ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 30 اگست، 2015

Safdar Barnali and Nashra Khan interview Mumtaz Malik on Takbeer Tv



MUDDAT HOI AURAT HOEY . / مدت ہوئ عورت ہوۓ ,,,,,,,,,,,,,,,,, MUMTAZ QLAM / ممتاز قلم ,,,,,,,,,,,,,,,,, میرے دل کا قلندر بولے/ MERE DIL KA QALANDR BOLE ،،،،،،،،،،،،،،،، REPORTS / رپورٹس ............ NEW BOOK/ نئ کتاب ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

جمعہ، 28 اگست، 2015

● (15) آو کمیشن کمیشن کھیلیں/کالم۔ سچ تو یہ ہے


    (15) آؤ کمیشن کمیشن                               کھیلیں 
       تحریر:ممتازملک۔ پیرس





ہمارے ہاں کا قومی رواج ہے کہ کوئی بھی حادثہ ہو جائے، سانحہ ہو جائے، کچھ  بھی ہو جائے،  حکومت کو جب عوام کے غیض و غضب سے بچنا ہوتا ہے تو وہ اس کے منہ پر کمیشن کی ٹیپ چپکا دیتی ہے . بلکل ویسے ہی جس طرح ڈاکو جب کسی کو لوٹتے ہیں تو اس لٹنے  والے کے شور سے کوئی خبردار نہ ہو جائے یا شور مچانے سے اس کا گلہ نہ خراب ہو جائے ، اس کے منہ  پر ٹیپ چپکا دیتے ہیں . کسی نے ایک آدمی سے پوچھا کہ بھائی خدانخواستہ  9/11  کا واقعہ ہمارے ملک میں ہوتا تو حکومت کیا کرتی . اس نے ہنس کے جواب دیا کہ کیا کرتی، ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی،  یا عوام پھر بھی شور مچانے سے باز نہ آتی تو حادثے پر ایک کمیشن بنا دیتی . 
یہ وہ کمیشنز ہوتے ہیں جن کا پچھلے ستر سال میں نہ تو کوئی کام منظر  عام پر آیا اور نہ ہی عوام کو اس کا کوئی نتیجہ ملا .
ہمارے ہاں اکثر مجرمان کے ڈانڈے اوپر والوں سے جا کر ملتے ہیں اور تب تک ملے رہتے ہیں جب تک وہ خود خدا سے نہ مل جائیں. ویسے اس کمیشن سے ان لوگوں کو بھی خوش کیا جاتا ہے جنہیں وزیر بے محکمہ کے آخری پائیدان  کے بعد بھی کوئی  وزارت نہیں ملتی .  لہذا ان سب متاثرین وزارات کو متبادل کے طور پر کسی بھی کمیشن کا رکن بنا دیا جاتاہے . آخر کو انہوں نے بھی انتخابات میں اپنا کالا دھن سفید کیا ہے . تو کچھ نیلا پیلا کرنا تو  انکا بھی بنتا ہی ہے . اس کمیشن کا کمال یہ ہوتا ہے کہ پہلے تو بدھو عوام کے منہ بند ، دوسرا بیکار ممبران کو عہدوں  کی سپلائی، تیسرا اپنے سارے اوپری پہنچ کے کرائے کے مجرمان کی پردہ پوشی کا مستقل حل تلاش کیا جاتا ہے اور اس سارے دودہ کی ملائی بھی تو ہوتی ہے وہ ہے ہر کمیشن پر باتیں، شہادتیں دبانے پر ملنے والا کمیشن یعنی جسے بھی کمیشن سے بچنا ہے تو کمیشن لگائے . کسی کو پھنسانا ہے تو کمیشن لگائے کسی کو بچانا ہے تو کمیشن لگائے . یوں ساری قوم مل کر حکومتی کمیشن کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتی ہے . چاہے کمیشن کے کمیشن میں حصہ نہیں بھی  ملتا لیکن جنہیں ملتا ہے وہ بھی اس ملک کی باعزت برادری ہے . تو ترقی تو ملک ہی کرتا ہے نا جناب . تو حکومتی اعلان اور کمیشن کمیشن کھیلیں پر ناک بھوں چڑھانے  کی بجائے اس کی برکات پر غور کیا کریں . کیونکہ  ناک بھوں وہ چڑھاتے ہیں جنہیں دوبارہ دھوکا نہ دیا جا سکتا ہو . جبکہ ہم تو جب تک نیا دھوکا کھا نہ لیں پرانا ہضم ہی نہیں ہوتا  تو گلہ کریں تو کس سے کریں اور کیوں کریں ؟
                   ●●●                      
تحریر: ممتازملک.پیرس    
 مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●● 

پیر، 24 اگست، 2015

بابائی وباء۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے








بابائی وباء
ممتازملک. پیرس










ساری زندگی محبتیں مشقتیں

 کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں .














اپنی جانب سے ان بابوں کو 

اپنی بیویوں سے بہت شکایتیں 

ہیں جن کا ازالہ یہ کسی نوعمر 

لڑکی کی زلفوں کی چھاؤں میں 

بیٹھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ 

یہ جانے سوچے بنا کہ اس پرانی 

بیوی 

کو بھی ان کی کس کس بات یا حرکت 

سے کیسی کیسی گِھن آتی ہو گی لیکن 

وہ اسی گھر میں میں ان کی ساری حق 

تلفیوں کے باوجود اپنے بچوں کے لیئے خاموشی سے زندگی گزار رہی ہے ۔ کہ 

ہمارے 

منافق معاشرے میں میاں نے دس شادیاں بھی کی ہوں تو اسے "مرد ہے "کہہ کر 

نطر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ عورت کسی مرد کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لے 

تو سب سے پہلے اس کے کیریکٹر کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ یہ جانے بنا کہ 

اسے بھی حق اللہ ہی نے دیا ہے اپنی عذاب ناک زندگی سے چھٹکارا پانے کا ۔ 

یہ صورت حال عام طور پر بچوں کی شادیوں کے معاملات میں دیکھی جا 

سکتی ہیں ۔ اس بیوی کی ضرورت پر یا بیماری پر یا کسی شوق پر خرچ کرنا 

تو فضول خرچی ہو سکتا ہے جو آپ کے ایک ایک انداز سے آپ کے اگلے قدم 

کو جان لیتی ہے ۔ لیکن ایک نوعمر بیٹیوں جتنی عمر کی لڑکی کی ہزاروں 

نازیبا فرمائشیں بھی گراں نہیں گزرتی ہیں ۔ شاہد معاملہ کسی پردہ پوشی کا ہو 

سکتا ہے ۔ ظاہر ہے محبت کی چڑیا کا تو وہاں گزر ہو ہی نہیں سکتا ۔ 

 ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ ہے کہ وہ  

جوان کم عمرلڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال 

کے فرق سے کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری  

یامحبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ تعلق نہیں ہوتا . بابا جی 

کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام 

سے منہ کے بل آ گرتا ہے .

کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والی نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ 

نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟

تو وہ اٹھلا کے بولی

ویکھو جی ، بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے

ایک تو ان کی اِن کم

دوسرے ان کے دِن کم

سوچئے تو جنہیں یہ "دِن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو 

بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس 

لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں 

لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ

بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی'' لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...''

تو بابا بے شرم بولا ''لتاں قبر وچ نے منہ تے حالی باہر اے...''

یہ بابے پاکستان میں نوعمر بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید 

اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس 

مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک  ہنی مون 

پیریڈ کی نام نہاد بیوی مل جاتی ہے.

سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو 

یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہے . اس پر طُرّہ یہ کہ دونوں کی 

ضروریات الگ ، خواہشات الگ،شوق الگ.ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو 

گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز شوگر 

فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا 

سمجھدار آدمی اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا. ساتھی ،دوست ، 

بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہو تا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے 

لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے 

آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو 

یہ سوچیں اور گِنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت 

اچھی بھی لگتی ہے .اسی بآت کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی 

میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ 

ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی 

ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت 

دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا 

لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا. یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی 

محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر 

جاتے ہیں .
                              ..................

