ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 15 جولائی، 2024

& فیس ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی


          فیس



کل فیس کی آخری تاریخ ہے ۔ لیکن ابھی تک اس کے پاس فیس کے پیسے جمع نہیں ہو سکے تھے اس کی امتحان کی تیاری تو بہت اچھی تھی لیکن فیس جمع کرائے بغیر امتحان میں نہیں بیٹھ سکتی تھی۔
 پریشانی سے اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا
 اس نے اپنی دوست رینا سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو اس نے اسے صلاح دی کہ ہماری ایک کلاس فیلو منیزہ کافی لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ تو کیوں نہ اس سے ادھار ہی لے لو۔
 اگر مدد نہیں چاہتی تو ادھار  تو لے لو۔
 مانیہ نے کہا
 نہیں وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 کل کو ساری زندگی کے لیئے اس کی سامنے میری انکھیں جھکی رہیں گی۔ میری گردن جھکی رہے گی۔ میں اس کا کوئی احسان نہیں لینا چاہتی اور تم جانتی ہو وہ کتنی بد مزاج بھی ہے کسی بھی وقت منہ پر بات مار دے گی اور میں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہو جاؤں گی۔
 نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔
 تو پھر تم کیا کرو گی ریحا نے اس کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا 
جو اللہ بہتر کرے وہ کالج کے گراؤنڈ سے اپنے کلاس کے کمرے کی طرف جا رہی تھیں۔
ایسے میں ستون کے پیچھے اتفاقا کھڑی منیزہ نے ان دونوں کی باتیں سن لیں۔۔
 اسے افسوس ہوا کہ اس کی طبیعت کی وجہ سے ایک اچھی اور قابل لڑکی اس سے کسی قسم کی مدد لینے سے ہچکا رہی ہے۔
 لیکن وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ ایسے کہ اس کی عزت نفس بھی سلامت رہے۔
 وہ سوچنے لگی وہ یہ کیسے کرے۔ کیونکہ کل فیس کی آخری تاریخ تھی۔ 
 وہ چاہتی تو خود جا کر اس کی فیس جمع کروا سکتی تھی۔ کسی کو نام بتائے بغیر لیکن جیسے تیسے کالج میں یہ بات اٹھتی اور بات پھیل ہی جاتی۔ اس تک پہنچ جاتی اور یوں وہ ساری زندگی اس کے سامنے صرف نگوں رہتی اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔
 وہ جانتی تھی ک مانیہ ایک خوددار اور ذہین طالبہ ہے۔ وہ کسی قیمت پر اس کا یہ سال ضائع نہیں ہونے دے گی۔
 اس نے کچھ سوچا مسکرائی اور چھٹی کا انتظار کرنے لگی۔
 اس نے گھر جاتے ہوئے سب سے پہلے اپنے بینک سے کچھ رقم نکلوائی اور سیدھی مانیہ کے گھر پہنچ گئی۔ مانیہ اسے اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران ہو گئی 
تم یہاں ؟
سب ٹھیک ہے ناں؟
 ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ۔
کیوں مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ میں تمہارے گھر نہیں آ سکتی کیا۔
 ہاں ہاں کیوں نہیں آ سکتی۔ ضرور آ سکتی ہو۔۔
مانیہ نے منیزہ کو گھر کے اندر آنے کا رستہ دیا۔
 کون ہے بیٹا ۔۔
ماں نے آواز دی
 امی وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 اچھا اچھا آؤ نا بیٹا اندر آؤ بیٹھو۔
 میں ا
آپ لوگوں کے لیے کچھ کھانے پینے کو لاتی ہوں۔
 لیکن آپ تو ابھی اپنی کالج کے یونیفارم میں ہو ۔
گھر نہیں گئی کیا ؟
انہوں نے دیوار  پر لگی گھڑی دیکھتے ہوئے پوچھا
 نہیں آنٹی آج ماما نے ایک کام دیا تھا تو وہ کرنا ضروری تھا اس لیئے میں نے سوچا چلیں کالج کے بعد وہ کام کرتے ہوئے گھر کی طرف نکلوں۔
 اچھا اچھا چلو بیٹا  میں کھانے کا ٹائم ہے کھانا لگاتی ہوں۔
 نہیں نہیں آنٹی تکلیف نہیں کیجیئے گا۔
 میں ابھی گھر جا کر کھانا کھاؤں گی۔
