ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 31 مئی، 2016

عید میلہ 16


3 روز کی ہماری ان تھک محنت ہمارا حوصلہ لیکن 28 مئی 2016 یوم خواتین اور یوم تکبیر کے موقع پر  پاکستان پیپلزپارٹی خواتین ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ نے عید میلہ کے عنوان سے ایک مینا بازار کا اہتمام کیا.
اور معروف سوشل ورکر محترمہ روحی بانو صاحبہ کی کتنی کمال محنت ہے. ہم اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں . جو ایک کامیاب عید میلہ کی صورت سامنے آئے . جس کا انعقاد خاص  طور پر یوم تعبیر اور خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کیا گیا.  جس میں پیرس میں موجود تمام معروف متحرک افراد اور برانڈذ نے حصہ لیا .
پاکستانی ایسوسی ایشن " لے فام دو موند" کی صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ نے بھی اپنا سٹال لگایا .
جنہیں  Best Mother 2016 کا ایواڈ دیا گیا.
خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے بھرپور انداز میں اس میلے میں شرکت کی . جس کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ تھیں اور مہمان خصوصی سارسل  کے میئر کی بیگم مادام شاربے تھیں .
پروگرام میں رنگا رنگ فیشن شو کا انعقاد بھی کہا گیا . جس میں مختلف ڈیزائنرز نے حصہ لیا . خوبصورت کیٹ واک نے سماں باندھا . جس میں نیناں  خان صاحبہ کو پہلا انعام ملا . مختلف شعبہ جات سے منتخب افراد کو انعامات دیئے گئے .ممتاز ملک کو بھی بہترین شاعرہ کہہ کر انعام سے نوازہ گیا جو کہ ہم خود کو بلکل بھی نہیں سمجھتے . میزبانوں کی ذرہ نوازی ہی کہا جا سکتا ہے . میلے میں سبھی دوستوں سے ملاقات ہوئی . ایک ہی جگہ پر فوڈ فیسٹیول کا سا مزا بھی ملا . یہ ایک جمنازیم ہال تھا . سو جگہ کی کوئی تنگی نہیں تھی اور انتظامات بھی بہترین تھے . ہم روحی بانو صاحبہ اور شمیم خان صاحبہ اور تمام انتظامیہ کو کامیاب پروگرام کی مبارکباد پیش کرتے ہیں . اور آئندہ بھی ایسے پروگرامز کے منتظر رہیں گے .