منگل، 18 اگست، 2015

دین کا مذاق بند کرو


                
دین کا بند کرو
ممتازملک ۔ پیرس


ویسے توپاکستان میں کوئی بھی معاملہ یا حادثہ ہو جائے اسے کسی دوسرے حادثے سے ری پلییییس کر دیا جاتایے. تاکہ عوام کا غم کم کیا جا سکے . بجلی کو روئیں گے تو گیس کا رونا ڈلوا دیا جایئے گا ، گیس پر تڑپیں گے تو پانی کا مسئلہ پیدا کر دیا  جائے گا . اور ہماری  اسلام کی ٹھیکیدار مسلمان جماعتیں (مسلمان اس لیئے کہ وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان سمجھتے ہی کب ہیں )مہنگائی پر تو میدان میں  آئیں گی لیکن کتنی حیران کن بات ہے میں نے ان نام نہاد دینی جماعتوں کو کبھی کسی زناکار  کے خلاف، قاتل کے خلاف ،تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف ، کاروکاری کے خلاف، وطن فروشووں کیخلاف،بچوں کے بدفعلی کے مجرمان کو پھانسی دلانے کے لیئے کبھی نہ تو کوئی جلسہ  کرتے دیکھا، اور نہ ہی کسی مقام سے ان کی مذمت  کی کوئی خبر سنی  . یہ کیسی داڑھیاں ہیں ان کے چہرے پر جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی کسی سنت کی کوئی جھلک ہی نہیں . کہیں حلیہ بنا کر اپنے آپ کو چھپانے کی مکروہ  صیہونی سازش تو نہیں . ہمارے نبی نے تو بچوں اور خواتین کے جتنے حقوق اور ان کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے اور ان کے  لیئے کئی مقام میں بار بار خداسے ڈرنے کا حکم سنایا ہے اس حساب سے تو ہمارے ملک کو بچوں اور عورتوں کے تحفظ کے لحاظ سے مثالی ملک ہو نا چاہیئے تھا .لیکن یہاں تو سینکڑوں خواتین تیزاب سے جھلسادی جائیں یا بے شمار بچے بدکارہوں کی بھینٹ چڑھ جائیں  . بے غیرتوں  اور بدکاروں  کو.نہ تو سزار دلوانے کا مطالبہ سامنے آیاہے اور تو اور  ان نیم ملااوں نے  اسے برا  کہنے کی بھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی  . کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سارے واقعات میں اور خاص طور پر بچوں سے زیادتی کی واقعات میں یہ ہی سب سے زیادہ منہ پر داڑھی رکھ کر اپنے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرنے والے مجرمان ہی ملوث ہیں . ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں جو آدمی سب سے زیادہ بدکردار اور بدنام ہو جاتا ہے یا بدنامی کے کالے کام کرنے والا ہو تا ہے وہ اسے داڑھی رکھ کر چھپانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ سارا علاقہ اسے صوفی صاحب سمجھ کر اس پر اعتبار کرتا رہے اور یہ اس کی آڑ میں اپنے گناھ گارانہ کام کرتے رہیں . یہ بات سو فیصد لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی، لیکن  80% لوگ یہ ہی گل کھلا رہے ہیں جس کی وجہ سے 20%نیک لوگ بھی بدنام ہو رہے ہیں اور دنیا بھر کوہم اپنے ہی دین پر جگ ہنسائی کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں . ہمارے تمام نام نہاد علماء نے کہیں ان بدکاریوں پر بھی دین کے نام کی کلی چڑھانے کا تو نہیں  سوچ رکھا . کیونکہ اگر یہ پنڈورا بکس کھلے گا تو انہیں ملاوں کے نام  ہی سب سے زیادہ ملوث پائے جائیں گے . ہماری قبروں می کسی ملا نے ہمارا جواب نہیں دینا وہاں ہمارے اپنے ہی اعمال یا ہمیں بخشوائیں گے یا مروائیں گے . تو پھر انہیں دین کا ٹھیکیدار بنا کر ہم اپنے بچوں کو ان جیسے بدکارہوں کے آگے چارہ بنا کر کیوں پیش  کر رہے ہیں . ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ ہمیں مرتد اور بے دین قرار دیکر ہم پر زندگی تنگ نہ کر دیں . لیکن ہمارے لیئے ان کا خوف خدا کے خوف پر بھی غالب آ گیا ہے کیا. . ؟؟؟؟؟لوگوں نے مدرسوں میں بچے بھیجے تو شاید ہی کوئی بچہ اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے تک مکمل ذہنی تندرست ان کے مدرسے یا ادارے سے باہر نکلا ہو . . کوئی جسمانی یا ذہنی عارضہ اس بچے کیساتھ استاد کے تحفے کے طور پر جاتا ہی ہے . . ایسا کیا ہوتا ہے اس بچے کیساتھ کہ جس پر وہ باہر جاکر بدکار اور مجرم ہی بنتا ہے . جب اس صورت حال کو بہت دیر سے ہی سہی والدین نے بھانپ لیا اور گھروں پر بچوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا تو بھی پڑھانے تو مولوی صاحب نے ہی آنا ہوتا تھا تو بدکاریوں کیساتھ یہ ہی بچے قتل بھی ہونے لگے کہ اب تو پکا پکڑے جانے کا امکان موجود ہے لہذا قصہ ہی ختم کر کے ہی جاو .  ان تمام لوگوں پر کیا توہین رسالت کا کوئی قانون نہیں لگتا.  اگر نہیں لگتاہے  تو لگنا چاہئیے، تاکہ اچھے اور برے لوگوں میں تمیز کی جا سکے اور جب تک کسی کا مکمل کردار سنت رسول کے مطابق نہ ہو اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محض نقالی کرنے کو بھی جرم قرار دیا جانا چاہیئے . کم از کم سو گواہ اس آدمی کے سابقہ دس سال کی گواہی دیں کہ یہ آدمی واقعی دین دار باحیا اور نیک و شریف ہے تب اسے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیئے کی نقل کی اجازت ہونی چاہیئے . ہم آلو پیاز خریدتے ہوئے تو گھنٹوں  بازار میں بحث کر لیں گے لیکن نبی کی سنت پر چار باتوں کی پابندی کا زور نہیں دے سکتے ،پھر بھی ہمارا دعوی ہے کہ ہم سے بڑا عاشق رسول کوئی نہیں ہے . اب جب ان آدھے ایمان والے لوگوں کے ہاتھوں پاکستان ریکارڈ برباد ہو ہی چکا تو اب تو آنکھیں کھول ہی لینی چاہیئں . اور اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہماری مسجد کا کوئی بھی امام ،خطیب  یا مولانا ہماری مقامی گلی محلے یا علاقے کا ہی ہونا چاہیئے اور بال بچوں والا ہونا چاہیئے تاکہ اس کے جرم کر کے بھاگنے کے راستوں کو مسدود کیا جا سکے . یہ ہماری عورتوں اور بچوں دونوں کے تحفظ کے لیئے از حد ضروری ہے دین کا مذاق اب بند ہونا چاہیئے .

