ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 27 جولائی، 2024

& بیرنگ ...... افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



      بیرنگ


راضیہ کو اس سرکاری ملازمت پر آئے ہوئے آج پورے دس سال ہو چکے تھی.  اچھی تنخواہ, پک اینڈ ڈراپ کی سہولت اور اچھے دفتری ماحول نے انہیں کبھی کوئی فکر مندی نہیں دی. 
ویسے تو وہ واجبی سی شکل صورت کی لڑکی تھی لیکن ان کی خوش کلامی اور حس مزاح سے وہ بہت جلد سبھی کی پسندیدہ  کولیگ بن گئیں. 
دس سال پہلے جب اپنے والد کی وفات کے بعد انہیں بڑے بھائی کے اکیلے گھر کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں دقت محسوس ہوئی تو اس نے بھی ملازمت کرنے کا ارادہ کر لیا  .
یوں تو اس وقت وہ تئیس برس کی ہو چکی تھی.  اس کی کئی دوست بیاہی جا چکی تھیں ۔ اور اس سے اس کی شادی کے بارے میں سوال کیا کرتی تھیں ۔
ہر لڑکی کی طرح وہ بھی اب اپنا گھر بسانے کی خواہش رکھتی تھی.
 لیکن گھر کے مالی حالات اس قابل نہ تھے کہ اس کی شادی کا بوجھ اٹھا سکتے. 
 بھائی کی ملازمت کو ابھی ایک ہی سال ہوا تھا.  اس کی تنخواہ سے بمشکل ان کے تین افراد کا کنبہ ہی پل سکتا تھا.
اس نے اپنی ماں کو ملازمت کرنے کی اجازت دینے پر راضی کر ہی لیا ۔ 
  ویسے بھی ایک بہت اچھے سرکاری ادارے میں انٹرویو دیکر آئی تو بہت پر امید تھیں لیکن دن پر دن گزرتا گیا . انٹرویو پر انٹرویو ہوتے رہے لیکن ایف اے پاس راضیہ کو کہیں سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہ مل سکا.
  کہیں سے جواب آتا بھی تو تنخواہ محض اتنی تھی کہ وہاں کے آنے جانے کا بس کا کرایہ ہی  بمشکل نکل پاتا.  سو دو تین گھنٹے کے سفر کا کوئی مقصد نہیں تھا. 
 ان دفاتر اور اسکولوں کے چکر کاٹ کاٹ کر  حقیقتا اسکے جوتے گھس چکے تھے ۔
جہاں خاتون افسر سے واسطہ پڑتا وہاں سے تنخواہ کا کوئی معقول آسرا نہ تھا اور جہاں مرد افسر سے واسطہ پڑتا وہاں عزت ملنے کی کوئی امید نہ رہتی ۔ 
بمشکل اسے بھائی کے کسی جاننے والے کی سفارش پر کنڈر گارڈن میں پریپ کی کلاس کے بچوں کو اے بی سی سکھانے کی ملازمت مل ہی گئی۔
 ۔ تنخواہ دوسرے پرائیویٹ سکولز کی طرح برائے نام تھی لیکن گھر کے نزدیک ہونے کے سبب پیدل آنا جانا تھا تو بس کے کرائےکا کوئی خرچ نہیں تھا ۔ اس لیئے وہ خوش تھی ۔ ۔
جاب کیساتھ پڑہائی بھی جاری رکھی اور اپنا بے اے اور بی ایڈ  مکمل کر ہی لیا ۔
 تو اسے اس سرکاری سکول میں بہت اچھی تنخواہ پر ملازمت بھی مل گئی ۔
اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب اس کی عمر کی بہار پر خزاں چھانے لگی ۔ اس کے بھائی کی شادی ہو چکی تھی اسکے تین بچے اسے پھوپھو پھوپھو پکارتے اب پرائمری کلاسز پار کر رہے تھے ۔
آئینہ آج کیوں بول پڑا 
آج اس کی ایک دوست کی سب سے چھوٹی بہن کی بارات تھی ۔ اس کی سکول کے زمانے کی بچپن کی سہیلی انجم  نے گاڑی کا ہارن دیکر اسے باہر بلایا 
اسلام علیکم آنٹی 
اس نے گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے پیاری سی گنگناتی ہوئی آواز سنی
مڑکر پچھلی سیٹ پر دیکھا تو حسین سی ٹین ایجر گڑیا سے لڑکی کو مسکراتے پایا 
وہ ہڑبڑا کے اسے ایک ٹک دیکھتی گئی۔
 تو انجم نے اسے ہنس کر خواب سے حقیقت کی زمین پر اتارا 
ارے بھئی کیا دیکھ رہی ہو
نظر لگاو گی میری بیٹی کو کیا 
وہ ہنستے ہوئے بولی
ہیں نظر مطلب۔۔
وہ جملہ ترتیب نہ دے پائی تو انجم نے ہی تعارف کرایا 
ارے بھئی یہ ہے میری شیطان بیٹی حورم ۔ جو آج زبردستی میرے ساتھ شادی پر جا رہی ہیں ۔۔
دونوں ماں بیٹی اس جملے پر ایکساتھ ہنس دیں 
راضیہ حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی 
ارے کتنی بڑی ہو گئی ہے ماشاءاللہ میں نے اسے شاید اس وقت دیکھا تھا جب اس کی پہلی سالگرہ تھی 
جی آنٹی لیکن میری ماما تو آپ کی اتنی باتیں کرتی ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ ہمارے ہی گھر میں رہتی ہیں ۔ 
حورم نے شرارت سے اپنی ماں کو چھیڑا ۔ 
ابھی کل کی بات ہے کہ ادھر ہمارے بارہویں کے امتحانات ختم ہوئے ادھر ابا نے میرے ماموں زاد سے میرا رشتہ پکا کر دیا اور نتیجہ آنے سے پہلے میری رخصتی کر دی گئی۔ سال بھر میں یہ محترمہ تشریف لے آئیں ۔ اورمیں اس میں مصروف ہو گئی اور تم نوکری کی تلاش میں چار سال خوار ہوتی رہی۔ 
آج محترمہ کی  اٹھارہویں سالگرہ بھی ہے۔ 
انجم بولتی رہی اور اس کے وہ سارے خواب  جو اس نے حورم کی عمر میں سنجوئے تھے ۔ پتہ پتہ اس کی آنکھوں کے سامنے وقت کی ہواوں پر اڑتے بکھرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ 
بارات سے واپسی پر انجم نے اسے اسکے گھر کے سامنے اتار کر گاڑی آگے بڑہائی۔
 لیکن آئینے کے سامنے کھڑی راضیہ   جسے آج خود کو غور سے دیکھنے کا خیال آیا ،اسے ان دس سالوں میں دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر میں اپنے حصے کا کوئی  رنگ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
 ماسوائے اس کے روکھے بالوں میں پھیلتے چاندی جیسے سفید رنگ کے   یا بے رونق سخت ہوتے ہوئے چہرے کے اڑتے ہوئے رنگ کے سوا ۔۔۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/