ڈر لگتا ہے
ساتھ میرے تو نہیں جاتا کسی محفل میں
تنہا جاتے جو سنورتا ہے تو ڈر لگتا ہے
جس نے ہنگام میں ہر پل ہے گزارا وہ شخص
اتنی خاموشی سے مرتا ہے تو ڈر لگتا ہے
وہ سزا دینے پہ قادر ہے مگر پھر بھی جب
معاف خاموشی سے کرتا ہے تو ڈر لگتا ہے
ویسے تو ساری جوانی ہے گناہوں سے بھری
اب بھی پیری میں اکڑتا ہے تو ڈر لگتا ہے
اسکو دیکھا ہرا سوکھا بھی چرمراتا بھی
جب ہواؤں میں بکھرتا ہے تو ڈر لگتا ہے
کیسی رونق تھی جہاں آج برستی وحشت
جب کوئی ایسے اجڑتا ہے تو ڈر لگتا ہے
یوں تو پوشیدہ نہیں درد کسی سے اسکے
بنکے ممتاز نکھرتا ہے تو ڈر لگتا ہے
--------
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں