ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 26 مارچ، 2018

ظلم کرنے سے سہنے تک



     ظلم کر ے سے ظلم سہنے تک 
        (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)




جن گھروں میں بہوؤں کو نماز کے بعد پانچ سات منٹ سے زیادہ تسبیح کرنے کی اجازت یہ سوچ کر نہ دی جاتی ہو کہ وہ گھر والوں کے خلاف وظائف کرنے لگیں گی، جہاں خواتین کے استعمال کی مخصوص اشیاء تک سسر صاحب ہی لا کر دیں گے، جہاں سسر صاحب کی ٹانگیں دبانے کی ذمہ داری بیٹوں کے بجائے بہوؤں کی ہو گی، جہاں پردے کے نام پر میکے جانے پر پابندی جبکہ دیور جیٹھ ایک گھر میں رہ رہے ہوں وہاں شوہر اور تمام سسرال والوں سے چھپ چھپ کر اپنے پاس موبائل رکھنا اور اُس سے ایک سال قبل ملی ہوئی ماں کو میسج کرنا یا بات کر لینا کیا یہ جرم ہے .
یہ ہیں وہ مسائل جو ہمیں سننے کو ملے کچھ بہنوں کی زبانی .
اب کوئی ایمانداری سے بتائے کہ یہ سب جس کی بہن یا بیٹی کیساتھ  ہوا ہو تو ظلم ہے, 
اور اگر بیوی یا بہو کیساتھ ہو تو ہماری خاندانی روایت یا رواج ...
کچھ لوگ یہ بھی سوچتے ہونگے کہ جناب کس زمانے ک بات کر رہی ہیں. آجکل ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ تو جناب سو فیصد نہیں تو  چالیس فیصد گھروں میں آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے باقی تیس فیصد  گھروں میں یہ مظالم کم ہو جانے کی وجہ ان حالات میں الگ گھر بسا لینا ہوتا ہے . جبکہ باقی تیس فیصد گھرانوں می بہوؤں نے ظالمانہ انداز حکمرانی اختیار کر رکھا ہے..  اور بیاہ کر آتے ہی سسرال والوں کو مرچی کی دھونی دینے کا مشن لیکر کر ہی ڈولی سے اتری ہیں... 
ہم سے یہ سب جب پڑھی لکھی خواتین نے کہا  کہ کیا کریں ظلم سہنے پر مجبور ہیں تو بہت افسوس ہوا.. ان کے لئے ایک ہی جواب ہے کہ جی نہیں پیاری بہنوں ہم خود اپنے لیئے مجبوریاں پیدا کر لیتے ہیں. 
سب سے پہلے تو بچے پہ بچہ پیدا کر کے آپ اپنے آپ کو خود آزمائشں کی بھٹی میں جھونک رہی ہیں کہ جن کی نہ اس سسرال کو ضرورت ہے نہ ہی میاں کو ضرورت  یا خوشی تو کیوں آپ اپنی اکیلی جان کو دلدل میں دھنسا رہی ہیں.  اوراس پر طرًہ یہ کہ اس قسم کے حالات اور غلامانہ انداز زندگی میں آگر آپ کے باپ یا بھاٹی ہمدردی دکھا کر آپ کا ساتھ دینے کی کوشش   بھی کریں تو خاتون اپنے بچے اپنے ساتھ چمٹا کر میاں کو سانڈ کی طرح کھلا اور آذاد چھوڑ دیتی ہیں کہ جاؤ میاں چھڑے چھانٹ عیش کرو ہم بچے اپنے باپ بھائی سے پلوا لینگی..یا خود خوار ہو کر پالیںنگی جوان ہو جائینگے کسی قابل ہو جائینگے تو اٹھا کر لیجانا ہو ابا بنکر آ جانا. ۔...
ایسی ہی عورت کی عزت نہ باپ کی گھر میں رہتی ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے اس کےب ھائیوں کے  گھروں میں سکون رہتا ہے... سو الگ ہونیا ناراض ہونا فیصلہ کریں تو بچے ہمیشہ میاں کی گود میں ڈال کر نکلو کہ یہ میکے کا تحفہ نہیں ہے تمہاری نسل ہے میاں پالو اسے....
چار دن میں دماغ ٹھکانے پر آ جائیگا موصوف کا . اور چھوڑے گا  تو بھگتے گا بھی خود ہی
سچ پوچھیں تو ہم تو اس قسم کی خواتین میں قطعا شامل نہیں ہیں جو سسر کی ٹانگیں دبائے بلکہ اس کے بجائے گلہ نہ دبا دیں ایسے سسرے بے حیا کا ..
اور کوئی روک کر تو دکھائے ہمارے ماں باپ  بہن بھائیوں سے ملنے سے ہمیں ..جب تک کہ اس کی کوئی مضبوط شرعی اور سماجی وجہ نہ ہو.کیونکہ  ہم بیاہ کر آئے ہیں بک کر نہیں. 
رہی بات یہ سوچنا کہ میرا میاں مجھے چھوڑ نہ دے 
تو یہ یقین رکھیں جناب 
ہمارا جوڑا جب تک اللہ پاک نےجوڑ رکھا ہے تب تک کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی چاہے میں کتنی بھی بری ہو جاؤں 
اور 
نہیں جوڑا تو میں اسے کبھی  جوڑے نہیں رکھ سکتی چاہے میں فرشتہ ہی کیوں نہ ہو جاؤں.
اس لیئے شادی کے رشتے میں میں کسی دھونس دھمکی یا  بلیک میلنگ پر  یقین نہیں رکھتی . یہ محبت اور اعتبار کا رشتہ ہے.  یہ ہمدردی اور پیار کا رشتہ ہے.  سو اسے محبت اور پیار سے ہی چلنا چاہئے. کسی سے ناانصافی مت کیجئے.  عورت کو خصوصاً ہمارے معاشرے میں بہو اور بیوی کے روپ میں بہت زیادہ ہمدردی کی ضرورت ہے اسے انسان سمجھنے کی ضرورت ہے.  لیکن اس کا مطلب اسے سر پر چڑھا کر باقی رشتوں کی توہین ہر گز ہیں ہے.  بطور مرد یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے رشتوں کے بیچ محبت میں توازن پیدا کیجئے.  اور بطور عورت یاد رکھیں کہ ظلم اسی پر ہوتا ہے جو ظلم سہتا ہے . اور اللہ نے دونوں کی سزا ایک ہی مقرر کر رکھی ہے.. ..
نوٹ(کوئی بھی بات سو فیصد لوگوں کے متعلق نہیں ہے) .

