ولدیت کا خانہ ؟
تحریر: (ممتازملک۔ پیرس )
اگر طلاق کیساتھ مرد ایک عورت کو اس کی جوانی صحت اور عزت واپس نہیں لوٹاتا تو خلع کی صورت میں کس طرح عورت سے اسکی دی ہوئی ہر شے واپس مانگ سکتا ہے. عورت کی عزت وقار جوانی سب کو مٹی می رول کر تین لفظ اس کے منہ پہ مار کر اسے دروازے سے باہر کھڑا کر دینے کا اختیار اسے کس انسانی یا اسلامی کتاب میں ملتا ہے.
پھر وہ چاہے تو پیدا کی ہوئی اولاد کو لاوارث چھوڑ سکتا ہے۔
یا اس کے اخراجات سے منہ موڑ کر اسے بھکاری بنا کر کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
اپنی اولاد یا تو چھین لے گا یا پھر اس کی گود میں ڈال کر خود لڑکا بن کر کسی اور عورت کو الو بنانے چل دیگا...
ہمارے ملک میں کہنے کو تو اسلام موجود ہے ۔ جس کا نوے فیصد قانونی حصہ صرف مرد کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے. باقی دو فیصد قوانین اگر عورت کے اوپر احسان سمجھ کر بنا بھی دیئے ہیں تو بھی ان پر عملدرآمد کی کوئی خبر ہماری نظروں سے تو نہیں گزری..
کیا کسی ریپسٹ کو پھانسی ہوئی؟
کیا عورت کو گھر سے نکالنے کے خلاف کوئی سزا ہوئی ؟
کیا جہیز کے نام پر جلائی جانے والی خواتین کو کوئی انصاف ملا ؟
کیا عورت سے اس کے بچے( اس وقت جبکہ وہ انہیں رکھ سکتی ہے یا رکھنا چاہتی ہے )
چھیننے پر کسی مرد کو سزا ہوئی ؟
کیا دوسری شادی کرنے پر پہلے شوہر کی جانب سے اسے وغلانے, ہراساں کرنے یا اس پر قاتلانہ حملے کرنے والے کسی مرد کو سزا ہوئی...
تو کون سا قانون اور کیسی عملداری؟
ابھی کچھ عرصہ قبل جب بائیس سالہ تطہیر فاطمہ جو عدالت سے اپنے نام کیساتھ اپنے باپ کا نام ہٹانے عدالت جا پہنچی. کیونکہ اس کے باپ نے اس کی ماں سے علیحدگی کے بعد کھانے پہننے اور ضروریات زندگی کو کیا پوچھنا تھا بلکہ ان کے جائز قانونی حقوق جس میں اولاد کو اپنا نام دینا, ان کی تمام دستاویزات کے بنوانے میں ان کی مدد کرنا , اور ان کی سرپرستی تک سے ہاتھ اٹھا دیا ہو وہ بائیس سال تک معاشرے میں جس آدمی کی وجہ سے دنیا میں لائی گئی اسی کے نام کو گالی اور گولی کی طرح ہر روز اس کے سینے میں پیوست کیا گیا.. . آخر وہ اس آدمی کا نام اپنے نام کے ساتھ کیوں نتھی کرے؟ تو پاکستانی عدالتیں کب اسلامی ریاست کی عدالت ہونے کا حق ادا کریں گی ؟ جہاں ہر مرد اپنے جائز اور ناجائز, بیاہی ہوں, طلاقی ہو, یا خلع یافتہ، ہر عورت سے اپنی اولاد کو اس کے تمام تر اسلامی اور انسانی حقوق ادا کرنے کا پابند کیا جائے. عورت کے تحفظ کو اس آدمی کی جانب سے متوقع ہر خطرے سے اور اس کے شر سے بچانے کے لیئے مضبوط عملی اقدامات کیئے جائیں .
کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جو خواتین کو باعزت زندگی دینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں . شادی نہ ہوئی غلامی کا طوق ہو گیا عورت کے لیئے، کہ اب اگر ایک بار کسی مرد سے دو بول پڑھوا لیئے تو۔۔ ختم تمہاری زندگی کا ہر اختیار, ہر احترام ,ہر عزت اب ختم, بلکہ تمہاری زبان ہی کاٹ کر اس مرد کے نام کر دو. تو پھر اللہ نے اسے یہ آنکھیں، یہ زبان، یہ دل ، یہ دماغ دیئے ہی کیوں تھے ؟ جب ان کا استعمال ہی نہیں کرنا تھا تو؟
یہ ایک بہت ہی اہم سلگتا ہوا مسئلہ ہے جسے ہمارا کوئی قاضی لائق توجہ نہیں سمجھتا، کیونکہ وہ خود ایک مرد ہے. اگر انہیں اس پر قانون سازی کرنی پڑ جائے تو ان کے ہاں مردوں کو بہت سی بیویاں بنانے، چھوڑنے اور ان کے کئی کئی بچوں کی ذمہ داریاں کہیں خود ہی نہ اٹھانی پڑ جائیں . ہمارے ہاں اگر صاحب قدرت لوگوں بلکہ مردوں کے لیئے شادی عیاشی کے بجائے ذمہ داری بنا دی جائے گی اسی روز ان بہت سارے مسائل کا حل بھی نکل آئیگا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں