ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 31 جولائی، 2024

تبصرہ۔ ممتاز منور انڈیا۔ اور وہ چلا گیا


ممتاز شاعرہ ممتاز ملک

کرونا وبا کے دوران ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ آن لائن مشاعروں کا دور شروع ہو گیا۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے شعراء سے متعارف ہونےکا موقع ملا۔ انھیں میں سے ایک باوقار شخصیت ہیں ممتاز ملک ۔
جن کا تعلق پیرس سے ہے۔ حسین و جمیل، شگفتہ مزاج ,زندہ دل اور زندگی سے بھر پور۔ بہترین ناظمہ۔
 ان کی نظامت میں مشاعرہ پڑھنے   کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ آپ  ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس " کی بانی اور روح رواں ہیں۔ جس کے تحت آپ اردو اور پنجابی عالمی مشاعرے منعقد کرواتی رہتی ہیں۔ اپنی خوبصورت ادا سےاور دلفریب ترنم میں جب آپ اپنا کلام پیش کرتی ہیں تو سامعین مسحور ہو جاتے ہیں۔ جتنے خوبصورت  طریقے سے کلام کی ادائیگی ہوتی ہے اتنا ہی خوبصورت ان کا کلام ہوتا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ"اور وہ چلا گیا" ابھی ابھی موصول ہوا۔ ممتاز صاحبہ کے حکم کی تعمیل میں اس کتاب کے تعلق سے  اپنے خیالات پیش خدمت ہیں۔
اس کتاب کو ادارۀ اردو سخن ڈاٹ کام نے شائع کیا ہے ۔ 200 صفحات پر مبنی اس کتاب کا انتساب بھی دلچسپ ہے۔ جس کو أپ نے "وطن عزیزکی فلاح و بہبود کے لۓ سوچنے والوں کے نام" کیا ہے۔ کیونکہ آپ خود بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے بارے میں نہ صرف سوچتی ہیں بلکہ اس میدان میں فعال بھی ہیں۔ جس کی جھلک  ان کے کلام میں بھی نظر أتی ہے ۔ وہ کہتی ہیں

ناچتی پھرتی ہے یہ نسل نو
کجھ تو ان میں فنون رہنے دو

یہ شعر بھی ملاحظہ کریں

گھر میں ہی انصاف کی پامالیاں ہونے لگیں
داغ سینے کے زمانے کو دکھانے پڑ گئے

ممتاز صاحبہ اج کے دور کی خاتون ہیں۔ تعلیم یافتہ، اپنا ذہن، اپنی راۓ رکھنے والی۔ اپنے وجود کی اہمیت جتانا خوب جانتی ہیں۔کہتی ہیں

چوڑیاں چھوڑ کے ہتھیار  اٹھایا میں نے 
نہ سمجھ تو اسے بیکار اٹھایا میں نے

 اسی طرح وہ اپنے أپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھتیں۔  بلکہ برابری کا درجہ چاہتی ہیں۔

تمہارے رنج و غم اپنے جگر میں پالتی ہوں
میں ہمدم ہوں محض اک شوق رکھوالی نہیں ہوں

کہیں کہیں ان کی شاعری میں زمانے سے شکایت کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں

یہ مطلب پرستوں کی دنیا ہے پیارے
یہاں زندگی کون ہنس کے گزارے
یہاں پر خوشی میں تو ہنستے ہیں سارے
مگرساتھ روتے نہیں ہیں ہمارے

انہیں اپنے دوستوں سے بھی گلہ ہے کہ

اپنے ہی رلاتے ہیں اپنے ہی ستاتے ہیں
غیروں میں کہاں دم تھا کہ آنکھ کو نم کرتے

 آج کل کے حالات پر بھی وہ گہری نظر رکھتی ہیں اورفرماتی ہیں

ہے تم پر فرض پہلا،  پرورش اچھی کرو ان کی
جنم دیتے ہی جن کو تم ، لگاتے ہو کمانے بر

ان شکوے شکایات کے باوجود آپ نہایت پر امید ہیں

جہاں کوئی نیا أباد کر لیں
یہ دنیااب پرانی ہو گئی ہے

 اور یہ بھی ملاحظہ کریں

رات کے بعد ممتاز دن آئیگا 
سوچ نہ دن کے آگے محض رات ہے

آپکی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر ایک مثبت تاثر چھا جاتا ہے ۔ شاعر کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ اپنے قاری کی سوچ کوصحیح اور مثبت سمت دے ۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں ممتاز صاحبہ کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہوں

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 ڈاکٹر ممتاز منور
صدر
انجمن ترقی اردو( ہند)
پونے. . . .  انڈیا
                 ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 28 جولائی، 2024

* تبصرہ ۔ رشید شیخ ۔ اور وہ چلا گیا




کیا شاعرہ، کیا ناظمہ!

محترمہ ممتاز ملک اردو ادب کے افق پر وہ درخشندہ ستارہ ہیں جس نے عالمی آن لائن مشاعروں میں نظامت کے جوہر دکھا کر عالمی شہرت کی بلندیوں کو  چھو لیا ہے۔
عالمی آن لائن مشاعروں کا سلسلہ COVID-19 کے زمانہ میں شروع ہوا ۔ کیونکہ اس زمانے میں ہر ملک میں اجتماعات منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ظاہر ہے زمینی مشاعروں کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ۔البتہ اسکا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اردو کے متوالوں نے آن لائن مشاعروں کی سبیل ڈھونڈ نکالی جس کے ذریعہ
نہ صرف عالمی سطح پر ایک دوسرے سے تعارف ہونا شروع ہوا بلکہ اردو شاعری کو بھی ترسیل و ترویج اور مقبولیت حاصل ہوئی ۔
اسی زمانے سے گلوبل رائیٹر ایسوسی ایشن، اٹلی، بزم سخن شکاگو، اور دائرہ ادب نیویارک وغیرہ شعر و سخن کے اس میدان میں بہت سر گرم عمل ہیں۔
گلوبل رائیٹر ایسوسی ایشن اٹلی کے ایک عالمی آن لائن مشاعرہ میں نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے محترمہ ممتاز ملک سے تعارف حاصل ہوا اور بہت محظوظ و متاثر ہوا۔  آپ غضب کی نظامت فرما تی  ہیں ۔ اللہ کرے زور نظامت اور زیادہ!
یہی نہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ آپ شاعری بھی فرماتی ہیں اور بہت عمدہ  شاعرہ ہیں جب انہوں نے مشاعرہ کے دوران اپنے کلام سے محظوظ کیا۔یہ خوبصورت لہن میں سلاست و روانی کے ساتھ دل موہ لینے والی شاعری ہے۔واہ! واہ! واہ! انکا نظامت کے دوران چٹکلے اور خوش گپیاں کرنا مشاعرہ میں جو شگفتگی پیدا کرتا ہے اس سے کوئی بھی محظوظ ہونے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہرشاعروشاعرہ کو پر وقار طریقہ سے مختصر تعارف کے ساتھ دعوت کلام دینا انکی نظامت کی فنی صلاحیت کا آئینہ دار ہے۔ اسی طرح وہ مشاعرہ کو اختتام تک چا بکدستی سے دلچسپ اورپرامن رکھتی ہیں۔
حال ہی میں انکا ایک مجموعہ کلام بعنوان" اور وہ چلا گیا" اشاعت کے لئے پرتول رہا ہے۔ جس کے لئے محترمہ نے مجھے بھی اظہار  خیال کا موقع مرحمت فرمایا ہے۔ من آنم کہ چہ دانم! تاہم مجموعہ کلام کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے لگا کہ واقعی ایں گل گلاب است!
اپنی نوعیت کا منفرد کلام ہےجو سماج کے ہر طبقہ فکر کی عکاسی کرتا ہے ۔
 یہ مجموعہ کلام نوے منظومات پر مشتمل ہے۔ ہر نظم باقاعدہ ایک عنوان کے تحت لکھی گئی ہے۔ جو تفصیلا اس عنوان کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ ذیل میں چند  نظمیں بمعہ عنوان اور منتخبہ اشعار کے ملاحظہ فرمائیں:-
پتھر کا شہر: 
اب کوئی دھوپ نہ پگھلائے گی پندار میرا
میں نے اک چاند کو جو اپنے سر پر تان لیا

اس نے سونے کو بھی صحرائوں میں رولا جاکر
ہم نے بھی ریت سے سونے کو مگر  چھان لیا

ایک اور نظم عنوان" جاری ہم پہ"
ہے فسوں اس کا بڑی دیر سے طاری ہم پہ 
حکم الطاف ہوا کرتا ہے جاری ہم پہ 
 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھارا ہم پہ

نظم " ساتھ نبھانے والے"
اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ  نبھانے والے 
میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتانے والے
ہم تو ممتاز سمجھتے ہیں اسی کو ہیرو
ڈوبنے والے کو ہر طور بچانے والے

اسی طرح اور بہت سی نظمیں ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں ۔ مثلاً دیئے بجھنے لگے، میرے بغیر، غضب داستان، جاں بلب، جلتےہیں، سرکار وطن میں ،
ڈھم ڈھما ڈھم، وغیرہ وغیرہ 
جہاں تک فنی تقاضوں کامعاملہ ہے۔ آپکا کلام علم عروض سے آراستہ ہے۔ اور تمام منظومات غزل کے پیرائے میں لکھی گئی ہیں۔ یعنی ہر شعر ہم قافیہ اور ہم ردیف ہے۔ اس طرح غزل گوئی کے فن کو نظم کے رنگ میں سمویا گیا ہے۔جو ایک دلچسپ انداز لگتا ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ توقع کرتا ہوں کہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے مجموعہ کلام " اور وہ  چلا گیا" کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہوگی۔
رشید شیخ شکاگو ، 
صدر بزم سخن شکاگو

