ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 30 مارچ، 2024

تبصرہ برائے بیباک ڈیروی ۔ تبصرہ

تبصرہ برائے
بیباک ڈیروی
ڈی جی خان

ملک محمد ظریف تخلص بے باک ڈیروی اس شاعر کا نام ہے، جنہوں نے پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کا نام اردو اور سرائیکی شاعری میں بلند کرنے کی ٹھانی ۔   مزاحیہ شاعری اور نثر کے ذریعے اپنے لکھنے کے شوق کو نکھارا ۔
 ان کی دو کتابیں اب تک منظر عام پر آ چکی ہیں اور پذیرائی پا چکی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کا زیادہ تر مواد مزاحیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ وہ مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں لے کر آگے چلتے ہیں اور گھریلو معاملات اور پریشانیوں کو ہلکے پھلکے پیرائے میں بیان کرنا خوب جانتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لیے میری بہت سی دعائیں 
ممتاز ملک
 پیرس فرانس
( شاعرہ  کالمنگار نعت خواں۔ نعت گو۔ نظامت کار)

ہفتہ، 23 مارچ، 2024

اے عشق ولی کر دیندا اے۔ پنجابی۔ اکھیاں نمانیاں کلام ۔ صوفیانہ کلام


     اے عشق ولی کر دیندا اے 
            (کلام/ممتازملک۔پیرس)



اے عشق ولی کر دیندا اے 
اے عشق ولی کر دیندا اے

کی کرنا دعویداراں دا
کی کرنا اے بیماراں دا
جد من دا پیتل میلا ہوئے 
اے عشق قلعی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے 

جد راہ کسے تھاں کھوٹی ہوئے
جد دل دل بوٹی بوٹی ہوئے
جد بند ہون سارے رستے تے 
اے عشق گلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے 

قسمت دی ہر تحریر مٹے
 جو کی جائے تدبیر مٹے
 مٹدی مٹدی تحریراں نوں
 اے عشق جلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے

جد پیار ہر ایک نوں جان دا اے
رونا ہی اوس دی آن دا اے
  ہر خواہش نوں ہر راحت نوں
اے عشق بلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے

انج موت دے بستر تے سوئے
 کہ خوف وی اپنے تے روئے
 دنیا چہ نہ آیا کوئی ایسا
 اے عشق علی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے 
اے عشق ولی کر دیندا ہے
-----


جمعہ، 22 مارچ، 2024

پر کیف ہیں ہوائیں۔ اردو نعت۔ خمار مدینہ

پر کیف ہیں ہوائیں
 اردو نعت

ایسے حسین نظارے پرکیف ہیں ہوائیں
 لاکھوں کرم سمیٹیں آقا کے شہر جائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہاں ہوائیں

وہ ہی دکھائی دیں گے ہم جس جگہ کھڑے ہوں
 محسوس ہوں وہیں پر دل کو جہاں بٹھائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

آنکھوں کو چین ملتا ٹھنڈک پڑے کلیجے
آنسو نہیں ہیں رکتے جب حال دل سنائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

غم کے سمندروں سے ممتاز وہ نکالیں
ملتا سکون دل کو قدموں میں جب بٹھائیں 
پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں
-----

جمعرات، 21 مارچ، 2024

ویران حویلیوں میں بستے بھوت۔ کالم

  

   ویران حویلیوں میں بستے    بھوت
 تحریر :  (ممتازملک۔ پیرس)


