ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 19 اگست، 2018

دل.کی زمین


دل کی زمیں

جب تک دل پر چوٹ نہ پڑے کوئی کسی کا درد محسوس نہیں کر سکتا .
جیسے منوں بیج بھی کسی زمین پر پھینک دیا جائے وہاں کوئی پودا نہیں اگے گا.
کوئی کونپل پھوٹ بھی گئی تو چند روز میں ہی ہواوں کا بوجھ اسے مٹی کر دیگا .
جبکہ ہل کی نوک جب زمین کا سینہ چیرتی ہے تو اس مٹی میں ڈالا ہوا کم بیج بھی بہت سی فصل دیجاتا ہے .
انسان کا دل بھی ایسی ہی زمین ہے جسے درد کی چوٹ ہل کی نوک کی طرح چھید کر اس میں احساس کا بیج بو دیتی ہے . جس پر ہمدردی اور محبت کے پھل اور پھول  کھلتے ہیں .
🌷🌸🌹🍀🍓🍒🌻🌼🌺🌾🌽
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس


لڑکیاں جانور نہیں ہیں

مرد کی زبان





مرد کی زبان وہ جھاڑی ہے جس میں عورت کا دوپٹہ لمحوں میں تار تار ہو جاتا ہے.
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
ممتاز ملک پیرس 

جواب



جواب
تحریر:
(ممتازملک.پیرس)

سلطان احمد اب ساٹھ  سال کے پیٹھے میں داخل ہو چکے تھے سر تو کیا نتھنے اور سینے کے بال بھی سفید ہو چکے تھے. 
 لیکن اپنے آپ کو کمسن ہی گردانت تھے.  سو راہ چلتی ہر خاتون کو اس ادا سے دیکھتے جیسے وہ نہ صرف اس دنیا کے آخری گبرو ہیں بلکہ اس کرہ ارض پر گویا  آخری مرد بھی وہی ہیں . 
وجہ شہرت بھی موصوف کی ہر آتی جاتی خاتون کو دیکھ کر سرد آہ بھرنا ہی تھی.  
سلطان احمد کی بیوی آسیہ جو عمر میں نہ صرف اس سے دس  برس  چھوٹی تھیں بلکہ ناک نقشے میں بھی اس سے ہزار درجہ بہتر تھیں.
 لیکن نہ جانے سلطان احمد کون سا نظر باز شربت پیئے بیٹھے تھے کہ راہ چلتی بھنگن کو بھی  تاڑنا نہ بھولتے.
جبکہ اپنی بیوی کو نظر بھر کر دیکھنے کا بھی کبھی انہیں خیال نہ آیا.  
ان پر یہ بات سو فیصد لاگو ہوتی تھی کہ حرام ہی میں لذت ہے , حلال تو بس عزت ہے ۔
گلی کی خواتین کی زبانی آسیہ بیگم آئے دن سلطان احمد کے احوال سے باخبر ہوتی رہتی تھی اور دل ہی  دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتی تھیں.  لیکن اس کا کوئی علاج اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا.  
پہلے پہل اسے خیال آیا کہ ہو سکتا وہ اب شوخ وشنگ رنگوں سے اجتناب برتنے لگی ہیں اور ہار سنگھار سے بیزار ہو گئی ہیں اور سلطان احمد کو یہ سب اچھا لگتا ہو جبھی وہ ایسی چھچھوری حرکتیں کر رہے ہیں . اسے احساس دلانے کے لیئے..