پیر، 3 اگست، 2015

ووٹ اور آواز



ووٹ اور آواز
ممتازملک ،پیرس




خواتین کا ووٹ اسی طرح ان کی آواز ہے جیسا کہ کسی بھی مرد کی لیکن یہ کیا کہ جہاں خواتین کو اپنے کسی بھی مقصد کے لیئےاستعمال کرنا ہو وہاں انہیں سڑکوں پر بھی لایا جاتا ہے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تد کیا کلاشنکوف  بھی تھما دی جاتی ہے اور جہاں ہمارے مردانہ استحصالی مزاج کا میٹر گھومتاہے تووہاں خاتون کی آواز بھی کسی نے سنی تو وہ واجب القتل ہو گئ. جہاں کسی نے اس پر نگاھ بھی ڈالی تو وہ کاری کر دی گئ اور کسی نے اس سےبات کر لی پھر تو پکی فاحشہ قرار دے دی گئ. یہ کون بتائے گا کہ خاتون کو کب کس سے کتنے لفظوں میں بات کرنی ہو گی ؟ جب کہیں سیاسی محاذوں پر ضرورت ہوتی ہے انہیں موسموں کی شدت ہو، حالات کی سختی ہو، خوب خوب آزمایا جاتا ہے لیکن جب انہی سیاسی پنڈتوں کا جی چاہتا ہے   تو انہی خواتین پر گھروں سے نکلنے پر بھی فتوی لگ جاتاہے اور ان کا ووٹ دینا بھی کبھی اسلام کے خلاف قرار دے دیا جاتا ہے تو  کبھی کمیونٹی  کے اصولوں کے. خواتین کے ساتھ مذہب اور روایت کے نام پر یہ بلیک میلنگ کہیں ختم ہوتی دکھائ نہیں دیتی.ابھی کے پی کے میں ہونے والے انتخابات نے اس بات کو پھرسے ثابت کردیا ہے کہ جہاں مرد ٹھیکداروں کی مرضی ہو گی یاشاید دوسرے لفظوں میں جن علاقوں میں خواتین مردوں کی من نانی کو مانتے ہوئے اپنے ووٹ کاسٹ کریں گی وہاں تو ان کا ووٹ ڈالنا اسلامی بھی ہے اور روایتی بھی لیکن جہاں اور جن علاقوں می  خواتین پر شبہ ہوا کی یہ اپنا کوئ انتخاب رکھتی ہیں یا مردانہ من مانی کو قبول نہیں کریں گی وہاں ان کا ووٹ بھی غیر اسلامی ہے اور ان کی رائے بھی غیر روایتی  .یہ مذہب اور روایت کے نام پر کب تک خواتین کو فٹبال بنایا جائے گا. پہلے تو ان فرقوں کے دینے والوں کی اپنی مذہبی تعلیمات کا درجہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے.

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/