ہفتہ، 27 جولائی، 2024

& چوزہ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی

چوزہ
افسانہ:
 (ممتازملک ۔پیرس)

تپتی ہوئی دوپہر میں وہ چھوٹی سی بچی جس کی عمر بمشکل سات یا آٹھ برس ہوگی، 
چھت کے گرم فرش پر خود کو بچاتے ہوئے ننگے پیر بھاگ رہی ننگے تھی۔ 
اس کا باپ ہاتھ میں پانی بھرنے کا پلاسٹک کا پائپ لیئے اسے تاک تاک کر نشانے پر پیٹ رہا تھا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک جلاد کی روح اس میں سرایت کئے ہوئے تھی۔ پڑوسی وقفے وقفے سے بچی کے رونے کے شور پر اپنی دیواروں سے جھانک جھانک کر چھپ جاتے۔
یہ آج محلے میں سب سے مذیدار خبر بننے جا رہی تھی اس لیئے سبھی اس کا بھرپور مزہ لے رہے تھے۔
کسی ایک کو بھی اس بچی کی تکلیف نہ دکھائی دی نہ سنائی دی۔
سب نے اپنے کان اور آنکھیں شاید اپنے ہاتھوں پھوڑ رکھی تھیں ۔ 
وہ بچی جو بار بار روتے اور پٹتے ہوئے چلا رہی تھی اس امید سے کسی بھی جھانکتے ہوئے کو سر اٹھا کر فریاد بھری نظروں سے دیکھتی کہ کوئی تو اسے اس قصائی سے بچا لے
 لیکن افسوس ۔۔۔
 تماش بینوں میں کوئی بھی انسان نہیں تھا ۔ 
اس کے جسم پر پائپ کے نیل بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ 
دیکھنے والوں میں کوئی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ بچی اس جلاد کی اپنی بچی  ہے۔
اسی چھت پر اپنے ڈربے سے باہر گھومتے چھوٹے چھوٹے کمزور سے چوزے بھی بھاگ رہے تھے جو یہ تماشہ دیکھ کر حیران تھے ۔
 اس باپ کو یہ خیال تک نہیں تھا کہ یہاں یہ چھوٹے چھوٹے چوزے بے زبان جانور بھی اسے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسکے ڈر سے بھاگ رہے ہیں بلکہ وہ اپنی نشانے سادھے جا  رہا تھا، 
لیکن وہ بچی دھوپ میں جلتے فرش پر پیر یہ سوچ کر  رکھ رہی تھی کہ کوئی چوزہ اس کے پاؤں کے نیچے نہ آ جائے۔
 ابو جی مجھے معاف کر دو۔ 
پتہ نہیں وہ ننھے ننھے ہاتھ باندھے کس جرم کی معافی مانگ رہی تھی۔
 دائیں بائیں گھروں میں سے کوئی نہ کوئی چھت پر سے جھانک کر اس تماشے کو انجوائے کر رہا تھا،
اسے روک کر کوئی بھی اس ظالم کی قہر کا شکار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ 
 لیکن پھر وہی ہوا جس سے وہ بچی بچنا چاہتی تھی ایک طرف باپ شکاری، پلاسٹک کے موٹے پائپ سے اسے پیٹے جا رہا تھا،
 اور ایک طرف وہ معصوم چوزوں کو بچانے کے لیئے اپنے پاؤں سہج سہج کر آگے بڑھا کر خود کو بھی بچانا چاہتی تھی اور ان چوزوں کو بھی،
 لیکن ایک معصوم سا چوزا اس کے پیروں کے نیچے آ ہی گیا۔
 اس نے اپنی آنکھوں سے مڑ کر دیکھا تو اس معصوم سے چوزے کی انتڑیاں باہر آ چکی تھیں۔
 وہ اپنے درد کو بھول کر اس چوزے کے درد میں اور زور سے رونے لگی۔ 
وہ خود کو قاتل سمجھنے لگی۔
یہ قتل بھی اس کے باپ نے اسی کے حساب میں لکھ دیا ۔ اس کے موت کے جرم میں اسے مزید کتنی دیر تک اپنی کھال ادھڑوانی پڑی۔
اس کے معصوم سے دل میں اس چوزے کی قبر بن گئی۔
 اس روز وہ چوزہ نہیں مرا بلکہ اس کے دل سے اس کے باپ کی محبت کا جنازہ بھی نکل گیا۔
                   -----

& بیرنگ ...... افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



      بیرنگ


راضیہ کو اس سرکاری ملازمت پر آئے ہوئے آج پورے دس سال ہو چکے تھی.  اچھی تنخواہ, پک اینڈ ڈراپ کی سہولت اور اچھے دفتری ماحول نے انہیں کبھی کوئی فکر مندی نہیں دی. 
ویسے تو وہ واجبی سی شکل صورت کی لڑکی تھی لیکن ان کی خوش کلامی اور حس مزاح سے وہ بہت جلد سبھی کی پسندیدہ  کولیگ بن گئیں. 
دس سال پہلے جب اپنے والد کی وفات کے بعد انہیں بڑے بھائی کے اکیلے گھر کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں دقت محسوس ہوئی تو اس نے بھی ملازمت کرنے کا ارادہ کر لیا  .
یوں تو اس وقت وہ تئیس برس کی ہو چکی تھی.  اس کی کئی دوست بیاہی جا چکی تھیں ۔ اور اس سے اس کی شادی کے بارے میں سوال کیا کرتی تھیں ۔
ہر لڑکی کی طرح وہ بھی اب اپنا گھر بسانے کی خواہش رکھتی تھی.
 لیکن گھر کے مالی حالات اس قابل نہ تھے کہ اس کی شادی کا بوجھ اٹھا سکتے. 
 بھائی کی ملازمت کو ابھی ایک ہی سال ہوا تھا.  اس کی تنخواہ سے بمشکل ان کے تین افراد کا کنبہ ہی پل سکتا تھا.
اس نے اپنی ماں کو ملازمت کرنے کی اجازت دینے پر راضی کر ہی لیا ۔ 
  ویسے بھی ایک بہت اچھے سرکاری ادارے میں انٹرویو دیکر آئی تو بہت پر امید تھیں لیکن دن پر دن گزرتا گیا . انٹرویو پر انٹرویو ہوتے رہے لیکن ایف اے پاس راضیہ کو کہیں سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہ مل سکا.
  کہیں سے جواب آتا بھی تو تنخواہ محض اتنی تھی کہ وہاں کے آنے جانے کا بس کا کرایہ ہی  بمشکل نکل پاتا.  سو دو تین گھنٹے کے سفر کا کوئی مقصد نہیں تھا. 
 ان دفاتر اور اسکولوں کے چکر کاٹ کاٹ کر  حقیقتا اسکے جوتے گھس چکے تھے ۔
جہاں خاتون افسر سے واسطہ پڑتا وہاں سے تنخواہ کا کوئی معقول آسرا نہ تھا اور جہاں مرد افسر سے واسطہ پڑتا وہاں عزت ملنے کی کوئی امید نہ رہتی ۔ 
بمشکل اسے بھائی کے کسی جاننے والے کی سفارش پر کنڈر گارڈن میں پریپ کی کلاس کے بچوں کو اے بی سی سکھانے کی ملازمت مل ہی گئی۔
 ۔ تنخواہ دوسرے پرائیویٹ سکولز کی طرح برائے نام تھی لیکن گھر کے نزدیک ہونے کے سبب پیدل آنا جانا تھا تو بس کے کرائےکا کوئی خرچ نہیں تھا ۔ اس لیئے وہ خوش تھی ۔ ۔
جاب کیساتھ پڑہائی بھی جاری رکھی اور اپنا بے اے اور بی ایڈ  مکمل کر ہی لیا ۔
 تو اسے اس سرکاری سکول میں بہت اچھی تنخواہ پر ملازمت بھی مل گئی ۔
اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب اس کی عمر کی بہار پر خزاں چھانے لگی ۔ اس کے بھائی کی شادی ہو چکی تھی اسکے تین بچے اسے پھوپھو پھوپھو پکارتے اب پرائمری کلاسز پار کر رہے تھے ۔
آئینہ آج کیوں بول پڑا 
آج اس کی ایک دوست کی سب سے چھوٹی بہن کی بارات تھی ۔ اس کی سکول کے زمانے کی بچپن کی سہیلی انجم  نے گاڑی کا ہارن دیکر اسے باہر بلایا 
اسلام علیکم آنٹی 
اس نے گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے پیاری سی گنگناتی ہوئی آواز سنی
مڑکر پچھلی سیٹ پر دیکھا تو حسین سی ٹین ایجر گڑیا سے لڑکی کو مسکراتے پایا 
وہ ہڑبڑا کے اسے ایک ٹک دیکھتی گئی۔
 تو انجم نے اسے ہنس کر خواب سے حقیقت کی زمین پر اتارا 
ارے بھئی کیا دیکھ رہی ہو
نظر لگاو گی میری بیٹی کو کیا 
وہ ہنستے ہوئے بولی
ہیں نظر مطلب۔۔
وہ جملہ ترتیب نہ دے پائی تو انجم نے ہی تعارف کرایا 
ارے بھئی یہ ہے میری شیطان بیٹی حورم ۔ جو آج زبردستی میرے ساتھ شادی پر جا رہی ہیں ۔۔
دونوں ماں بیٹی اس جملے پر ایکساتھ ہنس دیں 
راضیہ حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی 
ارے کتنی بڑی ہو گئی ہے ماشاءاللہ میں نے اسے شاید اس وقت دیکھا تھا جب اس کی پہلی سالگرہ تھی 
جی آنٹی لیکن میری ماما تو آپ کی اتنی باتیں کرتی ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ ہمارے ہی گھر میں رہتی ہیں ۔ 
حورم نے شرارت سے اپنی ماں کو چھیڑا ۔ 
ابھی کل کی بات ہے کہ ادھر ہمارے بارہویں کے امتحانات ختم ہوئے ادھر ابا نے میرے ماموں زاد سے میرا رشتہ پکا کر دیا اور نتیجہ آنے سے پہلے میری رخصتی کر دی گئی۔ سال بھر میں یہ محترمہ تشریف لے آئیں ۔ اورمیں اس میں مصروف ہو گئی اور تم نوکری کی تلاش میں چار سال خوار ہوتی رہی۔ 
آج محترمہ کی  اٹھارہویں سالگرہ بھی ہے۔ 
انجم بولتی رہی اور اس کے وہ سارے خواب  جو اس نے حورم کی عمر میں سنجوئے تھے ۔ پتہ پتہ اس کی آنکھوں کے سامنے وقت کی ہواوں پر اڑتے بکھرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ 
بارات سے واپسی پر انجم نے اسے اسکے گھر کے سامنے اتار کر گاڑی آگے بڑہائی۔
 لیکن آئینے کے سامنے کھڑی راضیہ   جسے آج خود کو غور سے دیکھنے کا خیال آیا ،اسے ان دس سالوں میں دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر میں اپنے حصے کا کوئی  رنگ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
 ماسوائے اس کے روکھے بالوں میں پھیلتے چاندی جیسے سفید رنگ کے   یا بے رونق سخت ہوتے ہوئے چہرے کے اڑتے ہوئے رنگ کے سوا ۔۔۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 24 جولائی، 2024

