ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 11 جولائی، 2024

& اعتبار کی موت۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



اعتبار کی موت       



کاؤنٹر پہ دوائیوں کی پیمنٹ کرتے ہوئے ایک لڑکا انتہائی بےچارگی کے ساتھ اپنی جیبیں ٹٹولتا ہوا سیلز مین کو بتا رہا تھا کہ بھائی میرے پاس اور پیسے نہیں ہے میں آپ کو پھر دے دوں گا ۔
دیکھیں یہ دوائیں بہت ضروری چاہیئیں ۔ میری ماں بہت بیمار ہے۔
 دوسرے سیلز مین کی طرف کھڑی بینا اس کی لاچارگی دیکھ کر کانپ سی گئی۔
 محض دوائی کے لیئے کوئی آدمی کس طرح سے منت سماجت کر رہا تھا۔
 اس سے رہا نہیں گیا اس نے ہاتھ کے اشارے سے سیلز مین سے کہا۔
 اس کی پیمنٹ کتنی ہے؟
سیلزمین نے بتایا 
پانچ ہزار کی دوائیں ہیں۔
 اوکے ٹھیک ہے یہ پیمنٹ میں کر دوں گی ۔ آپ اسے دوائیں دے دیجئے۔
اس نے لڑکے کو اشارے سے کہا  کہ یہ دوائیں لے کر آپ جائیں۔
 وہ لڑکا شکرگزاری اور خوشی میں اس کی طرف دیکھ کر ٹوٹے پھوٹے جذباتی جملوں  میں بولا
میم آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔  آپ مجھے اپنا ایڈریس یا  نمبر کچھ بھی دے دیجئے یا جہاں بتائیں میں آ کر وہاں، جب بھی ہوں گے ، میں آپ کو یہ پیسے ادا کر دوں گا۔ آپ نے میری جو مدد کی ہے۔ میں کبھی اس کا احسان نہیں اتار سکتا  اس نے اسے خاموشی کا اشارہ کیا اور جانے کا کہا گاڑی میں اس کی دوست انتظار کر رہی تھی اس لئے اس نے اپنی دوائیاں اٹھائیں اور اپنی گاڑی کی طرف چل دی
 وہ گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اسے یاد آیا وہ اپنا فون کاؤنٹر پر بھول آئی ہے تو وہ دوبارہ سے پلٹی۔
 فارمیسی میں جاتے ہی اس کی نظر اسی لڑکے پر پڑی جو ہنس کر اس کاؤنٹر کے دوسرے سیلز میں  سے بات کر رہا تھا وہ تھوڑی متجسس سی ہو گئی کہ وہ دوبارہ یہاں کیوں آیا یا گیا ہی نہیں ؟
ابھی وہ اتنا پریشان تھا اب وہ اتنا ہنستا مسکراتا اس سے گپ لگا رہا ہے۔
 وہ دروازے کی اوٹ میں ہو گئی شیشے کے دروازے کی دوسری طرف سے وہ اندر داخل ہوئی اور دوسرے ریگ کی طرف مڑ گئی۔ جہاں کوئی اسے دیکھ نہیں  سکتا تھا۔ لیکن وہ کاؤنٹر پر ہونے والی گفتگو با آسانی سن سکتی تھی 
 وہ دونوں ہنس رہے تھے اور وہ ضرورت مند لڑکا بولا ارے  یار پانچ ہزار کی دیہاڑی تو  آرام سے لگ گئی ہے۔ پکڑو اپنی دوائیاں اور پیسے  دے دینا۔
 سیلزمین بولا
 اور میرا حصہ۔۔ 
 ارے یار چل تو بھی رکھ لے ہزار روپے کیا یاد کرے گا۔ کس سخی سے پالا پڑا ہے۔
 یہ سنتے ہی بینا شدید صدمے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔
 اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے  
 اس کے خلوص کا، اس کی ہمدردی کا، اس کی سچائی کا کیسے مذاق اڑایا گیا 
 وہ خاموشی سے دوسرے دروازے سے  باہر نکل گئی۔
 اس نے دوست سے پوچھا کیا بات ہے؟
ایک دم سے پریشان کیوں ہو گئی ہو ۔ فون ملا؟
سب ٹھیک ہے نا۔۔۔
 اس نے اپنی دوست سے کہا
 جا کر اندر کاؤنٹر سے میرا موبائل اٹھا لاو۔۔
 لیکن تم گئی تو تھی۔
وہ حیرانی سے بولی