ہفتہ، 21 مئی، 2016

لمحہ فکریہ


لمحہ فکریہ برائے
بیرون ملک مقیم پاکستانی
ممتازملک. پیرس

مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ  ہم اپنے ملک سے باہر کیا سوچ کر آئے ہیں . پہلے ہمارا نعرہ تھا کہ ہم بیروزگاری  سے ستائے ہوئے ہیں اور مفلسی دور کرنے آئے ہیں . اس بنیاد پر ہم نے اپنی نئی زندگی کا بیرون ملک اغاز کیا . پھر جب ہمارا پیٹ بھر گیا تو ہمیں بڑے بڑے گھروں کے لئے بہانے ملے ، جب گھر بھی بن گئے تو پھر ٹیکس چرانے اور دو نمبر طریقے سے پیسہ اسلیئے اکھٹا کرنا شروع کیا کہ اپنے پنڈ کے سب سے امیر آدمی کا مقابلہ کرنا ہے اور اس کالے دھن سے یہاں اور وہاں کاروبار شروع ہوئے اور جب ہر طرف سے کالے دھن نے انڈے دینے شروع کر دیئے تو ان انڈوں میں سے" سیاسی کارندے"نام سے چوزے نکالنے کا کاروبار شروع ہوگیا اور پھر ان کالا دھن پیدا  کرنے والی مرغیوں نے سیاسی پولٹری فارم تیار کر لیا.  اور اب انہیں سیاسی چوزوں نے ہر جگہ گھر باہر، آتے جاتے ،کے دامن پر" بیٹھ "کرنا شروع کر دیا ہے . اور ان مرغیوں کو اس گندگی سے کوئی غرض نہیں ہے کہ  اسے صرف اپنے انڈوں اور چوزوں سے ہی مطلب ہے .
ویسے توہم ہر کام میں ہی نرالی قوم ہیں لیکن کبھی کبھی یہ نرالا پن ہمارے لیئے عذاب اور بدنامی  کا باعث بھی بن جاتا ہے . جیسے کہ
   دنیا کے کسی ملک کی کوئی سیاسی پارٹی اپنے ملک سے باہر گروپ اور ونگز بنائے کام نہیں کر رہی . صرف پاکستانی ہی وہ  واحد قوم ہے جس کے افراد نے، عہدے اور کرسی کی عیاشی اور چودہراہٹ کا نشہ پورا کرنے کے لیئے اپنا کالا پیسہ پاکستان سے باہر بھی خاص طور پر فرانس میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے . کہیں مزدوروں پر ظلم، کہیں خواتین کی ہراسمنٹ، ان کے ساتھ ہر ممکنہ پلیٹ فارم  سے بدزبانی  ،بدتمیزی اور بدمعاشی کے نئے طریقے رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے . اور تو اور یہاں سائبر کرائمز میں بھی یہ لوگ ملوث ہیں جو ہر عورت اور ہر پاکستانی لڑکی کو بدنام کرنے کی مہم پر روانہ ہیں . اس سے پہلے بھی یہاں ایک معروف خاتون کیساتھ ایسی ہی گھناؤنی حرکت کی جا چکی ہے اور معاملات پولیس اور عدالت تک جا چکے ہیں . لیکن اب اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو اس میں بڑے بڑے نام نہ صرف پولیس میں بے نقاب ہونگے بلکہ سڑکوں پر بھی یہ معاملہ گھسیٹا جائیگا. اور اس کا سب سے پریشان کن معاملہ یہ ہے کہ اس میں پیرس اور فرانس میں رہنے والے چھڑے (فیملی کے بغیر اکیلے مرد ) سب سے زیادہ استعمال کیئے جا رہے ہیں جن کے دماغ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی گندگی پک رہی ہوتی ہے یا پکائی جا رہی ہوتی ہے . اور ان کی خوش فہمی بھی یہ ہی ہوتی ہے کہ جی ہمارے کون سے بیوی بچے ہیں یہاں پر کہ جنہیں ہمارے کرتوت بھگتنے پڑیں گے . جبکہ انہیں آسرا دینے والوں نے انہیں یہ ہرے باغ دکھائے ہوتے ہیں کہ کوئی بات نہیں بیٹا "چڑھ سولی پر رام بھلی کرے گا "
لیکن ان لوگوں کی عقل میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ انہیں حرکتوں پر اگر یہ پاکستان ڈیبوٹ کر دیئے گئے تو وہاں بھی انہیں اپنا "گھرکا "یا بدمعاش  ہی بنا کر استعمال کیا جائیگا.کوئی وزیر اعظم نہیں بنا دیا جائیگا . اور وہاں کے ایسے کارندے جو خوب گناہ اور قتل و غارت اور بڑے کاموں میں استعمال کرنے کے بعد انہیں کے جیسے  دوسرےکارندوں کے ذریعے مروا دیئے جاتے ہیں . تو یاد رکھیئے یہ معاملات جو شروع میں انہیں بڑے دلکش اور ہیجان خیز نظر آ رہے ہوتے ہیں وہ انہیں ایک بھیانک دلدل میں اتار دیتے ہیں .
  اگر ہم نے آج ان کے زہریلے دانت نہ توڑے تو کل کو یہ ہمارے بچوں کی زندگی عذاب کر دینگے . سب فرانس کے پاکستانیوں کو اس مہم میں ہمارا ساتھ دینا ہو گا کہ فرانس سے ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر تمام ممالک سے، تمام پارٹی ونگز کا قلع قمع کیا جائے . کیونکہ یہ ہی سیاست بازیاں ہم تمام پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے اور دشمنیاں ڈالنے کا سبب بن رہی ہیں . ہماری چھوٹی چھوٹی سی کمیونٹی ہر ملک میں ان کی وجہ سے انتشار کا شکار ہو رہی ہے. آج کا انتشار کل کے فسادات کا سبب ہی نہ بن جائے . میں نے آواز اٹھا دی ہے . آیئے میرا ساتھ دیجیئے. ورنہ آئندہ چند سال میں ہی یہاں کمیونٹی فسادات کا ایک نیا سو نامی جنم لے لے گا  . اور اس کی تباہی سے کوئی گھر محفوظ نہیں رہیگا . 
ممتازملک. پیرس

منگل، 10 مئی، 2016

& ماں کی چھاؤں سلامت تھی / افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی





 ماں کی چھاؤں سلامت تھی
ممتازملک ۔ پیرس


See original image

نثارصاحب کے چاروں بچے اب اپنے پاوں پر کھڑے ہو چکے تھے .
 دونوں بیٹیاں اچھی جاب بھی کر رہی تھیں اور اچھے گھروں میں بیاہی جا چکی  تھیں اور بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھیں . بیٹے بھی اچھے عہدوں پر فائز اور شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو چکے تھے . تین کمروں کا اپارٹمنٹ اب دونوں میاں بیوی کے لیئے کافی تھا. اچانک نثارصاحب کی وفات سے اب ان کی ماں اکیلی ہو گئی تھی ،بلکہ وہ آمدنی جو میاں کی دکان سے آتی تھی اب ختم ہو گئی تھی  . 
انکے بچوں کا خیال تھا کہ ابا کافی جمع پونجی چھوڑ گئے ہیں، اس لیئے ماں کو کوئی تنگی نہیں ہے لیکن گھر کا ٹیکس ،چارجز، یوٹیلٹی بلز یہ سب ادا کرنے کے لیئے اب ماں کے پاس کچھ نہیں تھا۔
 زیورات کے نام پر کوئی سونا چاندی بھی وہ سفید پوشی میں بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہوئے  بنا نہ پائی تھیں کہ اسی کو بیچ کر کچھ عرصہ گزارہ کیا جا سکے . گھر کا کچن  جو ہر چیز سے بھرا رہتا تھا وہ نعمت خانہ اور سٹور روم بھی چارماہ دس دن کی عدت کے دوران ختم ہو چکا تھا .
 اپنی وضع داری کا بھرم رکھنے کو یہ ماں اپنی اولاد سے بھی یہ نہ کہہ سکی کہ مجھے ماہانہ کچھ رقم دے دیا کرو یا ان اخراجات کی ادائیگی کر دیا کرو .
 ایک روز چھوٹے بیٹے نے اس کی طرف چکر لگایا . ماں کو گلے لگایا . خیریت پوچھی اور یہ کہہ کر روانہ ہو گیا کہ "ماں اپنا خیال رکھنا "پھر آؤنگا۔۔۔۔۔۔
چار روز بعد بڑے بیٹے نے بھی ماں کے گھر آ کر خیریت پوچھی اور "پھر آؤنگا "کہہ کر روانہ ہو گیا . بڑی بیٹی نے فون پر ایک آدھ منٹ بات کر کے" ماں اچھی ہو " کہہ کر فون رکھ دیا.
چھوٹی بیٹی کا ماں کے گھر جانے کا آج ارادہ ہوا، سوچا آج ماں کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پلاؤں  گی .
ماں سے گلے مل کر خیریت معلوم کی اور اسے بٹھایا کہ میں آپ کے لیئے چائے بناتی ہوں .

ماں نے پوری کوشش کی کہ وہ اس کے باورچی خانے  میں نہ جائے لیکن وہ نہ مانی .
 اس نے کچن کیبنٹ کھولی تو ٹی بیگ ندارد . 
وہ سٹور روم میں چائے لینے گئی تو وہ سٹور روم جہاں ان کے باپ کے ہوتے اس قدر کھانے پینے کا سامان ہوتا کہ پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ہوتی اب وہاں کھانے کو دانہ نہ تھا .
ماں کایہ سوچ کر حال خراب ہونے لگا کہ آج بھرم کی سنبھالی ہوئی چادر تار تار ہونے کو ہے .
 اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا .
ماں کیا کرتی ہیں آپ نے گروسری بھی نہیں خریدی ابھی تک. 

لیکن ماں تو صوفے پر اکھڑی ہوئی سانسیں لے رہی تھی ۔
اس کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے . امّاں امّاں کیا ہوا.

بولیں نا...
اس نے ماں کو بمشکل پڑوسن کی مدد سے اپنی گاڑی میں ڈالا کہ وہ ایمبولینس کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی . 

فورََا قریبی ہسپتال میں ان کا چیک اپ  ہوا ، 
وہ بے چینی سے ہسپتال کے ایمرجنسی روم کے باہر ٹہل  رہی تھی . اور سوچ رہی تھی امّاں بابا کے جانے کے بعد ان کے غم میں بہت کمزور ہو گئی ہیں .
 اتنے میں ڈاکٹر نے باہر آ کر اس سے پوچھا 
آپ کی ماں اتنے روز سے بھوکی کیوں ہے ؟
  تین چار روز سے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہو گئی تھی اب انہیں کچھ کھلا دیں تاکہ دوا دی جا سکے .
وہ فورا اپنی ماں کے پاس پہنچی جو اب ڈرپ لگنے کے بعد قدرے ہوش میں تھی .