تبصرہ ۔ امجد رحمان۔ اور وہ چلا گیا



تبصرہ امجد رحمان امجد سیالکوٹ 
لکھاری۔  40 کتب

شعر اور فرد کے مابین استوار ہونے والے رشتوں میں سب سے واضح اور معتبر رشتہ "لاشعور" کی سطح پر قائم ہوا کرتا ہے۔ شعری زبان اور ہیئت (form) کی تفہیم فوری طور پر "شعور" کی مرہون منت ہی سہی لیکن متن( text) کی(application) ہمیشہ "لاشعور" بلکہ اگر صحیح اصطلاح اپنائی جائے تو "اجتماعی لاشعور " کے وسیع و عریض علاقے پر ہوتی ہے ۔ یوں بھی جدید نفسیات کے مطابق افہام کی اصل سطح "اجتماعی لاشعور" کی انہی یادداشتوں سے عبارت ہے۔  تخلیق سے اظہار تک کے تمام مراحل سہل نہیں ۔ نہ جانے کتنے ہی ہفت خواں سر کرنے کے بعد شاعر اس اقلیم سخن تک رسا ہوتا ہے
 جہاں اسے لفظ کا اصل فطری لحن نصیب ہوتا ہے اور بقول غالب~
 بے نشہ کس کو طاقت آشوب آگہی
 بہرحال سخن کے حوالے سے کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ (اگرچہ نہ ہونے کے برابر صحیح ) اور آج بھی اس سلسلے میں انفرادی سطح پر بہت سے لوگ مصروف کار ہیں۔ آج اس قبیلے کی ایک فرد سے آپکو ملوانا چاہتا ہوں۔ اس کے کہے ہوئے شعروں میں، اس کے برتے ہوئے لفظوں میں، دھیما سا سہی لیکن ایک نیا ذائقہ آپ کو ضرور ملے گا۔
 >ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا، میرے خدا ہو جا

>جب سے چوما ہے میں نے صحن حرم
 بے قراری سے میں قرار میں ہوں
 محترمہ ممتاز ملک کی ذات اور شاعری میں جو باتیں مشترک ہیں اور ان میں سب سے اہم بات کسی اور کو اپنا گرویدہ بنانے کی خصوصیت ہے۔ جس طرح محترمہ ممتاز ملک سے ملنے والا شخص ان سے متاثر ہوتا ہے بلکہ دوسری تیسری ملاقات میں ان کے گنوں کو پوری طرح جان جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان کی شاعری فوری طور پر ذہنوں پر حاوی ہو کر اپنی موجودگی کا اظہار کرتی ہے۔ ( یہ میرا خیال ہے) آئیے محترمہ ممتاز ملک کے آئینے کے سامنے کچھ وقت گزارتے ہیں۔۔۔
* ہم نہ آتے جو یہاں کون بتاتا ہم کو
 کس کی اوقات ہے کیا آ کے یہاں جان لیا 

*کھردری کھردری اداسی ہے
 مخملی مخملی خماری ہے 

*ساری دنیا کی اذیت سے تقابل کرتے
 اس کا ہر لفظ جہاں بھر سے تھا بھاری ہم

* محرومیوں کا درد یا احساس کی کمی ہے
 سوچوں کے آئینوں پر اک گرد سی جمی ہے 

*دھڑکنیں ہو گئیں ساقط تیرے جاتے جاتے
 کس طرح تجھ کو میری جان بھلائیں گے ہم

* اگر ہر شعر کو اکائی سمجھا جائے تو اس کتاب میں شامل اکثر غزلیں ایک بالغ نظر حساس شخصیت کی زندگی میں لمحہ لمحہ رنگ بدلتی رتوں اور تیور بدلتے رشتوں کی رپوتاژ بھی کہلا سکتی ہیں دراصل ۔۔۔۔۔ 
سچا تخلیق کار وہی ہوتا ہے جو اپنی داخلی واردات کے ساتھ ساتھ خارجی معاملات و مشاہدات کو بھی پیرایئہ اظہار دینے کا ہنر رکھتا ہو۔
محترمہ ممتاز ملک پر یہ نقطہ یقینا منکشف ہو چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مذکورہ بالا دونوں جہتیں موجود ہیں اور لطف یہ کہ تمام تر فنی باریکیوں کے ساتھ ۔۔
چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔۔۔
*میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتانے والے
 اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے

 *ہرگز یہ سمجھنا یہاں دشوار نہیں ہے
 اس ملک سے کوئی بھی وفادار نہیں ہے

* گھلی ہیں سسکیاں ہر ایک لے میں 
 یہی اس گیت کا رنگ طرب ہے

* کیا خوشی کبھی تذکرہ کرتا
 یہ تو پہلو میں غم کی سوتی ہے 

* لب پہ نغمے وصال کے لیکن
 آنکھ میں ہے جدائی کا موسم

 اس کتاب کی بیشتر غزلوں میں شاعرہ کی ٹریٹمنٹ میں نہایت سادگی نظر آئے گی۔ اس کی زبان میں محاورے سے زیادہ روزمرہ کا لہجہ استعمال ہوتا ہے۔  محترمہ ممتاز ملک اور لفظوں کے درمیان بڑی بے تکلفی ہے اور یہ بڑی اہم چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں جیتی جاگتی اور سانس لیتی زندگی دکھائی دیتی ہے۔
* وہ بھی تجھ کو بچا نہیں سکتے 
جی اٹھے ہیں جو تیرے آنے پر

* گر بجھا سکتے نہیں، اچھا ہے تم دور رہو 
مت بھڑکتے ہوئے، شعلوں کو ہوا دو جا کر

* بہت قابل جسے مانا جہاں نے
 ناکارہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے

* دبا کے درد کو مسکان کوئی کم تو نہیں 
اسے اسی میں تو بے حد کمال گزرا ہے 

*نظروں سے لوگ پوچھتے ہیں سجتا دیکھ کر 
کس کو سنگھار اپنا دکھائیں تیرے بغیر

* لب نہ کہہ پائیں وہ آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے
 ہر محبت میں عقیدت یہ کہاں ہوتی ہے
 ہم نے محسوس کیا خود کو بھی بے بس اس جاء
 والہانہ سی یہ زنجیر جہاں ہوتی ہے

* جب ضرورت ہو مجھے یاد بھی کر لیتا ہے
 بن ضرورت کے نہیں وقت گنوانے والا 

* معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہے صاحب
 جتنے انسان نے آسان سمجھ رکھا ہے

* ہم زندگی کی بھیڑ میں گم کس قدر ہوئے 
کھینچا ہے واپسی نے بھی فرمان کی طرح

* جو کچھ گزر رہی ہے اس سے نظر چرا کر
 کچھ اور ہی دکھانا , آسان نہیں ہوتا 

*زندگی میں سکون رہنے دو
 تھوڑا تھوڑا جنون رہنے دو 
ہو چکا ہے جو رب کی رحمت سے 
تم بھی اس کو ملعون رہنے دو

 زندگی کی کڑوی اور سنگین حقیقتوں کی نقاب کشائی محترمہ ممتاز ملک کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ تخیل پرست نہیں بلکہ جو کچھ اپنے سامنے دیکھتی ہے اس کو اپنے شعر کا موضوع بناتی ہے۔  خارجی حالات کو دیکھ کر جو باتیں اس کے ذہن میں آتی ہیں۔ انہی کی تفصیل اور جزئیات کو پیش کرتی ہیں۔ اس کی شاعری میں عذاب زیست کے سارے باب کھلے نظر آتے ہیں۔  محترمہ ممتاز ملک جذبوں کا جوڈو کھیلنا جانتی ہیں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو بیان کر جاتی ہیں۔ دراصل اس نے چھوٹی باتوں میں ہی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھا ہے ۔ اس لیے وہ ہر اس چیز کو ٹٹولتی ہے جس پر ہاتھ ڈالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ فنی اعتبار سے وہ اپنا جواب آپ ہے۔۔۔ وہ حساس اور بے باک ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہے۔ اس کے شعری سٹائل میں سادگی اور پرکاری کے ساتھ تیکھا پن اور نوک پلک کی درستی بڑی مٹھاس کے ساتھ بھری ہوئی ہے۔ وہ دو مصروں میں بے تکلفی کے ساتھ سارے گن ظاہر کر دیتی ہے۔ وہ شعر بازوں اور شعر گروں سے الگ تھلگ رہ کر اپنے فیصلے صادر کرنے کی عادی ہے۔ اس لیے وہ اکثر فیصلے درست کرتی ہے۔ وہ بڑی سے بڑی ٹریجڈی کو سہولت کے ساتھ ایک شعر میں بیان کر سکتی ہے۔ اس کی شاعری مخملی ملائم کے ساتھ کلف کیئے ہوئے کاٹن کی طرح کھنک اور اینٹھتی ہوئی اکڑ بھی موجود ہے۔
" اور وہ چلا گیا"  کا عنوان ہی اپنے اندر بے پناہ درد اور معنویت رکھتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر یہ مصرع جس شعر یا غزل سے لیا گیا ہے۔ اس کا موڈ کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ہر مصر ایک الگ اور آزاد بلاز کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک اکائی کی حیثیت سے ہر مصرع شاعرہ کی مکمل تحلیل نفسی کا تقاضا کرتا نظر آتا ہے۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہے۔ آپ بھی اس کتاب کے ٹائٹل کو کچھ وقت الگ سے ضرور دیں۔
 محترمہ ممتاز ملک کے بقول~