جمعہ، 23 مارچ، 2018

پاکستانی سرحد پر کوئی مذاق نہیں


پاکستانی سرحد پر کوئی مذاق نہیں. ...
دوستی صرف دوستی کی شرط پر 
ممتازملک. پیرس


کچھ روز قبل ایک بھارتی دوست سے اس کی پوسٹ پر پاکستانی سرحد کو (ان کے حسب عادت ) غلطی کہنے پر کہا سنی ہوئی . جسے انہوں نے ہمارا غصہ اور تابڑ توڑ جوابات دیکھتے ہوئے مذاق قرار 5

پیر، 19 مارچ، 2018

یورپ اور انگلینڈ کی مسلم مخالف مہمات

یورپ اور امریکہ کی مسلم مخالف مہمات
ممتازملک.پیرس

مسلمانوں نے یورپ میں اپنی نسلوں کیساتھ اس لیئے آباد ہونا شروع کیا کہ انکے ممالک میں انہیں امریکہ اور یورپ کی پھیلائی ہوئی شورشوں اور انتہا پسندوں اور سازشوں نے عام آدمی کی زندگی کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے . کہیں ہمارے جغرافیائی صورتحال کے تناظر میں,کہیں سونے  چاندی اور جواہرات سے بھرے پہاڑوں پر رال ٹپکاتے ہوئے اور کہیں گرم پانیوں تک پہنچ کے ارمان نے ان مالک کو سیاسی طور پر اپنے ٹٹّوؤں کے ذریعے  چلانے کی سازشوں نے ان ممالک کے عوام پر زندگی کو تنگ سے تنگ سے تنگ کر دیا ان حالات میں مسلم ممالک کے وسائل ہڑپ کرنے والے ممالک جب ترقی کے نئے پیمانے  قائم کر رہے تھے . تو اپنے ممالک میں بیروزگاری اور غربت سے بر سر پیکار افراد کو غربت کی چکی میں پستے ہوئے  یورپ ہی اپنی جائے پناہ نظر آنے لگا .
3 اپریل 2018 ء کو مسلمانوں کے خلاف انگریز طالبانوں کے کھلم کھلا دہشت گردی کی اعلانات اور  دھمکیوں کے باوجود انگلینڈ کی حکومت دم سادھے بیٹھی ہے .کیوں؟ کیا چاہتی ہیں یہ انگلینڈ اور یورپ کی حکومتیں ..؟؟؟.
وہ لوگ جو اپنی ساری عمر ان ممالک میں اپنی خدمات پیش کرتے رہیں ...اپنی نسلیں ان ممالک کو سونپ دیں جہاں عالمی جنگوں نے کہیں مرد ختم کر دیئے تھے تو کہیں آبادیاں ہی صاف ہو چکی تھیں ان لوگوں کو اس ملک میں رہنے کی سزا دینا چاہتے ہیں یا انہیں ان کے کم تر ہونے کا نفسیاتی آزار پہنچانا چاہتے ہیں .
اگر ان افراد کو اپنے ممالک میں آباد ہونا آپ کے کلیجے پر اتنا بھاری بوجھ بن چکا ہے تو اس کا عملی علاج کیجیئے . نکال لیجئے دنیا بھر کے مسلم ممالک سے اپنی افواج ...ِ
لوٹا دیجیے ان ممالک سے لوٹی ہوئے بے حساب دولت جن پر آپ ناگ بنے بیٹھے ہیں ...
ان کے حوالے کر دیجیے وہ تمام بھگوڑے اور مجرمان جن کی اعلی کارکردگی پر آپ نے انہیں اپنے ممالک میں پناہ اور شہریتیں دے رکھی ہیں ..
واپس بلا لیجیئے ان مسلم ممالک میں جبرا گھسائی ہوئے اپنی افواج
دور ہو جائیے ان مسلم ممالک میں ہونے والی تمام سیاسی  تبدیلیوں اور اتار چڑہاؤ سے ....
اور چھوڑ دیجیے ان ممالک میں ہر طرح کی دخل اندازیاں ...
اور ی  سب کرنے کے بعد اس بات کا یقین کر لیجیئے کہ یہ لوگ اکثر اپنے ملکوں کی غربت سے بھاگ کر نہیں آئے بلکہ ان کی اکثریت اپنے ممالک میں پھیلائی گئی بدامنی اور ناانصافی س بھاگ کر اسے خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے. 
3 اپریل کے دن مسلمانوں پر حملے کرنے کے شوقین گورے طالبان یہ دھیان میں رکھیں کہ سامنے والے نے بھی انہیں جواباً چوٹ پہنچا دی تو اس کا الزام کسی بھی مسلمان پر نہیں آنا چاہیئے.  اور ہماری امن پسندی کو ہماری کمزوری سمجھنے کی غلطی مت کیجئے.  کیونکہ ہم تو اس پہلے ہی اپنی ساری کشتیاں جلا کر یہاں آباد ہوئے ہیں. 
                       ...............

ہفتہ، 17 مارچ، 2018

ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں. ..




ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں؟
(تحریر/ممتازملک . پیرس)



