ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 27 جولائی، 2024

& چوزہ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی

چوزہ
افسانہ:
 (ممتازملک ۔پیرس)

تپتی ہوئی دوپہر میں وہ چھوٹی سی بچی جس کی عمر بمشکل سات یا آٹھ برس ہوگی، 
چھت کے گرم فرش پر خود کو بچاتے ہوئے ننگے پیر بھاگ رہی ننگے تھی۔ 
اس کا باپ ہاتھ میں پانی بھرنے کا پلاسٹک کا پائپ لیئے اسے تاک تاک کر نشانے پر پیٹ رہا تھا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک جلاد کی روح اس میں سرایت کئے ہوئے تھی۔ پڑوسی وقفے وقفے سے بچی کے رونے کے شور پر اپنی دیواروں سے جھانک جھانک کر چھپ جاتے۔
یہ آج محلے میں سب سے مذیدار خبر بننے جا رہی تھی اس لیئے سبھی اس کا بھرپور مزہ لے رہے تھے۔
کسی ایک کو بھی اس بچی کی تکلیف نہ دکھائی دی نہ سنائی دی۔
سب نے اپنے کان اور آنکھیں شاید اپنے ہاتھوں پھوڑ رکھی تھیں ۔ 
وہ بچی جو بار بار روتے اور پٹتے ہوئے چلا رہی تھی اس امید سے کسی بھی جھانکتے ہوئے کو سر اٹھا کر فریاد بھری نظروں سے دیکھتی کہ کوئی تو اسے اس قصائی سے بچا لے
 لیکن افسوس ۔۔۔
 تماش بینوں میں کوئی بھی انسان نہیں تھا ۔ 
اس کے جسم پر پائپ کے نیل بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ 
دیکھنے والوں میں کوئی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ بچی اس جلاد کی اپنی بچی  ہے۔
اسی چھت پر اپنے ڈربے سے باہر گھومتے چھوٹے چھوٹے کمزور سے چوزے بھی بھاگ رہے تھے جو یہ تماشہ دیکھ کر حیران تھے ۔
 اس باپ کو یہ خیال تک نہیں تھا کہ یہاں یہ چھوٹے چھوٹے چوزے بے زبان جانور بھی اسے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسکے ڈر سے بھاگ رہے ہیں بلکہ وہ اپنی نشانے سادھے جا  رہا تھا، 
لیکن وہ بچی دھوپ میں جلتے فرش پر پیر یہ سوچ کر  رکھ رہی تھی کہ کوئی چوزہ اس کے پاؤں کے نیچے نہ آ جائے۔
 ابو جی مجھے معاف کر دو۔ 
پتہ نہیں وہ ننھے ننھے ہاتھ باندھے کس جرم کی معافی مانگ رہی تھی۔
 دائیں بائیں گھروں میں سے کوئی نہ کوئی چھت پر سے جھانک کر اس تماشے کو انجوائے کر رہا تھا،
اسے روک کر کوئی بھی اس ظالم کی قہر کا شکار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ 
 لیکن پھر وہی ہوا جس سے وہ بچی بچنا چاہتی تھی ایک طرف باپ شکاری، پلاسٹک کے موٹے پائپ سے اسے پیٹے جا رہا تھا،
 اور ایک طرف وہ معصوم چوزوں کو بچانے کے لیئے اپنے پاؤں سہج سہج کر آگے بڑھا کر خود کو بھی بچانا چاہتی تھی اور ان چوزوں کو بھی،
 لیکن ایک معصوم سا چوزا اس کے پیروں کے نیچے آ ہی گیا۔
 اس نے اپنی آنکھوں سے مڑ کر دیکھا تو اس معصوم سے چوزے کی انتڑیاں باہر آ چکی تھیں۔
 وہ اپنے درد کو بھول کر اس چوزے کے درد میں اور زور سے رونے لگی۔ 
وہ خود کو قاتل سمجھنے لگی۔
یہ قتل بھی اس کے باپ نے اسی کے حساب میں لکھ دیا ۔ اس کے موت کے جرم میں اسے مزید کتنی دیر تک اپنی کھال ادھڑوانی پڑی۔
اس کے معصوم سے دل میں اس چوزے کی قبر بن گئی۔
 اس روز وہ چوزہ نہیں مرا بلکہ اس کے دل سے اس کے باپ کی محبت کا جنازہ بھی نکل گیا۔
                   -----

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/