ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 29 اگست، 2014

پیشہ سیاست/ کالم



پیشہ سیاست
ممتازملک ۔ پیرس

پاکستان کے حالات اس وقت تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہین ۔ جی ہاں آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ جی یہ توع ہ جب سے پیدا ہوئے ہین تب سے ہی سن رہے ہین ۔ لیکن تب یہ حالات ناذک موڑ پہ تھے تو آج فیصلے کی گھڑیوں میں داخل ہو چکے ہیں ۔ 2013 میں علامہ طاہرالقادری صاحب کے دھرنے سے شروع ہونے والا سفر آج ان کی تمام پیشن گوئیوں کو صحیح ثابت کرتا ہوا ایک سال بعد لوگوں کو یہ سوچنے پر آخر مجبور کر ہی گیا کہ ایک عام آدمی جس کے پاس  دولت ( حرام یا حلال جیسی بھی ہو ) کا جادوئی چراغ ہو یا اثر رسوخ کا ڈنڈا تو وہ اپنی تو کیا  جسکی چاہے بھینس کھول سکتا ہے ۔ قانون بھی اسی کے گھر کی لونڈی ہے اور انصاف بھی اسی کے باپ کی جاگیر ہے ۔ 
پاکستان میں سیاست کبھی ایک مقصد نہیں رہا بلکہ جس نے بھی سیاست کی تجارت بنا کر کی ۔
 سچ ہی تو کہا گیا ہے کہ
''میرے وطن میں سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ''
یہ وہ بد نصیب ملک ہے کہ جہاں خانوں ، جاگیر داروں ۔ وڈیروں لٹیروں نے اپنے مزارعوں  کے دائرے کو بڑا کر کے اسے عوام کا نام دیدیا ۔ اور اپنی پنچائیتوں کو ہی اسمبلی کی شکل دے دی ۔  اندر خانے وہی گل خوب کُھل کھیل کر کھلائے گئے جوان کا طرء امتیاز ہمیشہ ہی رہا تھا ۔ دیکھتے دیکھتے 67 سال بیت گئے عوام اور ملک بھکاری ہو گیا خزانے کو اقرباء پروری کا کیڑا لگ گیا اور اس کیڑے کو پالنے والے کل کے کنگلے آج کے نام نہاد اشرافیہ بن گئے ۔  ملک غریب اور ملک کے کرسی برانڈ خادمین امیر ترین ہوتے گئے ۔اب ہماری بیچاری خدا سے دور ، قانون شکن ، وعدہ شکن ، دوسروں کی عزتوں کی دھجیاں اڑا کر خوش ہونے والی عوام ، یتیمون بیواؤں کا حق کھانے کے شوقین عوام ،   تہمتیں لگانا جن کا پسندیدہ مشغلہ ہے، کسی اچھے آدمی کو ووٹ محض یہ سوچ کر نہیں دیتے کہ کہیں انہیں اچھا نہ بننا پڑ جائے ۔ آج جب کوئی ان کے لیئے آواز اٹھانے کے لیئے میدان میں آ بھی جائے تو یہ سوچ کر اسکا ساتھ دینے کے لیئے گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ نہ تو انہیں اپنے نفس پر قابو ہے نہ ہی اپنے کردار پر بھروسہ ۔ یعنی کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ
  '' اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے 
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے ''
لیکن ہم ہیں امید پسند لہذا امید کرتے ہیں کہ اتنی تباہی کے بعد جب ہمارے پاس کھونے کو بھی اب کچھ نہیں رہا تو ہم خدا کا نام لیکر ایک نئی شروعات ضرور کریں گے ۔ اور خود کوخدا کی بتائی ہوئے ہدایت کے مطابق  بدلنے کی کوشش بھی ضرور کرینگے اور آئندہ کے لیئے کسی بھی تاجر کو اپنے ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ نہیں دیں گے کیوں کہ سیاست ایک فل ٹائم جاب ہے اسے اب پارٹ ٹائم دھندا نہیں بننے دیں گے  ۔ بس یہ ہی ایک صورت ہے کہ خدا ہمیں معاف کر دے ۔ اور ہم بھی اپنے تعارف میں کہ آپ کا پیشہ کیا ہے ؟ کسی کو یہ کہنے کہ اجازت نہ دیں ،جی پیشہ سیاست ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جمعہ، 15 اگست، 2014

