوئے فون کو دیکھتا رہ گیا ۔
اب یہ کیا تھا
 لیکن زینیہ نہیں جا رہی اس کے لیئے یہی کافی تھا۔
 زینیہ کے لیئے یہ گھر اس کے خوابوں کا عام سا گھر بن چکا تھا۔ 
ساسو ماں نے اپنی سمجھداری سے اسے روز ایک نیا ڈرامہ کرنے کا موقع خوشی خوشی فراہم کر دیا تھا۔
 اب سب ٹھیک ہے۔ 
میں بہت خوش ہوں ۔ میرے گھر میں ہر روز رونق لگتی ہے اور میں اسے انجوائے کرتی ہوں۔
 ہیپی سسرال 😜
                  ------
            







جمعرات، 4 اپریل، 2024

* دوا ہو جا ۔ اردو شاعری ۔ حمد۔ اور وہ چلا گیا

حمد باری تعالی
دوا ہو جا
کلام:
(ممتازملک۔پیرس)

تو میرے درد کی دوا ہو جا
آسرا چاہوں آسرا ہو جا

 ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا 
صرف میرا میرے خدا ہو جا

 میرے پلے رہے گا کیا مولا
 تو جو مجھ سے اگر خفا ہو جا

جو گنوایا ہے میں نے رستے میں
مجھکو مل جائے راستہ ہو جا

تجھ کو کرنے کو راضی جو مجھ سے 
خود بخود ہو گئی ادا ہو جا

 ناداں ممتاز کو سکھا دیجیئے 
کس طرح رب پہ تو فدا ہو جا
-----
نوٹ!
(ممتازملک کی اپنی پنجابی نعت کا اردو ترجمہ)

جسم پردہ ۔کالم

بے راہ رو معاشرہ
تحریر:
     (ممتازملک.پیرس)


