ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 28 ستمبر، 2017

ٹماٹر ہی کیوں ؟




                ٹماٹر ہی کیوں ؟
           (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)   

ٹماٹر ٹماٹر ٹماٹر 
سن سن کر کان پک گئے ہیں ...بھئی دنیا کا کوئی کام کسی چیز کے کم ہونے سے کبھی رکا ہے . لیکن ہمارے ہاں زبان کے چٹورے کبھی کھانے میں پیاز کو روتے ہیں تو کبھی ٹماٹر کا قل پڑھتے دکھائی دیتے ہیں . جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ
سوائے نمک کے ہر شے کے بنا سالن بن سکتا ہے .
دنیا کے دو تین ممالک  کے سوا ساری دنیا ٹماٹر کے بنا یا پیاز کے بنا جو کچھ کھاتی ہے وہ کھانا نہیں ہے گویا 
نہیں تو 
انار دانہ اور امچور  بھی استعمال کیئے جا سکتے ہیں.  لیکن جنہیں ٹماٹر ہی چاہیئے ان کے لیئے دودہ سے دہی جمانا  بہت آسان اور لذیذ طریقہ ہے .
اور اگر کچھ نہ بھی ڈالیں تو بھی کوئی قیامت نہیں آ جاتی . ساری دنیا میں سالن پیاز ٹماٹر ڈال کر ہی تو نہیں پکائے جاتے نہ ہی انہیں ڈالنا کوئی اللہ کا حکم ہے . سو ان چیزوں کے بہانے واویلا کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ جو میسر ہے اسی میں کھانا بنایا جائے . جو چیز مہنگی ہو اس کے سستا ہونے تک اسے چھوڑ دیا آئے . 

220 روپے کلو ٹماٹر  تو میں نے خود آج کا ریٹ دیکھا ہے  ٹی وی پر 
اور اس میں دو لیڑ  دودہ  باآسانی آ سکتاہے . 
ویسے بھی ٹماٹر کے ایک کلو میں زیادہ سے سے زیادہ سات آٹھ دانے نکلیں گے جبکہ دہی کی کیوبز اس سے کہیں زیادہ ہو گی اور سالن کی لذت بھی بڑہائینگی .
اب کسی نے فرمایا بی بی دہی کی کیوبز فریزر میں جمنے کے لیئے بجکی چاہیئے..
تو  بھسئی لوگ  آپ فریزر کو بار بار مت کھولیں تاکہ اس کی کولنگ  زیادہ دیر چلے.  
اور دوسرا طریقہ کومن سینس بھی استعمال کیآ کریں . 
اگر فریزر یا بجلی نہیں ہے تو آپ آدھا لیٹر دودھ  کا دہی جمالیں . جتنا چاہیئے استعمال کریں ایک دن دو تین دن تک بنا جمائے چلا لیں . زیادہ سے زیادہ دہی کھٹا ہو جائے گا تو کیا ہوا  اور اگر دہی کھٹا ہو گیا اس کی تو اور بھی کم مقدار ڈلے گی اور کھانا لذیذ بنے گا . 
بہانے چھوڑیں 
بی پریکٹیکل 
ویسے بھی گھر میں دہی جمانے سے بھی کیوں جان جاتی ہے اکثر ہماری خواتین کی . حالانکہ بہتریں دہی رات کھانے کے بعد دودہ کو جاگ لگا دیں تو صبح ناشتے  تک  تیار ہوتا ہے .
رنگین دہی چاہیئے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ جس رنگ کا چاہے دہی جما لیں جناب 
دودھ ابال کر نیم گرم ہونے پر اس میں کوئی سا فوڈ کلر بھی ایڈ کر لیجیئے پھر مٹی کے  برتن  میں دہی کا تھوڑا سا پانی جسے  جاگ  کہتے ہیں ملا کر اسے ڈھک کے کسی گرم جگہ پر بارہ گھنٹے  کے لیئے رکھ دیجیئے.  رات کو رکھیں صبح تازہ دہی تیار .
چاہیں تو اس میں دودھ میں  چینی ڈال کر میٹھا دہی جمایئے. 
اپنا تو اصول ہے جناب جو چیز مہنگی ہو تب تک چھوڑ دو جب تک وہ گلی گلی  رلنے  نہ لگے 

بدھ، 13 ستمبر، 2017

نظر انداز


یاد رکھیں
  نظر انداز کیئے جانے اور بےوفائی         سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہے جو آپ       کسی کو دیتے ہیں 😢
       ممتازملک. پیرس

پیشکش


پیشکش

کچھ لوگ غلط ہوتے ہیں لیکن وہ خود کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ بڑے بڑے پاکباز بھی ان کے سامنے چھوٹے ہو جائیں 😥
اور بعض لوگ درست ہوتے ہوئے بھی خود کو اس طرح بودا  بنا کر  پیش کرتے ہیں کہ برے سے برے  انسان  کو بھی اس سے نفرت ہو جائے 😫
سو غور کیجیئے آپ جیسے ہیں خود کو ویسا ہی پیش کر رہے ہیں یا ......
ممتازملک. پیرس

جمعہ، 8 ستمبر، 2017

● اے قاید اعظم تیرے مشکور رہینگے ۔ سراب دنیا


اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
کلام/ ممتازملک ۔پیرس 





اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
دل تیری محبت سے یہ معمور رہینگے

ذلت سے غلامی سے ہمیں تو نے نکالا
اس قوم کی کشتی کو بھنور میں تھا سنبھالا 
ہم بھی انہیں جذبات سے بھرپور رہینگے
 اے قائد اعظم تیرے مشکور 
رہینگے 