ہم کو بھی سانس لینے کو، تازہ ہوا ملے 
گل سے گلوں سے، ہم کو لگاوٹ نصیب ہو
 میں محترمہ ممتاز ملک کو ان کے پابچویں  اردو شعری مجموعہ کلام " اور وہ چلا گیا "
کی تخلیق پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں 
" اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
 دعاگو 
رحمان امجد مراد
 بانی اور چیئرمین کرائیڈن اکیڈمی سیالکوٹ 
0321.6151642

پیر، 22 جولائی، 2024

* عمر گزاری ہے/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


عمر گزاری ہے 

لو یو لو یو کرتے کرتے اس نے عمر گزاری ہے 
جھوٹ کا لو یو سچ کی خاموشی پر ہر دم بھاری ہے

ہر  بات کھلی ہے اور یہاں  ہر راز سے پردہ اٹھا ہے
 دل پھر بھی  تسلیم کرے نہ، ایک عجب لاچاری ہے

راہنما خود بھٹکا ہے اور آقاؤں کی دہشت ہے
 کیسا انتخاب ہے جو غیرت پر ضرب کاری ہے 

حق بات کہو تو غداری کی سندیں ہوتی ہیں جاری
ایمان کا سودا طے کرنا ہی کاہے کی دلداری ہے

بند یہاں بندہ سکتا ہے جو لوٹ مچی ہے ہر جانب  
ایمان سلامت ہو اپنا اور  شرط محض بیداری ہے

حد ہوتی نافرمانی کی حد ہوتی ہے گستاخی کی
یہ بات اسے سمجھانے میں پیش آتی 
ہر دشواری ہے

ان گلیوں میں کیا رکھا ہے ممتاز سوا بہروپیوں کے
نت روز تماشے ہوتے ہیں اک اور کی  اب تیاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 19 جولائی، 2024

& نامعلوم لاٹریاں۔ افسانے۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی





نامعلوم لاٹریاں        




جب سے پاکستان آئی ہوں ہر چوتھے روز کسی نہ کسی نمبر سے مجھے اس لاٹری کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جو میں نے کبھی 
خریدی تک نہیں .
شبینہ نے بیزاری سے اپنی دوست عادلہ کو بتایا 
لیکن انہیں نام ، پتہ کیسے ملتا ہے 
عادلہ نے اس سے سوال کیا
بھئی ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ 
ہیلو جی آپ کا فون نمبر فلاں مہینے میں ہمارے پاس میسج کے جواب میں آیا تھا جس پر آپکا پانچ لاکھ روپے اور دس تولے سونا لاٹری میں نکلا ہے...
ایک موٹر سائیکل اور بیس تولے سونا نکلا ہے.....
دس لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے ...
تو پھر 
پھر کیا ایک نمبر دیا جائیگا جلدی کریں اپنا انعام وصول کریں جیسے انعام  کسی بم پر رکھا ہے نہ اٹھایا تو دھماکا ہو جائیگا 
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
پھر ۔۔۔

پھر کیا 
اس نمبر پر فون کرو تو وہاں اںکق ایک ڈاکو بلکہ ڈیجیٹل ڈالو آپ کو پانچ دس پندرہ ہزار روپے فلاں بندے کو بھجنے کے لیئے چکنی چپڑی نصیحت کرے گا ۔ بلکہ جھوٹ بولتے ہوئے اللہ اور قرآن کی قسمیں بھی اٹھا کے گا کہ بی بی ہم فراڈ نہیں ہیں ۔
اچھا۔۔۔
ہاں اور کیا اور ہم بے وقوف لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دیکھو بھئی اس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہے قسمیں اٹھا رہا ہے تو یہ فراڈ کیوں کرے گا،  لیکن یہ یاد رکھو سب سے زیادہ قسمیں اٹھانے والا ہی سب سے بڑا دھوکے باز اور فراڈیا ہوتا ہے۔
 اس کے بعد۔۔۔
عادلہ نے تجسس سے پر لہجے میں پوچھا
 اس کے بعد کیا ۔۔۔ اس کے بعد جب اس دوسرے نمبر پر آپ نے پیسے بھیج دیئے پھر وہ آپ کو بتائے گا کہ اچھا جی پہلا مرحلہ طے ہو گیا۔ مبارک ہو ۔ اب آپ اس طرح کریں کہ آپ اس فلانے نمبر پر اس فلانے صاحب کو فون کریں وہاں پر آپ کے انعام کا اگلا مرحلہ انتظار کر رہا ہے۔
 تو۔۔۔۔۔
عادلہ نے بےچینی سے پوچھا
 تو پھر آپ اگلے شکاری کے پاس جاتے ہیں  اور وہ شکاری آپ سے پھر سے 10 یا  15 یا 20 ہزار روپے ایزی پیسہ کے ذریعے بھجوانے کی فرمائش کرے گا۔
 اب جناب آپ کا انعام دوسرے مرحلے میں آ چکا ہے اور آپ کا انتظار ختم۔ہونے کو ہے ۔ آپ کے نام کی پرچی لگ چکی ہے اور ایک مشہور و معروف ٹی وی چینل کا نام لے کر اس کے نیلام گھر کی کہانی سنا کر یہ انعام وہاں سے اپ کے لیئے بھیجا جا رہا ہے اور اس کا لوگو تک استعمال کیا جائے گا اور آپ اس خوشی میں کہ اس کا لوگو کوئی اور کیوں یوز کرے گا آپ بے وقوف بن کر پھر اس کی ایک میٹھی کہانی میں اس کو 10،  15 ہزار روپے بھجوا دیتے ہیں۔
 اس طرح وہ چار پانچ لوگ مل کر کم سے کم از کم ایک لاکھ روپے تو آپ سے نکلوا ہی لیتے ہیں،
   تو پھر جب آپ کو خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ آپ اس دلدل میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں اور آپ محتاط ہونے لگتے ہیں۔
 تب تک وہ آپ کو اچھی والی چپت لگا چکے ہوتے ہیں۔
 آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔۔
عادلہ نے بے دھڑک پوچھ ہی لیا 
 ارے نہیں یار میں نے پہلے ہی مرحلے میں اسے سمجھ لیا کہ یہ میرے ساتھ دھوکہ ہونے کی کہانی شروع ہو گئی ہے۔
 پھر آپ نے کیا کیا
 میں نے اس دوسرے والے کو کہا کہ بھائی سیدھی سی بات ہے ۔ 
اس انعام کے لیے کتنے پیسے دے کر مجھے وصولی کرنی ہوگی۔۔
 اس نے کہا 
کچھ نہیں میم اتنا سب کچھ نہیں ہے جناب ۔
یہ بیس ہزار روپے بس اس وقت دیں گے۔ تو ساتھ ہی آپ کی اگلے مرحلے کی آپ کی پرچی لگ جائے گی۔
 انعام آپ تک پہنچا دیا جائے گا۔
 میں نے کہا میرے بھائی تو ایسا کر کہ یہ بیس ہزار یا 40 ہزار بلکہ تو ایک دو تین لاکھ روپے اس میں سے نکال لے جو بھی تم سب لوگوں کے آپس کا کمیشن ہے،  بانٹ لو اور میرا انعام مجھے بھجوا دو ۔
جیسے ہی میرا انعام ملتا ہے اس سے پہلے پہلے تم لوگ اپنی رقم کٹوا لو۔
 میری اب بات سن کر وہ بدک گیا اور بولا ارے نہیں نہیں میڈم ایسے نہیں ہوتا ۔ 
یہاں  پہلے پیمنٹ کرنی پڑتی ہے تب یہ کرنا پڑتا ہے تب وہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر یہ انعام اپ تک پہنچتا ہے۔
 اس کے شروع کے مرحلے ہوتے ہیں۔۔ 
میں نے کہا
او بھائی مجھے الو مت بنا ۔ یہ ڈرامہ کہیں اور کرنا ۔ اگر یہ لاٹری میں نے خریدی ہی نہیں اور میرے نام سے  نکل سکتی ہے نا تو پھر یہ پہلے ایڈوانس میں پیمنٹ بھی ہو سکتی ہے۔
 ایڈوانس میں اپنا خرچہ نکال کر پیمنٹ کٹوا کر میری رقم اور میرا انعام مجھے بھیج دیں۔
 اور اگر نہیں بھیج سکتا تو بند کرتا ہے فون یا پھر میں کروں پولیس کو کروں فون۔۔۔
 تیرا انعام پتے کا اعلان اور ۔۔۔
جناب پٹخ کر کے فون بند ہو جاتا ہے ۔
اور اس کے بعد اکثر وہ سم تبدیل ہو جاتی ہے۔
 اگر پولیس کا ڈر پڑ جائے تو  پہلے تو وہ نمبر کوئی اٹھائے گا نہیں۔
یا اس بندے کا نمبر بلاک کر دیا جائے گا ۔
جس کے ساتھ وہ ایک بار ہاتھ کر چکے ہیں۔
 لہذا اب دوسرے آدمی کی باری ہوگی کہ وہ یا تو سم تبدیل کر لے گا یا جناب آپ کے نمبر کو بلاک کر دے گا۔
 ہر روز گھر بیٹھے ایسے حرام خور ڈاکو جو روزانہ گھر بیٹھے دوسروں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔
اور لوگ اپنی لالچ کے تحت ڈاکہ ڈلوا رہے ہیں لٹ رہے ہیں 
اف میرے خدا۔۔۔۔
عادلہ کی حیرت انگیز لمبی آہ پر اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا 
عادلہہہہہ 
کیا تم نے بھی کوئی  لالچ میں نقصان تو نہیں کروا لیا؟؟
عادلہ کا رنگ ایک دم سے فق ہو گیا۔
 ارے نہیں نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں وہ بس ویسے ہی میرے منہ سے نکلا ۔
کیسے کیسے فراڈ ہوتے ہیں دیکھو نا
 اس نے منہ کو ادھر ادھر کرنا شروع کیا ۔۔
وہ نظریں ملانے سے اجتناب کرنے لگی 
شبینہ نے اسے اپنی طرف دیکھنے کو کہا 
میری طرف  دیکھو اور ٹھیک سے جواب دو
 کیا واقعی سچ؟
 عادلہ جیسے پھنس کر رہ گئی
 یار کیا تم بھی نا ایک دم سے نبض پکڑ لیتی ہو انسان کی۔۔
کیا  بتاؤں
 ہاں یار میرے ساتھ یہ چکر ہو چکا ہے
 پھر کتنے لٹے؟
شبینہ نے ماہرانہ انداز میں سوال کیا۔۔
 50 ہزار ۔۔۔
 اف میرے خدا ۔۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری اپنی دوست،  میرے گھر میں بیٹھا ہوا بندہ ، اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے
 تو پانچ ہزار تو تم نے بھی لٹوائے تھے نا
ہاں وہ میں، وہ میں تو,  
شبینہ ہڑبڑا سی گئی
 ہاں لیکن پہلے ہی قدم پر سنبھل بھی تو گئی تھی
 ہاں تو اس وقت میری تم سے بات نہیں ہوئی تھی
 تو کر لیتی نا بات 
کیسے کر لیتی بات
 اتنی بڑی رقم کا سن کر میرے ہاتھ پیر بھول گئے
عادلہ نے شرمندگی سے خجل ہو کر جواب دیا 
 میں نے سوچا چلو آخر لوگوں کی لاٹریاں بھی تو لگتی ہیں نا یار۔۔۔
 لگتی ہیں نا پر کسی پرائز بانڈ پہ لگتی ہیں،
 کسی اور ایسے ٹکٹ پہ لگیں گی جو تم نے خریدا ہوگا ۔
جس میں تم شامل ہو گے لیکن یہاں ٹکٹ خریدے بغیر اگر کوئی تمہیں لاٹریاں دے رہا ہے تو اس پہ مشکوک ہونا تو بنتا ہے نا 
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔
ہو گئی نا غلطی اب ہم کسی کو سمجھائیں گے تو وہ ہماری بات تھوڑی مانے گا ۔
ہر آدمی اپنے دھکے سے سیکھتا ہے یہی تو مسئلہ ہے۔۔
پھر ان سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے۔
 کرنا کیا ہے بھئی لالچ سے دور رہیں۔
 اپنی زندگی میں حلال کمائی پر صبر کرنا اور شکر کرنا سیکھیں ۔
فضول قسم کے شوق پالنے سے پرہیز کریں اور یہ جو عورتیں اپنے آپ کو ہر وقت دکان بنائے رکھنا چاہتی ہیں نا برینڈ برینڈ برینڈ کر کے آدمیوں کو پاگل کیا ہوا ہے انہیں چاہیئے کہ ہوش میں آئیں ۔۔
 جب تک یہ عورتیں ان برینڈوں کے چکر میں رہیں گی اور زیوروں کپڑوں کے لالچ میں اندھی ہوتی رہیں گی۔۔ وہ اس طرح پھر ڈاکوؤں سے  روزانہ خود کو لٹواتی رہیں گی اور خود نہیں لٹیں گی تو اپنے میاؤں کو لٹواتی رہیں گی۔
 وہ بھی اسی لالچ میں یہ جواء کھیلتے رہیں گے۔
 لو جی یہ دیکھو پھر سے گھنٹی بج رہی ہے 
 ہیلو کون ؟
جی میڈم آپ کا لاٹری میں انعام لگا ہے۔ آپ اس نمبر پر بات کیجئے۔۔۔
 لو جی ہو گیا شروع ڈرامہ
 اس نے فون فورا سے بند کر دیا 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 18 جولائی، 2024