 آج آسیہ بیگم نے پانچ سال پرانا جامنی رنگ کا جوڑا الماری سے نکالا جو اس وقت اس نے بڑے چاؤ سے بنوایا تھا لیکن ایک دو بار ہی پہنا ہو گا کہ دو چار اس کی امَاں کی عمر کی خواتین کے اسے بوڑھا ہونے کا احساس دلانے اور ہلکے رنگ پہننے کی تنبیہہ پر اس نے الماری میں پیک کر کے رکھ چھوڑا تھا.  لیکن آج اسے احساس ہوا کہ انسان جیسی صحبت میں بیٹھتا ہے رفتہ رفتہ ویسا ہی سوچنے اور کرنے لگتا ہے.  سوچ کا اثر ہی عمل میں چھلکنے لگتا ہے . پینتالیس برس کی عمر میں ستر برس کی اکثر بیوہ اور آدم بیزار بڑھیاؤں کیساتھ  بیٹھنے کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ جوانی میں ہی بوڑھی اور سہاگن ہوتے ہوئے بیواؤں سے حلیئے میں رہنے لگی تھی .
 بڑے اہتمام سے اس نے جوڑا استری کیا.  نہا دھو کر بال سنوارے . تو آئینے نے بھی اس کی نظر اتاری.
اس نے سوچا سلطان احمد کو راہ راست پر رکھنے کے لیئے کسی کی چار باتیں بھی سننا پڑیں تو سن لونگی.
اس نے سنگھار میز کے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا . میرون سرخی اور آنکھوں کے کاجل نے اسے دس برس پیچھے دوڑا دیا تھا.  
سلطان احمد کی ستائشی نظریں ہی اس کی أس تیاری کا انعام تھیں .
یہ ہی سوچ کر وہ اپنے کمرے سے باہر صحن میں آئی تو
کہاں ہو بھئی...
 سلطان احمد کی پکار سن کر
اس نے مڑ کر اپنے شوہر کو دیکھا جو خضاب کی کٹوری ہاتھ میں لیئے کھڑا تھا  اور واش بیسن کے آئینے میں دیکھتے ہوئے ٹوٹھ برش سے اپنے سر کے بال رنگ رہا تھا .
شوہر نے اسے دیکھا
تو اس کی میرون سرخی اور کاجل کی دھار دیکھ کر زور سے ہنسا
 اور نخوت اور طنز کے ملے جلے لہجے میں کاٹ دار انداز میں بولا
 " ہوں بوڑھی گھوڑھی لال لگام"
یہ سنتے ہی غم ،صدمے اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو گیا ،اس نے اس کے سامنے دیوار کا  شیشہ میاں کے منہ پر دے مارا اور خضاب کے کٹوری اس کے ہاتھ سے چھین کر سارا خضاب اسکے منہ پہ مل دیا اور خوب دیوانہ وار بولتی اسے مارتی چلی گئی ....میں بوڑھی گھوڑی جو تیرے سے پورے دس   سال چھوٹی اور تو چھنہ کاکا....بے غیرت
                  ۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 17 اگست، 2018