 آپ نے کھانا کب سے نہیں کھایا ؟اور کیوں نہیں کھایا ؟
وہ بس وقت نہیں ملا ۔۔۔
کس بات کا؟
کھانا کھانے کا امّاں ؟؟
نہیں وہ گروسری کرنے کا ؟ 

وہ منمنائی
امّاں آپ سارا دن گھر میں ہوتی ہیں کام بھی کوئی خاص نہیں ہے پھر یہ کیا وجہ ہوئی کہ گھر کے سامنے کے سٹور سے گروسری کا وقت نہیں ملا آپ کو؟
ماں نے آنکھیں موند  لیں. 
اماں مجھے پتہ ہے آپ جاگ رہی ہیں مجھے جواب دیں
جانے کہاں سے موٹے موٹے آنسو ماں کی بند آنکھوں کناروں سے باہر لڑھک گے
شاید سب کچھ کہہ گئے
بیٹی نے اپنے منہ پر شدت غم سے نکلتی چیخ کو روکنے کے لیئے ہاتھ رکھ کر پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا
اس کے ذہن میں پچھلے چار دن کی فلم چلنے لگی
آفس لنچ ، گھر  پر دو روز سے ہونے والی دعوتوں اور پھر بہت سا کھانے کا سامان مسجد میں بھی بھیج دیا تھا . 

اور یہاں اس کی ماں چار روز سے بھوکی تھی . 
ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ہم بہن بھائی ساتھ بیٹھ کر ماں سے پوچھتے کہ امّاں آپ کی مالی حالت کیسی ہے .؟
ہم آپ کو مالی طور پر کیسے تحفظ دے سکتے ہیں ؟
یا ہم سب آپ کا جیب خرچ طے کر دیں تاکہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو.
یہ سب بہت آسان تھا ان کے لیئے ، لیکن ماں کی غیرت نے ان سے یہ سب کہنا سننا گوارہ نہ کیا .

ہمیں یہ خیال خود سے ہونا چاہیئے تھا کہ ہماری شہر بھر میں کی جانے والی نیکی میں سب سے بھاری نیکی کو ہم نے قابل اعتناء ہی نہ جانا اور محروم رہے ۔ 
اس نے  فون پر بہن بھائیوں کو فورََا اسپتال  پہنچنے کی تاکید کی اور بہن کو گھر سے کھانا لیکر آنے کی تاکید کی ۔ 
آج وہ ارادہ کر چکی تھی کہ اپنی بہن بھائیوں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر  اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آئند ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہونی چاہئیے کہ ہماری ماں کو کسی بھی چیز کی کمی ہو۔ وہ مانگیں  یا نہ مانگیں, وہ استعمال کریں یا نہ کریں,  وہ لاکھ منع کرتی رہیں، لیکن ایک اچھی رقم  ان کے اکاؤنٹ میں ہر مہینے خود بخود بھیجی جانی چاہیئے۔ وہ بھائیوں کو بھی پابند کرنا چاہ رہی تھی اور آج اس نے اپنی بہن کے ساتھ بھی یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ بھی اور اس کی بہن بھی جنہیں  اللہ تعالی نے، بے حد نواز رکھا تھا،  اسی ماں کے پروان چڑھانے پر، ان کی تعلیم و تربیت پر آج وہ اس قابل تھے کہ اچھے گھروں میں رہتے تھے۔ اچھی جگہ ان کی شادیاں ہوئی تھیں۔ اور زندگی ان پر مہربان تھی، تو اس زندگی کو ان کی ماں پر بھی مہربان ہونا چاہیئے۔ یہ فیصلہ کرتے ہی جیسے اس کے دل میں سکون کی ایک لہر اتر گئی۔ اس نے یہاں تک سوچ لیا اگر باقی بہن بھائی نہ بھی مانیں ۔ بالفرض ان میں سے کسی نے اپنی آنکھیں ماتھے پر بھی رکھ لیں اور بھول گئے کہ یہ ان کی ماں ہے،  تب بھی وہ اپنی ماں کی ذمہ داری خود اٹھائے گی، اور بغیر کسی تردد کے، بغیر کوئی احسان جتائے خاموشی سے اپنی ماں کے اکاؤنٹ میں ہر مہینے اتنا ضرور بھیجے گی کہ اس کی ماں کو کبھی کسی سے، کسی چیز کی حاجت نہ رہے۔
ایمرجنسی وارڈ میں وہ اپنی ماں کے سرہانے کھڑی سوچنے لگی کہ
 ماں اپنے بچوں کی ہر ضرورت بنا کہے جان جاتی ہے اور اولاد اتنی بے خبر کیسے ہو سکتی ہے ۔ 
ایک عمر کے بعد ماں باپ اور اولاد کی جگہ بھی بدل جاتی ہے شاید ۔ پہلے ماں باپ ہمارا خیال رکھتے ہیں اور پھر بچوں کو اپنے ماں باپ کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ 
یہ ہی اس رشتے کا حسن ہے ۔
اس نے بہن کے آنے سے پہلے کینٹین سے سینڈوچ منگوا کے ماں کو دھیرے سے پکارا 
امّاں ۔۔۔۔ آنکھیں کھولیں 
آپ کو میری قسم ۔۔۔۔۔
ماں نے ڈبڈباتی آنکھوں سے نقاہت سےاسے دیکھا  
منہ کھولیں جلدی سے 
اس نے ماں کے منہ میں پیار سے لقمہ رکھا 
اس ایک لقمے کے ماں کے منہ میں جاتے  ہی آج اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اپنے پیاروں سے بے خبری کیوں معاف نہیں ہوتی۔
 اس کی آنکھوں سے دو آنسو گرے اور ماں کے دوپٹے میں جذب ہو گئے ۔ اس نے اللہ کا  شکر ادا کیا کیا کہ بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور اس کے سر پر اسکی ماں کی چھاؤں سلامت تھی ۔
                       ۔۔۔۔۔