* عجب ‏بات ‏/ ‏اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا ‏

  
عجب بات 

جس کے بغیر جینا تصور محال تھا 
اسکے بغیر خوش ہوں عجب بات ہے  لوگو

کتنی  طویل کتنی ہو صبر آزما مگر 
کٹ جائیگی کہ رات تو ہے رات دوستو

کوئی بڑائی زیب نہ دے ہم پہ دوستو
سب سے بڑی تو ایک وہی ذات دوستو

مجھکو میرے عدو سے بہت دور کر 
دیا
رحمت لگائے بیٹھے میرے گھات دوستو 

عمروں کی نیکیوں کا صلہ اس طرح ملا
  دکھلائی دشمنوں کی اصل ذات دوستو 

احسان فراموش کے چھینٹوں س بچائے
بدبخت کی زبان کی برسات دوستو
۔۔۔۔


 اسے بھول کر میں خوش ہوں عجب بات ہو گئی

* کبھی برسوں پہلے / اردو شاعری۔اور وہ چلا گیا


کبھی برسوں پہلے 
کلام:
(ممتازملک۔پیرس)


سلسلہ پھر وہیں یادوں کا جڑا ہے میری
جس جگہ ٹوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے

اب بھی خوشبو ہے میرے ہاتھ میں اس آنچل کی
چھٹ گیا تھا تیرے ہاتھوں کبھی برسوں پہلے


مجھ کو زمزم سا مقدس ہے تیرے ہاتھوں جو
اک گھڑا پھوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے


رہزنی بھی نہ تیری بھول سکے ہیں اب تک
میری ہر یادکوجو لوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے


کتنے نادان ہو کیوں سچ کی ہے امید اس سے
بول کے جھوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے


پرسش غم کے نہ انداز سکھا تو مجھکو
ضبط ممتاز یہاں ٹوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے
●●●





* سن محرم ميرے ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا



سُن محرم ميرے 


سُن محرم ميرے آج زرا
تو ركھ لے ميری لاج زرا

نہ رول مجهے مطلب كے لئے
تو بن جا صحيح سرتاج زرا

سن باتيں جاہل لوگوں کی
نه مجهکو کر محتاج زرا

یه دنیا اڑیل ٹٹو ہے
نه سمجه انہیں الحاج زرا

گر میری نظر میں رہنا ہے
تک چهوڑ کے جهوٹا سماج ذرا

کوئی آنکه نہ مجھ پر اٹھ پائے
کر غیرت کا اندراج زرا

ممتاز نه جس میں ره پائے
کس کام محل یه تاج زرا
●●●

* بدنامی ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا



 بدنامی

نتیجہ محض بدنامی
 محبت کے سفر کا

جہاں حرمت نہیں ترجیح اعلی
وہاں شکوہ ہو کیسے دربدر کا

جڑیں سوکھی ہوئیں  جب 
درختوں سے گلہ کیا بے ثمر کا

تمناؤں کے دامن سے لپٹ کر
 گلہ کرتے نہیں بے بال و پر کا

علاج اب کیجیئے ممتاز اس کا 
تباہی خواب ہے اس بد نظر کا 
             
""""""

* کیا بات ہے/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


کیا بات ہے

چاروں جانب ہی بکھری خرافات ہے 
 کچھ تحمل کرو ایسی کیا بات ہے

آزمائش سے گھبرانا مت سوچ کر
کچھ تمہارے لیئے اسمیں سوغات ہے 

اسکے اثرات ہی یہ بتا پائینگے
اک ادھوری  سی تشنہ ملاقات ہے

تو دعاؤں سے بیزار سی روح اور 
میرے حصے میں آئی مناجات ہے

رات کے بعد ممتاز  دن  آئیگا
سوچ نہ دن کے آگے محض رات ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 16 جولائی، 2024

* جاتے ہیں / اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


جاتے ہیں 

روکتے رہتے ہیں اشکوں کو ہر اک روز مگر آوارہ
جانے کس وقت یہ آنکھوں سے نکل جاتے ہیں 

چاہ جینے کی  عجب شے ہے بڑی شدت سے 
بھول کر ساری جدائیاں یہ سنبھل جاتے ہیں 

ویسے پتھر کی ہی مورت یہ نظر آتے ہیں 
درد کی آنچ جو ملتی ہے پگھل جاتے ہیں 

زندگی یونہی لٹائی نہ گنوائی ممتاز
ہم مزاجوں کے تعاقب میں مچل جاتے ہیں 

۔۔۔۔۔۔۔


تبصرہ ۔ فیاض وردگ ۔ کویت


ممتازملک کے کلام 
نینوں کے در وا جو کر دے
پر کویت سے معروف شاعر فیاض وردگ صاحب کا خوبصورت تبصرہ
                      ۔۔۔۔۔۔

واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ بہت خوب زبردست یہی دل کی گہرائیوں سے دل کی دھڑکنوں کی صدا ھے اسی شاعری کا دیوانہ ھوں یہی شاعری نزول کی شاعری ھے یہی شاعری داخلی کشمکش کی آواز ھے جو نینوں کو گویائی دیتی ھے آبرو کو رومز عشق کا درس دیتی ھے جس کے دھڑکنے سے موسیقی کی لہریں ابھرتی ہیں آبشار نغموں کی وادیوں میں لے جا کر سحرانگیزی  کردیتی ھے ساز اور آواز کی سنگت سے دلوں کو فتح کرتی ھے سماعتوں میں شہد گھولتی ھے نینوں کو مخمور کر دیتی ھے تن بدن میں سلگتی ھوئی آگ کو 
 🔥 شعلوں میں بدل دیتی ھے اور انگڑائیوں کو رقص کا ہنر سکھاتی ھے ۔۔اسی طرز کوجاری رکھیئے ۔
میری شام کو سحر انگیز کرنے کے لئے شکریہ حضور سلامتی
                       ۔۔۔۔۔۔۔

* جنوں ہے ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


جنوں ہے


عجیب وحشت عجب جنوں ہے
 چہار جانب میرے سکوں ہے

حقیقتوں کو جو مات دیدے
یہ بجھتی آنکھوں کا وہ فسوں ہے

ہے کچھ تردد قبولت میں
جو فیصلہ ایسے گومکوں ہے

ملحوظ رکھو مثال انکی
  بلندیوں پر جو سرنگوں ہے

نہیں ہے ممتاز فرق آساں
کہاں پہ رنگ اور کہاں پہ خوں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔



* مطلب پرست ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


 مطلب پرست


یہ مطلب پرستوں کی دنیا ہے پیارے
یہاں ذندگی کون ہنس کے گزارے

یہاں پرخوشی میں تو ہنستے ہیں سارے
مگر ساتھ روتے نہیں ہیں ہمارے

نہ بھوکے کو دیتا ہےکوئی یہاں پر
مگر کھانے والوں کے چھینیں سہارے 

 نہین ساتھ دیتے جوناکامیوں میں  
مگر کامیابی میں جلتے شرارے 

گروں کو اٹھانا نہیں سیکھتے اور 
بلندی سے لا کر گرائیں بیچارے

ہے ذات مقدس سے نسبت کا دعوی
مگرچیلے شیطان کے ہیں یہ سارے

بےمطلب کسی بات میں یہ کیوں آئیں 
جواب انکو مل جائیں گر کچھ کرارے

نہ دین و دھرم میں کبھی مشتعل ہوں 
کہیں اور جا کر جلائیں حرارے

تعجب ہے ممتاز میں نے نہ سیکھا 
جہاں پر ہو مطلب وہیں دل بچھا رے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

* سجاوٹ مولا/ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


سجاوٹ مولا
کلام:
(ممتازملک۔پیرس)


یوں تو دلدار ہے دنیا کی سجاوٹ مولا
لوگ اخلاص میں کرتے ہیں ملاوٹ مولا 

ہم یقیں کس کا کریں کس کو حقیقت مانیں 
ان کا زہریلا تببسم یا لگاوٹ مولا 

خاک میں جس نے ملایا کئی تہذیبوں کو
ہے وہی ظلم جو ہے وجہء گراوٹ مولا

ہو تیرا حکم تو سستا لیں گھڑی بھر کو کہیں 
زندگی بھر کی اتر جائے تھکاوٹ مولا

سارے رشتوں سے عجب باس ہے آتی جیسے
سیم نے کھا لیا ہو ایسی گلاوٹ مولا

ہم نے ممتاز جھکایا نہیں سر حق جیسا
کیوں دعاوں کو یوں پیش آتی رکاوٹ مولا

●●●


* ◇خزاؤں میں / اردو شاعری/ اور وہ چلا گیا



                                                                                                            
      خزاوں میں 
                

رنگ پوشیدہ نہیں صرف بہاروں میں کہیں     
دیکھنے والے نظر ڈال تو خزاؤں میں 
                   
دھوپ میں بهی بڑی لذت ہے جو محسوس کرو
کیوں سکوں نام ہے وابستہ صرف چھاؤں میں
                           
شہر والوں کی ترقی کا بهلے کیا کہنا
وہ بهی خوشحال جو رہتا ہے میرے گاؤں میں
                   
منزلوں تک دے میرا ساته مجهے کیا ہے بری
ایک سستی سی جو چپل ہے میرے پاؤں میں
       
ماں بہت جلد ہمیں چھوڑ گئی تهی لیکن
اس کی سب دوست ہیں شامل میری خالاؤں میں

جیسے جیسے ہیں بڑھائے قدم عہدوں کی طرف
اک عجب سا ہے تکلف تیری اداؤں میں

کیا کوئی ذکر کرے گا یہاں نادانوں کا
ہم نے دیکهے بڑے جھگڑے یہاں داناؤں  میں

بات آسانی سے ہر بار بگاڑے کوئی
ناامیدی سی چھلکتی ہے ان آشائوں میں 

دل کو ممتاز ہے دھڑکا سا خدا خیر کرے
کتنی گھمبیر سی خاموشی ہے فضاؤں میں
●●●




* ڈھم ڈھما ڈھم/ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


ڈھم ڈھما ڈھم


زندگی ڈھول ہے پیٹے جا اسے، ڈھم ڈھما ڈھم
 زندگی ڈھول ہے ڈھول ہے، جی ڈھم ڈھما ڈھم 

ہم جو گرتے نہیں، ہے اس کی  وجہ بھی کوئی
ورنہ کہتے ہیں زمیں، گول ہے جی ڈھم ڈھما ڈھم 

اتنے لوگوں کو جہاں سے ہے ،گزرتے دیکھا 
سب نے بیکار کہا زندگی، انمول ہے جی ڈھم ڈھما ڈھم 

یہ کہیں کم تو کہیں، حد سے  زیادہ ہے جناب
اک عجب سا ہی مول تول ہے ،جی ڈھم ڈھما ڈھم 

نام ممتاز خدا کا ، مگر ایمان نہیں 
کیسا مشکوک سا ، ماحول ہے جی ڈھم ڈھما ڈھم
●●●

* یہ دنیا اب پرانی ہو گئی ہے ۔ اردو شاعری۔ مصرع طرح۔ اور وہ چلا گیا

پرانی ہو گئی ہے

جہاں کوئی نیا آباد کر لیں 
یہ دنیا اب پرانی ہو گئی ہے

میرے دل کا ہے یہ ناسور اب تو
میری آنکھوں کا پانی ہو گئی ہے

عجب پر سوز سی یہ داستاں ہے
اک المیہ  کہانی ہو گئی ہے 

امیدوں کا ہے یہ شہر خموشاں
محض عبرت نشانی ہو گئی ہے

نہیں دم خم وہ انداز زیبائش 
بہت بوڑھی جوانی ہو گئی ہے

نہ دیکھا جائے عالم بے بسی کا 
 نتیجہ کہ سیانی ہو گئی ہے

کوئی ممتاز مجھکو بھی خبر دے
 سہانی زندگانی ہو گئی ہے 
                 ●●●                    

* میں بہت دیر سے۔ اردو شاعری. حمد ۔ اور وہ چلا گیا



مجھے گویائی دے

میں بہت دیر سے خاموش ہوں طوفاں کی طرح
کوئی تو دیکے بہانہ مجھے گویائی دے

سر پٹخنہ ہی اگر میرا مقدر ٹہرا
پھر کوئی آ کے مجھے کیسے مسیحائی دے

کیسے حرفوں میں بکھیروں میں خدائی تیری
تو تو ہر سمت ہر اک شے میں خود دکھائی دے

تیرے دیدار کو آنکھوں کی ضرورت کیا ہے
میں کروں بند جو آنکھیں تو تو سنائی دے

سرد لمحوں میں تیرے ہونے کا احساس بہت
پھر کوئی درد نہ تکلیف ہی سجھائی دے

ایک تو ہی جو میرے عیبوں پہ پردہ ڈالے
عزتیں میں نے جسے دیں مجھے رسوائی دے

 ہے وہاں اپنی پہنچ بھی نہیں ممتاز جہاں
دوست کیسا جو مجھے طعنہء رسائی دے
۔۔۔۔۔۔۔۔

* موسم نہیں ہے۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا



موسم نہیں ہے

سمندر کی طغیانیاں کہہ رہی ہیں 
ابھی پار اترنے کا موسم نہیں ہے

تواتر سے آتے ہوئے بین سن کر 
سمجھ پاؤں دھرنے کا موسم نہیں ہے

ابھی جنتی موت سے لڑ رہے ہیں 
ابھی سج سنورنے کا موسم نہیں ہے

بہت جان لیوا ہے رخصت کا منظر 
زباں سے مکرنے کا موسم نہیں ہے

یہ کس نے کہا ہے کہ خاموش رہ کر 
کوئی وار کرنے کا موسم نہیں ہے

گلوں کو زبردستی  کچلا گیا ہے 
خوشی سے بکھرنے کا موسم نہیں ہے

ابھی کام کرنے کے کتنے ہیں ممتاز
یہ جاں سے گزرنے کا موسم نہیں ہے 

            -----

پیر، 15 جولائی، 2024

گٹر معاشرہ۔ کالم




واہ رے ہمارے گٹر معاشرے 
جہاں اللہ کے نزدیک 
ان کے خیال میں 
بیٹیوں کی خرید و فروخت پسندیدہ 
انکو کتے جیسا ذلیل کرنا پسندیدہ 
انہیں مار مار کر مردانگی دکھانا پسندیدہ 
انکے نام سے بہن چ۔۔۔ اور ماں چ۔۔۔ سے صبح کا آغاز کرنا پسندیدہ 
ان کا قتل پسندیدہ 
لیکن طلاق ۔۔۔
توبہ توبہ توبہ 
اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ کام ہے ۔۔۔
میں لعنت بھیجتی ہوں ایسے معاشرے پر ۔۔۔
آپ میں کتنے باضمیر باقی ہے جو ایسا کر سکیں ؟