 بس تم جاؤ نا یار جا کر لے آؤ۔۔
میں نہیں جانا چاہ رہی۔
 اس کی دوست نے اندر سے جا کر کاؤنٹر سے اس کا موبائل سیلزمیں کو بتا کر اٹھایا ۔
واپس آ کر گاڑی میں بیٹھتے ہی اس سے پوچھا
 کوئی لڑکا وہاں تھا؟
 ہاں ہنس رہا تھا ؟
ہاں۔  تو۔ ۔
 یہ وہی لڑکا ہے جو ابھی دواؤں کے لیے پانچ ہزار روپے کے لیئے رو رہا تھا اور اب وہ وہاں ٹھٹھے لگا رہا ہے 
کیا مطلب پانچ ہزار روپے کا چونا لگا دیا اس نے تمہیں وہ ہنس دی 
  اف  خدایا میں نے تمہیں کہا تھا نا۔ وہاں کسی پر اس طرح مہربان ہونے کی ضرورت نہیں ہے 
 یار وہ کوئی ہوٹل کا بل نہیں دکھا رہا تھا ۔  دوائیں تھیں ۔ زندگی بچانے کی اور  اس پر بھی کسی کی مدد نہ کی جائے تو اس سے بڑا انسانی جرم کیا ہوگا ؟
تو اب دیکھ لیا نا تم نے۔۔ اس طرح کے بڑی فلمیں پھرتی ہیں یہاں پر ۔
خود کو اس نرم دلی سے باہر نکالو۔
 حقیقت میں جینا سیکھو ۔
بینا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
چلو میں پانچ ہزار تمہیں دے دوں گی۔
 چھوڑو دفعہ کرو۔
 بات پانچ ہزار روپے کی نہیں ہے  
 بات اس اعتبار کی ہے جو اس لڑکے نے میرا توڑ دیا اور جو اب  کبھی کسی پر قائم نہیں ہو سکے گا۔ کوئی سچا ضرورت مند بھی ہوا تو میں اسے ڈرامے باز کہہ کے گزر جاؤں گی۔
 میں کبھی جاننا نہیں چاہوں گی کہ اسے کیا تکلیف ہے ۔
میں اپنے دل کو جانتی ہوں یہ دل بھی بڑی کتی چیز ہے آ گیا تو آ گیا ، آٹھ گیا تو اٹھ گیا  پھر اسے کوئی واپس نہیں لا سکتا ۔
  اس کمبخت نے میرا اعتبار توڑ دیا ۔جوان جہان یھٹا کٹا اور دھندا کیا ہے؟
 دوائیوں کے نام پر لوگوں کو چونا لگانا ۔
تو ہم اسے پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ 420 کا پرچہ کروا دیتے ہیں۔
دوست نے جوش اور غصے سے اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے کہا
 نہیں یار کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اور  اس جیسے جانے کتنے لوگ ہوں گے۔ جنہیں  دھوکہ دیتے ہوئے ، فراڈ کرتے ہوئے، یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنی ہر حرکت سے اس بے رحم دنیا سے جو گبے چنے ہمدرد، نرم دل کے لوگ ہیں یہ ہر روز ان کا صفایا کرتے جا رہے ہیں، ہر روز اپنے ہر عمل سے ایک نیک انسان کو دنیا سے کم کرتے جا رہے ہیں۔
 وہ ہر ہمدرد معصوم دل انسان  بھی انہیں کی طرح پتھر ہوتا جا رہا ہے۔
 وہ بھی انہیں کی طرح بے رحم ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ انہوں نے اسے مجبور کیا کہ ہم پر اعتبار مت کرو۔
 کوئی سچا بھی اس کے سامنے آئے گا تو۔وہ اسے بھی دھتکار کا آگے گزر جائے گا۔
 اس میں قصور اس شخص کا نہیں ہو گا بلکہ  اس میں قصور اس جیسے مکاروں کا ہو گا جو اس نیک انسان کے اخلاقی قتل عام پر نہ نادم ہے نہ شرمندہ اور نہ ہی باز آنے والے ہیں۔
 موٹے موٹے آنسو بینا کی انکھوں سے نکل کر اس کی گود میں جا گرے۔موت جو ہوئی تھی اس کے اعتبار کی۔۔۔۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔                   



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/