ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 26 فروری، 2014

محبت بانٹنے نکلے ۔ سراب دنیا



محبت بانٹنے نکلے



محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے

ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے

جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے

لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں 
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے

وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آذما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے

قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 24 فروری، 2014

سنجیدہ لوگوں کی ایک یادگار محفل



سنجیدہ لوگوں کی ایک یادگار محفل
ممتازملک۔ پیرس











22 فروری 2014 کی ایک یادگار شام مہاراجہ ریسٹورنٹ کے خوبصورت ہال میں پیرس کی معروف شاعرہ محترمہ ممتازملک صاحبہ کے دوسرے شعری مجموعے  بنام میرے دل کا قلندر بولے کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی ۔ پروگرام کی نظامت مدر آف پی ٹی آئی ، بانی انصاف ایسوسی ایشن ، معروف کالمسٹ ، رائٹر، تجزیہ نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے کی ۔ پروگرام ک آغاز معروف ابھرتے ہوئے نوجوان نعت خوان بلال بٹ کی نہایت خوش الحانی سے کی گئی  تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔  جسکے بعد بچیوں کےایک گروپ جس میں ثمینہ خواجہ ، صومیہ خواجہ ، ریشمین اختر اور تحریم اخترشامل تھیں  نے دف پہ  ممتازملک صاحبہ کی اسی کتاب میں لکھی ہوئی حمد باری تعالی پیش کی ۔ جسے تمام محفل نے بہت پسند کیا اور ساری محفل سے انہیں خوب داد ملی ۔  جس کے بعد اسی کتاب کی نعت رسول پاک  ٌٌحضور آگئے ہیں  ٌٌ کو  ممتازملک نے نہایت خوبصورتی کیساتھ پیش کر کے داد سمیٹی ۔ پروگرام کے دوران کئی شرکاء اور مہمانان خصوصی نے کتاب سے چیدہ چیدہ کلام پڑھ کر سنایا اور داد حاصل کی ۔ جبکہ خوش گلو نوجوان بلال بٹ نے نہایت پرسوز آواز میں بہترین لے میں  ممتازملک کی اگلی آنے والی کتاب کا کلام ٌٌ بابا تیری باہیںٌٌ گا کر پیش کیا ۔ اور ہر آنکھ کو نم کیا ۔   
پروگرام میں سب سے بڑا خوش گوار لمحہ اور سالگرہ کا تحفہ معروف اسلامی سکالر جناب حافظ نذیراحمدخان صاحب کی ادارہ منہاج القران کے سابقہ صدور جناب عبد الجبار بٹ صاحب ، جناب حاجی حمیداللہ صاحب اور دی جائزہ ڈاٹ کام  ، جذبہ ڈاٹ کام ، اور دیگر کئی اخباراتی  سائیڈذ کے چیف ایڈیٹر جناب اعظم چودھدری صاحب کی  آمد تھی ۔ جس نے اس دن کواور بھی یادگار بنا دیا اور اس دن کی ہر خوشی کو دوبالا کر دیا ۔  ممتاز ملک کے کمسن بیٹے محمد مفسراختر  اور ان کے دوست محمد منان نے  حافظ نذیر احمد خان صاحبکو پھولوں کے گلدستے پیش کیئے ۔  حافظ نذیراحمد خان صاحب نے ان کے سروں پر دست شفقت رکھا اور دعا دی اور  بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں ممتاز ملک کی اس کاوش کو سراہا کہ اس کتاب کہ سرورق نے مجھے کتاب کھولنے پر مجبور کیا اور میں نے جہاں تک پڑھا مجھے روحانی خوشی محسوس ہوئی ۔  کتاب کی رونمائیحافظ نذیراحمد خان صاحب نےاپنے دست برکت سے فرمائی۔ اور ان کی دونوں تصنیفات  '' مدت ہوئی عورت ہوئے '' اور دوسرے مجموعہ کلام  ''میرے دل کا قلندر بولے '' پر اپنے دعائیہ کلمات اور دستخط عطا فرمائے اور انکی کامیابیوں اور درازءی عمر کے لیئے دعائے خیر فرمائی ۔