ہم کس قدر  بےحس اور غیر  مہذب لوگ ہیں جو کسی بھی شخص پر کوئی الزام لگانا تو جانتے ہیں لیکن اس کی تحقیقات کرنا ضروری نہیں سمجھتے . ہم کیا ہمارے جج صاحبان نے عدالتوں میں فیصلوں کی وہ اعلی ترین غیر منصفانہ انصاف کے مثالیں قائم کی ہیں کہ ان پر خدا کا قہر بھی نازل ہو جائے تو کم ہے ...سالہا سال سے معصوم لوگوں کی زندگیاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے  آزادی اور عزت کا سورج ابھرتا ہوا دیکھنے کی خواہش  میں ہر روز امید کا سوج ڈوبتے دیکھتی رہتی ہیں  . لاکھوں ایسے مقدمات پاکستانی  عدالتی بوسیدہ  سسٹم کے تحت لاکھوں خاندانوں کا خون کئی کئی دہائیوں سے چوس رہے ہیں لیکن ہمارے وکیل دکاندار بنے شقوں اور پیشیوں کے پکوڑے تل رہے ہیں اور ہمارے جج اپنے منافع کا سودا بیچ رہے ہیں. پھر بھلے سے کوئی بیگناہ آبرومندانہ آزادی کا ارمان دل میں لیے "باعزت بری کیا جاتا ہے "  کے الفاظ سننے سے دو دد چار چار سال پہلے ہی جیل کی کوٹھریوں میں اپنی زندگی  کی بازی ہار گیا ہو ...
چاہے اس کا خاندان وکیلوں کے لارے لبوں پر فیسیں بھر بھر کر تباہ و برباد ہو گیا ہو ...
اس کے بچے اس کے جیتے جی بےگناہ ہونے کے باوجود مجرم کا ٹھپہ اپنے ماتھے پر لیئے اس معاشرے میں تماشا بن گئے ہوں...
بیٹوں کی ڈولیاں اٹھنے سے رہ گئی ہوں یا کسی کی بہنوں کی باراتیں اس کے اس ناکردہ گناہ کے جرم میں واپس لوٹ گئی ہوں .
کسی وکیل کو اور کسی جج کو اس سے کوئی فرق نہیں  پڑتا ...
کیوں کہ ان کے پاس سیاسی ملزمان اور مجرمان کی دو نمبر قید اور سزاوں سے ہی فرصت نہیں ہے جہاں بظاہر لوگوں کے جان مال اور عزتوں سے کھیلنے والے کیس میں   روز روشن جیسے ثبوت رکھنے والے  عوامی مجرم  کو ایک دروازے سے سزا سنا کر جیل بھیجا جاتا ہے تو  دوسرے دروازے سے اسے کسی بنگلے کی جانب چار ملازمین دیگر  باہر  منتقل کر دیا جاتا ہے ... 
خدمت میں ساری رنگینیوں کا انتظام کر کے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے . جسے عوام قیدی سمجھ رہی ہوتی ہے وہ کئی  سال قید کے نام پر عیاشی اور تفریح کے بعد پہلے سے زیادہ ہٹا کٹا اور بکرا بن کر باہر نظر آٹا ہے اور پھر سے اپنے دانت قانونی طور ہر بیوقوف بنائے گئے عوام کی رگوں میں اتار دیتا ہے ...ستر سال سے یہ کھیل تماشے چل رہے ہیں. ...ہم عوام بچہ جمہورہ  بنے اس قانونی ڈگڈگی پر نچائے جا رہے ہیں ..