 ارے بیٹا جو دال ساگ بنا ہے تم بھی دو لقمے لگا لینا ۔ ہم نے کون سی یہاں مرغ مسلم کی دیگ دم کرنی ہے تمہارے لیئے الگ سے ۔
وہ ہنستے ہوئے کچن کی طرف چلی گئیں ۔
 مانیہ سوچنے لگی منیزہ کے آنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔
 لیکن پھر بھی اس نے خوش دلی سے اسے بیٹھک میں بٹھایا ۔
فرج سے پانی کی بوتل نکالی۔ پانی پلایا۔
 اس کی ماں نے اس وقت تک کھانا میز پر لگا دیا تھا ۔
 دونوں نے مل کر کھانا کھایا آلو گوبھی کی سبزی جس کے ساتھ اس کی ماں نے اسے دیکھتے ہوئے اچار اور چٹنی بھی رکھ دی۔
 گھر کے بنے ہوئے پھلکوں کے ساتھ منیزہ کو واقعی کھانے کا لطف آ گیا۔ اس نے آنٹی کی دل سے تعریف کی۔
 آنٹی آپ نے کھانا بہت اچھا بنایا۔
میں نے بہت دنوں بعد اتنا مزے کا کھانا کھایا ہے۔
ارے بیٹا مذاق کر رہی ہو کیا ۔۔
نہیں نہیں آنٹی کھانا واقعی بہت مزے کا تھا ۔
اس نے منیزہ کو کہا اچھا میں چلتی ہوں لیکن تم سے ایک کام تھا اگر تم کر سکو تو۔۔۔
 مانیہ نے کہا ہاں بتاؤ میں کیا کر سکتی ہوں۔
 اس نے جیب سے  ایک لفافہ نکالا  اور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
یہ کیا ہے؟
مانیہ نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا
یار تمہیں پتہ ہے میری ماما نے مجھے کچھ لوگوں کے لیئے ضرورت کے پیسے دینے کو کہا تھا۔ اب میں کہاں ڈھونڈتی پھروں گی لوگوں کو کس کس کو دوں۔ ایک دو کو تو میں جانتی تھی کچھ رقم میں نے وہاں پہ ان کو مدد میں دے دی۔
 لیکن یہاں پہ بھی تو طالب علم رہتے ہیں۔ جن کو تم جانتی ہو تو ان کو تم دے دینا۔
 اب میں اپنے کالج کے سوا زیادہ لوگوں کو نہیں جانتی۔
مجھے پتہ چلا کہ تمہاری گلی میں بھی کچھ طالب علم میں رہتے ہیں جن کی فیسز آج کل میں ہی جانے والی ہیں تو پلیز تم سے ایک فیور چاہیئے تھی اگر تمہیں برا نہ لگے تو میری تھوڑی سی مدد کر دو کیسی مدد مانیہ نے حیرت سے پوچھا اصل میں میں کہاں ہے ایک کو ڈھونڈو گی تو میں ایسا کرو یہ لفافہ اپنے پاس رکھو اور یہاں جن کو تم جانتی ہو نا تم ان کو دے دینا بس پلیز باقی مجھے کیا ان سے ملنا ہے اور نہ جاننا ہے۔ میں کیا کروں گی ان سے مل کر۔ تم بس ان کو دے دینا اور ان کی فیسیں جمع ہو جائیں گی تو میری ماما کی جو آرڈر ہے یہ پورا ہو جائے گا ۔
میں قسم تو اٹھا سکوں گی نا سٹوڈنٹس تک پیسے چلے گئے ہیں۔
 کیا تم میری مدد کرو گی
 مانیا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی یہ سچ ہے یا کوئی ڈرامہ یا خدا کی مدد یا اس کا کوئی پردہ رکھا جا رہا ہے۔۔
 اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔
 لیکن منیزہ نے اسے زیادہ سوچنے کا وقت نہیں دیا اس نے لفافہ اس کے ہاتھ میں رکھا اور جلدی سے دروازے سے باہر کی طرف ہو لی۔
  بھئی او ہو مجھے بہت دیر ہو گئی اچھا میں چلتی ہوں اوکے بائے کل پھر ملیں گے انشاءاللہ
 اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ 
یہ کہتے ہوئے منیرہ تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی
 مانیہ ہکی بکی کھڑی تھی۔
 کل اسے ہر صورت فیس کے 25 ہزار روپے جمع کرانے تھے اور ایک لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا جو کسی طالب علم کی فیس جمع کرانے کے لیے دیئے گئے تھے وہ حیران پریشان کھڑی تھی ۔
 اس کی ماں نے آواز دی 
کہاں ہو مانیہ کیا منیزہ چلی گئی 
 جی ماما اسے جلدی تھی وہ چلی گئی۔
 تو اندر آ جاؤ۔ دروازے میں کیوں کھڑی ہو۔
تم نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا جی امی بس آپ کو پتہ ہے۔ پریشانی تھی۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا کھانا کھانے کو ۔