پیر، 2 مئی، 2016

سائبر کرائم کے نام پر کالا قانون


سائبر کرائم کے نام پر کالا قانون
ممتازملک. پیرس

ہمارے ملک میں جب بھی حکمرانوں کی گردن پھنسی ہے کہیں تو وہ فورا کسی نئے قانون کی آڑ میں انہیں پھنسانے والوں کے خلاف انتقامی کاروائی کا آغاز کر دیتے ہیں . اس کی نئی مثال.... آج تک سوشل میڈیا کی وجہ سے جو لوگ اغوا ہوئے، قتل ہوئے، لڑکیاں  گھروں سے بھاگیں  یا انہیں ریپ کیا گیا ....یا ڈاکے ڈالے گئے یا دہشت گردوں نے ہزاروں معصوم ذہنوں کو بہکایا، انہیں دہشت گرد اور بمبار بنایا ،یا مذہب کے نام پر دہشت پھیلائی ان سب پر بار بار کے مطالبے کے باوجود نہ تو کوئی قانون سازی ہوئی اور نہ ہی کوئی عملی اقدام کیئے گئے ، کسی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی. لیکن اب ایسا اچانک کیا ہو کہ  حکومت بھگوڑی ہوکر ملک سے غائب ہو گئی ،لیکن ان کے چیلے  اسمبلی میں بیٹھے سائبر کرائم کے نام پر عام آدمی کی آنکھ، کان ، ہاتھ اور زبان کاٹنے کی منصوبہ سازی ، قانون سازی کے نام پر کرتے رہے .
وہ بھی ایسے بھونڈے  انداز میں کہ جس کے بھونڈے پن کو ہم صرف حکومتی اجارہ داری ہی کہہ سکتے ہیں . قارئین آنکھیں اور کان کھولیئے اور پچھلے چند روز میں کیا ایسا ہوا یاد کیجیئے . جی ہاں پاناما لیکس. ..
حکومت پر جب براہ راست ایک خاندان کی ملک سے باہر جمع کی گئی  دولت کے کمانے کے ذرائع پر سوال اٹھایا گیا اور سوشل میڈیا نے اس پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ایک خاندان کو ملک سے فرار ہو کر اس ملک کے لٹیروں کیساتھ مل کر صلاح مشورہ کرنا پڑا کہ کیسے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر سائیڈز پر اجارہ داری قائم کی جائے اور انہیں فیس بک پر ان لٹیروں کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دی جائے  ... تو ان کو سائبر کرائم کا نام بھی یاد آگیا اور اس پر قانون سازی کا ڈرامہ بھی شروع ہو گیا ... لیکن ان بے وقوف مشیروں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ میاں جی
"بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی" 
کیونکہ اس میں جو شقیں شامل کی جارہی ہیں وہ کہیں بھی متوازن اور مکمل نہیں ہیں .اس کی ہر شق  کی زد میں آپ کے گھروں کے افراد ہی سب سے زیادہ جیل جائیں گے کیوں کہ ایک عام آدمی تماشا دیکھنے کو خاموش ہو بھی گیا تو اس کے گھر میں آٹھ افراد میں ایک آدمی اگر یہ سائیڈز اپنی آواز کے لیئے استعمال کرتا ہے تو آپ کے گھر کے تو ایک ایک کے ہاتھ میں  فون اور لیپ ٹاپ موجود ہیں جو کبھی آف نہیں ہوتے . آپ کی مخالف کے منہ پر باندھی گئی پٹی آپ کے حق میں بھی زندہ باد نہیں بول سکے گی. کیونکہ اس سے اگلے گروپ کو بھی اعتراض ہو گا. گویا