معصوم افراد ہمارے جیل کی کال کوٹھریوں میں  گمنام موت  مارے جا رہے ہیں اور بدنام زمانہ اشرافیہ اور سیاستدان  مجرم ہوتے ہوئے بھی جیل کے نام پر  ہنی مون ٹرپ منا کر  زندہ سلامت دندناتے ہوئے باہر آ جاتے ہیں ...افسوس صد افسوس نہ ان میں سے کسی کو پھانسی ہوتی ہے نہ ہی قید بامشقت جہاں عام قیدی انہیں اپنی آنکھوں سے پتھر توڑتے ہوئے چٹائیاں بنتے ہوئے دیکھتے ..جیل کے فرش پر سوتے اور دال روٹی کھاتے ہوئے دیکھتے تو ان کے دلوں میں بھی قانون اور منصفین پر یقین اور اعتماد پیدا ہوتا ....
لیکن ہمیں ہر بار نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ آب ذر سے لکھی  بات یاد آ ہی جاتی ہے کہ 
تم سے پہلے قومیں اسلیئے تباہ و برباد کر دی جاتی تھیں کہ ان میں جب کوئی  صاحب حیثیت آدمی جرم کرتا تو معاف کر دیا جاتا اور اگر کوئی غریب جرم کرتا تو سزا پاتا....
ہمارے منصفین گلے گلے تک ان بے گناہوں کے لہو میں ڈوبے ہوئے ہیں جہاں آج ایک اور پندرہ سال کی عمر میں بیوہ ہو جانے والی رانی  اپنی زندگی کے بیس سال کال کوٹھری میں گزار کر  باعزت بری کر دی گئی. ....اب کون ان طاقتور منصفین سے پوچھے گا کہ 
جج صاحب میری آزادی اور بے گناہی کے اعلان کیساتھ جیل میں میرے ساتھ سسک سسک کر مر جانے والے باپ کی زندگی بھی لوٹا دو ....
جج صاحب میرے جواں سال بھائی کی جیل میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر  گزاری ہوئی جوانی بھی لوٹا دو ....
جج صاحب میرے ماتھے پر لگے اس قاتلہ نام کی مہر کیساتھ میری معصومیت عزت نفس اور  اور بھری جوانی کے وہ دن  بھی واپس لوٹا دو ......
لیکن ہمارے معاشرے میں ہر روز کسی نہ کسی بہانے بیکار اور بے مصرف  اشیاء پر ہزاروں روپے خرچ کرنے والے لاکھوں لوگوں کے ذہن میں کبھی ایک بار بھی یہ بات آئی ہے کہ ہر روز نہیں تو سال میں اپنے خوشی کے دو چار مواقع ہر ہی سہی کسی جیل کا دورہ کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بیگناہ رانی چار سو روپے کے جرمانے یا چھ سو ہزار روپے کا چالان بھرنے کے انتظار میں  جیل کی کوٹھری میں اپنی زندگی  تباہ ہونے کا  نوحہ نہ کر سکے ....
پھر بھی ہم پوچھتے ہیں کہ ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں ? کیونکہ ہمیں اپنے ارد گرد سے آتی ہوئی سسکیاں اور آہیں سنائی نہیں دیتیں .............



