ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 27 جون، 2015

قومی رنگیلے




قومی رنگیلے 
ممتازملک ۔ پیرس







دنیا بھر میں قوموں کے حکمران ہوتے ہیں رہنما ہوتے ہیں یا سیاستدان ہوتے ہیں جو انہیں کامیابی کے راستوں پر لی جاتے ہیں لیکن پاکستانی  قوم کو قائداعظم کے بعد ان میں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا . بلکہ جو بھی ملے رنگیلے ملے یا رنگیلیاں  ملیں . جو دامے ورمے سخنے کام نظر آیا وہ بھہ اللہ پاک نے اس قوم کی عزت رکھوانے کے لیئے کسی نہ کسی سے زبردستی کروا ہی لیا  اسی طرح جیسے چیونٹی سے ہاتھی مروا لیتا ہے . سبحان ہے اس کی قدرت.
دور کیوں جائیں اپنے پڑوسی کو ہی دیکھ لیں جو اتنا بے دھڑک ہو کر بدمعاشیوں  کے ریکارڈ بناتا ہے کہ ہمارے ملک کو میسر آنے والے رنگیلے اور رنگیلیاں ان کو کھل کر فٹے منہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں دکھا سکتے آخر کو سودا بیچنا ہے بھائ . آلو لے ، پیاز لے ، چینی لے ......
ہندوستان کے بارے کسی کو کوئ ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ  اس نے خود اپنے کرتوت اپنی ہی فلمز میں  اعتراف کیئےیہ اعتراف گناہ 21دسمبر نامی فلم میں پاکستان توڑنے کے واقعات  ہوں یا بنارس کیفے نامی فلم میں سری لنکا اور جافنا میں ہونے والے خوفناک خانہ جنگی کے حالات اسے 
کھلے بندوں پیش کیا  اور اعلانیہ انہیں پیش کیا گیا.آن فلموں کو دیکھنے یا ہندو دہشت گرد پرائم منسٹر مودی کے گزشتہ کچھ عرصہ میں دکھائ جانے والی زبان درازیاں  ان سے بجا طور پر ایک کم عقل انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام یا برباد کرنے کے لیئے ستر سال سے یہ  بنیا بغل میں  چھری لیئے رام رام جپ کر پرایا مال اپنے نام کرنے میں مصروف ہے . اگر کوئ اور ملک پاکستان  کی بجائے ہوتا جس کے ساتھ اس کا پڑوسی یہ گل کھلا رہا ہوتا تو وہ اسی کے انہی ثبوتوں کی بنا پر دنیا میں اسکا ناطقہ بند کر دیتا.  ہندو محاورہ ہے کہ جھوٹ بولو لیکن اتنا بولو، اتنی بار بولو، ڈٹ کے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے . اور ہندوستان  کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں  نے ہمیشہ چھل ،بل اور کھپٹ کو  اپنے ہر معاملے میں استعمال کیا اور آنکھوں میں دھول جھونکنے میں یہ قوم ید طولی رکھتی ہے . دوسری جانب ہم پاکستانیوں  کو دیکھیں تو اپنی فطری نرم مزاجی کے باعث کبھی تو انہیں ہندووں سے سال بھر میں اپنے ملک میں جاسوسی اور قتل و غارت کا  ٹھیکہ  ان 15 لآکھ پاؤنڈ کے عوض کر لیتے ہیں کہ کہ جن میں سے 10 لآکھ ڈالر ہمارے رنگیلے حکمران انہی کی ایک ایک طوائف کے گھنگھروں پر ایک رات میں نچھاور کر دیتے ہیں .   کبھی ہم سادگی بازار لگا لگا کر بے حال ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنے ایک لندن سیکرٹریٹ  کا ماہانہ خرچہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاونڈز  میں کرتے ہوئے آدھی آدھی رات کو شراب کے نشے میں دھت  ملک و قوم  کی غربت کا رونا فون کال پر روتے نظر آتے ہیں . کبھی یہ رنگیلا غیر ملکی آقاووں کے اشارے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تڑیاں لگاتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے جب بلی کا بلونگڑا بھی ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا تو جھٹ سے جرنیلوں کے جوتے چاٹتا  اور ملک سے باہر نکلنے کے چور دروازے کھلواتا نظر آتا ہے . کچھ اتنے ہشیار  کہ راتوں  رات ان رنگیلوں اور رنگیلیوں کے سات پشتوں کے کرتوت بمعہ  ثبوت ڈھونڈ نکالتاہے تو کہیں اتنے احمق کہ 
"یار جانے دو میرا بھائ نہیں " 
کہہ کر ملک سے باہر بھگا کر خوب  عیاشی کرنے کی دعا دیکر اور بگل بجا کر رخصت کر دیتا ہے . وہ جنہیں قوم پھندے پر جھلانا چاہتی ہے اسے ہمارے دوست نواز بااختیار جہاز کا جھولا جھلا کے" جھولے مایاں" کھلاتا ہے . کیونکہ ہم گھر کا کچرا جلانے کی بجائے اسے کارپٹ کے نیچے دبا کر اپنی نآک بند کر لینا زیادہ آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھلااپنی ناک کیوں بند کریں گے . لیکن ایک ہی بات ان سب حالات کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ بے غیرت کا کوئ دین دھرم نہیں  ہوتا . پھر وہ رنگیلا ہو یا رنگیلی اس سے کیا فرق پڑتا ہے . نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو پہلے ہی فرما دیا تھا کہ " جو حیا نہیں کرتا وہ جو چاہے کرے " .
                       ....................