ہمارے ملک کے  بہت سے گاؤں اور چھوٹے چھوٹے علاقے جہاں سے آئے ہوئے لوگ یورپ اور امریکہ میں دن رات محنت اور مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو آج بھی یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں دو دو تین تین کمرے کے اکثر سرکاری فلیٹوں  میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو انہوں نے وہ لائف سٹائل نہیں دیا جو انہیں پسند ہے۔ لیکن جن علاقوں سے یہ آئے ہیں۔ وہاں پر بڑی بڑی شاندار حویلیاں اور نت نئے ڈیزائن کی کوٹھیاں بنا کر اپنے بچپن کے احساس کمتری اور احساس محرومی کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سفر میں انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال 50 سال گنوا دیئے۔ اپنی زندگی بھر کی ساری کمائیاں پیچھے بڑے بڑے گھر بنانے میں لگا دیں۔ وہ گھر جو ویران حویلیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کوئی نہیں رہتا۔ جہاں صرف ان کے بچپن کے ادھورے خواب اور ناآسودہ خواہشیں دفن ہیں، لیکن وہاں دوسروں کو دکھانے کے لیئے انہیں ہر بننے والے گھر سے بڑا گھر چاہیئے۔ ہر پڑوسی سے بڑی گاڑی چاہیئے، لیکن کس کے لیئے؟ ان گھروں میں آباد بھوتوں کے لیئے. انہیں کون بتائے کہ گھر دیواروں سے نہیں بنتے، گھر گھر کے لوگوں سے بنتے ہیں۔ کتنی بدنصیبی کی بات ہے جہاں آپ کے گھر کے افراد اور لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں آپ نے سہولتوں کا فقدان کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ انہیں ترس ترس کے جینے پہ مجبور کر رہے ہیں اور جہاں کوئی رہنے والا نہیں، وہاں بھوتوں کے لیئے بڑے بڑے بنگلے بنا کر دیئے۔ آپ میں  ایسے لوگ، جو اس قسم کے خلجان میں مبتلا ہیں، انہیں پہلی فرصت میں ضرور کسی اچھے ذہنی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ کوئی نارمل بات نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی آدمی جہاں رہتا نہیں، وہاں پر اتنے بڑے بڑے بے مقصد گھروں پر اپنی ساری زندگی کی اپنی 18، 18 گھنٹے کی کمائیاں، یہاں تک کہ اپنی پینشنیں بھی لگا رہا ہو، جبکہ جہاں اس کے بچے آباد ہوں، جہاں اس کا اپنا مستقل ٹھکانہ ہو، جہاں اس نے سال کے 11 مہینے رہنا ہو، وہاں پر وہ مفلوک الحال لوگوں جیسی زندگی گزار رہا ہو اور اگر  مفلوک الحال سے ایک قدم اوپر اٹھ جائیں تو بمشکل ایک لوئر مڈل کلاس کی زندگی گزارتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ان لوگوں کو احساس دلایا جائے۔ ان کی وہ ذہنی کمیاں ، کوتاہیاں دور کرنے میں ان کی مدد کی جائے اور انہیں یہ بات سمجھنے کے لیئے تیار کیا جائے، راغب کیا جائے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں پر اپنی آمدنی، اپنے اخراجات اور اپنے لائف سٹائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے پر اپنی کمائی کو خرچ کرنا چاہیئے۔ اس کمائی کا کیا فائدہ جو آپ کے اپنے گھر والوں، اپنے بیوی بچوں کے کام نہ آ سکی، اور ساری زندگی کے لیئے آپ نے اپنی کمائی ویران حویلیوں کے نام پر ایک خاموش قبرستان میں جھونک دی۔ آج آپ کے مرنے کے بعد آپ کا کوئی بچہ یورپ امریکہ سے اٹھ کر ان ویران حویلیوں کو آباد کرنے نہیں جائے گا اور آپ کی ساری عمر کی کمائی 50 سال 60 سال 70 سال کی کمائی اس دلدل میں ڈوب گئی۔ آپ نے کہیں کسی سے دعا نہیں لی۔ ان ویران حویلیوں کے بجائے یا تو وہاں کوئی ہسپتال بناتے، بوڑھوں کے لیئے کوئی سینٹر بنا دیتے , کوئی یتیم خانہ بنا دیتے, کوئی سکول بنا دیتے, کوئی ڈسپنسری بنا دیتے, کوئی ہنر سکھانے کا ادارہ بناتے تو شاید کوئی صدقہ جاریہ اور دعا کی جگہ آپ کے مرنے کے بعد بھی رہتی ہے اور دنیا میں بھی آپ کو یاد رکھا جاتا، لیکن اتنے بڑے بڑے گھر اور حویلیاں بنانے کے بعد آپ کو اس دنیا سے جانے کے بعد کون یاد کرے گا۔ ہمارے معاشرے کے گھٹیا دستور کے مطابق آپ وہاں پکارے تو اسی نام سے جائیں گے کہ دیکھا بھئی موچیوں کے منڈے نے بھی کوٹھیاں بنا لی ہیں ۔ سنا تم نے نائیوں کا بیٹا بھی بنگلہ بنا رہا ہے ۔ دھوبیوں نے بھی حویلی خرید لی ہے ۔ ۔۔۔
جبکہ دراصل بھوت پریت جنات  کے بسیرے کے لیئے تو آپ نے ٹھکانے بنائے اسکے بجائے آپ زندہ انسانوں کے بسیرے یا مفاد کے لیئے ٹھکانے بناتے تو وہ انسان آپ کو یاد بھی رکھتے۔
 حقیقت میں یہاں آپ کی وفات کے بعد آپ کے بچے یا ان کے بچے آپ کے جنازوں کے ساتھ اس لیئے نہیں جاتے کہ آپ کے جنازے کو مٹی دینا ضروری ہے۔ بلکہ اس لیئے جاتے ہیں کہ وہاں جلدی سے جلدی اسی گرما گرمی میں ان ساری زمینوں، حویلیوں، دکانوں کا ریٹ لگا کر فوراً سے پہلے انہیں بیچ کر ان پریشانیوں سے بچا جا سکے جو وہاں ان زمینوں، جائیدادوں اور گھروں کو چھوڑنے کی صورت میں قبضوں اور پھر قانونی کاروائیوں کی صورت میں نئے جھمیلے تیار کئے جا سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ لوگ یہاں آ کر اتنی لمبی قانونی لڑائیوں میں پڑ کر مزید اپنی زندگیاں کمائیاں تباہ نہیں کر سکتے اور یہاں رہنے کے حالات ان کے لیئے ویسے ہی موزوں نہیں ہوتے۔ اس لیئے وہ انہیں اونے پونے بیچ کر بھی نکلنا مناسب سمجھتے ہیں۔
 اپنے سوچنے کا نظریہ بدلیئے اور اپنے آپ کو قیامت تک کے لیئے دنیا میں آیا ہوا مت سمجھیں۔ اپنی زندگی کو اس غم میں غرق نہ کریں کہ فلاں جگہ میرے خواب ادھورے رہ گئے اور میں وہاں مکمل کرنے کے لیئے جاؤں گا اور اگلے 20 سال میں یہ کروں گا اور اگلے 40 سال میں یہ کروں گا۔ زندگی کی اگلی گھڑی کا کوئی اعتبار نہیں۔ زندگی وہی ہے جو آج آپ گزار رہے ہیں۔ آنے والے لمحے میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اور جو کل گزر چکا ہے۔ وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ نہ ہم اسے واپس لا سکتے ہیں۔ نہ ہم اس میں جا کر اسے بدل سکتے ہیں۔ تو پھر بے وقوفوں کی طرح سانپ گزر جانے کے بعد اس لکیر کو پیٹنے کا کیا فائدہ۔ ماضی وہ سانپ ہے جو گزر چکا ہے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے نشان چھوڑ کر۔ اسے جانے دیجیئے۔ اگے بڑھئیے۔ زندگی آج میں جی کر آنے والے وقت کے لیئے کچھ ایسا کر کے جائیئے۔ جو آپ کو آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی اچھے ناموں کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ 
نائی، موچی، دھوبی کے بنگلے دیکھ کر انکی تضحیک اور تمسخر اڑانے والے ان کے بنائے سکول، ہسپتال، کارخانے اور فلاحی ادارے دیکھ کر عقیدت سے نظریں جھکانے پر مجبور ہو جائیں اور انہیں سلام پیش کریں کہ جو کام وہاں کے مقامی مخیر حضرات سارے وسائل ہونے کے باوجود نہ کر سکے ان چھوٹے گھروں کے مفلس لوگ پردیس کاٹ کر ، اپنی حق حلال کی کمائیوں سے وہاں کر گئے۔ تاریخ میں مشہوری تو تاج محل بنانے والے کو بھی ملی، لیکن عزت کنگ ایڈورڈ اور کملا دیوی جیسے ہسپتال بنانے لوگ والے لوگوں نے ہی پائی۔ تو اپنی زندگی کے مقاصد میں مشہور ہونے سے زیادہ عزت کمانے کو ترجیح دیجیئے اور عزت ان کاموں سے ملتی ہے، جس سے معاشروں میں لوگوں کو آسانیاں اور روزگار میسر ہو سکیں ۔
                   -------

