ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 10 جنوری، 2015

وہی ہوا جس کا ڈر تھا / کالم۔سچ تو یہ ہے



وہی ہوا جسکا ڈر تھا 
ممتازملک ۔ پیرس



آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ دنیا بھر میں مغربی میڈیا جس طرح سے مسلمانوں کو اکسانے کا کام کر رہے تھے جس میں کبھی نبی پاک ﷺ کی شان میں توہین آمیز خاکے تو کبھی صحابہ کی شان مین ہونے والی ہرزہ سرائیاں تو کبھی مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کو نشانہ بنا کر واہیات کتابیں لکھوانا ،پھر ایسا کام کرنے والوں کو سونے کے پنجرے میں ایسے پالنا کہ ان کے پاس جب وہ کہیں بھونکو تو بھونکیں گے ،اور جب وہ کہیں کہ کاٹو تو کاٹیں گے، کیونکہ ایسا سب کچھ کرنے والوں اورلکھنے والوں کو اس کام  سے پہلے تو شاید دولت کے ڈھیر اور سونے چاندی کی چمک آنکھوں کو چُندھیا رہی تھی اس نے انہیں یہ تک سوچنے سے مفلوج کر دیا کہ جب یہ چکا چوند ختم ہو گی تو تب جو منظر نظر آئے گا وہ کس قدر سفاک اور خونی ہو سکتا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں ۔ اور سب کی قوت برداشت بھی ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ دوسروں کے گھروں کو جلا کر ہاتھ تاپنے والوں کو اپنے گھر کو آگ لگا کر ہاتھ سینکنے کا شاید پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ یورب بھر میں زندگی اپنے روز مرہ معمول کے مطابق رواں دواں تھی بلکہ حسب معمول دوڑ رہی تھی کہ اچانک ہمیں ریڈیو ٹی وی پر ایک خوفناک بریکنگ نیوز سنائی دیتی ہے کہ  خوشبوؤں کے شہر، دنیا کے ترین یافتہ اور پرسکون منظّم شہر پیرس میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے لوگوں کو ہراساں کر دیا ۔ مسلمانوں کو مسلسل کئی سال سے مذہبی جنون میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنے والے اخبار  Hebdo Charlie  کو بلآخر کامیابی مل ہی گئی۔ تین مسلح افراد نے دیکھتے ہی دیکھتے اخبار کے دفتر میں دن گیارہ بجے داخل ہو کر کلاشنکوف سے دھڑا دھڑ فائرنگ کر کے چیف اڈیٹر ، دو پولیس جوانوں سمیت کل بارہ افراد کو قتل کردیا ۔ ان  نقاب پوشوں کو براہ راست اخبار کی سڑک پر گولیاں برساتے ہوئے دکھایا گیا ۔ یہ خونی کھیل زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس منٹ کے دورانیئے کا تھا ۔ لیکن یہ خوفناک عمل کئی سوالوں کو جنم دے گیا ۔ پیرس کی پرسکون اور مذہبی رواداری کی فضا میں اس طرح ایسے واقعے کے لیئے فضا بنانا ، کیا یہاں مسلمانوں کے لیئے دوسرا نائن الیون بنانے کی کوئی سازش تو نہیں ۔ یہاں مسلمان خوفزدہ ہیں ،پریشان ہیں ، اور سازش کی بو محسوس کر رہے ہیں ۔ کیا یہ سب اس لیئے کِیا یا کروایا گیا ہے کہ یہاں رہنے والے تقریبََا اسی لاکھ مسلمانوں پر شکنجہ کسا جا سکے کیونکہ یہاں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے ۔ یورپی میڈیا کئی بار اس بات کا خوف طاہر کر چکا ہے کہ کہیں یہاں کے مسلمان اکثریت میں آ کے ان کی حکومت پر قابض ہی نہ ہو جائیں ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہاں پر معتدل مزاج لوگوں کی اکثریت ہے۔ جو مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہوئے سب کو زندگی گزارنے کا برابر حق دینے کی قائل ہے ۔  فرانس حکومت بھی مذہبی حوالے سے ایک مباحثہ کا آغاز کر چکی ہے ۔ اگر اس اخبار اور ان تمام اخبار کے رائٹرز  کو اس بات کا پابند کیا جاتا کہ آپ اپنے اظہار رائے کی آزادی  وہیں تک استعمال کریں جہاں تک دوسرے کی عزت اور احترام کی حد شروع ہوتی ہے تو ایسے خوفناک حادثات کبھی بھی پیش نہ آتے ۔ کیونکہ جب آزادی اظہار بے لگام ہو جائے تو آذادی تکرار کو بھی کوئی نہیں روک سکتا ۔ اب اگر مسلسل کئی سال تک اکسانے اور مسلمانوں کے بار بار کی تنبیہہ پر ، غصّے پر بھی  بھی اخبارات اپنا معمول نہیں بدل رہے تھے تو کیا کیا جائے ۔ مسلمان اگر نہیں بولتے تو انہیں بے غیرت اور بذدل کہا جاتا ہے اور اگر وہ احتجاج کرتے ہیں یا کوئی اقدام اٹھاتے ہیں تو انہیں دہشت گرد کہہ کر ان کی سزاؤں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے ۔ کوئی بتائے گا کہ اس ساری صورتحال میں مسلمان کریں تو کیا کریں ۔   یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اسلام ایک سلامتی کا دین ہے اللہ کا پیغام قران کی صورت نبی پاکﷺ  کی زندگی اس کا عملی نمونہ بنا کر دنیا بھر کے لیئے انسانیت کے معراج کی تصویر پیش کر دی گئی ۔ اس کے بعد جو کچھ اسلام کے نام پر شامل کرنے کی کوشش کی گئی وہ صرف اور صرف اپنا  کاروبار بڑھانے کا ایک بہانہ تھا اس کا اصل دین سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ آج بھی جس کو جتنا اسلام چاہیئے اسے اختیار کرتا ہے اور باقی کو لپیٹ کر جلدان میں اپنی پہنچ سے بھی دور رکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی جب چاہے اپنی منافتوں ، اور کمزور کرداری پر ایک خوبصورت پردے کے طور پر کبھی داڑھی کو استعمال کرتا ہے تو کبھی نقاب کو ۔ انہی منافق نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں کہ جنہوں نے اسلام اور قران کو اپنی شخصی کمزوری کی ڈھال بنا لیا ہے ۔ جس نے دنیا کے سب سے بڑے مذہب اور مسلمانوں کی دوارب سے زیادہ کی آبادی کو ایک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔  مسلمانوں کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں ہے اگر ہے تو صرف ان مسلمانوں سے جو قران کی آیات کے رٹے لگا کر اس کے آدھے ترجمے کو اپنے مطلب براری کے لیئے استعمال  کرتے ہیں ۔ اور اپنے دنیاوی مطالب کو پورا کرنے کے لیئے قران پاک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ اللہ پاک ان لوگوں کی رسی کب تک دراز کریگا خدا جانے ۔ دنیا اور کتنے ہنگامے کرنے اور دیکھنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ خدا خیر کرے ۔                
                 
۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/