جمعرات، 18 جون، 2015

رمضان دسترخوان / ممتازملک ۔ پیرس



رمضان دسترخوان 
ممتازملک ۔ پیرس


زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب رمضان المبارک کا انتظار اس امید اور تیاری کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ شیطان قید کر لیا جائیگا اور اسے زیادہ سے زیادہ  اپنے اللہ سے بات کرنے  اور اس کی عبادت کا مزہ لینے کا موقع ملے گا . خوب مناجات کی جائیں گی ،دعاؤں کے زور پر خدا سے اپنی مرادیں  مانگی اور پائ جائیں گی اور اللہ کی رحمتوں  سے اپنے دامن خوب خوب بھرے جائیں گے . اب زمانہ بدلا روزہ داری سے زیادہ اب افطاری کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کے آغاز سے کئ روز پہلے ہی اکثر خواتین  اس مصروفیت میں مبتلا ہوتی ہے کہ بھئ رمضان آ رہا ہے تیاریاں کرنی ہیں .کہیں بیٹھی ہوں کسی بھی محفل میں ہوں پورا ماہ شعبان اسی سوچ اور فکر میں دکھائ اور سنائ دینگی کہ بھئی تیاریاں کرنی ہیں رمضان کی آمد ہے ۔.ہم  بیوقوف کافی عرصہ تک سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ تیاریاں کس قسم کی ہوتی ہیں ہم تو اسے قرآن پاک کی پڑھائ نوافل کی محافل کا.اہتمام ہی سمجھتے  رہے ۔