ہم عمومی طور پر جنسی بے راہ رو معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہاں پر عورت کو بچپن ہی سے اپنی حفاظت کے لیے خود کو ایک لبادے میں رکھنا ضروری ہے ۔ وہ نام نہاد آزادی پسند عورتیں جو موم بتیاں اور بینر لے کر خاص خاص مواقعوں پر بھاشن دینے کے لئے ،غیر ملکی پیسوں کے زور پر آوارگی کے  جھنڈے لے کر نکلتی ہیں ۔ ان کا نہ کسی دین سے تعلق ہے ، نہ معاشرت سے۔ وہ پیسے کے لیئے اپنی ہر قیمت لگوانے کو تیار رہتی ہیں۔ لیکن اس معاشرے کی عام عورت کو اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے تو اسے اپنے مذہبی اور معاشرتی دائرے میں واپس آنا ہوگا۔ ایک لبادہ، ایک جبہ، چاہے وہ برقعہ ہو، چاہے وہ چادر ہو، اسے اپنے اوپر اوڑھ کر باہر نکلنا ہوگا۔ تاکہ وہ ان بے راہ روی کا شکار جنسی ہیجان میں مبتلا ذہنی طور پر عیاش مردوں کے معاشرے میں خود کو کوئی اشتہار، کوئی سویٹ ڈش، بنا کر ان کے سامنے نہ پروسے۔ ان کے اندر کا شیطان آپ کی باتوں میں یہ کہنے سے کہ "پردہ تو دل کا ہوتا ہے " کیا خدا کو چیلنج نہیں کرتا۔ آپ کا دل کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن آپ کا جسم سب کی نظروں میں شکار بنتا ہے۔ روز روز کے حادثات، روز روز کے واقعات، جنسی حملوں کی آئے دن کی وحشت ناک خبروں کے باوجود، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پردہ بس دل کا ہی کر لینا ہے اور اللہ تعالی کے احکامات کا مذاق اڑا کر آپ محفوظ رہیں گے تو معذرت کے ساتھ ، نہ ہمارے ملک کے لوگ ابھی اس قابل ہیں اور نہ ہمارے ہاں کے مرد یورپ کے ان مردوں کی مسابقت کر سکتے ہیں۔ جو بے لباس عورت کو بھی جاتے دیکھ کر کبھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ہمارے مردوں کو ان تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی صدیاں لگیں گی۔ لہذا اتنے عرصے تک عورت اپنے آپ کو نہ ان کے لیئے مارکیٹ کرے گی اور نہ ہی گاجر مولی بنا کر پیش کرے گی۔ اپنی حفاظت آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے حدود کے اندر رہ کے ہی کرنی ہوگی اور اللہ کے احکامات کے لیئے آپ کو اللہ سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ حفاظت انکساری اور عاجزی کے ساتھ حکم کو مان لینے میں ہے۔
سو بھڑوں کے جس چھتے میں ہماری عورت رہتی ہے۔ اسے ان کے ڈنگ سے بچنے کا انتظام ان بھڑوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے غیر فطری اور غیر حقیقی مطالبات کرنے کے بجائے خود کو باحیا لباس میں اور ایک جبے یا عبایا کے حصار میں لانا ہو گا۔ 
اور کسی عبایا یا برقعے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے جسم کے خد و خال کو پوشیدہ رکھے اور اپ کو نمایاں نہ ہونے دے جبکہ آج کل جس قسم کے عبایا اور برقعوں کے نام پر جو کچھ خواتین پہن رہی ہیں وہ بھی برقعے اور عبایا کے نام پر ایک تہمت بنا دی گئی ہے ۔ اتنا کام اس قدر ذری اور اس قدر اس کے اوپر کڑھائی اور کشیدہ کاری کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے نہیں بھی دیکھنا تو وہ جاتے جاتے مڑ مڑ کر اسے ضرور دیکھے گا۔ جیسے کوئی عبایا نہ ہوا دلہن کا کوئی لباس ہو گیا۔ جو ہر کسی کو دیکھنا لازم ہے۔ اور وہ دیکھنا چاہے گا ۔ برائے مہربانی عبایا یا برقعہ کا مقصد اپنے آپ کو غیر نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ نمایاں نہیں کرنا ۔ تو ڈھیلا ڈھالا ایک سادہ سا موسم کے حساب سے ملبوس اپنے کپڑوں کے اوپر اوڑ لیا جائے اور چادر سے بہتر اس لیئے ہوگا یہ کہ آپ کا ہاتھ اپنا کچھ سامان بیگ وغیرہ اٹھانے کے لیے خالی رہے گا اور آپ کو اسے چادر کی طرح زیادہ سنبھالنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
آپ کا جسم اللہ کی جانب سے دی گئی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت آپ کا فرض ہے ۔ اور آپ اسکے لیئے پروردگار کو جوابدہ بھی ہیں۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔

پیر، 1 اپریل، 2024

دعا سے پہلے ۔ کالم


ذرا ٹھہریئے 
دعا🤲 سے پہلے 
غور کیجیئے
تحریر ۔
(ممتازملک۔پیرس)

بطور ایک کم علم مسلمان کے میری درخواست ہے کہ کسی بھی مسلمان کی مغفرت کی دعا🤲 ضرور کریں لیکن اس کے درجات کی بلندی کی دعا کبھی مت کریں۔
 کیونکہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کون اللہ تعالی کے ساتھ کن معاملات میں کس درجے پر ہے۔
 اگر تو وہ اچھے درجے پر ہے ۔ پھر تو اسے انعام اور ثواب اور زیادہ ملے گا ۔
لیکن اگر خدانخواستہ وہ کسی گناہ میں کسی پکڑ میں ہے تو اس دعا کے بدلے کے اسکے اس درجے کے عذاب کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ 
اس لیے برائے مہربانی صرف مغفرت کی دعا کیا کیجئے۔ کیونکہ نہ ہم کسی کی نیتیں جانتے ہیں۔ نہ کسی کے مکمل اعمال۔ تو ہماری کسی دعا کی وجہ سے کوئی آدمی کسی پکڑ میں نہ آ جائے۔ اللہ پاک سے اس مرحوم یا مرحومہ پر رحم و کرم کی ہی پرزور دعا کی جانی چاہیئے ۔
درجات کی بلندی کی دعا صرف اور صرف پیغمبروں اور انبیاء کرام کے لیئے ہی ہوتی ہے کیونکہ صرف وہی اللہ کی جانب سے گناہوں سے پاک قرار دیئے گئے ہیں ۔ 
 بہت شکریہ۔
            ---

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/