        
          

پیر، 18 مارچ، 2024

* نبھانے والے. اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


ساتھ نبھانے والے 
کلام:ممتازملک۔پیرس

اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے
میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتاتے والے

مانگ کے جن کے شب و روز گزر جاتے ہیں
خود سے ہو سکتے نہیں نام  کمانے والے 

دل میں تیرے چھپی خواہش کے سراپے جیسی
اک حسینہ سے شباہت میں  ملانے والے

زندہ رہنے کی کچھ امید تو بندھ جاتی تھی
چاہے جھوٹے ہی سہی خواب
دکھانے والے

    خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
ساتھ کیا دینگے  نظر مجھ سے چرانے والے

ہم خفا ہو کے بہت دور نکل جاتے ہیں
دیر کر دیتے ہیں اکثر ہی منانے والے

اے تصور تیرے انداز انوکھے کب تھے 
زخم تو نے بھی دیئے ہم کو زمانے والے 

ہم تو ممتاز سمجھتے ہیں اسی کو ہیرو
ڈوبنے والے کو ہر طور بچانے والے
      -----

اتوار، 17 مارچ، 2024

رضی امروہوی کی یاد میں ۔

رضی امروہوی (علیگڑھ ۔انڈیا)
کی یاد میں
وفات : 16 مارچ 2024ء

اتنی خاموشی سے زمانے سے 
ہم نے جاتے کسی کو کب دیکھا

مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا 
رضی امروہوی کو جب دیکھا
 
بات سنجیدہ ہو یا شوخی کی 
شہسوار فن ادب دیکھا 

اپنا ممتاز یہ رہا اعزاز
ساتھ تھوڑا تھا پر غضب دیکھا

مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا 
رضی امروہوی کو جب دیکھا
                 ------