لیکن آیک روز کسی خاتون سے پوچھنے کی ہمت کر ہی بیٹھے کہ یہ کس قسم کی تیاریاں ہیں جو اتنی توجہ سے کی جا تی ہے تو بولیں ارے آپ نہیں کرتیں ہیں یہ سب تیاریاں ؟ ہم بے چارے شرمندہ سے سر جھکا کر بولے نہیں جی ہم تو جتنا ہو سکے اتنا.ہی کر لیتے ہیں ۔آپ سب تو ماشاللہ اللہ والی ہیں اتنا اہتمام تو آپ ہی کر سکتی ہیں .یہ سن کر وہ زور سے ہنسیں بولیں کیا آپ مذاق کر رہی ہیں . ہم نے کہا نہیں نہیں سچی بات ہے . آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا تیاریاں کرتی ہیں؟تو بولیں دیکھو  میں اور میری سب سہیلیاں کم از کم پچاس ساٹھ کلو مرغی کو مصالحہ لگا کر فریز کر لیتی ہیں ، پھر دو تین سو سموسے اور رولز بنانے ہوتے ہیں . اتنے ہی شامی کباب بنا کر فریز کرتی ہیں ،روزہ دار ہوتے ہیں تو شام کو چٹ پٹا کھانے کو جی چاہتا ہے. اس کے علاوہ چاٹ وغیرہ کا سامان بھی اکٹھا کرتے ہیں لوبیا اور چنے بھی پانچ سات کلو ابال کر فریز کیئے جاتے ہیں ۔ دھنیئے پودینے کترے جاتے ہیں ۔ گوشت کی یخنی بنا کر کافی پیکٹ میں فریز کر لیتے ہیں، کبھی پلاؤ کھانے کا ہی جی چاہتا ہے تودیر نہ لگے ۔ بریانی کو بھی جی چاہ سکتا ہے یا کوئی افطاری پر مدعو ہو سکتا ہے تو بریانی کا مصالحہ لگا کر بھی کافی گوشت رکھ لیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی وہ ہماری معلومات میں  کافی اضافہ کرتی رہیں لیکن ہمیں  صرف ان کے ہلتے ہوئے لب تو دکھائی دے رہے تھے لیکن کانوں نے سننے سے بھی شاید انکار کر دیا تھا ۔ کہ یہ سب ہیں رمضان کی تیاریاں ۔ ہم نے ان کے ایک منٹ کے توقف پر سوال کر ہی دیا جو ہمیں بے چین کر رہا تھا کہ "پھر تو اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کے پاس عبادت کے لیئے کافی وقت بچتا ہو گا آپ تو خوب تلاوت بھی فرماتی ہوں گی اور نوافل بھی خوب ادا کرتی ہونگی ؟ تو بیچارگی سے بولیں ارے کہاں آپ کو تو پتہ ہے  روزانہ کسی نہ کسی فیملی کی افطار ہوتی ہے یا ہماری کہیں نہ کہیں افطار ہوتی ہے ۔  ظہر کے بعد تو ویسے بھی افطاری کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ہر ایک کی پسند کا خیال رکھنا ہوتا ہے آخر کو ایک ہی تو ماہ ہوتا ہے ان سب خاطر داریوں کا ۔  عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا ہوتی ہیں ۔ کبھی کپڑوں کی خریداری یا پارسل منگوانا ہوتا ہے تو اس کے لیئے فون پر یا آن لائن کافی وقت لگ جاتا ہے کبھی جوتے کبھی جیولری ۔۔۔۔۔پھر پاکستان سے سکائیپ پر بھی کسی نہ کسی سے روز بات کرنا ہوتی ہے ۔ ایک دو قران  پاک تو پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔   جب یہ ہی ماہ مبارک پاکستان مین گزارنے کا موقع ملا تو حالات اس سے بھی دگرگوں نکلے  اس بات کا تو پتہ تھا کہ سموسے پکوڑے اور کچوریاں بازار سے آتی ہیں۔

 لیکن یہ کیا یہاں تو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ اب تو لائن میں لگ کر چار چار گھنٹے بعد باری آنے پر نہاریاں اور پائے اب سحری میں بھی مرد بازاروں سے ڈھو رہے ہیں ۔ تراویح پڑھنے کا ٹائم مسجدیں گلی گلی میں ہونے کے باوجود کسی کسی کے پاس ہی ہے ۔ نماز کی پابندی کا کوئی حال ہی نہیں ۔ لیکن افطاریوں کا اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کہیں ۔ 