مہم چلائیں 
اگر غیرت باقی بچی ہے تو  مہم چلائیں۔ ۔۔
           طلاق منظور 
گھریلو تشدد نامنظور
جبری شادی نامنظور 
بیٹی کی جہالت نامنظور
بیٹی کی بے ہنری نامنظور 
جبری شادی نامنظور 
(چاہے باپ کے گھر میں ہو یا اسکے شوہر کے گھر میں )
گھریلو تشدد نامنظور 

        (ممتازملک۔پیرس)

* نینوں کے در ۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


نینوں کے در

نینوں کے در وا جو کر دو 
قیدی خواب رہا جو کر دو

ایک دفعہ پھر جی اٹھوں گی
پشت سے آ کر چا جو کر دو

مر کے بھی میں مر نہیں سکتی
میرے نام ہوا جو کر دو

آنکھوں میں یہ نور رہے نہ
مجھ سے جدا تم راہ جو کر دو

کنویں میں سب عیش یہ جائیں 
تم ممتاز جدا جو کر دو
       ۔۔۔۔۔۔
          

نیناں دے در۔ پنجابی کلام۔ کوسا کوسا


          نیناں دے در

نیناں دے در وا جے کر دیں
قیدی خاب رہا جے کر دیں 

اک واری فیر جیون لگ پاں
پچھوں آ کے چا جے کر دیں
 
مر کے وی میں مر نہیں سکدی
میرے نام  ہوا جے کر دیں 

اکھیاں دے وچ چانن نہ رہے
 دور توں میتھوں راہ جے کر دیں 

سارے عیش میں کھو وچ پاواں
تو ممتاز جدا جے کر دیں
   ۔۔۔۔۔۔

& فیس ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی


          فیس



کل فیس کی آخری تاریخ ہے ۔ لیکن ابھی تک اس کے پاس فیس کے پیسے جمع نہیں ہو سکے تھے اس کی امتحان کی تیاری تو بہت اچھی تھی لیکن فیس جمع کرائے بغیر امتحان میں نہیں بیٹھ سکتی تھی۔
 پریشانی سے اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا
 اس نے اپنی دوست رینا سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو اس نے اسے صلاح دی کہ ہماری ایک کلاس فیلو منیزہ کافی لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ تو کیوں نہ اس سے ادھار ہی لے لو۔
 اگر مدد نہیں چاہتی تو ادھار  تو لے لو۔
 مانیہ نے کہا
 نہیں وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 کل کو ساری زندگی کے لیئے اس کی سامنے میری انکھیں جھکی رہیں گی۔ میری گردن جھکی رہے گی۔ میں اس کا کوئی احسان نہیں لینا چاہتی اور تم جانتی ہو وہ کتنی بد مزاج بھی ہے کسی بھی وقت منہ پر بات مار دے گی اور میں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہو جاؤں گی۔
 نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔
 تو پھر تم کیا کرو گی ریحا نے اس کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا 
جو اللہ بہتر کرے وہ کالج کے گراؤنڈ سے اپنے کلاس کے کمرے کی طرف جا رہی تھیں۔
ایسے میں ستون کے پیچھے اتفاقا کھڑی منیزہ نے ان دونوں کی باتیں سن لیں۔۔
 اسے افسوس ہوا کہ اس کی طبیعت کی وجہ سے ایک اچھی اور قابل لڑکی اس سے کسی قسم کی مدد لینے سے ہچکا رہی ہے۔
 لیکن وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ ایسے کہ اس کی عزت نفس بھی سلامت رہے۔
 وہ سوچنے لگی وہ یہ کیسے کرے۔ کیونکہ کل فیس کی آخری تاریخ تھی۔ 
 وہ چاہتی تو خود جا کر اس کی فیس جمع کروا سکتی تھی۔ کسی کو نام بتائے بغیر لیکن جیسے تیسے کالج میں یہ بات اٹھتی اور بات پھیل ہی جاتی۔ اس تک پہنچ جاتی اور یوں وہ ساری زندگی اس کے سامنے صرف نگوں رہتی اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔
 وہ جانتی تھی ک مانیہ ایک خوددار اور ذہین طالبہ ہے۔ وہ کسی قیمت پر اس کا یہ سال ضائع نہیں ہونے دے گی۔
 اس نے کچھ سوچا مسکرائی اور چھٹی کا انتظار کرنے لگی۔
 اس نے گھر جاتے ہوئے سب سے پہلے اپنے بینک سے کچھ رقم نکلوائی اور سیدھی مانیہ کے گھر پہنچ گئی۔ مانیہ اسے اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران ہو گئی 
تم یہاں ؟
سب ٹھیک ہے ناں؟
 ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ۔
کیوں مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ میں تمہارے گھر نہیں آ سکتی کیا۔
 ہاں ہاں کیوں نہیں آ سکتی۔ ضرور آ سکتی ہو۔۔
مانیہ نے منیزہ کو گھر کے اندر آنے کا رستہ دیا۔
 کون ہے بیٹا ۔۔
ماں نے آواز دی
 امی وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 اچھا اچھا آؤ نا بیٹا اندر آؤ بیٹھو۔
 میں ا
آپ لوگوں کے لیے کچھ کھانے پینے کو لاتی ہوں۔
 لیکن آپ تو ابھی اپنی کالج کے یونیفارم میں ہو ۔
گھر نہیں گئی کیا ؟
انہوں نے دیوار  پر لگی گھڑی دیکھتے ہوئے پوچھا
 نہیں آنٹی آج ماما نے ایک کام دیا تھا تو وہ کرنا ضروری تھا اس لیئے میں نے سوچا چلیں کالج کے بعد وہ کام کرتے ہوئے گھر کی طرف نکلوں۔
 اچھا اچھا چلو بیٹا  میں کھانے کا ٹائم ہے کھانا لگاتی ہوں۔
 نہیں نہیں آنٹی تکلیف نہیں کیجیئے گا۔
 میں ابھی گھر جا کر کھانا کھاؤں گی۔
 ارے بیٹا جو دال ساگ بنا ہے تم بھی دو لقمے لگا لینا ۔ ہم نے کون سی یہاں مرغ مسلم کی دیگ دم کرنی ہے تمہارے لیئے الگ سے ۔
وہ ہنستے ہوئے کچن کی طرف چلی گئیں ۔
 مانیہ سوچنے لگی منیزہ کے آنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔
 لیکن پھر بھی اس نے خوش دلی سے اسے بیٹھک میں بٹھایا ۔
فرج سے پانی کی بوتل نکالی۔ پانی پلایا۔
 اس کی ماں نے اس وقت تک کھانا میز پر لگا دیا تھا ۔
 دونوں نے مل کر کھانا کھایا آلو گوبھی کی سبزی جس کے ساتھ اس کی ماں نے اسے دیکھتے ہوئے اچار اور چٹنی بھی رکھ دی۔
 گھر کے بنے ہوئے پھلکوں کے ساتھ منیزہ کو واقعی کھانے کا لطف آ گیا۔ اس نے آنٹی کی دل سے تعریف کی۔
 آنٹی آپ نے کھانا بہت اچھا بنایا۔
میں نے بہت دنوں بعد اتنا مزے کا کھانا کھایا ہے۔
ارے بیٹا مذاق کر رہی ہو کیا ۔۔
نہیں نہیں آنٹی کھانا واقعی بہت مزے کا تھا ۔
اس نے منیزہ کو کہا اچھا میں چلتی ہوں لیکن تم سے ایک کام تھا اگر تم کر سکو تو۔۔۔
 مانیہ نے کہا ہاں بتاؤ میں کیا کر سکتی ہوں۔
 اس نے جیب سے  ایک لفافہ نکالا  اور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
یہ کیا ہے؟
مانیہ نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا
یار تمہیں پتہ ہے میری ماما نے مجھے کچھ لوگوں کے لیئے ضرورت کے پیسے دینے کو کہا تھا۔ اب میں کہاں ڈھونڈتی پھروں گی لوگوں کو کس کس کو دوں۔ ایک دو کو تو میں جانتی تھی کچھ رقم میں نے وہاں پہ ان کو مدد میں دے دی۔
 لیکن یہاں پہ بھی تو طالب علم رہتے ہیں۔ جن کو تم جانتی ہو تو ان کو تم دے دینا۔
 اب میں اپنے کالج کے سوا زیادہ لوگوں کو نہیں جانتی۔
مجھے پتہ چلا کہ تمہاری گلی میں بھی کچھ طالب علم میں رہتے ہیں جن کی فیسز آج کل میں ہی جانے والی ہیں تو پلیز تم سے ایک فیور چاہیئے تھی اگر تمہیں برا نہ لگے تو میری تھوڑی سی مدد کر دو کیسی مدد مانیہ نے حیرت سے پوچھا اصل میں میں کہاں ہے ایک کو ڈھونڈو گی تو میں ایسا کرو یہ لفافہ اپنے پاس رکھو اور یہاں جن کو تم جانتی ہو نا تم ان کو دے دینا بس پلیز باقی مجھے کیا ان سے ملنا ہے اور نہ جاننا ہے۔ میں کیا کروں گی ان سے مل کر۔ تم بس ان کو دے دینا اور ان کی فیسیں جمع ہو جائیں گی تو میری ماما کی جو آرڈر ہے یہ پورا ہو جائے گا ۔
میں قسم تو اٹھا سکوں گی نا سٹوڈنٹس تک پیسے چلے گئے ہیں۔
 کیا تم میری مدد کرو گی
 مانیا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی یہ سچ ہے یا کوئی ڈرامہ یا خدا کی مدد یا اس کا کوئی پردہ رکھا جا رہا ہے۔۔
 اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔
 لیکن منیزہ نے اسے زیادہ سوچنے کا وقت نہیں دیا اس نے لفافہ اس کے ہاتھ میں رکھا اور جلدی سے دروازے سے باہر کی طرف ہو لی۔
  بھئی او ہو مجھے بہت دیر ہو گئی اچھا میں چلتی ہوں اوکے بائے کل پھر ملیں گے انشاءاللہ
 اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ 
یہ کہتے ہوئے منیرہ تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی
 مانیہ ہکی بکی کھڑی تھی۔
 کل اسے ہر صورت فیس کے 25 ہزار روپے جمع کرانے تھے اور ایک لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا جو کسی طالب علم کی فیس جمع کرانے کے لیے دیئے گئے تھے وہ حیران پریشان کھڑی تھی ۔
 اس کی ماں نے آواز دی 
کہاں ہو مانیہ کیا منیزہ چلی گئی 
 جی ماما اسے جلدی تھی وہ چلی گئی۔
 تو اندر آ جاؤ۔ دروازے میں کیوں کھڑی ہو۔
تم نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا جی امی بس آپ کو پتہ ہے۔ پریشانی تھی۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا کھانا کھانے کو ۔
کیا پریشانی ہے بیٹا
اسکی ماں نے فکر مندی سے پوچھا