جمعہ، 15 مارچ، 2024

پر کیف نے ہواواں ۔ پنجابی نعت۔ اکھیاں نمانیاں


پر کیف نے ہواواں 
پنجابی نعت

ایسے حسیں نظارے پر کیف نے ہواواں
لکھاں کرم سمیٹاں آقا دے شہر جاواں 
پرکیف نے ہواواں ، پر کیف نے ہواواں 

اوہی دکھائی دیندے میں جس جگہ کھلوواں 
محسوس ہون اوتھے دل نوں جتھے بٹھاواں
 پر کیف نے ہواواں ، پرکیف نے ہواواں 

اکھاں نوں چین ملدا ٹھنڈ پیندی اے کلیجے
اتھرو میرے نہیں رکدے جد حال دل سناواواں
پرکیف نیں ہواواں ، پرکیف نے ہواواں 

غم دے سمندراں چوں ممتاز نوں او کڈدے
 ملدا سکون دل نوں قدماں چہہ تھاں جو پاواں 
پر کیف نے ہواواں، پرکیف نے ہواواں
------

 پر کیف ہیں نظارے
 اردو نعت


ایسے حسین نظارے پر کیف ہیں ہوائیں
 لاکھوں کرم سمیٹیں آقا کے شہر جائیں
 پر کیف ہیں ہوائیں پر کیف ہیں ہاں ہوائیں

وہی دکھائی دیں گے ہم جس جگہ کھڑے ہوں
 محسوس ہوں وہیں پر دل کو جہاں بٹھائیں
 پر کیف ہیں ہوائیں پر کیف ہیں ہوائیں

انکھوں کو چین ملتا ٹھنڈک پڑے کلیجے
آنسو نہیں ہیں رکتے جب حال دل سنائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

غم کے سمندروں سے ممتاز وہ نکالیں
ملتا سکون دل کو قدموں میں جب بٹھائیں 
پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں
-----

اتوار، 10 مارچ، 2024

عیاں ہو گئے۔ پنجابی کلام ۔ نعت۔ اکھیاں نمانیاں


عیاں ہو گئے

راز کتنے جہاں تے عیاں ہو گئے
عقل دے سارے پردے اتاں ہو گئے

رب نے گل کوئی چھوڑی ادھوری کدی
مصطفی دی زباں توں بیاں ہو گئے

اوس ویلے تیکر نہ سکوں پا سکے
کفر دے معاملے نہ نہاں ہو گئے

آپ دی دوستی دے علاوہ سبھی 
دوستاں کولوں دل بد گماں ہو گئے

آپ دی اک نگاہ کرم پے گئی
جو زمین تو اٹھے آسماں ہو گئے

جد قدم ودھ گئے رب دے محبوب ول
منزلاں دی طرف دے نشاں ہو گئے

سوہنے محبوب نوں کی مکاناں دی کی لوڑ
او تے جنت نیں  جنت مکاں ہو گئے

سوہنے محبوب اسوہ جو چھڈ کے گئے
بے ایماناں دے لئی امتحاں ہو گئے 

۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 7 مارچ، 2024

26سال۔ کالم



26 سال۔۔۔۔ 
دھواں نہیں اجالا
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)