ہم یہ سوچنے لگے  ایک طرف سب کچھ گھر مین بنایا جاتا ہے اس کے پاس بھی اللہ سے بات کرنے کا وقت نہیںاور دوسری جانب سب کچھ بازار سے لا لا کر دسترخوان بھرے جا رہے ہیں تو بھی اللہ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ۔ اس پر یہ کہ کیا اس  مہینے میں  اتنی ساری اپنی ہی خاطر مدارات کی بعد بھی انسان  کسی تزکیئہ نفس کے قابل رہتا ہے ۔ جو بھوکا ہی نہ رہا اور چند گھنٹوں کی بھوک کے بعد چار دن کا راشن اپنے شگم میں بھر لے  اسے کیا معلوم  کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟چار گلاس پانی کی پیاس کو چند گھنٹے روک کر اسے رنگ برنگے مشروبات کے آٹھ گلاس سے بھر لے اسے کیا معلوم کہ پیاس کیا ہوتی ہے ؟.
گویا یہ ماہ خود کو سال بھر سے چڑھی ہوئی چربی اتارنے اور اپنے اندر سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لیئے آتا ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ فاسد مادے اپنے اندر بھر کر اس ماہ مقدّس کو رخصت کرتے ہیں ۔ کیا یہ ہی ہے رمضان کی تیاریاں تو شکر ہے اللہ پاک کا  کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بھی تیاری کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی شوق ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.

جمعرات، 11 جون، 2015

پاکستان میانمار نہیں ۔۔ ممتازملک ۔ پیرس





 خبردار!
پاکستان میانمار نہیں
ممتازملک ۔ پیرس



 ہندوستان کے ساتھ چینی ،آلو ،پیاز اور ٹماٹر کی تجارت کرنے والے سائیں وزیر اعظم پاکستان جاگیئے اور ہندو ٹیریرسٹ کو جواب دیجیئے کہ پاکستان میں ستر سال کے دوران ہونے والے جرائم کو دھڑلے سے قبول کرنے پر اب اسے قرار واقعی سزا کے لیئے بھی تیار ہو نا چاہیئے ۔ کل تک جب یہ ہی باتیں کوئی بھی پاکستانی کرتا تھا تو اسے محض الزام تراشی قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس بات  کو وقت نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی اپنے موقف میں کس قدر سچے تھے ۔ لیکن ہندو دہشتگردی کو ہوا دینے والے امریکی اور یورپی کٹھ پتلیاں ہلانے والے اسے خطے کا مزید بڑا بدمعاش بنانے کے لیئے اس کی پیٹھ تھپکتے رہے ۔ افغانستان میں افغانیوں کو اپنے پراکسی وار کے ذریعے ٹٹّو بنانے کا خواب بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہی نہیں ثابت ہوا بلکہ پاک چائینہ راہداری کے منصوبے کے آغاز کی خبر بھی ہندو دہشتگروں پر بجلی بن کر گری ہے ۔ اس لیئے زخم چاٹتا ہوا  کل تک کے صرف ہندوستانی مسلمانون کے قاتل جانے جانے جانے والے ٹُن مردودی صاحب اب پاکستان میں بدترین قتل عام کا اعتراف ہی نہیں کر رہے بلکہ غصّے سے  منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بنگلہ دیش کے پاکستان سے توڑے جانے کی بھی کرتوت مان ہی نہیں رہے بلکہ سینہ پھلائے اس پر کسی تمغے کے بھی منتظر ہیں ۔ اور پاکستانی سیاستدان منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہنے کے موڈ میں ہیں تو اب عوام کو انہیں غیرت کی سوئیاں چُبھو چُبھو کر بیدار کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ انیس سو اڑتالیس میں برما کے مسلمانوں نے پاکستان سے محبت کا جو قصور کیا تھا ۔ کیا ہم ستّر سال بعد بھی بے غیرتی سے اس کا تماشہ ہی دیکھتے رہیں گے تو پھر ان لیڈروں کو بھی اعلانیہ سر منڈا کر ہندو چوٹی رکھ کے دھوتی باندھ کر تلک لگا ہی لینا چاہیئے ۔ کیوں کہ مسلمان ہونے کا فرض وہ ادا نہیں کر پا رہے اور مسلمان ہونا اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔امتحان دین میں پورا اترنے کا وقت ہے تو آگے بڑھ کر ہندو ٹیریرسٹ کو منہ توڑ جواب دیجیئے اور  اسے بتا دیجیئے کہ ہماری قوم نہ تو معمولی قوم ہے نہ ہماری افواج معمولی افواج ہیں اور نہ ہی ہمارا دین کسی بذدل کو مسلمان کہلانے کی اجازت دیتا ہے ۔ لوہے کا کلیجہ چاہیئے دین الہی کو اختیار کرنے کے لیئے ۔ تب کوئی مسلمان ہوا کرتا ہے ۔  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور وقتی مفادات کو ایک طرف پھینکتے ہوئے جواب دیجیئے میاں صاحبانِ ، کہ پاکستان کو میانمار سمجھنے کی بڑھک مارنے والو ایسا سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرنا ، ورنہہ تمہیں تمہاری ہی زمین پر چُن چُن کر بھی ماریں  گے اور گنتی کرنا بھی خوشی سے بھول جائیں گے ۔ آج جو کچھ کرنا ہے اس کے لیئے ہم صرف حکومت پاکستان کو ہی نہیں دیکھیں گے بلکہ غیرت مند پاکستانی دنیا میں جہاں کہیں ہے اس کے  پاس پرنٹ میڈیا ایک طاقتور ہتھیار کی طرح موجود ہے اور ہمیں ہندو اور بدھ ٹیرررسٹ کو بتانا ہے کہ ہم ہر ہتھیار چلانا جانتے ہیں چاہے وہ تلوار کا ہو یا پیار کا ۔ اور انشاءاللہ  بہت جلد ہندوستان کو اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ  کی قیمت بھی ُچکانی پڑے گی اور اس پر پر شدید ترین افسوس بھی کرنا ہی پڑے گا ۔  جاگ پاکستانی جاگ اور بتا دے کہ پاکستان میانمار نہیں ہے ۔ توڑ دینگے ہم ہر وہ ہاتھ جو پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھے گا ۔  چاہے اس کے لیئے ہمیں خود ہی کیوں نہ فنا ہو جانا پڑے ۔ 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 جون، 2015

حسین محفل / ممتازملک .پیرس



حسین محفل  
ممتازملک .پیرس






پیرس کے علاقے اوبر ویلئے کے خوبصورت ہال میں 7 جون 2015 کے روز پیرس کی تاریخ کا ایک بہت خوبصورت  اور یاد گار پروگرام  یہاں کی پیرس ادبی فورم کی جانب سے منعقد کیا گیا . جس میں پی پیرس  کی معروف شاعرہ محترمہ ثمن شاہ صاحبہ کے  دوسرے شعری مجموعے "ہمیشہ تم کو چاہیں گے" کی تقریب پذیرائی اور ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا . جس میں کم از کم میرے پیرس میں اٹھارہ سالہ قیام میں سب سے زیادہ اور مستند اور معروف شعراء کا مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا ان سب شخصیات  کی تعریف اور تعارف دونوں ہی چند الفاظ میں کرنا ابھی ممکن نہیں .ان کا تذکرہ ہم بعد میں کریں گے . اس پروگرام کے صدر محفل ناروے سے آئے ہوئے  باکمال شاعر جناب جمشید مسرور صاحب تھے .جنہوں نے بہت خوبصورت الفاظ میں  ثمن شاہ کی کتاب اور شخصیت پر تبصرہ کیا . جرمنی سے ارم بتول  صاحبہ ،حافظ احمد اور توقیر عاطف  صاحب تشریف لائے تو انگلینڈ  کے مختلف شہروں سے مہ جبیں غزل انصاری . راحت زاہد .فرزانہ نیناں صاحبہ   اورنعیم حیدر صاحب جیسی خوبصورت  شخصیات  کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا . ہر شخصیت اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے . سبھی نے ثمن شاہ صاحبہ کے کام کو بھرپور انداز میں سراہا اور اپنا اپنا کلام نھی پیش کیا .
میڈیا کی جانب سے وقت اور ، جیو نے اسے کور کیا جبکہ پریس فوٹو گرافرز کی بھی  بڑی تعداد موجود تھی . پروگرام کا آغاز ستارہ ملک صاحبہ کی نعت خوانی سے ہوا . مقامی شعراء میں جناں عاکف غنی ، ایاز محمود اہاز، روحی بانو ،شمیم خان صاحبہ، بخشی وقارہاشمی ،آصف اور مجھ ناچیز ممتاز ملک نے اپنا اپنا کلام پیش کیا اور ثمن شاہ صاحبہ کی کاوش کو سراہا اور ان کے لیئے نیک تمناؤں کا اظہارکیا. پروگرام کے آخر میں بہترین کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا . کھانے کے بعد ہندوستانی گائیک انور حسین کی گائیگی نے خوب رنگ جمایا. جبکہ عاکف غنی ،نعیم حیدر، غزل انصاری، اور ثمن شاہ نے بھی ترنم سے غزلیں گاکر کے محفل میں رنگ بھرا. مجموعی طور پر یہ ایک بہت ہی خوبصورت  محفل تھی جہاں ہر ایک کے مقام و مرتبے کا خیال رکھا گیا . ایک دوسرے سے نیک تمناؤں اور کتب کا تبادلہ ہوا. بہت ہی خوبصورت  اور یادگار تصویری سیشن ہوا .یوں ہنستے مسکراتے یہ پروگرام حسین یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑتے ہوئے اختتام پذیر ہوا.  ایسے پروگزامز میں شرکت سے ہم نہ صرف اپنے لسانی ورثے اردو زبان کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں  بلکہ اپنی آنے والی نسل کو بھی اپنی زبان سے محبت کا درس دیتے ہیں 
جس درجے کے مہمان بلائے گئے تھے اس کے جساب سے پیرس والوں  کے احساس کی کمی بہت کھلی .  شرکاء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیئے تھی .  لیکن جتنے بھی شرکاء موجود تھی وہ شعر کو سمجھنے اور داد دینے والے تھے. اس خوبصورت پروگرام کے انعقاد کے لیئے پیرس ادبی فورم کی ساری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے  .امید کرتے ہیں کہ آئیندہ بھی پیرس والوں  کے لیئے ایسے شاندار لکھاریوں کی محفل سجتی رہیگی .اور پیرس  والوں کو اس بات کا  زیادہ سے زیادہ شرکت کا شعور آتا جائے گا اور اگر اپنا ورثہ بچانا ہے تو انہیں یہ سمجھنا ہو گا  کہ ہر جگہ لنگر کھانے کی بجائے کہیں کہیں اپنے پلے سے کھا کر بھی پروگرام کا لطف لیا جانا چاہیئے . کہ اسی میں وقار بھی ہے اور عزت بھی .  ہم ثمن شاہ صاحبہ اور انکی ٹیم  کا دلی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ خوبصورت  پروگرام  ممکن ہوا.  ماشااللہ. 
                                                    ------------                     

