ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 19 دسمبر، 2021

گھر ‏میں ‏آ ‏گیا۔ ‏طرحی ‏غزل ‏نامکمل ‏


ادب نما کے زیر اہتمام مصرع طرح 
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا "
پر طرحی مشاعرہ چل رہا ہے 
 قوافی : لشکر محور منظر محشر  وغیرہ 
ردیف : میں آگیا

وہ خواب تھا جو سوچ کے محور میں آ گیا
اک روز  سامنے میرے منظر میں آ گیا 

پیچھا چھڑا کے جس سے جہاں سے گزر گئے
وہ ہی خدائی خوار تو محشر میں آ گیا 

اب ہار جانے کا ہمیں پختہ یقین ہے
وہ جان جاں حریف کے لشکر میں آ گیا 

پیکر میں آ گیا



جمعرات، 16 دسمبر، 2021

✔ ● بہاریوں کو سلام محبت ❤/ کالم۔ لوح غیر محفوظ






16 دسمبر 1971ء 
خون آشام تاریخ ۔۔۔کسی نے کیا ۔۔۔۔کسی نے بھگتا۔۔۔

سقوط ڈھاکا کے 50 سال مکمل ہوئے۔
مکتی باہنی کی بھارتی سازشوں کی کامیابی کے 50 سال
بنگلہ دیش میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور لاکھوں بہاریوں کی پاکستان سے محبت کے جرم میں لازوال قربانیوں کے 50 سال 
سر کٹائے۔۔۔۔سولی چڑھے۔۔۔۔ عزتیں لٹوائیں ۔۔۔ کیڑوں مکوڑوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے مگر نعرہ ایک ہی رہا۔۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد
دنیا بھر میں آباد بہاریوں کو سلام محبت❤
پاکستان سے محبت کے معاملے  میں ہم آپ سے مقابلے میں صفر سے بھی نیچے کھڑے ہیں ۔ کاش اس محبت اور وفاداری کا ہزارواں حصہ بھی ہمیں نصیب ہو جاتا تو آج ہمارے نام نہاد کارٹون لیڈران ہماری غیرت و حمیت و معیشت سے فٹبال کبھی نہ کھیل رہے ہوتے ۔
1971 ء میں بھارتی سازشوں نے اپنی زرخرید جماعت مکنی باہنی کے ذریعے دنیا کی تاریخ کا  سب سے غلیظ کھیل کھیلا ۔ پاک فوج کے خلاف بنگالیوں کو سالہا سال تک بھڑکایا گیا ۔ رہی سہی کسر مغربی موجودہ پاکستان کے سیاسی پتلی تماشا کرنے والوں کی بیوقوفیوں اور  خود سری نے پوری کر دی۔ بزدل اور عیاش جرنیلوں نے فوج کی ضروریات کے بجائے نئی ٹیکنالوجیز اور فن حرب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے شراب و کباب عاشقیوں معشوقیوں پر ایسی توجہ دی کہ اس گھر پاکستان کا آدھا حصہ انکی شراب کے ریلے میں بہہ گیا اور گھنگھرووں کی چھنکار میں بنگالیوں کی مظلوم چیخیں دفن ہو گئیں ۔ ہائےےےےےے کیا ظلم ہوا ۔ 
جب نوے ہزار بہادر پاکستانی فوج نے اپنے جرنیلوں کی بےغیرتی اوربزدلی کی قیمت اپنے سر جھکا کر ہتھیار پھینک کر چکائی تھی۔ 
مکتی باہنی پاک فوج کی وردی میں مظلوم بنگالیوں کی عزتوں اور جانوں سے خون کی ہولی کھیلتی رہی اور گالی پاک فوج کے حصے میں لکھی گئی۔ بی بی سی ریڈیو کے جھوٹے پروپیگنڈوں نے ساری دنیا کی رائے کو پاکستان کے خلاف خوب ہموار کیا ۔ بھارت کی پشت پناہی کی۔ اس کے جنگی جرائم پر مکاری کے پردے ڈالے ۔ اور ان کے نمائندگان کانوں میں روئی ٹھونس کر جانے کیسے سو بھی جاتے تھے؟ 
کیسے نیند آ جاتی ہو گی انہیں اس بے ضمیری میں ؟ لیکن قدرت کا کھیل دیکھیئے  ہر سچ کو ایک دن بے نقاب ہونا ہی ہوتا ہے۔ سو آج  یہ سچائیاں جان کر ہی تو آج بھی وہ بنگالی پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔ اردو سے محبت کرتے ہیں ۔ ان کے گلے لگ کر سیاسی شعبدہ بازوں کے ضمیر کی موت کا پرسہ دیتے ہیں ۔ ایکدوسرے کی  ہر تکلیف پر یہ دونوں آج بھی دکھی ہوتے ہیں ۔ اور اس محبت کو انکے دلوں سے نہ مکتی باہنی نکال پائی۔ نہ  بنگلہ دیشی حکومتوں کی بھارتی ایجنڈے کی پاسبانی نکال پائی۔ 
دل سے ایک ہی  آواز  دونوں جانب سے ابھرتی رہی۔۔۔
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد 
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
ہم چالیس لاکھ افغانیوں کو انکی تمام تر بے وفائیوں سمیت اپنی زمین پر پناہ دے سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہماری ہر حکومت نے 3 لاکھ بہاریوں کو پاکستان لا کر آباد کرنے کا وعدہ کبھی وفا نہیں کیا ۔ انکی لازوال محبت ہماری زمین پر اپنی جگہ نہیں پا سکی لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ تڑپ جگاتی رہی ہے۔ اب بھی اگر انہیں پاکستان کی زمین نے قبول نہ کیا تو انکے بہت سے آباء جو منوں مٹی تلے جا سوئے انکی دوسری نسل بھی ان اذیتوں کا شکار ہو کر ہماری وفا پر  سوالیہ نشان  نہ لگا جائیں ۔
               ●●●