پروگرام
 میں ایک اور سرپرائز ممتاز ملک کی سالگرہ کے کیک کی صورت لایا گیا ۔   جس پر تمام شرکاء نے انہیں سالگرہ کے موقع پر دعاؤں اور مبارکباد سے نوازہ ۔ ممتاز ملک صاحبہ نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ جنہوں نے آج کے دن کو ان کی زندگی کا ایک یادگار دن بنا دیا  
                                       پروگرام میں صرف  محدود اور مخصوص تعداد میں  ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو شرکت کی دعوت دی گئی  ۔ یہ تقریب اسلامی ماحول میں منعقد کی گئی جس میں کوئی مخلوط ٹھٹھہ مذاق ، کوئی نظر باز مناظر ، غیر اخلاقی گپ شپ نہیں تھی جس کی وجہ سے اسے رنگین میڈیا باذوں کا کوئی تعاون نہیں ملا ۔ یہاں کوئی پلو گرانے اور اٹھانے والے ناشائستہ نظارے نہیں تھے لہذا ایسی کسی بھی شمع کا کوئی پروانہ بھی نہیں تھا ۔ مزے کی بات  یہ رہی کہ گھر میں بیوی کو تالے میں بٹھانے والے ہی ایسی شمعوں کے سب سے پھرتیلے پروانے ہوتے ہیں جو اسلامی ماحول کا نام سن کر ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ھھھھھھھھھ۔                                                                  
 اور تو اور مذہبی ماحول اور رنگ کا ڈھنڈوڑا پیٹنے والے بھی اور پردے کا رونا رونے والے بھی منہ چھپا کر غائب رہے ۔ جب کہ یہ مذہب کے ٹھیکیدار رات کے 3 ، 3 بجے تک محفل موسیقی کا لطف لینے کے لیئے سب سے اگلی رو میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ لیکن خوشی کی بات یہ تھی کہ جیسا کہ چاہا گیا کہ یہاں وہ ہی لوگ  آئیں جو ادب اور تہذیب کا مطلب جانتے ہیں  تو بے شک ایسے ہی خواتین و حضرات نے اس محفل کو رونق بخشی ۔ جن لوگوں کی دُم پر ممتاز ملک کبھی نہ کبھی سچ کا پاؤں رکھ چکی تھی ان کے یہاں آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔                مہمانان خصوصی میں پیپلز پارٹی کی وویمن ونگ کی صدرحق باہوٹرسٹ کی نمائندہ خاص محترمہ روحی بانو صاحبہ نےاس موقع پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ لکھنے والوں کو معاشرتی مسائل پر کھل کر لکھنا چاہیئے ۔ اور ان مسائل کا حل بھی پیش کرنا چاہیئے کیوں کہ یہ اصل جہاد بھی ہے اورصدقئہ جاریہ بھی ۔ ہمیں ایک دوسرے کو نہ صرف آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیئے بلکہ ان کے کام کو بھی کھلے دل کے ساتھ قبول کرنے کا حوصلہ دکھانا  چاہیئے ۔ ایک دوسرے کی عزت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے ۔ گھروں سے صدرمحفل بننے کی گارنٹی لیکر نکلنے کی شرمناک روایت کو اب ختم ہونا چاہیئے ۔ ہمارے قول و فعل کے تضاد نے ہی ہمیں دنیا بھی ذلیل و رسوا کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ممتازملک  کی شاعری اندھیرے  میں روشنی کی مانند ہے ۔ جو راستوں کا تعین ہی نہیں کرتی بلکہ منزل کی نشاندہی بھی کرتی ہے ۔ جو زندگی کو عشق ومحبت ۔ اور ہوس گیری کے سوا بھی کچھ سمجھتی ہے ۔ جو ہمیں رشتوں کے تقدس اور احترام کے خاتمے کے لیئے بھی خبردار کرتی ہے ۔                                                
