ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 6 جون، 2014

خدا کراچی کی حفاظت فرمائے۔ کالم



خدا کراچی کی حفاظت فرمائے
(ممتازملک۔ پیرس)



زمانہ ہی ہو گیا ہے جب ہم کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا کرتے تھے یا سنا کرتے تھے ۔ اور بڑی خواہش ہوا کرتی تھی کہ ہم بھی کراچی گھوم کر آئیں لیکن خدا کی مار ہو اس سیاست کی ہوس گیری پر ،کہ اب نہ اس کے ہاتھوں کراچی کا حسن رہا، نہ دلکشی رہی ،نہ تحفظ رہا ۔ ایک ڈکٹیٹر نے آکر ایک آدمی کو اپنے ایجنٹ کے طور پر چنا اسے قتل عام کی تربیت دیکر اسے ایک جان لیوا جراثیم کی طرح پاکستان کے دل کراچی پر چپکا دیا ۔  کیوں کہ عالمی طاقتوں کا یہ ایجنٹ اچھے سے جانتا تھا کہ پاکستان ایک جسم ہے تو کراچی اس کا دھڑکتا ہوا اسے تازہ خون کی سپلائی بروقت کرنے والا دل ہے جو بجا طور پر منی پاکستان کہا ہی نہیں مانا بھی جاتا تھا ۔ کیوں کہ ہم نے اپنے بچپن میں ایسے کئی لوگ دیکھے جن کی یاوری قسمت نے کہیں نہیں کی تو انہیں کراچی نے اپنے دامن میں نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کا نصیب ہی بدل ڈالا ، لیکن 80 کی دہائی کے بعد عالمی طاقتوں کوپاکستان کی اپنے بل پر آگے بڑھنے کی خواہش اور کوشش پسند نہیں آئی ۔ وہ جو ایک ڈالر دیکر ہمارا خون سالوں تک چوسنے کے عادی تھے اور پھر اس ملک کے فیصلوں میں براہ راست اس کے عوض ان کی دخل اندازیوں کے اختیارات تھے وہ بھلا اسے کیسے چھوڑ دیتے ،سوہمارے ہی نام نہاد دوستوں( کو ساتھ ملا کر کہ جن کے چاند کے بنا پاکستان کے کئی محبت کے مارے ایک اور دو دن پہلے ہی عیدیں منا لیتے ہیں ۤ)کو ہماری ہی آستین کا سانپ بنانے کے پروگرام کا آغاز ہو گیا ۔ یہ وہ دوست ہیں جن کے لیئے کہا جاتا ہے کہ                                     ہوئے تم دوست جس کے 
دشمن ان کا آسماں کیوں ہو
تو ہمارے انہیں حد سے آگے کے مسلمان بھائیوں کی ہی عنایت تھی کہ ہمارے دل اور ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی پر وار کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا گیا ۔ مسمانوں کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ انہیں  باہر سے کوئی نہیں مار سکا کبھی ،جب بھی مارا انہیں ان کے اپنے ہی بھائیوں نے ا ندر ہی سے بِِک کر، توڑ کر مارا ہے ۔ ان کی کشتی حقیقت میں وہیں ڈوبی ہے جہاں پانی تھا ہی نہیں۔ ایسی صورت میں رکشوں پہ لکھے جانے والا معروف شعر یاد آتا ہے کہ
 ہمیں اپنوں نے مارا غیروں میں کہاں دم تھا 
ہماری کشتی وہاں پہ ڈوبی جہاں پانی کم تھا
آج کی تاریخ میں کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کراچی کے سب سے قیمتی لوگوں کو چن چن کو مارا جا رہا ہے ۔ جوانوں کے لاشے گرائے جا رہے ہیں ۔ یہ لوگ چاہے کسی سیاسی جماعت کا نام لیں یا کسی دینی جماعت کا ۔ وہ اس ملک کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں جو اسکے جوانوں کو ہر روز خون سے غسل دے رہے ہیں آج لیاری سمیت سارے کراچی کی ماؤں کی چیخوں سے آسمان کانپ رہا ہے ۔ کیسے کیسے جواں ان خود پرست نام نہاد سیاستدانوں اور دین کے ٹھیکیداروں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ کب تک پاکستان سے محبت کرنے واکے خود کو خاموش تماشائی بنائے رکھیں گے ، کیا انہیں بھی اپنی لاش کے گرنے کا انتظار ہے ۔ کیا کوئی کسی اور دنیا کا باسی آ کر انہیں اس ذلت اور خوف سے نجات دلائے گا ، نہیں بلکل نہیں ۔ آج جو کچھ کرنا ہے اس قوم کو خود سے کرنا ہے ۔ اپنی بقاء کی اپنی نسل کی بقاء کی لڑائی انہیں خود لڑنی ہے اور کشتیاں جلا کر لڑنی ہے ۔ ورنہ یاد رکھیں
 ہمارا نام تک بھی نہ ہو گا داستانوں میں
پاکستان کو بچانا ہے تو اس کے دل کو بچانے کے لیئے سر دھڑ کی بازی لگانا ہو گی ۔ کیوں کہ یہ لڑائی محض کرسی کی نہیں رہی بلکہ یہ لڑائی اب بقاء کی لڑائی ہے ۔ انصاف کی لڑائی ہے ۔ جینے کے حق کی لڑائی ہے ۔ اور جنگیں آنسوؤں سے کبھی جیتی نہیں جاتیں اس کے لیئے دل گردے کو مضبوط کر کے بڑے بڑے فیصلے لینا ہوتے ہیں ۔ اپنی خودی کی حفاظت کرنا ہوتی ہے اور سربلندی کے لیئے اپنی بھینٹ دی جاتی ہے اپنی خود غرضیوں کی بھینٹ دی جاتی ہے ۔ اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ دیجاتی ہے اپنی ناجائز خواہشات کی بھینٹ دیجاتی ہے ۔ جبھی تاریخ میں اپنا نام غیرت مندوں کی فہرست میں درج کروایا جاتا ہے ۔ ہمیں ہمارا نام اس فہرست میں کب ڈلوانا ہے یہ فیصلہ بھی ہمیں خود ہی کرنا ہےیا یہ بھی کوئی اور آ کر کرے گا ، موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح کہ ،
 جاؤ موسی تم اور  تمہارا خدا جا کر دشمنوں سے لڑو جب جیت جاؤ تو ہمیں بتا دینا ہم آ جائینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


http://thejaiza.com/news25/images/todaycolumn/mumtazart/d/88.png

......................

http://dailytareekhinternational.com/articles?aname=57&t=%D9%85%D9%85%D8%AA%D8%A7%D8%B2%20%D9%85%D9%84%DA%A9
.................


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/