جمعہ، 5 جون، 2015

اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ



اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ
ممتازملک ۔ پیرس




























ہم نے ہمیشہ سے ایک ہی بات سنی کہ بدھ بھگ شو بڑے بے ضرر لوگ ہوتے ہیں امن پسند ہوتے ہیں .نیک ہوتے ہی ہیں لیکن عملی طور پر جب ان بدھ بھگشووں کو سیکھنے کا موقع ملا تو صدمے سے زبان ہی گنگ ہو گئ. یہ ہے انکی امن پسندی کا عملی ثبوت کہ برما جیسا ملک  اپنے ہی ملک کے باسیوں کو صرف اس لیئے ذبح کیئے جا رہا ہےکہ وہ ان کی طرح چادر لپیٹ کر امن کی گنجی فاختہ بننے کا ڈرامہ نہیں کرتے .ان جیسے  انسانی  ذبح خانے نہیں چلاتے .جھوٹ کا شانتی کا جھوٹا راگ نہیں الاپتے اور نیکی کے دھوکے میں لوگوں کا قتل عام نہیں کرتے . ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں اور اپنے انداز میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں . دنیا بھر میں کتوں کی حفاظت کے لیئے تو تنظیمیں میدان میں ہیں 'بلیوں کے لیئے جائیدادیں وقف ہو رہی ہیں، گدھوں کو بچانے کے منصوبے تو موجود  ہیں ، لیکن اگر کچھ ان ہمدردوں کی دنیا میں ناپید ہے تو وہ ہے یہاں کسی مسلمان کے لیئے آواز اٹھانا یا اس کے لیئے حق کی بات کرنا. نام نہاد مہذب دنیا میں کیا ہی مسلمان اور کیا ہی غیر مسلم سبھی حقیقتا بے ضمیروں کی زندگی  گذار رہے ہیں . ورنہ غیر مسلموں نے تو انڈونیشا اور ملائیشیا میں ہونے والے مقامی جھگڑوں کو بہانہ بنا کر عیسائ ملک بنوا لیا ،لیکن مسلمان جہاں بکروں کی طرح کاٹے جارہے ہیں اس برما میں الگ مسلمان ملک کیا بنتا بلکہ ان مظلوموں کے لیئے کسی کے منہ سے کوئ صدائے احتجاج  تک بلند نہیں ہوئ . کہنے کو دنیا میں ساٹھ اسلامی ممالک آزاد ہیں لیکن عملی طور پر سب کے سب ان کتوں کے حقوق کے لیئے لڑنے والی تنظیموں  کے پیچھے دم ہلانے والے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں.  لعنت ہے ایسی آزادی پر جو آپ سے آپ کا اظہار کا حق چھین لے .سچ بولنے پر زبان تالو سے چپک جائے .یہ ہے اصل جہاد اور یہ ہیں اصل گنجے  دہشتگرد. یہ چیلنج ہے جہاد کے نام پر موت کا کھیل کھیلنے والوں کے لیئے کہ جاو اب اصل جہاد کا وقت ہے. ایسی کتے کی موت مارو ان برمی بدمعاشوں کو کہ ان کی سات پشتیں یاد رکھیں .اور دھتکار ہے ان نام نہاد مسلم ممالک پر جنہوں نے اپنے ساحلوں پہ آئے مجبور بھائیوں عورتوں اور بچوں کو پناہ دینے کی بجائے بے غیرت کے ساتھ سمندر میں مرنے کے لیئے دھکیل دیا.کس منہ سے یہ کل خداکے سامنے پیش ہونگے اور اپنے لیئے رحم مانگیں گے کہ جن پر ان کو رحم کرنا تھا تب تو ان سے ہوا نہیں ..سلام ہے ترکی اور اور انکے غیرت مند صدر طیب اردگان پر کہ اس نے بے مثال انداز میں اپنا اسلامی امتحان پاس کیا .اور ان بدمعاشوں کو سبق سکھانے کا اعلان کیا .کہاں ہیں اب پاکستانی  حکمران جنہیں سعودیہ کی دوسرے مسلم ملک میں دخل اندازی پر بہت مروڑ اٹھ رہے تھے . فوج بھیجنے کے لیئے مرے جا رہے تھے لیکن اب جب اصل جہاد کا وقت آیا تو منہ سے احتجاجا بھی کچھ نہ پھوٹ سکے..کس کس حکمران نے قبر میں کتنے سانپ اور بچھو مزید اکھٹے کرنے ہیں اس دولت اور سونے چاندی کے.غیرت کھاو اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دو کہ برما کے مظلوم مسلمانوں کی آہیں قیامت تک تمہارے پیچھا نہیں چھوڑیں گی. تب کس منہ سے آقائے  دو جہاں سے اپنی شفاعت  کی بھیگ مانگو گے؟
                ..................

