ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 9 نومبر، 2023

& چاند ڈوب گیا ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


چاند ڈوب گیا
 تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

نہ بھئی نہ لڑکی کی ناک دیکھی ہے طوطے جیسی۔  مجھے تو میرے بیٹے کے لیئے ایسی لڑکی دکھاؤ کہ ہر جاننے والے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔
سکندر کی ماں رقیہ نے لڑکی کی تصویر کو نخوت سے میز پر پٹختے ہوئے کہا ۔۔
رشتے دکھانے والی رضیہ تو جیسے جل بھن کر رہ گئی ۔ اس کے جی میں تو آئی کہ بی بی شہر کی پچاسویں لڑکی ہے جو ایک سے ایک خوبصورت اور قابل تعلیم یافتہ ہے تمہیں دکھا چکی ہوں اور تم ہو کہ پروں پر پانی ہی نہیں پڑنے دیتی۔ لیکن   پھر کچھ سوچ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ 
دیکھو رقیہ بہن میں جانتی ہوں کہ صرف میں ہی نہیں ہوں جس سے تم رشتے دیکھ رہی ہو ، بلکہ اس شہر کے ہر میرج بیورو اور ہر رشتے کرانے والی کے پاس سے تمہیں رشتے دکھائے جاتے ہیں ۔ اب تو لوگ تمہارا نام سنتے ہی پہلے ہی منع بھی کر دیتے ہیں کہ نہیں بھائی اس خاتون کو مت لانا اس سے ہم پہلے ہی مل چکی ہیں اس کے تو بہت نخرے ہیں ۔ 
آخر تم ایک ہی بار بتا دو کہ تمہیں اپنے بیٹے کے لیئے کیسی لڑکی چاہیئے ۔ پانچ سال سے تم اس شہر کا ہر گھر گھوم چکی ہو ۔ کہیں دوپہر کے کھانے کھاتی ہو  اور کہیں رات کی دعوتیں اڑاتی ہو۔  
رقیہ بیگم بھڑک کر ہاتھ نچاتے ہوئے بولی آئے ہائے میرا بیٹا کوئی گیا گزرا نہیں ہے چاند کا ٹکڑا ہے ۔اچھا کماتا ہے ۔ گھر بار والا ہے ایسے ہی کوئی بھی بن بتوڑی تھوڑی اٹھا کر لے آؤں گی اپنے بیٹے کے لیئے ۔ 
خدا کا خوف کرو رقیہ بیگم۔ اس تین مرلے کے گھر میں رہتی ہو۔ اور بنگلوں والی لڑکیاں تک تم مسترد کر چکی ہو ۔ بیٹا تمہارا رنگ روپ دیکھ لو تو دوسری بار کوئی ملنا نہ چاہے اور تم ہو کہ ہر ایک کی بیٹی میں عیب نکالتے نکالتے گھر میں بیٹے کو پینتیس سال کا کر چکی ہو۔
ارے پینتیس کا ہے تو کیا ہوا لڑکی تو میں بڑے گھر سے چاند کا ٹکڑا ہی لیکر آؤنگی ۔ جو کار کوٹھی ڈگری سب کچھ لیکر آئے گی اور ہاں دیکھ لینا ہاتھ باندھ کر میرے سامنے چاکری کرے گی ۔۔ بیس سے اوپر تو ایک دن کی بھی نہ ہو۔ ہاں نہیں تو ۔۔۔
ہائیں ۔۔۔
رضیہ کا تو حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا 
اسے پورا یقین ہو چلا تھا کہ رقیہ بیگم کا دماغی توازن جواب دے چکا ہے ۔ اس نے اپنی چادر سمیٹی اور پلیٹ میں رکھے تینوں سموسے ہاتھ میں اٹھائے اور چلتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا رضیہ بیگم کسی کارخانے میں تمہاری مرضی کی بہو آرڈر پر تیار ہو گئی تو مجھے بھی شادی کی دعوت دینا مت بھولنا۔۔ چلتی ہوں اللہ حافظ
رقیہ نے دروازہ بھیڑتے ہوئے چاہا تو کہ یہی دروازہ اس رقیہ کے سر پر دے مارے لیکن اپنی پیشہ ورانہ مصلحت کے سبب دل مسوس کر رہ گئی۔ 
اس کے جاتے ہوئے سامنے سے رکشے سے اترتا ہوا سکندر ملا ۔ سوکھا سڑا سا، پکا رنگ، اپنی عمر سے بھی دس سال بڑا دکھائی دیتا ہوا۔ یہ مرد اسے لڑکا تو کہیں سے نہیں لگا ۔اسے دیکھتے ہی رضیہ کی آنکھوں میں وہ تمام حسین و جمیل کم سن بہترین تعلیم یافتہ لڑکیوں کے سراپے گھوم گئے جنہیں ایک کے بعد سکندر کی ماں نے اپنے اس چاند سے بیٹے کے لیئے ٹھکرا دیا تھا ۔ جبکہ گھروں میں دو دو چار چار کنواری بیٹیوں کے بیٹھے ہونے کے سبب انکے والدین اس جیسی شکل و صورت اور حیثیت والے کو بھی داماد بنانے کو تیار تھے لیکن رقیہ بیگم شاید اپنے بیٹے کو بیاہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
پچھلے دس سال سے یہی بیٹا لیئے وہ ہر گھر میں کبھی دوپہر اور کبھی شام دعوتیں اڑا رہی تھی شادی کر دیتی تو پھر یہ دعوتوں کے مزے کہاں سے پورے ہوتے۔