26 سال کا ایک طویل عرصہ آج مجھے فرانس میں رہتے ہو گیا ہے۔ آج کے دن 7 مارچ 1998ء بروز ہفتہ پی آئی اے کی فلائٹ سے جب اپنے گھر سے چلی تھی تو میری ماں تھی ، بھائیوں سے بھرا ہوا گھر تھا ۔ خوشیاں تھیں۔   بہت سی امیدیں تھیں اور پھر ایک سال میں ہی ماں کے دنیا سے جانے کی خبر سنی۔ دیکھ نہیں سکی۔ پھر اپنے بھائیوں کے گھر بستے دیکھے۔ کسی میں جا سکے، کسی میں نہیں ۔ ڈولیاں اترتی نہیں دیکھ سکے۔ ان 26 سالوں  میں فرانس میں فرانک سے یورو تک سفر کیا ۔تنخواہ سے اپنی کمائی تک اور پھر اپنی کمائی سے تنخواہ تک۔ ایک یورو کی چیز کو تین یورو تک ہوتے دیکھا۔
اداروں کو بنتے ہوئے دیکھا۔ بگڑتے ہوئے دیکھا۔ کئی جنگوں کے احوال سے اس ملک کو متاثر ہوتے دیکھا۔ عالمی جنگ کے خطرات کو محسوس کیا۔ کئی سال سے "زیلے جون" نامی تنظیم کا مہنگائی کے خلاف رونا دیکھا۔ کئی وزارتیں بدلتے ہوئے دیکھیں۔
 یہاں پر ایک نسل کو جوان ہوتے دیکھا۔ والدین اور اس کی نئی نسل کے تضادات کو دیکھا۔
انکے خیالات کو  بدلتے دیکھا۔ میں نے لچکدار لوگوں کو بے حد کرخت ہوتے دیکھا اور بے لچک لوگوں کو نرم خو ہوتے دیکھا۔ ایک چوتھائی صدی گزارنے کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کے درمیان تقابلے جائزہ لے سکیں ۔ جب آپ عوامی طور پر زندگی گزارتے ہوئے اور اسے پاکستان سے جوڑ کر دیکھیں تو وہاں کے حالات کے اثرات یہاں پر اپنی کمیونٹی پر دیکھیں۔ پاکستان میں ہونے والے وہاں کی مہنگائیوں، وہاں کے ہنگاموں، وہاں والی دہشت گردیوں، وہاں کی سیاست کو لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہیں پاکستان کے غم میں تڑپتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگوں کو جہان سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر کی یہ صلاح سنی کہ اپنے ملک سے رابطہ توڑو گے تو سکون میں رہو گے۔ جہاں رہتے ہو وہاں جیو۔
 لیکن
 دل ہے کہ مانتا نہیں۔۔۔
 اسے ہر وقت  ہی اس ملک کی خبریں چاہئیں۔ کیوں چاہیں؟ یہ خود بھی نہیں جانتا۔ اس ملک میں ہم نے جوانی سے بڑہاپے تک کا سفر طے کیا۔ تو گود کے بچوں نے گود سے جوانی تک کا سفر طے کیا۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے اب ہمیں رستہ دکھا رہے ہیں ، سمجھا رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔ اس میں انہیں برا نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں ان کی ہم سے محبت جھلکتی ہے۔ جیسے ناہنجار اولادیں ہوتی ہیں یقین کیجئیے والدین بھی ناہنجار ہوتے دیکھے ہیں۔ جو اچھے لفظوں کو بھی برے پیرائے میں بیان کرتے ہیں ۔
 جو ہماری اولادوں کی ہمارے لیئے  فکر کو ان کی نافرمانی میں شمار کر دیتے ہیں۔ اسے ان کی گستاخیوں کی لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔  وہ ہمارا خیال رکھتے ہیں ۔ ہم کہاں گئے، کیا کھایا، کیا پیا ،سوئے کہ نہیں، کچھ چاہیئے کہ نہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں پوچھتے تھے اپنے بچوں سے؟ ایک عمر کے بعد پھر جگہ بدل جاتی ہے۔ اولاد والدین کی جگہ اور والدین اولاد کی جگہ پر آ جاتے ہیں. اگر کل آپ ان سے محبت کرتے تھے. تو آج ان کی محبت پر شک مت کیجیئے۔ آج کے زمانے ، آج کے وقت، آج کی ضرورت کے حساب سے ہمیں خود کو ڈھال لینا چاہیئے۔ ہم کل اپنے بچوں کو آسانیاں دیتے تھے تو آج بھی اپنے دل پر درد بنانے کے بجائے بچوں کے مسائل ان کی مجبوریوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ جینے کی کوشش کریں ۔ ہر قدم پر، ہر خاندان میں، ہر رشتے میں ،کچھ نہ کچھ کھٹاس مٹھاس وقت کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کہیں رشتے ٹوٹتے دیکھے۔ کہیں رشتے جڑتے دیکھے ۔کہیں بنتے دیکھے۔ کہیں بگڑتے دیکھے۔ خود اپنی زندگی میں بہت سا اتھل پتھل دیکھا۔ رشتوں کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھا۔ رشتوں کو آپ کا حق مارتے ہوئے دیکھا۔ خون کو سفید ہوتے ہوئے دیکھا ۔خون کے آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔ خون تھوکتے ہوئے دیکھا۔ لفاظی میں نہیں حقیقت میں۔ بڑے بڑے زور آور ٹوٹتے ہوئے دیکھے، اور بڑے بڑے کمزوروں کو زور پکڑتے ہوئے دیکھا ۔ یہی دنیا ہے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ہر صبح کے بعد شام اور ہر شام کے بعد ایک نیا سویرا طلوع ہوتا ہے۔ الحمدللہ زندگی نے بہت کچھ دیا۔ بہت کچھ سکھایا ۔ بہت سے پردے نظروں سے ہٹائے اور کئیوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی ہمت اور توفیق بھی عطا کی۔ اللہ سے یہ توفیق مانگتے رہنا چاہیے کہ کوئی اچھا کام کریں تو اسے بھول جائیں اور کوئی غلطی ہو جائے تو اپنی اس غلطی کو یاد رکھیں اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ۔ بہت بہت شکریہ فرانس۔ اس  زندگی میں، اس ملک میں ہمیں عزت ملی، تحفظ ملا، روزگار ملا، وقار ملا، عزت سے سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا، اچھے دوست ملے ، جینے کا ایک نیا انداز ملا ، دنیا کو دیکھنے کی نئی نظر ملی،  آگے بڑھنے کے مواقع ملے ، اچھے استاد ملے، اچھے شاگرد بھی ملے، خود بھی شاگرد کی زندگی جینے کا موقع ملا ، بہت کچھ وابستہ ہے ان سالوں کیساتھ۔ انسان کہیں بھی رہے وہاں یہ سب حالات زندگی میں پیش آتے ہیں۔ لیکن ایک پاکستانی لڑکی اس زبان سے بھی نابلد اجنبی  دیس میں جو کبھی اپنی گلی سے باہر نہ نکلی ہو ، محلے سے باہر کی دنیا نہ دیکھی ہو، اس کے لیئے شہر سے باہر بیاہ کر جانا اور پھر ملک سے باہر سات سمندر پار کا یہ سفر بالکل ایسا ہی تھا جیسے اڑن قالین پر کوئی ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کر لے۔ آج بھی یاد ہے ایک سال بھر کی بچی کو گود میں لیئے پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر جب میں اتری تب مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی دور آ چکی ہوں۔ کہ میری ماں اتنی شدت سے اس بچی سے لپٹ کر، مجھ سے لپٹ کر کیوں روئی تھی؟ کیونکہ وہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد سال بھر میں ماں بھی نہ رہی۔ اور آج تک میں یہ سوچتی ہوں کہ وہ ایک سال یا میں نہ آتی تو شاید ماں زندہ رہتی یا شاید وہ چلی جاتی تو میں پھر آتی اسے رخصت کر کے دل کو یقین تو ہوتا کہ واقعی وہ چلی گئی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا اللہ کے ہر کام میں کوئی بھی حکمت وہی جانتا ہے۔ یہاں ہم نے آ کر اولادیں پیدا بھی کی اور کسی اولاد کو اپنے ہاتھوں مٹی بھی دی ۔ اپنی گودوں میں بھی کھلایا ۔ ہر درد، ہر خوشی آپکی زندگی میں آتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ جو ہم نے جیا ۔ شاید وہ اپنے ملک میں کوئی نہیں جیتا۔ وہ تھا تنہائی کا عذاب جو ہمیشہ وابستہ رہا۔ یہ درد اپنی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکا۔ جب آپ کے پاس کوئی ایسا بھی نہ ہو جس کے سینے سے لپٹ کر ، کندھے پر سر رکھ کر آپ رو سکیں ۔ جس کے ساتھ آپ بیٹھ کر دل کی بات کر سکیں۔ ہنس سکیں۔ دل کھول کر رکھ سکیں۔ یہ کمی ہمیشہ رہے گی اور یہ کمی ہر پردیسی کے حصے میں آتی ہے ۔ ساری خوشیوں پر یہ کمی حاوی ہو جاتی ہے۔ بس اسی درد کا نام پردیس ہے۔ ورنہ کیا نہیں ہے یہاں۔ سب کچھ تو ہے۔ الحمدللہ شکریہ فرانس۔ شکریہ زندگی اور شکریہ میرے ہمسفر اختر شیخ صاحب۔ جن کی سنگت میں جس کی ہمت افزائی، مجھ پر کیئے بھروسے،  حوصلے اور مجھے دی ہوئی میری انسانی آزادی نے مجھے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا ۔ اپنے بیگانوں کس کس نے اسے  کیسے کیسے نہ ورغلایا کہ اسے چھوٹ مت دے ، یہ تیرے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بھاگ جائے گی ۔ یہ کر لے گی۔ وہ کر لے گی ۔ مگر شاباش ہے اختر شیخ صاحب کی استقامت کو  جن کی وجہ سے میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکی۔ ورنہ میں بھی صرف چولہے اور چوکے میں اپنا آپ جھونک کر یہاں اس کمیونٹی کی ہزاروں ڈگریوں کی دعویدار عورتوں کی طرح صرف دھواں ہو چکی ہوتی۔ لیکن اس نے مجھے دھواں نہیں ہونے دیا۔ اس نے مجھے روشنی بننے کا موقع دیا۔ میں جہاں جاؤں اجالے کی طرح پھیل جاؤں۔ اس  عنایت کا کریڈٹ واقعی میرے شوہر کو جاتا ہے۔ ہر وہ عورت جو میدان میں کچھ کر رہی ہے اور اس کا شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اچھے راستوں پر گامزن ہے۔ اس کی شاباش اس کی شوہر کو بنتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی کامیاب مرد کے لیئے اس کی بیوی کا ساتھ ہمت حوصلہ اسے شاباشی کا مستحق بناتا ہے۔  میں نے اپنے گھر کی ہر ذمہ داری کو بخوشی نبھایا ۔ میرا شوہر میرے گھر اور اپنے بچوں کی طرف سے جبھی بے فکر رہ سکا ۔ اس کے بچے صاف ستھرے، تمیزدار پڑھائی پر توجہ دینے والے ہوں ۔ وہ گھر آئے تو میرا گھر کسی ملازمہ کے بغیر صاف ستھرا ، دھلے دھلوائے کپڑے، گرم کھانا تیار انکے آگے پیش کیا۔  میں نے میرا گھر ہمیشہ میرے شوہر کی کمائی سے ہی چلایا۔  اس نے مجھے جتنی چادر دی۔ میں نے اسی میں خود کو پورا کر لیا ۔ وہ ہڈ حرام،  نکما ، ویلیاں کھانے والا نہیں تھا ، اور میں فیشن پرست ، مارک کی ماری، پھوہڑ ، فضول خرچ اور ناشکری نہیں تھی ۔ اس لیئے زندگی میں پیسے کی وجہ سے تماشے کم ہی ہوئے۔ کئی ملکوں کی سیر کی ۔ اللہ کا گھر دیکھا ۔ پاکستان میں مہینوں بھی رہنا چاہا تو الف سے لیکر ے تک کا خرچ میری جیب میں اس نے اپنی کی کمائی کا دیکر بھیجا ۔ مجھے میرے یا اپنے رشتےداروں کا دست نگر نہیں ہونے دیا۔ کہیں میری کسی ضرورت کے لیئے مجھے ترسنے نہیں دیا۔ اور میں نے بھی کبھی اپنے آپ کو ضرورت سے نکل کر خواہش کے گٹر میں گرنے نہیں دیا ۔ کیونکہ جو ایک بار خواہشات کے گٹر میں گر گیا اسے دوبارہ سے اس سے پاک کرنے کے لیئے سمندروں کا پانی بھی کم پڑ جاتا ہے ۔
زندگی کی تمام کامیابیاں مجھے اسی کے حوصلے ہمت کے طفیل زندگی نے عطا کیں ۔ زندگی آسان ہے اگر آپ اسے سادگی اور کسی مقابلے کے بغیر گزارنا سیکھ لیں ۔ لیکن زندگی بہت مشکل ہے جب ہر وقت آپ کو خواہشوں کے گھوڑے پر سرپٹ بھاگتے رہنا ہے ۔ کیونکہ بھاگتے ہوئے آپ راستے کی دلکشی کا لطف کبھی نہیں لے سکتے۔ اس کے لیئے تو آپ کو دھیما چلنا پڑتا ہے ۔ کہیں رکنا بھی پڑتا ہے ۔ 
                               الحمدللہ
                   ۔۔۔۔۔۔