جمعرات، 4 جون، 2015

اعتراف جرم بزبان ہندوستان


اعتراف جرم بزبان ہندوستان 
ممتازملک ۔ پیرس



گذشتہ دنوں ہندوستانی وزیر دفاع کا یہ بیان پڑھکر ہنسی بھی آئ اور افسوس بھی ہوا . کہ ہم ہندوستانی مفادات کے لیئے دوسرے ملکوں میں بھی گھس کر پراکسی وار کریں گے .دوسرے لفظوں میں اس کو اعتراف جرم سمجھا جانا چاہیئے کہ اتنے ذمہ دار عہدے پر بیٹھنے والے کا اتنا غیر زمہ دارانہ بیان کیسے ہو سکتا ہے . لیکن ہو سکتاہے جناب ہندوستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے. جو قوم لنگی پر ٹائ باندھ سکتی ہے وہ اور بھی بڑی شرلیاں چھوڑ سکتی ہے . حیران ہونے کی باری اب کے بار ہندوستان کی تھی جب ہمارے ہیرو جنرل راحیل شریف نے ایک مشترکہ دفاعی اجلاس میں یہ کہہ کر ہندوستان کی بینڈ بجائ کہ ہم نے بھی ہاتھ میں چوڑیاں نہیں پہن رکھیں .ہم اپنے ملک کے چپے چپے کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور کسی بھی ملک کو پاکستان میں پراکسی وار کی اجازت نہیں دینگے . دہشتگردوں کو چن چن کر مارا جائے گا . یہ بیان پڑھ کر کل ہندوستانی انتظامیہ میں کون کون نہیں سویا ہو گا یہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن ہاں اتنا اعتبار اپنے ہیرو جنرل شریف پر اور اپنے بہادر افواج پر ضرور ہے کہ
" ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے "
رہی بات ہندوستانی  بڑھکوں کی تو یہ قوم ستر سال میں یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ پاکستان ایک ملک ہے جو ایک سچی حقیقت ہے اسے تسلیم کر لینا ہی اس خطے کی ترقی کا راستہ  کھول سکتی ہے ."میں نہ مانوں" کی رٹ سے نہ تو دن  رات ہوتا ہے اور نہ ہی رات دن بنتی ہے. ہاں کہنے والے کی عقل پر شبہ ضرور  ہونے لگتاہے .دعائیں دیں  انگریزوں  کو جو پاکستان  کے سامنے ایک جعلی بدمعاش بنانے کے چکر میں ہندوستان  کو پیسے کا اور شاباشی کا جام پلا پلا کر مست کیئے جا رہے ہیں اور بے چاری ہندوستانی قوم کو چار شہروں کی ترقی کا لولی پاپ دیکر سارے ملک کے حالات سے بے خبری کا ٹیکہ لگاتی رہتی ہے. اس ملک سے کسی عقل کی بات کی کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ جس کے پاس ایک سو بیس کروڑ کی آبادی میں ایک بھی ایسا اہل آدمی نہ ہو جسے وہ اپنی وزرات  کی کرسی پر بٹھا سکتی . بے شمار معصوم جانوں کا قاتل دوسرے ملکوں میں دہشتگردی کے کارنامے سرانجام دلانے والا اور دہشت گردوں کا سب سے بڑاپشت پناہ مودی جیسا بدمعاش ( جو کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے اب تک کئ بار پھانسی ہو چکی ہوتی .یعنی جتنے جنم اتنی پھانسیاں )اور نااہل آدمی جس قوم کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہو اس قوم کے لیئے صرف دعا ہی  کی جا سکتی ہے. کہتے ہیں نا کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسا ہی انہیں حکمران عطا کر دیاجاتاہے تو پھر ہم کیا کہیں یہ بات تو سینہ ٹھوک کر ان کے اپنے وزیر دفاع نے کہہ دی کہ دوسرے ملکوں میں گھستے بھی ہیں اور دہشتگردوں کو پالتے بھی ہیں .اس سے ذیادہ ہم کچھ کہیں گے تو شاید بہت سوں کو اچھا نہ لگے .....
                                    ..............

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/