ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 28 جون، 2014

ڈیلی تاریخ کی خواتین ٹیم کی میٹنگ 27 ۔06۔2014



 ڈیلی تاریخ کی خواتین ٹیم کی میٹنگ


گزشتہ  روز 27 جون 2014 بروز جمعہ ڈیلی تاریخ انٹرنیشنل کی وویمن ونگ کی میٹنگ منعقد ہوئی جسکی ۔ صدارت ایڈیٹر محترمہ روحی بانو صاحبہ نے کی ۔ میٹنگ میں ٹیم کے اس ہفتے پیپلز پارٹی  کے پروگرام میں شمولیت اسکے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ۔ اور آئندہ کے لیئے لائحہ عمل تیار کیا گیا ۔ عید کے بعد ڈیلی تاریخ کے تحت ہونے والے پروگرامز کی  تفصیلات اور غرض و غایت پر بات کی ۔ اور حتمی شکل دی ۔ جس کا اعلان چند روز تک کیا جائیگا ۔ روحی بانو صاحبہ نے جوائینٹ ایڈیٹر محترمہ ممتاز ملک صاحبہ اور محترمہ صفیہ خواجہ صاحبہ کی وقت کی پابندی کی خاص تعریف کی اور اس بات پر ذور دیا کہ تمام ساتھیوں کو ان دونوں ساتھیوں سے کچھ سیکھنا چاہیئے ۔ انہوں نے دونوں ساتھیوں کا بطور خاص شکریہ ادا کیا ۔ آخر میں یہ میٹنگ نہایت خوش گوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوششیں اور مقدر پر یقین / ممتازملک ۔ پیرس




کوششیں اور مقدر پر یقین
ممتازملک ۔ پیرس

                                         
                                       

خدا کی حکمتیں بھی نرالی ہیں کسی کی امیدیں تو یوں بر لاتا ہے کہ گویا پھلوں سی لدے پیڑ کی جھکی ہوئی ڈال ہے کوئی اور ہاتھ بڑہائے اور جتنا چاہے لے لے ۔ 
اور کچھ لوگوں کے لیئے ہزار محنتوں کے بعد بھی لگایا ہوا کھجور کا کوئی درخت ہو ۔ جب تک کمزور اور بے پھل رہا لگانے والے کی پہنچ میں رہا  جوں جوں پھل دینے کی امید  کے دن پاس آتے ہیں لگانے والے کی پہنچ سے دور ہوتا جاتا ہے ۔ اب اسکی ہڈیوں کا زور سلامت رہا اور وہ اس درخت کے پھل تک پہنچنے کے لیئے زندہ رہا تو شاید کچھ چکھ بھی لے ورنہ وہ پھل اسکا جو اس تک پہلے پہنچ گیا ۔اسی کو قسمت کہتے ہیں ، مقدر کہتے ہیں ، تقدیر کہتے ہیں ۔ بے رحم تقدیر !
کسی کو دینے کو ترستی ہے اور کسی کو پانے کی چاہ میں ہی مار دیتی ہے ۔ جبھی تو ایک ہی باغ میں کھلنے والے ہر پھول  کا نصیب ایک سا نہیں ہوتا ۔ کوئی پھول سہرے میں گندھتا ہے تو کوئی قبر پر چڑھا دیا جاتا ہے ۔ 
تیل ایک ہی کولہو سے نکلتا ہے ایک ہی کنویں سے نکالا جاتا ہے  کوئی دیئے مینںجا کر اجالا پھیلاتا ہے اور کوئی تیل کسی پر چھڑک کر اسے  زندگی کی قید سے آذاد کر دیتا ہے ۔
 کسی کو قتل کرنے پر بھی پھولوں کا ہار پہنایا جاتا ہے اور کسی کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی پاداش میں موت کی سزا سنا دی جاتی ہے ۔ یعنی کسی کا پسینہ بھی خون اور کسی کا خون بھی پانی ۔
یہ نصیب ہی تو ہے کہ کسی کو جیتے ہوئے بھی چیتھڑے میسر نہیں تو کسی کو پیوند خاک ہو کر بھی ریشم سے ڈھانپا جاتا ہے ۔ 
نصیب سے لڑنے والے بیوقوفوں کی بھی دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے  ۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی لوگوں کو بڑے بڑے پندو نصاح بھی کرتے ہیں لیکن جب اپنے  پہ بات آتی ہے تو وہی انسان چاہے کسی بھی درجے پر ہو اپنے آپ کو زبردستی سب سے اعلی و ارفع بنانے کی احمقانہ کوشش ضرور کریگا ۔ اس سے بڑی کیا بدنصیبی  ہے  اس شخص کے لیئے کہ اسے اپنے ہی اسباق یاد نہیں رہتے اور وہ دل کے کسی گوشے میں اس سوچ کا کفر کر چکا ہوتا ہے کہ جو کچھ کیا ہے وہ میں  نے کیا ہے ۔ خدا کی ذات کی نفی اسے بار بار جھٹکے دے رہی ہوتی ہے لیکن اسے اس بات کا خوف ہی نہیں رہتا کہ وہ کسے چیلنج کر رہا ہے ۔  مقدر کی لکھی خوشی ہو یا دکھ کوئی چاہے یا نہ چاہے اسے اٹھا نے ہی ہیں ۔ کوششیں اچھی ہوتی ہیں اگر جائز حدود کے بیچ رہ کر کی جائیں ۔ کوششیں جرم اور گناہ ہو جاتی ہیں جب کسی اور کی گردن پر پاؤں رکھ کر کی جائیں تو ۔ 