رقیہ بیگم خدا کا خوف کرو جس بیٹے پر اتنا گھمنڈ کر رہی ہو اور دوسروں کی عزتیں اچھالتی پھرتی ہو کہیں وہ تمہارے دل کا روگ ہی نہ بن جائے ۔
رضیہ بیگم نے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو رقیہ ںی تو جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں۔
ارے جاؤ جاؤ بڑے آئے ہمیں روگ دینے والے ۔
منیزہ کی بیٹی کو دیکھ کر لٹکتی مٹکتی رقیہ بی  ہر بات میں کیڑے نکالتی ہوئی باہر نکلیں تو اس کی نظر سکندر سے چار ہوئی ۔
 گھر سے باہر کھڑے سکندر پر ایک نظر ڈال کر دوسری نظر جب اپنی بیٹھک کے پردے کے ساتھ لگی کھڑی اپنی حسین اور قابل بیٹی پر نگاہ پڑی تو جیسے کانپ کر رہ گئی ۔ کوئی جوڑ نہیں تھا ان کا انکی بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی قابل بننا چاہتی تھی اور عمیر صاحب کی آنکھوں میں  ان کا گھر بسانے کا سپنا انہیں سونے نہیں دیتا تھا ۔
 دو موٹے موٹے آنسو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ بہہ نکلے۔
مغرور رقیہ بیگم نے رکشے والے کو پیسے ادا کیئے اور سڑک پار کرنے کو مڑی ہی تھیں کی سکندر جو اپنے ہی خیالوں میں سڑک پار کر رہا تھا ایک تیرفتار گاڑی کی زد میں آ گیا ۔ گاڑی کی ٹکر سے وہ دور جا گرا رقیہ بیگم کے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے ۔
وہ گرتی پڑتی ہانپتی کانپتی اپنے زخمی بیٹے تک پہنچتی کہ وہاں اکٹھی ہوتی بھیڑ میں سے کسی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ 
بیچارے کو گاڑی نے اڑا دیا۔ موقع پر دم توڑ دیا ہے ۔ پھر بھی اسے ہسپتال پہنچاؤ یار ۔۔
اس کے بعد رقیہ بیگم بیٹے تک پہنچنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔ 
دونوں کو ایک ہی ایمبولینس میں ہسپتال پہنچایا گیا اس کا غرور چور چور ہو کر لاش کے طور پر اسٹریچر پر تھا تو ماں اس کی موت کا غم اٹھانے کو بیہوش دوسرے سٹریچر پر۔ اس کا کالا مریل بد صورت چاند کا ٹکڑا ڈوب چکا تھا جس نے اسے پچھلے دس سال سے اس شہر کی ہر جوان لڑکی کے گھر کی آنکھ کا تارا اور مہمان خصوصی بنا رکھا تھا ۔ 
               -------

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/