خواتین کی فرانس میں ایسوسی ایشن لے فم دو موند کی بانی و صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ نے بھرپور انداز مین ممتاز ملک کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اور ان کی اس دوسری تصنیف کو بھی صوفی رنگ  کا ایک خوبصورت اضافہ قرار دیا ۔ اور اس بات پر ذور دیا کہ سنجیدہ کام کو آگے لیکر چلنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ جو ہمارے بعد ہماری اگلی نسلوں کو اپنی معاشرت اور تہذیب سے جوڑ کر رکھ سکے ۔ اب بھی اس کام میں دیر کی گئی تو کہیں بہت دیر ہی نہ ہو جائے ۔ اردو ہمارے ملک کی اور ہماری پہچان ہے ،عزت ہے،اس پہچان کو بچانے کے لیئے غور و فکر کرنا انتہائی ضروری ہے  جو کہ افسوس' جانتے ہوئے بھی لوگ نہیں کرتے ۔ دنیا بھر میں 104 ملئین سے زائد لوگوں میں بولی والی زبان، ہم اس زبان کے وارث کہلانے والوں میں ہی لاوارث کی جارہی ہے ۔ جو کہ لمحئہ فکریہ ہے ۔  
محترمہ روبانہ مصطفائی صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ  کہ میں ممتازملک صاحبہ کو ویسے تو ابھی اتنا ذیادہ نہیں جانتی ۔ لیکن تھوڑے وقت میں جتنا بھی پڑھا ہے اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہوں کہ کہ ممتاز ملک ایک مضبوط سوچ اور نظریئے کے ساتھ قلم اٹھاتی ہیں جو نہ صرف ہمارے مذہب کا دائرہ پار کرنے والوں پر آواز اٹھاتی ہیں بلکہ معاشرتی برائیوں پر بھی صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں ۔ مذہب اور معاشرے کے دائرے کو قائم رکھنے کے حسن کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں ۔ جس کے لیئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔                                                                                    
محترمہ نگہت صاحبہ نے اپنے رائے مین ممتاز ملک سے اپنی پہلی ملاقات اور 6 سال بعد کی جان پہچان کو نہایت خوشگوار سفرقرار دیا ۔ جس میں ہم نے کئی بار اپنے وطن اور معاشرےکی تنزلی کا رونا  ہے اور ایکدوسرے کے غم میں دل کا بوجھ بھی بانٹا ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تحریر ممتازملک کی عملی زندگی پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔  یہ بات وہی جان سکتے ہیں جوان کے ساتھ کچھ وقت گزار چکے ہیں ۔  بظاہر بے فکر اور بے غم نظر آنے والی ممتاز حقیقت میں اپنی تحریروں کی ہی عملی تفسیر ہیں ۔ جو اپنی معاشرتی اور مذہبی حدود کی بے حد عزت کرتی ہیں ۔ جو مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا مددگار تو سمجھتی ہیں لیکن انہیں دین کی حدود کا مذاق اڑانے کی اجازت دینے کو بلکل تیار نہیں ہے۔ اور شاید یہ ہی ان کا جرم بھی ہے ۔ مادر پدر آذادی کے متوالوں کے لیئےممتاز ملک کے الفاظ نشتر کا کام کرتے ہیں ۔ اس لیئے ان کے پڑھنے والے بھی سنجیدہ اور متین لوگ ہی ہیں ۔  
مدر آف پی ٹی آئی ، بانی انصاف ایسوسی ایشن ، معروف کالمسٹ ، رائٹر، تجزیہ نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے جو کہ پروگرام کی نقابت بھی فرما رہی تھیں ، نے ممتاز ملک کو ایک حقیقت پسند
 کالمسٹ اور شاعرہ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ کیونکہ ممتازملک کی شاعری میں سستے  بازاری اندازاور گھٹیا جذبات کی ہوس نگاری نہیں ہے جو ادائیں مردوں کو لُبھا کر اپنے جال میں پھانسنے کو کامیابی نہیں سمجھتی ، تو اس کو قبول کرنا بھی ہمارے منافق معاشرے میں آسان نہیں ہے ۔ عشو'ی طرازی کے بازار میں ممتاز اپنا کانچ کا دل لیئے پتھروں کی بارش میں کھڑی ہے ۔ ہر سچ لکھنے والے کی طرح جو ہاتھ مین قلم تھامے برائیاں قلم کرنے نکلتا ہے ۔ ضد باز اقرباء پروروں ،اناپرستوں نظر بازوں اور منافقوں کے سامنے ممتاز ملک کا نام ایک گلے کی ہڈی اور ایک چٹان  کی طرح ہے ۔ایک ایسی چٹان ہستی  جو ہمت اور جراءت کے ساتھ عملا خود کو دین اور معاشرت کیساتھ وابستہ رکھنا جانتی ہے ۔ جوہر تکلیف اور نقصان میں خدا کی حکمت تلاش کرتی ہے ۔ اور بہتری کی امید بھی رکھتی ہے ۔ جو کبھی اور کسی بھی حالت میں مایوس نہیں ہوتی ۔ جو خدا کے خوف سے زیادہ اسکی محبت پر یقین رکھتی ہے ۔ جو روز حساب کو بے لگام جوانیوں اور شرمناک بڑھاپے کے لیئے ایک نقارہ سمجھتی ہے ۔معاشرے میں بڑحتے ہوئے بے راہروی کے رجحان کولگام دینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے کام سے کام رکھنے والی  خواتین جب ان مخصوص ذہنوں کے آگے چلنے سے انکار کر دیں تو انکی کردار کشی اور انہیں بدنام کرنے کے لیئے ان پر کیچڑ اچھال کر تہمت لگا کر انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور جن کو خوشن نصیبی سے اپنے معتبر دوستوں اور خاندان کا ساتھ میسر آ جائے تو انہیں پیغام بھیجا جاتا ہے کہ ''حیرت ہے وہ ابھی تک ذندہ ہیں اور لکھتی بھی ہیں '' تو ایسے تمام خدا بننے کی کوشش میں مصروف خواتین و حضرات لیئے ممتازملک ایک بہت بڑا چیلنچ بن گئ ہے کیونکہ ان کا مقابلہ کام سے کرنے کی ان میں سے کسی میں بھی  صلاحیت ہی نہیں ہے لہذا انہوں نے ممتاز ملک کو سازشوں کے ذریعے توڑنے کی گھٹیا  کوشش شروع کر دی ۔ ممتازملک نے صرف شاعری ہی کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے کالمز کے ذریعے بھی غضب کی جراءت کا مظاہرہ کیا ہے ۔جو مردوں کے مسائل کو مرد بن کر بیان کرتی ہے تو عورت کا درد عورت بن کر سمجھتی ہے تو بوڑھوں کے غم بوڑھا بن کر محسوس کرتی ہے اور کھل کر بیان کرتی ہے ۔ ممتازملک کی تحریر کسی خاص عمر یا جنس کے لیئے مخصوص نہیں ہے اسکا لہجہ حقیقت کی دھار لیئے ہوئے ہے ۔ جو یقین کی طاقت سے پُر ہے اور باتوں میں اثر تبھی پیدا ہوتا ہے جب آدمی قول اور فعل کے تضاد سے پاک ہو ۔ کیوں کہ یہ سب وہ لوگوں کی جیبیں خالی کرانے ، بیرون ملک دورے کی ٹکٹس بٹورنے،  پاکستان کی مفت سیروں کے لیئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا اور صدقئہ جاریہ سمجھ کر کرتی ہے ۔ آخر میں ممتاز ملک نے اپنے مہمانوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ سچائی کی یہ مشعل جو انہوں نے ہاتھ مین اٹھائی ہے یہ تاعمر تھامے رہوں گی ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بقول  جو ہر ایک سے متفق ہوتا ہے وہ سب سے بڑا منافق ہوتا ہے ۔ اور ایک اور جگہ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سچے کو ایک ہی غم ہوتا ہے کہ وہ تنہا رہ جاتا ہے ۔  میں تاحیات  باب العلم حضرت علی  کرم اللہ وجہ کے اقوال سے روشنی لیتی رہی ہوں اور لیتی رہوں گی ۔ میں اللہ کی شکر گزار ہوں کہ میں اس سفر میں تنہا نہیں ہوں بلکہ آپ جیسی حق پسند ہستیاں اور میرے قارئین کی محبتیں مجھے حوصلہ دیئے ہوئے ہیں میں ان تمام احباب کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے  دنیا بھر سے اس سالگرہ اور میرے دل کا قلندر بولے کے لیئے مجھے مبارکباد کے پیغامات فیس بک سے، فون سے مسینجرز کے ذریعے بھجوائے ۔ ایسے ہی بہن بھائی اللہ کی جانب سے میرے لیئے تحفہ بھی ہیں اور طاقت بھی ۔ لہذا وہ سب جہاں بھی خوش رہیں ، سلامت رہیں ۔ آمین 