ہم آج بھی تیرے دیئے اسباق کو لیکر
کرتے ہیں چراغاں رہ عشاق کو لیکر 
دل لے کے ہتھیلی پہ یہ منصور رہینگے 
اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 


وعدے جو کیئے ہم نے نبھائینگے ہمیشہ 
دنیا کو عمل کر کے دکھائینگے ہمیشہ 
دشمن تیرے تاعمر ہی رنجور رہینگے 
اے قائداعظم تیرے مشکور رہینگے 
۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 7 ستمبر، 2017

کیا کریں ان کا


کیا کریں ان کا ...
ممتازملک. پیرس

جیسے جیسے وقت کا انداز بدلا اس کی ضروریات بدلتی ہیں ویسے ویسے لوگوں کے سوچنے اور عمل کرنے کا انداز بھی بدلنے لگتا ہے .
آج ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں اسے اگر ہوائی زمانہ کہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا . پہلے وقتوں میں ہوائی روزی ہوا کرتی تھی یا پھر ہوائی مخلوق کے قصے سنائی دیتے تھے . باقی سب کچھ نظر کے سامنے ہوا کرتا تھا . جیسے کون کس سے ملتا ہے ؟اس کے دوست احباب کیسے ہیں ؟ اس کے گھر کس کس کا انا جانا ہے ؟ اسی تناظر میں اس کے چال چلن کا بھی تعین کر لیا جاتا تھا . کہنے والے اسے دوسرے کی زندگی میں پرائیویسی  پر حملہ یا دخل اندازی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں بھی یہ ماننا پڑیگا کہ پرائیویسی کے نام پر نئے نئے گل نہیں کھلائے جا سکتے تھے . ہر شخص دوسروں کی نظر میں رہتا تھا . اوراس کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہہں رہ سکتا تھا .  اور جوابدہی کے لیئے بھی ذمہ دار تھا .
لیکن آج کیا کریں کہ ہر انسان خود کو اخلاقی قدروں  سے اخلاقیات سے بھی خود کو اس موئی پرائیویسی کے نام پر آزاد کر کے دوسرے کی پرائیویسی میں دخل اندازی کے نت نئے حربے آزمانے اپنا حق سمجھنے لگا ہے.
سادہ لفظوں میں کہئیے تو  کسی کے گھر مہماں بنکر گئے ہوں تو اس کے دوسرے مہمانوں یا رشتہ داروں کے اتے پتے بڑے رازدارانہ انداز سے  حاصل کر لیئے جاتے ہیں . پھر اس بلانے والے میزبان کی  مل کر خوب بینڈ بجائی  جاتی  ہے . جس کے دسترخوان پر انہیں اکھٹے متعارف ہونے کا موقع ملا اسی کے کردار پر،اس کے خاندان پر اور تو اور اس کے  دو چار سال کے بچوں پر بھی ایسی ایسی موشگافیاں کی جاتی ہیں . کہ جس کا علم ان کو ملانے والے کے کیا، اسکے فرشتوں  کو بھی خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا . پھر اس ملانے والے کو بیچ میں سے صفر کر دیا جاتا ہے اور آپس میں محبت کے منافقانہ پینگیں بڑھائی جاتی ہیں .
اسی کی ایک اور مثال آج کا سوشل میڈیا فون اور خصوصا فیس بک لے لیجیئے . اس میں اکثر دوسرے کی محبت میں فرینڈ ریکوئسٹ نہیں بھیجتے بلکہ ان کا مقصد اس لسٹ میں موجود فرینڈ  سرکل کو تاڑنا ، پھر ان سے عقیدت اور محبت رکھنے والوں کو ان بکس میں جا کر ہاتھوں پر ڈالنا ؟ ان سے خصوصی تعلقات استوار کرنا ؟ اس کی کردار کشی کر کے اسے دوسرے کی نظر سے گرانا، اور پھر اس کے جو کام نکلوانا ہے اس کے لیئے ہر قیمت پر کام نکلوانا، یہاں تک کہ اس بات پر اسے ہراساں کرنا کہ اچھاااا آج کل بڑا فلاں فلاں کی پوسٹ پر لائیک اور کومنٹس کیئے جا رہے ہیں ، ہوں ں ں ں ں. کیا چکر ہے 😜 یہ سب اس انداز میں کہا جائیگا اور فون پر اس کا ایسا برین واش کیا جائے گا کہ اچھا بھلا شریف اور بہادر انسان بھی پریشان ہو کر اچھے سے اچھے دوست سے بھی کنی ٹکرانے لگتا ہے کہ خدا جانے اور میری باتوں کو کیا کیا رنگ لگا کر پیش کر دیا جائیگا . سو اپنی بھی عزت تو نہیں بنتی وقتی فائدے ہی لینے ہوتے ہیں . لیکن دوسرے کے لیئے اگلے کے دل میں شیطانی کا بیج ضرور بو دیا جاتا ہے .
ایسے لوگ کبھی کسی کے مخلص دوست نہیں ہو سکتے . یہ ٹائم پاس لوگ ہوتے ہیں . ان کی کبھی مستقل دوستیاں نہیں دکھائی دیں گی . جو دوستیاں  ہونگی بھی  ان کے ساتھ ان کی آئے دن کی لڑائیوں کے بعد وقتی مفادات کے لیئے ایک میز پر اکٹھے ہو کر جھوٹے قہقہے اور مشروط ملاقاتیں ہی  ہوں گی .
اب کیا کہیں ایسے لوگوں کو جو ہوائی انداز سے ہواوں میں گھر بناتے ہیں . دوست پالتے ہیں اور ہوش آتے ہی حقیقت کے فرش پر دھڑام  سے گرتے ہیں.
  بقول "باقی صدیقی" کے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
                    ********

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/