پیر، 4 مارچ، 2024

خاموشی نعمت ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں۔ کوٹیشنز

بہت عرصے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ خاموشی واقعی ہزار نعمت ہے۔
خاموشی آپ کو رک کر سوچنا سکھاتی ہے۔ 
سمجھنا سکھاتی ہے۔ 
بہت سارے نقصانات سے بچنا سکھاتی ہے۔
اور سامنے والے کو جواب دینے سے پہلے خود اس جواب سے مطمئن ہونا سکھاتی ہے۔
 تو
 واقعی خاموشی ہزار نعمت ہے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
     (ممتاز ملک. پیرس)

اتے پتے بچپن کے۔ کالم


اتے پتے بچپن کے
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)

بچپن کے دوست بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ کئی بار والدین کو کسی مجبوری سے ،چاہتے نہ چاہتے اپنا گھر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنا شہر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے علاقوں سے دور ہونا پڑتا ہے۔ یا اپنے بچوں کے اسکولز بدلنے پڑتے ہیں ۔  وہ بڑے ہوتے ہیں انہیں شاید یہ بات اتنا دکھ نہ دیتی ہو۔ ان کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلیاں شاید اتنی غیر متوقع نہ ہوں، لیکن یاد رکھیں آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے بہن بھائی یا آپ کے بچے جو ابھی ان تبدیلیوں کے اثرات کو ایک دم سے نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ قبول کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہوتے ۔کبھی بھی ان کو اچانک حیرت میں ڈالتے ہوئے ان کا سکول بدلنے اور علاقہ بدلنے کا ایسا جھٹکا مت دیجئے کیونکہ اس کے اثرات ساری زندگی ان پر حاوی رہتے ہیں۔ بچپن کے دوست زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔بچپن کی یادیں ہمیشہ دلوں پر نقش ہو جاتی ہیں۔ وہ اچھی ہوں یا بری ۔ اگر کہیں کوئی بری یاد بھی وابستہ ہو تب بھی اپنے سکول کے دوست ، خاص طور پر آپ کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں انہیں ایک دم سے ان سے چھیننے کی کوشش مت کیجئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں کسی کا سکول بدل جانا یا شہر دور ہونے کے بعد اپنے دوستوں سے رابطہ رکھنے کے لیے ان کو اپنے نئے گھر کے پتہ دینا یا فون نمبر دینا یا کوئی اور رابطہ ان کو دینا والدین ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے اپنے بچوں کے کچھ احساسات ہیں، جذبات ہیں دوستیاں ہیں، جنہیں وہ یاد کریں گے۔ ساری زندگی مس کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ان سے رابطے میں رہیں۔ کبھی کبھار ہی صحیح، کیونکہ زندگی کی مصروفیات میں ہی  انسان اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ ویسے بھی ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا یا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا  کبھی ممکن ہو ہی نہیں سکتا ۔ ایسے میں کبھی کبھار بھولے بھٹکے کوئی چٹھی ، کوئی پتر، کوئی فون کال، کوئی میسج آپ کو پھر سے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ماضی کی میٹھی میٹھی سی یادیں تازہ کر جاتا ہے۔  اس لیئے ان کا سکول یا شہر بدلتے ہوئے اپنے بچوں کو پہلے تیار کیجیےُ۔ انہیں بتائیئے کہ ہمیں شہر یا علاقہ چھوڑنا ہے یا تبدیل کرنا ہے، کہ آپ کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ یا آپ کاروبار کے لیئے جا رہے ہیں. یا آپ بہتر مواقع کی تلاش میں جا رہے ہیں ۔ یا آپ ان کی بہترین تعلیم کے لیئے جا رہے ہیں یا کسی پریشانی کی وجہ سے آپ کو وہ جگہ چھوڑنی ہے ، تو بچوں کو ذہنی طور پر اس صورتحال کے لیئے کچھ عرصہ پہلے تیار کیجئے اور انہیں اس بات کی اجازت دیجئے کہ جو ان کی خاص دوستیاں ہیں۔ جو بہت قریبی دوست یا سہیلیاں ہیں ان دو چار لوگوں کو ضرور وہ اپنا پتہ یا رابطہ دے کر جائیں۔  ان کا رابطہ اپنے ساتھ اپنی ڈائریوں میں لکھ کر لے کر جائیں ۔ ایک دوسرے سے نمبر ایکسچینج کریں تاکہ جب کبھی وہ بچپن کے اس دور کو شدت سے مس کرنے لگیں  تو خود کو کچھ دیر کے لیے اس رابطے میں لا کر بہلا سکیں۔  نفسیاتی طور پر بھی اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔  کیونکہ وہ کسی گہرے ٹروما سے بچتے ہیں۔  یاد کرنے کی وہ جو ایک تکلیفدہ اذیت ہے وہ اس سے بچ جاتے ہیں اور یوں اگر انہیں ایک دوسرے سے کوئی توقع بھی ہوتی ہے تو وہ زیادہ مایوس نہیں ہوتے۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ انہیں خود اس بات کا احساس ہوتا چلا جاتا ہے کہ سب کچھ کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اور یوں وہ کسی تکلیف کا شکار بھی نہیں ہوتے۔  سچ پوچھے تو سچی دوستیاں تو یہی بچپن کی دوستیاں ہوتی ہیں نہ کوئی غرض نہ کوئی مفاد۔ ایک دوسرے کی مسکراہٹیں ہی ایک دوسرے کے لیے انعام ہوا کرتا تھا۔
کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ ایک ہی سکول میں پڑھنے والے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھنے والے ان بچوں میں سے کون کل کو راجہ بنے گا ۔ کون رانی بنے گی۔ کون شہزادہ ہوگا، اور کون فقیر۔ کون حکمران ہوگا اور کون مزدور۔  اس لیے اس بے غرض دوستی کے دور کو یاد رہنے دیجیئے اور آپ انہیں کاٹنے والی تلوار مت بنئیے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ بچپن کے یہ دوست ایک دوسرے کے ساتھ صرف غلط توقعات میں ہی وابستہ رہیں۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتیں، معصوم سی یادیں ، پہلی بار کی ہوئی شرارتیں،  پہلی بار کے تجربات ان بچپن کی یادوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سو خدارا اپنے بچوں سے بچپن کا یہ معصوم سا خزانہ مت چھینا کیجئے ۔جسے وہ ساری عمر تلاشتے رہتے ہیں۔
                   --------



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/