کیا پریشانی ہے بیٹا
اسکی ماں نے فکر مندی سے پوچھا

 آپ کو پتہ تو ہے کل فیس کی آخری تاریخ ہے اور میرے پاس فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں ہیں اس کی ماں شرمندہ سے ہو گئی  ۔
 اس نے کہا بیٹا پھر اب کیا کریں گے کہیں سے ادھار بھی نہیں لیا جا سکتا اج کل تو کوئی کسی کو 25 پیسے نہیں دیتا ۔
25 ہزار روپے کا انتظام کہاں سے کروں۔
 اس بار تو بلوں نے ہی زندگی عذاب کی ہوئی ہے۔ اتنے بھاری بل تھے کہ اب تو لگتا ہے تن کے کپڑے بیچ کر یہ بل دینے پڑیں گے یا میٹر کٹوانے پڑیں گے۔
 ماں بھی سچ کہہ رہی تھی وہ کیا کرتی بیچاری۔ ایک محدود آمدنی کے اندر تین بچوں کے ساتھ گھر کا گزارا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
ابا کی کمائی میں کبھی سر ننگا اور کبھی پاؤں ننگے والا حساب تھا ۔
وہ ان کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ لیکن اپنی ڈگری کو مکمل کیئے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ۔
منیزہ کیسے آئی تھی ۔سب ٹھیک تھا نا ۔جی امی ایک کام تھا ۔
کہہ رہی تھی یہاں پہ گلی میں کچھ سٹوڈنٹس کے لیئے ان کی ماں نے کچھ رقم نکالی ہوئی تھی کہ بھئی کس کی مدد کرنا چاہتی ہیں اب وہ سوچ رہی تھی کہ میں کہاں طالب علم کوئی ڈھونڈوں گی تو میں اپنی گلی میں کسی کو دیکھوں اور کسی کے دے دوں۔
 کیا کیا کہہ رہی ہو تم ؟
کیا مطلب 
بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں،  وہ طالبات اور طلبہ کی مدد کے لیئے تمہیں رقم دے کے گئی  
تم بھی تو کل فیس ہی جمع کرانا چاہتی ہو ۔ دیکھو تو اس میں کتنے پیسے ہیں شاید اللہ نے تمہارے لیئے کوئی مدد ہی بھیج دی ہو ۔
 اس نے لفافہ کھولا اور اس میں رقم دیکھی تو 40 ہزار روپے رکھے تھے ۔
وہ بہت حیران ہوئی اسے 25 ہزار کی ضرورت تھی لیکن اس کے ہاتھ میں 40 ہزار کا لفافہ تھا ۔
ماں بیٹی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگی۔۔
 اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا کل کو تم اپنی فیس جمع کرا دینا ۔
اسے اللہ کی مدد ہی سمجھو لیکن امی یہ تو چوری نہیں ہو جائے گی، امانت میں خیانت نہیں ہو جائے گی  کیوں بیٹا اس نے تمہیں خود کہا کہ سٹوڈنٹ کی فیسیں جمع ہو رہی ہیں ان میں سے کسی کی فیس جمع کرا دینا۔
 تو تمہارا پردہ اللہ نے رکھا ہے تمہاری مدد بھیجی ہے ۔کل کو زندگی میں تم اسی طرح کسی کی اور کی مدد کر دینا ۔جب تمہارے پاس رقم ہوگی تو۔  اس نے سوچا 
امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں  
جب بھی میں خود کمانے لگی تو پہلی بچت میں سے اسی طرح کسی اور کی پردے کے ساتھ مدد کر دونگی۔
 ہاں امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔
لیکن کیا یہ ٹھیک ہوگا۔۔
 کیوں بیٹا اس میں کیا غلط ہے تم اسے بتانا نہیں چاہتی یہ اور بات ہے بتانا چاہتی ہے تو بتا دو۔ وہ اچھی لڑکی ہے۔ اس کی ماں بھی  اچھی عورت ہے جو کسی کے لیئے اس طرح سے مدد کرتی ہے۔
اس نے لفافے کو دیکھا اور آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔
 شکریہ پروردگار واقعی تو کیسے کیسے بہانے اور کیسے کیسے حیلے بناتا ہے میں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ جب میں کمانے کے لائق ہوں گی تو یہی رقم تجھے ڈبل کر کے کسی اور کی مدد کی صورت ضرور واپس کروں گی  ان شاءاللہ 
شکریہ تیرا اس پردے کے لیے شکریہ
                   ۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/