وطن سے محبت وطن کی زبان میں

وطن سے محبت وطن کی زبان میں
ممتازملک.  پیرس
زندہ قومیں اپنی آزادی کا دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں.  پاکستانی بھی اپنے قومی دنوں پر اپنے وطن سے اپنی محبت کا اظہار کبھی نہیں بھولتے  . دیار غیر میں جہاں اپنی زبان سیکھنے کے لیئے الگ سے وقت نکالنا ایک مشکل کام ہے وہاں ہمارے پاکستانی بچوں کا اردو میں بات کرنا ان کی ماؤں کی اپنی زبان اور کلچر سے محبت کا ثبوت ہے. لیکن محض اردو میں بات کرنا ہی کافی نہیں ہے .  بلکہ اس زبان کو لکھنا اور پڑھنا بھی بہت ضروری ہے .  پاکستان جانے والے تارکین وطن کا وہاں سب سے زیادہ حادثات اور دھوکہ دہی کا شکار ہونے کا بڑا سبب یہ ہی اردو پڑھ اور لکھ نہ سکنا ہے.  جس کے سبب وہ وہاں لکھے ہوئے بورڈز اور ڈائریکشن والے بورڈز کی ہدایات درست انداز میں پڑھ نہیں پاتے.  اور نقصان اٹھانا پڑ جاتا ہے  .
ان حالات میں جبکہ تارکین وطن پاکستانی پاکستان جانے ,رہنے اور دینے دلانے (تحائف) کے کُل اخراجات سے ایک چوتھائی میں دنیا کا کوئی بھی حسین ملک گھوم سکتے ہی. اپنے گھریلو اور خاندانی جھگڑوں سے پاک ماحول میں بھرپور چھٹیاں گزار سکتے ہیں. تب بھی  پاکستان آنا جانا ہر پاکستانی کی خواہش میں پہلی ترجیح ہوتا ہے. جو وہاں جا کر کثیر زر مبادلہ مختلف شعبوں میں خرچ کرتے ہیں.  بازاروں میں خریداروں کا رش بڑھتا ہے  . کیٹرنگ کےکاروبار میں اضافہ ہوتا ہے. ٹرانسپورٹ اور سیاحت کے کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے. گھریلو ملازمتوں کی راہیں کھلتی ہیں .
تعمیراتی کاموں میں  پیسہ لگایا جاتا ہے.  تعلیمی معاملات میں مالی تعاون کیا جاتا ہے.  اب تو انڈسٹریل زون میں بھی سرمایہ کاری کی جاتی ہے. اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تارکین وطن اردو لکھنے اور پڑھنے پر بھرپور توجہ دیں .اگر بیرون ملک ممکن نہیں ہے یا وقت کی  تنگی ہے تو جہاں پاکستان جا کر  اور لاکھوں روپے کے اخراجات کیئے جاتے ہیں وہیں کسی سے بھی اردو کی ٹیوشن لینے کا گھر پر ہی بندوبست کر لیا جائے.  صرف دو گھنٹے روزانہ کی ایک دو ماہ کی ٹیوشن آپ کو نہ صرف ایک خوبصورت زبان کو بچانے میں مددگار ہو جائے گی بلکہ آپ کو بھی بہت ساری پریشانیوں سے بچانے اور نئی پاکستانی پردیسی نسل کو پاکستان کو سمجھنے اور پاکستانیوں سے قریب تر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر پائے گی. 
اور آپ کی وجہ سے پاکستان میں ایک اور ذریعہ معاش گھر پر ٹیوشن کی صورت میں میسر آ جائے گا. 
اس لیئے پاکستان جا کر جہاں اور بہت سی مصروفیات میں وقت گزارا بلکہ کئی بار تو ضائع کیا جاتا ہے.  وہاں والدین کو چاہئے کہ روزانہ دو گھنٹے ضرور کسی ایسی مصروفیت میں گزاریں جو واپس بیرون ملک لوٹنے پر آپ کو ایک نئی سیکھ, نیا ہنر لے کر آنے کا باعث بنے اور واپسی پر آپ کے کام بھی آئے . نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی ایسا کوئی شوق, کوئی کام  جو پہلے کسی وجہ سے پورا نہ کر پائے تو اب اللہ نے مالی طور پر آسانی دی ہے اور  اب وقت ملا ہے بلکہ وقت نکال کر اسے سیکھنے کی کوشش ضرور کیجئے.
زبان کیساتھ کسی بھی ملک اور قوم کی پوری تہذیب اور ثقافت جڑی ہوتی ہے.  ایک نسل اپنی اولاد کو وراثت میں جو پانچ چیزیں دیکر جاتی ہے اس میں اس کا مذہب, لباس, پکوان, رسومات اور زبان ہی وہ اثاثہ ہوتی ہیں جو اسے اپنی الگ پہچان قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں.  جو قومیں ان پانچ چیزوں میں سے کسی کو بھی کھو دیتی ہیں وہ بے نام و نشان  ہو جاتی ہیں. اللہ نے ہمیں دنیا کی خوبصورت اور مترنم زبان  اردو کا وارث بنایا ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اردو زبان کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالیں.  کیونکہ یہ زبان ہی ہوتی ہے جو ثقافت کے قلعے کے گِرد حصار کا کام دیتی ہے. اس لیئے اپنے بچوں کو اردو یہ سوچ کر مت سکھائیں کہ لوگ کیا کہیں گے یا چلو دو چار جملے بول کر اردو پر احسان کر لو.  بلکہ یہ سوچ اور سمجھ کر سکھائیئے کہ یہ ہماری شناخت ہے اور ہماری تہذیب و ثقافت کی سلامتی کی ضامن ہے. ویسے بھی
اردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہی داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(ممتاز ملک . پیرس )

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/