 آپ کو پتہ تو ہے کل فیس کی آخری تاریخ ہے اور میرے پاس فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں ہیں اس کی ماں شرمندہ سے ہو گئی  ۔
 اس نے کہا بیٹا پھر اب کیا کریں گے کہیں سے ادھار بھی نہیں لیا جا سکتا اج کل تو کوئی کسی کو 25 پیسے نہیں دیتا ۔
25 ہزار روپے کا انتظام کہاں سے کروں۔
 اس بار تو بلوں نے ہی زندگی عذاب کی ہوئی ہے۔ اتنے بھاری بل تھے کہ اب تو لگتا ہے تن کے کپڑے بیچ کر یہ بل دینے پڑیں گے یا میٹر کٹوانے پڑیں گے۔
 ماں بھی سچ کہہ رہی تھی وہ کیا کرتی بیچاری۔ ایک محدود آمدنی کے اندر تین بچوں کے ساتھ گھر کا گزارا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
ابا کی کمائی میں کبھی سر ننگا اور کبھی پاؤں ننگے والا حساب تھا ۔
وہ ان کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ لیکن اپنی ڈگری کو مکمل کیئے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ۔
منیزہ کیسے آئی تھی ۔سب ٹھیک تھا نا ۔جی امی ایک کام تھا ۔
کہہ رہی تھی یہاں پہ گلی میں کچھ سٹوڈنٹس کے لیئے ان کی ماں نے کچھ رقم نکالی ہوئی تھی کہ بھئی کس کی مدد کرنا چاہتی ہیں اب وہ سوچ رہی تھی کہ میں کہاں طالب علم کوئی ڈھونڈوں گی تو میں اپنی گلی میں کسی کو دیکھوں اور کسی کے دے دوں۔
 کیا کیا کہہ رہی ہو تم ؟
کیا مطلب 
بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں،  وہ طالبات اور طلبہ کی مدد کے لیئے تمہیں رقم دے کے گئی  
تم بھی تو کل فیس ہی جمع کرانا چاہتی ہو ۔ دیکھو تو اس میں کتنے پیسے ہیں شاید اللہ نے تمہارے لیئے کوئی مدد ہی بھیج دی ہو ۔
 اس نے لفافہ کھولا اور اس میں رقم دیکھی تو 40 ہزار روپے رکھے تھے ۔
وہ بہت حیران ہوئی اسے 25 ہزار کی ضرورت تھی لیکن اس کے ہاتھ میں 40 ہزار کا لفافہ تھا ۔
ماں بیٹی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگی۔۔
 اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا کل کو تم اپنی فیس جمع کرا دینا ۔
اسے اللہ کی مدد ہی سمجھو لیکن امی یہ تو چوری نہیں ہو جائے گی، امانت میں خیانت نہیں ہو جائے گی  کیوں بیٹا اس نے تمہیں خود کہا کہ سٹوڈنٹ کی فیسیں جمع ہو رہی ہیں ان میں سے کسی کی فیس جمع کرا دینا۔
 تو تمہارا پردہ اللہ نے رکھا ہے تمہاری مدد بھیجی ہے ۔کل کو زندگی میں تم اسی طرح کسی کی اور کی مدد کر دینا ۔جب تمہارے پاس رقم ہوگی تو۔  اس نے سوچا 
امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں  
جب بھی میں خود کمانے لگی تو پہلی بچت میں سے اسی طرح کسی اور کی پردے کے ساتھ مدد کر دونگی۔
 ہاں امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔
لیکن کیا یہ ٹھیک ہوگا۔۔
 کیوں بیٹا اس میں کیا غلط ہے تم اسے بتانا نہیں چاہتی یہ اور بات ہے بتانا چاہتی ہے تو بتا دو۔ وہ اچھی لڑکی ہے۔ اس کی ماں بھی  اچھی عورت ہے جو کسی کے لیئے اس طرح سے مدد کرتی ہے۔
اس نے لفافے کو دیکھا اور آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔
 شکریہ پروردگار واقعی تو کیسے کیسے بہانے اور کیسے کیسے حیلے بناتا ہے میں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ جب میں کمانے کے لائق ہوں گی تو یہی رقم تجھے ڈبل کر کے کسی اور کی مدد کی صورت ضرور واپس کروں گی  ان شاءاللہ 
شکریہ تیرا اس پردے کے لیے شکریہ
                   ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 14 جولائی، 2024

* نہیں ‏ہو ‏سکتا۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


نہیں ہو سکتا


اس سے بڑھکر  کبھی اظہار نہیں ہو سکتا
صرف دو لوگوں کا سنسار نہیں ہو سکتا 

 ایک حد سے نہ تجاوز کرو سوچو اس پر
حد سے زیادہ کوئی  حقدار نہیں ہو سکتا 

آدمی پالتو ہے پھر بھی مگر آدمی ہے
سگ سے زیادہ یہ وفادار نہیں ہو سکتا 

خاموشی اپنی جگہ ہم سے وہ ناراض سہی
پر یہ سچ حاصل تکرار نہیں ہو سکتا 

میں نے اک بار لگا دی جو مہر ماتھے پر
اب یہ دشمن میرا دلدار نہیں ہو سکتا

جسکے محبوب بھی شامل ہوئے بدخواہوں میں 
ماسوا رب کے وہ لاچار نہیں ہو سکتا 

اتنے صدمات اگر جھیل کے بھی زندہ ہے
اب میرا دل کبھی بیمار نہیں ہو سکتا 


وہ جو پہلے بھی گیا تھا مجھے رسوا کر کے
وہ میرے پیار کا حقدار نہیں ہو سکتا 

اک زرا ٹھیس پہ ممتاز چٹخ جائے اگر
آبگینہ ہے وہ پندار نہیں ہو سکتا
   ۔۔۔۔۔


* نہیں ہے صاحب۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا

نہیں ہے صاحب 

ساتھ نہ چھوڑنے کا ہم سے کریگی وعدہ 
زندگی اتنی وفادار نہیں ہے صاحب

تنگ دل ہو تو مگر مانتے ہیں ہم یہ بھی 
آپ جیسا کوئی زردار نہیں ہے صاحب 

دے چکے اتنا لہو جتنے نہ کھائے دانے
اب میری نسل قرضدار نہیں ہے صاحب 

زندگی کو جو یوں شطرنج بنا رکھا ہے
کھیل یہ اتنا مزیدار نہیں ہے صاحب 

خوف سے ہاتھ سلامی کو اٹھا ہے ورنہ 
آپ کا دل سے طلبگار نہیں ہے صاحب 

گھر کا دروازہ بھی جو بند نہیں کر سکتا
سچ ہے مزدور کا گھر بار نہیں ہے صاحب

آنسوؤں کا ہی نمک ہانڈی میں ممتاز اتنا
اب حلالی کو بھی درکار نہیں ہے صاحب
         ●●● 

* ملا ہے درد مجھے۔ اردو شاعری اور وہ چلا گیا




ملا ہے درد مجھے



ملا ہے درد مجھے جب بھی  تُو قریب ہوا
ہر اک کو کب یہ تیرا پیار یوں نصیب ہوا

نوازشیں جو تیری دیکھیں مسکرانے لگے
کہ جل کے سایہ بھی میرا، میرا رقیب ہوا

دھنک کے رنگ بکھیریں ہیں میرے چاروں طرف
یہ اختیار دیا چن لے جو حبیب ہوا

ہر ایک زخم پہ رکھا ہے پھول چاہت سے
مہک اٹھی ہے میری روح کیا طبیب ہوا

کُھلا تھا چہرہ جو ممتاز ہم نہ جان سکے
عجب ہے رسم شناسائی جو  نقیب ہوا
۔۔۔۔۔۔۔رز


ہفتہ، 13 جولائی، 2024

* پیار سے مارا / اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا




زندگی تو نے بڑے پیار سے مارا مجھکو
 اب نہ دے آ کے کوئی جھوٹا سہارا مجھکو 
(ممتازملک.پیرس )




زندگی تو نے بڑے پیار سے مارا مجھ کو 
اب نہ دے آ کے کوئی جھوٹا سہارا مجھ کو

مشکلوں میں مجھے ہر روز ہے، گھرتے دیکھا 
قہقہے تو نے لگائے، ہے نکارہ مجھکو 

پہلے دیکر مجھے طاقت  کا نشہ، خوار کیا
رکھدیا کر کے جہاں بھر کا، بیچارہ مجھکو 

 میں جو عادی ہوا تیرا تو پلٹ کر یکدم
ریت ہی ریت دکھائی دی کنارا مجھکو

ساری دنیا نے بتایا کہ تباہ حال ہوں میں
تیرا دعویٰ ہے کہ تو نے تو سنوارا مجھ کو

میرے اوسان خطا ہونے سے پہلے پہلے
بڑھ کے ممتاز نے سولی سے اتارا مجھ کو

------

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/