ہفتہ، 4 دسمبر، 2021

ووٹنگ مشین اور تارکین وطن / کالم

ووٹنگ مشین اور تارکین وطن
تحریر؛ ممتازملک ۔پیرس

ہر روز ٹی وی پر بیٹھے حکومتی اور غیر حکومتی اراکین کا تماشا لگا رہتا ہے آج کل تماشے کا موضوع ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ووٹ کاسٹ ہونے کا حق تارکین وطن کو دیا جا رہا ہے ۔ سو اس کی مخالفت میں اپوزیشن اپنا بینڈ بجاتی ہے تو حکومت اپنا ڈھول پیٹتی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی کام کی اور مطلب کی بات پر کوئی مناسب نقطہ نظر پیش کر پایا ہو ۔ وہ بات جو مجھ جیسی   عام سی تعلیم و عقل رکھنے والی کو بھی سمجھ میں آ جاتی ہے وہ ان عالم فاضلین کی زبان پر کیوں نہیں آ رہی ۔ اس لیئے اپنی رائے اسی موضوع پر دینا مجھے ضروری لگا ۔ ہوسکتا ہے کسی کے دل میں خدا کا خوف بیدار ہو جائے اور کوئی صاحب اختیار اس پر غور فرمانے کی زحمت فرما لے۔ 
ویسے تو مشین کے ذریعے ووٹنگ تارکین وطن پاکستانی عوام کے لیئے استعمال ہونے جا رہی ہے ، یہ بہت اچھی بات ضرور ہوتی اس صورت میں جب سو فیصد  پاکستانی تعلیم یافتہ ہوتے ۔ اور اس مشین کے بلکہ اپنے ووٹ کے حق کو اہم سمجھتے اور اس کی افادیت سے آ گاہ ہوتے ۔ امریکہ میں ہو سکتا ہے کہ تارکین وطن کو یہ سہولت ملے تو اس کی افادیت زیادہ ہو وہ بھی تب جب ہمارے پاکستانی سفارت خانوں نے دھڑا دھڑا غیر پاکستانوں کو بھی پاکستانی شناختی کارڈز یا پاسپیورٹ دھوکے سے بے ایمانی سے نہ بیچے ہوتے ۔ کیا ہمارے سفارتخانوں میں ایسی چوریاں اور دو نمبر دستاویزات بنانے کے کیسز کبھی سامنے نہیں آئے؟ ۔ ایسے میں وہ بھارتی افغانی اور دوسری قومیتوں کے لوگ اس ووٹنگ کے حق کو پاکستان میں پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو لانے کی کوشش نپیں کرینگے؟ جبکہ ایسی دستاویزات میں اس بڑے پیمانے پر ہیرپھیر اور ڈاکہ زنی کی ہی اس مقصد سے جاتی ہے؟  دوسرا نقطہ ہمارے ہاں یورپ میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت جاہل یا ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے ۔ جو کہ جیب میں ڈیڑھ ہزار یورو کا موبائل تو رکھتے ہیں لیکن بڑی شان سے محفل میں بتاتے ہیں کہ بھائی مجھے تو میسج کرنا بھی نہیں آتا ۔ ایسے افراد کو جب ووٹ کا حق دینا ہو تو پچھلے کچھ عرصے میں ان کے انٹرا پارٹی الیکشن کی دھاندلیوں کو ہی مثال بنا لیجیئے ۔ جہاں اکثر ممالک میں بااختیار اور کھڑپینچ لوگوں کے  سوسو دو دوسو لوگوں کے کارڈرز سے بذات خود ووٹ کاسٹ کیا اورگنٹی پو گئی اس ووٹر کے کھاتے میں جس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ اس کا ووٹ کس امیدوار کے حق میں کاسٹ کیا جا چکا ہے ۔ ایسے میں بائیس کروڑ وہ عوام جو براہ راست اپنے ملک کے حالات سے متاثر ہو رہے ہیں ان کے فیصلوں پر اس طرح سے واردات کرنا کیا ایک اورظلم عظیم نہیں ہو گا؟ محض کرسی سے چپکے رہنے کے لیئے اپنی مرضی کے قوانین بنوانا اور اپنی مرضی کے لوگوں کو اختیارات دینا پھر نئے نئے شوشے بغیر کسی قومی ڈیبیٹ کے چھوڑ دینا آخر کب تک ۔۔۔ کب تک ہر حکمران سابقہ حکمران سے بڑا ڈاکو بننے کی روش کو برقرار رکھے گا؟ خدا کے لیئے اپنی عمروں کا ہی لحاظ کر لیجیئے ، اپنی کوئی عزت ہی بنا لیجیئے ۔کوئی دو چار اچھے کام اس ملک کے مفادات کے مطابق  کر کے ۔ اس کرسی پر آنے والے ہر شخص نے خود کو خدا سمجھا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کی عزت اور معیشت سے کھیلنے والے کو نہ کبھی سکون حاصل ہو سکا اور نہ ہی عزت۔ وہ ہمیشہ عبرت کا نشان ہی بنے ہیں ۔ بزرگوں نے سچ ہی کہا تھا کہ بیٹا دولت تو کنجر بھی بہت کما لیتے ہیں لیکن عزت کمانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لیئے وہ کماو جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور  جو اس دنیا سے جاتے وقت بھی تمہارے ساتھ ہی جا سکے۔
                   ●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/