اعتراض برائے اعتراض اور زباں بندی کی یہ ناکام کوشش عوام کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کی کوئی سوچی سمجھی سازش تو نہیں ہے . فوری طور پر اس قانونی مسودے کو ملکی سلامتی کو خطرے کی گھنٹی  سمجھ کر اس کامطالعہ کیجیئے. جس میں کسی کے ہتھیار دکھانے لوگوں کو ورغلانے  اور اوپر بیان کی گئی پریشانیوں کے لیئے کوئی تجویز ماسوائے (فحش مواد کی تشہیر کے ) شامل ہی نہیں ہے . لہذا اب حکومت کے اس سازشی بل کو بنا.ترمیم کے منظور نہیں ہونے دینا چاہیئے چاہے اس کے لیئے کسی بھی سطح پر جا کر آواز اٹھانی پڑے اٹھائیے . جس سے ہم تمام لکھنے والوں کو بھی سرکاری قصیدہ گو بنانے کی کاروائی کا آغاز ہونے جا رہا ہے . مل کر اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھایئے . سائبر کرائم کا قانون دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی پر ہونا چاہیئے، ملکی سلامتی کے خلاف کاموں پر ضرور ہونا چاہیئے ، نہ کہ حکومت پر تنقید یا" ان کافون کسی نے چھو لیا "یا" ان کا کارٹون کسی نے بنا دیا" یا "ان کی زیادتی پر آواز کسی نے اٹھا دی" ...یہ کیا شرمناک باتیں ہیں . میاں صاحبان آپ کی انہیں شہنشاہ اور بادشاہ بننے کی خواہشات نے اور اکیلے بولنے کے  اور ہر ایک کا اختیار  اپنے ہاتھ میں لینے کے شوق نے پہلے بھی دو بار آپ کو شرمندہ کروا کر اس منصب سے فارغ کروایا  . اب تیسری بار بھی آپ نے ہر روز  ایک نئی کوشش جاری رکھی . کچھ ایماندار لوگوں کی وجہ سے نہ آپ کا یہ  خواب پہلے شرمندہ تعبیر ہوا اور نہ ہی اب ہو گا انشاءاللہ.  سچ بولنے والے کل بھی زندہ تھے ،جب انہیں مصلوب کیا گیا ،انہیں کوڑے لگائے گئے ،ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے، لیکن انہوں نے اپنی زبان ،قلم اور ضمیر نہ کل بیچا تھا نہ آج بیچیں گے . قصیدہ گوئی کا شوق اپنے اچھے کاموں سے پورا کیجیئے نہ کہ ہر بار اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے لاشریک بننے کے کفر میں مبتلا ہو کر خدائی عذاب کو دعوت دیکر...کیونکہ
"زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو"
                     .......................

اتوار، 1 مئی، 2016

صفا و مروہ

صفااورمروہ ایک ماں کی محبت اور سچی تڑپ کی وہ نشانی ہےجو اپنی اولادکو اپنےاللہ کےمقابل بھی تنہا نہیں چھوڑتی.اور اللہ کو یہ ادائےممتا اتنی بھائی کہ قیامت تک کیلیئے اپنے ایمان والوں پر فرض کردیا کہ اسکے گھر میں جب خدا کے قریب ہونے کو جاو تو ایک ماں کو اسی جیسی بیچین دوڑ کیساتھ سلام عقیدت پیش کرو .ورنہ اسکےبنا اللہ نےاپنی ملاقات اور اپنے حج کوبھی نامکمل قراردیدیا.
ممتازملک
پیرس

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/