یادگار لمحات ۔ ممتازملک ۔پیرس



یادگار لمحات
ممتازملک۔ پیرس


13 اگست 2014 کی شام پیرس کی لکھاری خواتین کے لیئے کئی لحاظ سے یادگار لمحات لیئے ہوئے آئی ۔ پہلی خوشی تو یہ تھی کہ گزشتہ سال جس شاہ بانو میر اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی تھی ، وہ جسے دیوانے کا خواب کہا گیا تھا ، جس میں تین خواتین نمایاں تھیں ، ماشااللہ ترقی کرتا ہوا  اپنا ایک سال مکمل کر گیا ۔ اس ایک سال میں جہاں اس اکیڈمی کی سربراہ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کی حوصلہ افزائی میں اس ٹیم میں ہماری لکھاری بہنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ وہیں ان کے کام کو بھی مختلف پلیٹ فارمز پر سامنے آنے کا موقع ملا ۔ کل تک جہاں پیرس میں شاہ بانو میر ، ممتاز ملک اور وقار النساء خالد صاحبہ پاکستانی اور کمیونٹی مسائل پر قلم سنبھالے ہوئے تھیں وہیں آج اس قافلے میں انیلہ احمد ، نگہت سلطانہ سہیل ، اور اسماء ذاکر علی بھی مضبوط سوچ اور تحریر کیساتھ اس کا حصہ بن چکی ہیں ۔ یہ اضافہ اللہ کا وہ کرم ہے کہ جو ما شااللہ ہماری سوچ سے بہت ذیادہ ہے ۔ بیشک اللہ پاک ہر انسان کو اس کی نیت کا پھل ضرور عطا کرتا ہے ۔ کل تک جو لوگ ہمیں تحریروں سے سب کو خوش رکھنے کا مشورہ یہ سوچ کر دیتے تھے کہ چار دن کی زندگی ہے اس میں کیوں سچ لکھ لکھ کر اپنی مخالف پیدا کرتی ہیں ۔ سب کی تعریف کیا کریں تاکہ آپ بھی خوش اور دوسرے بھی خوش ۔ انہیں اللہ پاک نے سال بھر میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ قول عملی شکل میں دکھا دیا کہ '' جو سب سے متفق ہوتا ہے وہ منافق ہوتا ہے '' ہمارہ گروپ کسی کی بھی چاپلوسی نہ کر کے سب کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ 
'' ارادے جن کے پُختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو 
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ''
پیرس میں اردو کا پہلا پرنٹ میگزین  '' در مکنون '' شائع کر کے اس ٹیم نے ایک تاریخی سنگ میل عبورکر لیا ۔ اب اس ٹیم نے اس شمارے کی دوسری اشاعت کی تیاری شروع کر دی ہے ۔ جس میں اب تین نہیں بلکہ چھ خواتین قلمکارانشااللہ  معاشرتی برائیوں سے پردہ اٹھاتی نظر آئیں گی۔ ان خواتین کے نام اور مختصرتعارف ان لوگوں کے لیئے پیش کیا جا رہا ہے جو اسے ایک  فرضی گروپ کا نام دیکر اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ یہ کوئی ایک ہی خاتون نہیں  ہیں جو مختلف ناموں سے لکھ رہی ہیں ۔  بلکہ ہمارے قارئین ان کی تحریروں کا تنوع دیکھ بھی چکے ہیں اور سراہ بھی چکے ہیں ۔ 
شاہ بانو میر
گوجرانوالہ کے ایک صحافی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ انٹر نیٹ پر انکی آٹھ کتابیں اور بیشمار آرٹیکلز اور تجزئے موجود ہیں ۔ پیرس میں اردو کے پہلے پرنٹ میگزین '' در مکنون ''  اور شاہ بانو میر اکیڈمی کی بانی ہیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتازملک
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ بہترین مقرر، نعت خواں اور پروگرامز کی نظامت کرتی ہیں ۔ دو شعری مجموعوں بنام '' مدت ہوئی عورت ہوئے '' اور '' میرے دل کا قلندر بولے '' کی خالق ہیں جبکہ تیسرا مجموعہ لانے کی تیاری میں ہیں ۔ انکے جراتمندانہ کالمزاور بے دھڑک  انداز بیاں انکی شناخت ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقارالنساء خالد
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ درس وتدریس سے کافی عرصہ تک وابستہ رہی ہیں۔ میگزین '' در مکنون '' کی مدیر اعلی ہیں ۔ بہت اچھی افسانہ نویس اور کالم نگار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
انیلہ احمد
لاہور کی رہنے والی ہیں ۔ پاکستان کے مسائل پر خاص نظر رکھنے والی ہمدرد شخصیت ہیں ۔ اپنے کالمز کے ذریعے معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کرتی ہیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگہت سلطانہ سہیل
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ درس وتدریس سے وابستہ رہی ہیں ۔ طنزو مزاح انکا خاص شعبہ ہے ۔ جس کی جھلک انکے کالمز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ ہلکے پھلکے لہجے میں سخت بات کہنے کا ہنر جانتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماءذاکر علی
اسلام آباد کی رہنے والی ہیں ۔ شعبہ تعلیم سے وابستگی رہی ہے ۔ دینی موضوعات پر لکھنا پسند کرتی ہیں ۔ ان کے کالمز میں بھی دینی رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس دن کی کی دوسری خوشی تھی فرانس میں تعینات سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب کی جانب سے شاہ بانو میر صاحبہ کے نام وہ دعوت نامہ جس میں انہیں ہماری ٹیم سمیت 14 اگست 2014 کی تقریب میں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی ۔ بہت بہت شکریہ جناب سفیر پاکستان کیوں کہ فرانس کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی ایمبیسیڈر کی جانب سے کسی جینوئن لکھنے والے اور وہ بھی خاتون کو ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں باقاعدہ دعوت نامہ انکی ٹیم سمیت دیا گیا ہو۔ 14اگست 2014 کو جیسے پاکستانی ایمبیسی میں شاہ بانو میر صاحبہ کی خدبات کو سراہا گیا ۔ اس سے ہماری پوری ٹیم  کو ایک نئی توانائی ملی ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے آئندہ آنے والے ''در مکنون ''کے شمارے کے لیئے ہمیں پاکستانی ایمبیسی کی جانب سے رہنمائی اور معلوماتی تعاون حاصل رہے گی تاکہ ہم پاکستانی حقیقی لکھاری خواتین  دیار غیر میں پاکستانی مسائل سے متعلق آگہی پیدا کر سکیں ۔ اور انکے حل میں اپنی سوچ اور خدمات کی روشنی پہچا سکیں ۔
میرے سامنے جو کتاب ہے وہ بکھر گئی ہے ورق ورق
مجھے اپنے اصل نصاب میں اسے جوڑنا ہے سبق سبق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/