خاص طور پراپنی پیاری ساتھی اور بہن صفیہ خواجہ صاحبہ کا دل و جان سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا ۔جزاک اللہ
 

۔ ایک بار پھر سے تمام مہمانان گرامی کا بے حد شکریہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بدھ، 19 فروری، 2014

لائیو انٹرویو ۔ شاعرہ ممتاز ملک



31 جنوری2014 بروز جمعتہ المبارک
یورپ ٹائم ۔ دوپہر 3 بجے 
پاکستان ٹائم ۔ شام 7 بجے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

● ٹائٹل / میرے دل کا قلندر بولے


ٹائیٹل کتاب



معروف  شاعرہ ممتازملک
 کے
 دوسرے شعری مجموعے کا ٹائٹل 
بنام ٌٌ میرے دل کا قلندر بولےٌٌْ کی
تقریب رونمائی ۔ 22 فروری 2014 بروز ہفتہ
بمقام ۔ مہاراجہ ریسٹورنٹ اوبرولیئے
پیرس ۔ فرانس
●●●

● دعوت نامہ رونمائی/ میرے دل کا قلندر بولے


دعوت نامہ برائے 
رونمائی پروگرام 
میرے دل کا قلندر بولے 2014ء 



بسم اللہ الرحمن الرحیم


اتنا دیا سرکار نے مجھ کو جتنی میری اوقات نہیں 

یہ تو کرم ہے آپکا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں 
خوش آمدید ،
تقریب رونمائی 
معروف شاعرہ ممتاز ملک صاحبہ کا دوسرا شعری مجموعہ
ٌ میرے دل کا قلندر بولے ٌٌ ٹائٹل ٌ
ہم نہایت خوشی کیساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں 
،02،2014 22 بروز ہفتہ دوپہر 2 بجے سے 6 بجے تک
پیرس فرانس 
یہ دل ہے عبادت گاہ صنم 
اس دل کو تُو بازار نہ کر 
جو خلقت میں رُسوا کر دے
تُو مجھ سے ایسا پیار نہ کر
شکریہ
،،،،،،،،،،،،،،،،

مہاراجہ ریسٹورنٹ ۔ سانتغ کمرشیال ۔ میلیونیغ ۔ اوبیرویلیئے 
انٹری ۔ 10 یورو پر پرسن 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

19 rue Madeleine Vionnet (ex rue de la Gare), Aubervillers 93300

Autoroute : A1, périphérique Est puis porte d'Aubervilliers

Métro : Ligne 12, Porte de la Chapelle 
Métro : Ligne 7, Corentin Cariou

Bus : 35, 239
●●●

پہلا شعری مجموعہ

   



                     شاعرہ ممتازملک کا پہلا شعری مجموعہ
                     بنام ۔ مدٌْت ہوئی عورت ہوئے ٓٓ
                     تاریخ رونمائی ۔ 20 نومبر 2011 بروز ہفتہ
                     بمقام رائل شاہجہاں ریسٹورنٹ پیرس
                     مہمان خصوصی شاہ بانو میر صاحبہ
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

منگل، 18 فروری، 2014

● (72) آنکھیں بیچیں / شاعری ۔ سراب دنیا


             آنکھیں بیچیں 
            (کلام/ممتازملک۔پیرس)

میں نے اپنی آنکھیں بیچیں 
مجھ کو خوابوں میں رہنا تھا 

میں نے اپنے سپنے بیچے 
مجھ کو سپنا سچ کرنا تھا 

پھر میں نے سچ کو بھی بیچا
سچ سے مجھ کو کیا ملنا تھا 

سچ کو بیچا جھوٹ خریدا
جھوٹ کی منزل سرکرنا تھا

جھوٹ کی بنیادوں میں مجھ کو
سچائی کا خوں بھرنا تھا  

اب تک نہ ممتاز یہ سمجھے 
ہم کو آخر کیا کرنا تھا
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/