ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 17 جون، 2013

میرے بابا کا گھر جل گیا ہے ۔ مُمؔتاز ملک ۔ پیرس


ہائے !میرے بابا کا گھر جل گیا ہے 
مُمؔتاز ملک ۔ پیرس



ہم بہت برے لوگ ہیں ۔ ہم بہت بے حس لوگ ہیں ، ہم بہت خود غرض لوگ ہیں،  جن کی کھوکھ سے جنم لیتے ہیں انہیں کے آگے زبان چلانے لگتے ہیں ، جن کی گود مین  جھول کر جوان ہوتے ہیں اسی باپ کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں ۔ جن کے کندھوں پر سواریاں کرتے ہیں انہیں کو سڑکوں پر گھسٹنے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں ۔ جن کے منہ کے نوالے کھا کھا کر ہم ہٹے کٹے ہوتے ہیں ان کے بڑھاپے میں ہم انہی کو لاغری میں بے بسی اور بھوک کا تحفہ بھی دیدیتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنی پوشاک نہ خریدی اس میں نیا پیوند لگا لیا ہم نے انہین کے بدن پر چھیتھڑے بھی نہ چھوڑے ۔ اور تو اور جو ہمیں سر چھپانے کے لیئے اپنے ہڈیاں گلا کر چھت بنا کر دیتے ہیں ،  بدن میں زور آتے ہی ہم انہی کو اس گھر سے نکال کر اس گھر کی اینٹوں پر ایک دوسرے کا سر مارنا شرع کر دیتے ہیں ۔ ارے ہم کیسے لوگ ہیں ۔ خدا ہمیں کیسے معاف کرے گا ۔ ہم تو دوسروں کو دنیا میں رشتوں کا محبت کا درس دینے چلے تھے مگر یہاں تو ہم اپنی ہی منزل سے بھٹک گئے۔ لوگ ہم پر ہنسنے لگے ہیں  ۔ کل رات  جب بڑے بڑے بے دین لوگ بھی اپنے باپ کو کوئی نہ کوئی پھول، کیک، مٹھائیاں رقم اور جو ہو سکا پیش کر رہا تھا ہم نے کیا کیا  ؟ پتہ ہے ہم نے کیا کیا ہم نے اپنے اس بوڑھے باپ کو تحفے میں کیا دیا ہم نے اس کے گھر کو آگ لگا دی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ارے ظالمو یہ کیا کیا ۔ ایسا تو جانور بھی نہیں  کرتے ۔ یہ وہی باپ تھا نہ جس نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال اس جدو جہد میں گزار دیئے کہ  سارے بیٹوں کو ایک ملک ایک اپنا گھر دے سکوں جہاں یہ پیا ر اور محبت کیساتھ سکون کی زندگی گزاریں گے ۔  جہاں کوئی انگریز کوئی بنیا انہیں اپنے جوتے چاٹنے پر مجبور نہیں کریگا ۔ کوئی ان کی بہنوں کو بہٹیوں کو ماؤں کو دن دہاڑے اٹھا کر نہیں لیجائے گا ۔ جہاں انہیں نماز پڑھنے لے لیئے آقاؤں سے اجازت نامہ نہین لینا پڑے گا ۔ یہ وہی باباہے نہ جنکی ہڈیاں ٹی بی جیسے موذی مرض نے گُھلا دی تھیں لیکن وہ اپنے سائے سے بھی اس مرض کو پوشیدہ رکھ کر خدا سے یہ دعا کرتا رہا کہ یا خدا میرے ہاتھوں میرے اس گھر کے حُصُول کے خواب کو شرمندء تعبیر ہونے تک مجھے زندہ رکھنا ورنہ میری قوم کے بچے رُل جائیں گے ۔ بیٹیاں بے آبرو کر دی جائیں گی ۔ اور خدا نے اس دُکھی دل کی فریاد کے صدقے میں ہمیں پاکستان نام کا گھر دیدیا ۔ اور بابا نے اس کی بنیادوں میں اینی جان دیدی اور یہ بتا دیا کہ جو لوگ اپنے گھروں کی بنیادوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش نہیں کرتے قدرت انہین اپنے گھر کی آزادی کبھی نصیب نہیں کرتی ۔  مگر ! !!!!!!! یہاؐں کیا ہوا بابا یہ کتنے ظالم لوگ ہیں انہوں نے اپنے بابا کی روح کو بھی تڑپا دیا انہوں نے تو وہ کر دیا جو آج تک کسی فرنگی اور بنیئے نے بھی نہیں کیا تھا ۔ ہم نے اپنے بابا کے گھر کا آگ لگا دی ۔ ہمیں معاف کر دیں بابا ہم نے آپ کے گھر کو سجانا تو دور کی بات اس کی اینٹوں کو بھی راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا ۔ دنیا سچ کہتی ہے ہم قوم نہیں ایک بھٹکا ہوا ریوڑ ہیں ۔ ہم انسان نہیں اپنے اپنے ذاتی مفادات اور وقتی ہوس کے پچاری ہیں ۔ ہماری کوئی ماں بہن نہیں ہیں جن کے لیئے ہم گھروں کی حفاظت کریں ۔ ہماری کوئی آبرو نہیں ہے جسے  بچائے رکھنے کے لیئے ہم اپنے بابا کے گھر کی چھت کو مضبوط کریں ۔ اسے لیئے تو ہم نے اپنے بابا کے گھر کو آگ لگا دی ۔ کسی کا دل کیوںنہ  پھٹا ۔ کسی کی آہوزاری کیوں نہیں سنائی دی ۔ کیا سب اندھے گونگے بہرے ہو گئے ہیں تو سن لو میں رو رہی ہوں ۔میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس گھر کی راکھ اپنے سر میں ڈالوں اور چیخ چیخ کر بین کروں۔ آسمان بھی میرے ساتھ مل کر آنسو بہائے کہ کہ ایک بابا کا گھر میرے بابا کا گھر میرے ہی ماں جائیوں کے ہاتھوں جل گیا راکھ کا ڈھیر بن گیا  ۔ ۔ اپنے بابا کی بیٹی رو رہی ہے شاید بیٹیوں کے مقدر میں رب کعبہ نے کچھ زیادہ ہی آنسو رکھ دیئے ہیں جو کبھی بھائیوں کی بے اعتنائی پر روتی ہیں ، کبھی شویر کی بے وفائی پر روتی ہیں، کبھی بیٹے کی نافرمانی پر روتی ہیں، تو کبھی اپنے باپ کے گھر کو جلتا ہوا دیکھ کرتڑپ جاتی ہیں ۔ بیٹیاں رو رہی ہیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میرے بابا کا گھر  جل گیا بابا میں کیا کروں کاش میرے آنسو تیرے گھر میں لگی آگ بجھا سکیں ۔ کاش یہ آنسو میرے بھائیوں کا دیا ہوا یہ داغ دھو سکیں  کاشششششش !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/