ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 11 اپریل، 2019

رو نہیں رلاو ۔ کالم


          رو نہیں رلاو  انہیں 
               (تحریر/ممتازملک.پیرس)


پچھلے سال گھر بھر کی کفیل جواں سال بس ہوسٹس کو ایک ٹھرکی نے جس طرح بس سٹینڈ پر گولی ماری اس کی پھانسی کا ابھی انتظار ہی ہے کہ کل رات ایک اور بس ہوسٹس کو بری طرح سے ہراساں کیا گیا اور ہمارے جواں سال مردوں کا جم غفیر اس بے بس روتی ہوئی مجبور  لڑکی کو یہ کہہ کر دلاسے دیتا رہا کہ
 ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگتے ۔ 
کاش کوئی دو تین اصیل ماوں کی اولاد ہوتے اور اس شخص کو مار مار کر دنبہ بناتے اور پولیس کے حوالے کرتے تو واقعی ان کی مردانگی کو داد دینے کو جی چاہتا ۔ لیکن نہیں جناب سنائی دیا بھی تو یہ مشورہ 
کہ خاموش ہو جاو۔
 یہ نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
گھر سے نکلو گی تو ایسا ہی ہو گا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ
سلام ہے ایسے  غیرتمند مشیروں کو ہمارا ۔ 
ان میں سے کتنے ہونگے جو ایسے مجبور گھروں کی مطلقاوں  ، بیواوں اور یتیم بچوں کے گھروں کی کفالت کی ذمہ داری بلا کسی شرط اور بنا کسی مطلب کے اٹھائیں گے ؟ بنا کسی گندی نظر کے ان کے گھر اور گھر والوں سے ملے بنا ، نامحرمی کا لحاظ شرم رکھتے ہوئے ان کے بچوں کی تعلیم ،خوراک ، پوشاک ، کرائے، اور بیٹیوں کی شادیوں کے لیئے مالی مدد فراہم کریگا ۔۔ایک بھی نہیں ۔پھر بھی اپنی یہ مشاورت  کی جگالی ضرور کرتے رہینگے کہ 
ششششش خاموش ہو جاو،
 یہ نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
گھر سے نکلو گی تو ایسا ہی ہو گا، 
۔ بلکہ میں دو قدم اور آگے بڑھاونگی اس  بات کو کہ گھر بیٹھی باپ ، بھائی شوہر اور بیٹے کے سر پر عیش کرنے والی عورت کو کیا پتہ کہ جب سر پر مصیبت و افتاد آ پڑتی ہے ، جب ایک کی کمائی سے گھر کا چولہا جلانا ممکن نہ رہے تو گھر سے باہر کمانے کو نکلنا ہی پڑتا ہے ۔ اور 
 جب گھر سنبھالنے اور کمانے کے لیئے کمر کس ہی لی ہے تو اپنے آنسو ، اپنے جذبات اپنے گھر کے صندوق میں بند کر جاو اور  ایسے ماحول میں رونے کے بجائے اس خبیث مرد کو رلانے والی ہمت دکھائیں ۔
آپ جیسی خواتین جو  ملازمت کر رہی ہیں جہاں یہ نظر باز ، بدکار نگاہیں اور بدکار ہاتھ اپنے جسم کے ہر حصے سے زنا کا فریضہ سر عام انجام دیتے ہیں ۔ انہیں سبق سکھانا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے ۔ یاد رکھیں ایک کی ہمت ایک سو کو محفوظ کرنے کا باعث بنتی ہے ۔
ملازمت کرنے  والی خواتین پر پیٹ بھرے لوگوں کے اعتراضات اور  طعنے و تشنع کو بجا قرار دینے والے زرا  سوچیئے بطور سواری سفر کرتے ہوئے  بھی کیا عورت ان کے لیئے پکا ہوا پھل ہے اور 
 بسوں گاڑیوں کی سیٹوں میں سے ہاتھ گھسیڑ کر انگلیوں سے عورتوں کو چھونے والے، عورتوں کیساتھ بسوں میں ٹکرا ٹکرا کر  اور سونگھ سونگھ کر سفر کرنے والے یہ نفسیاتی بیمار اور ٹھرکی کیا کم اور چھوٹے کتے ہوتے ہیں ۔ ان کی بدمعاشیوں پر خاموشی ہی ان کو بڑھاوا دیتی ہے ۔ آپ اکیلی ہیں تو کیا ہوا ان خبیثوں کے ہجوم میں سے کوئی ایک تو غیرت مند ماں کا سپوت ضرور ہو گا جو آپ کی آواز میں آواز بھی ملائے گا۔  اسی حوصلے کیساتھ 
 اٹھیں سیٹ سے کالر دبوچ کر اس کا گلا پکڑیں ۔ 
اس کے منہ پر تھوکیں اور اس کی پیدا کرنے والی پر خوب لعنت بھیجیں اور ایسی ٹھکائی لگائیں کہ سالوں تک۔یاد رکھے اور اگر کوئی دوسرا لگا رہا ہو تو ثواب سمجھ کر چار جوتے آپ بھی جڑیں ۔ جب تک کہ وہ اس کرتوت کی آپ کے پیر پکڑ کر معافی نہ مانگے ۔ 
اپنی بہنوں اور بیٹیوں بیبیوں کو یہ بات سمجھا کر گھر سے باہر جانے دیں کہ بیٹا اپنے حلیئے کو درست رکھو ، لیکن جہاں کوئی ایسا کتا تم پر دانت پیسے تو پھر
 رو نہیں رلاو ان حرامیوں کو ۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/