پیر، 12 مارچ، 2018

دوسری اقوام میں عیب جوئی



دوسری اقوام میں عیب جوئی 
(تحریر/ممتاز ملک . پیرس)


ہمارے ہاں انگریزوں کے بہت سارے فیشن بڑی آسانی سے
 اپنا لیئے جاتے ہیں لیکن آج تک ان کا اپنے ماں یا باپ کو بار بار محبت جتانا اور گلے لگانا  کیوں نہیں سیکھتے؟
یورپ کی اچھی باتوں میں یہ بات  بھی شامل ہے کہ سکول جاتے ہی سب سے پہلے اسے لو یو ممی اور لو یو پاپا سکھایا جاتا ہے
مدر اور فادر ڈے اور اس کے علاوہ ہر  موقع پر  تین سال کے بچے کے ہاتھ سے مدد کر کے چھوٹے چھوٹے کارڈز بنائے  جاتے ہیں اپنی ماں اور باپ کو پیش کرنے کے لیئے .
پھر ان سے پوچھا جاتا یے کہ آپ نے اپنی ممی کو بوسہ دیا
آپ نے اپنے پاپا کو گلے لگا کر پیار کیا .
یہ آج تک آپ کو کسی نے نہیں بتایا ہو گا یورپ کے بارے میں .....
اور یہ جو اولڈ ہاوس کے نام کا طعنہ دیا جاتا یے گوروں کو ...
تو یہ جان لیں کہ جب میاں بیوی دونوں کام کرتے ہیں تو وہ گھر کی چوکیداری کروانے اور انہیں اکیلا جھوڑنے سے اچھا سمجھتے ہیں . اسے بہتر سمجھتے ہیں کہ ممی پاپا یا دونوں کو ہی ایسے گھر جوائن کروائے جائیں جہاں انکو ان کی عمر کے لوگوں کیساتھ گھلنے ملنے  اور گپ شپ کرنے کا وقت مل سکے . کسی بیماری یا تکلیف میں وہاں فوری طور ہر ڈاکٹرز کا بندوسبت ہوتا  ہے.  ان کے کھانے پینے اور دوا دارو کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے . ان کی کنڈیشن کے حساب سے وہ روزانہ یا ہفتے یا مہینے بعد اپنے بچوں کے پاس یا بچے ان کے پاس آتے ہیں ان کیساتھ دن گزارتے ہیں . اور ہر لمحہ فون پر ان سے رابطے میں رہتے ہیں .
اور یاد رکھیں یہاں پر ماں باپ کی جائیداد بچوں کو ملنا کوئی لازمی نہیں ہے وہ صرف  میاں بیوی کی ہوتی ہے اب  انکی مرضی وہ اسے کسی اولاد کو دیں یا کسی کتے بلی کے نام کر جائیں . یا پھر کسی ٹرسٹ میں دے جائیں . 
اس لیئے اولاد  کی  محبت میں کوئی لالچ شامل نہیں ہوتا .
اور ایک ہم منافق 
مطلب نہ ہو تو ماں باپ سے سلام دعا کرنا  بھی گوارہ نہیں کرتے.
بیوی مل جائے تو ماں کو بچوں کی آیا اور باپ کو اپنے گھر کا ملازم بنا لیتے ہیں  اور
لفافے چھپا چھپا کر اپنے کمروں میں گھستے  ہیں اور
عیب نکالتے ہیں دوسری قوموں میں ...کمال ہ
ممتازملک

اتوار، 11 مارچ، 2018

ذاد راہ پر ہے ۔ سراب دنیا


ذاد راہ 
(کلام/ممتازملک.پیرس)

اسی کے کہنے پہ منحصر ہے 

یہ سارا اسکی سراہ  پر ہے


کمال داد اس کو اس قدر ہے

یہ زور  اس کی ہی واہ پر ہے


کہاں کہاں کس کو کیا ملے گا 

یہ فیصلہ سربراہ پر ہے


کسی کی آنکھوں کے اشک پر ہے

کسی کے ہونٹوں کی آہ پر ہے


بدل تو لوں راستہ مگر پھر

نظر ابھی ذاد راہ پر ہے


چلے گا اب کتنی دور تک تو

یہ اپنے زور نباہ پر ہے


ہر ایک محور ہر ایک مرکز

ابھی تک اس کج کلاہ پر ہے


وہ بخش دے چاہے مار ڈالے

یہ فیصلہ آج شاہ پر ہے


لو آ ج ڈوبیں کہ پار اتریں 

یہ سب تو ممتاز چاہ پر ہے
۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/