محبوب ہیں وہ اسکے کبھی ان میں جگہ پا 

لاچار سے لوگوں میں نہ یوں خود کو بڑا کر


جو کہ ہیں طلب گارجاہ ہشم انہیں کہہ

ان عاشق دنیا کے نہ تو در پہ پڑا کر


بے مایہ یہ جھنجھٹ ہیں تو بے فیض کلامی

بچنا ہے تو تُو ذہن پہ پہرے کو کڑا کر


ہر چیز اپنی جا پہ ہی اچھی نظر آئے

ہیرے کو کبھی جا کے نہ پیتل میں جڑا کر 


ہاتھوں کو بنا کاسہء نہ آ نکھوں کو سوالی

نہ اپنی خودی کو یوں فقیروں میں کھڑ اکر


ہر ایک کو ہے اپنے اصل پر ہی پلٹنا

دیوار کے لکھے کو شب و روز پڑھا کر


جتنا بھی ہے منظور خدا وہ ہی ملے گا

مُمتاز مقدر کی لڑائی نہ لڑا کر


کلام / مُمتازملک
......................




جمعرات، 26 جون، 2014

حکومت وقت شرم کرے ۔ کالم



حکومت وقت شرم کرے
ممتازملک ۔ پیرس




 کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز شریف اپنی ہی کسی گیم کو مکمل کرنے کے لیئے  دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف پاک فوج کا دھیان وہاں سے ہٹا کر یہاں لگانے کے لیئے پرامن ترین جماعت منہاج القران پر پولیس گردی کے زریعے موڑنا چاہ رہے ہیں ۔ اور یہ پولیس گردی اوپر کے آرڈر کے بغیر کسی بھی قیمت پر ممکن ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان کے خلاف کھلے ثبوت کراچی ائیرپورٹ پر ملنے کے باوجود شریفان کو منہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ جبکہ وہاں ملنے والا اسلحہ بچھی ہوئی لاشوں کی قومیت، ٹائمنگ کیا یہ سب ایک اجمل قصاب جتنی ڈمی کے بھی برابر ثبوت نہیں تھے کہ اس پر سرکاری طور پر ہی نہیں بلکہ جنرل اسمبلی میں جا کر آواذ اٹھائی جانی چاہیئے تھی    ۔ کیا وزیر داخلہ میں اتنی غیرت ہے کہ وہ اس آرٹیکل کے آنے تک استعفی دے چکے ہوں ۔ عورتوں کی عزت کا راگ الاپنے والے جو مشرف کے خلاف لال مسجد کا کیس چلا تے ہیں انہیں کے ہاتھوں منھاج القرآن کے معصوم اراکین جن میں نہتی عورتیں ، نوجوان اور بزرگ شامل ہیں  کو مجبور کیا کہ وہ اپنے تحفظ کے لیئے میدان میں آئیں اور اپنی جانوں کی قربانی پیش کر کے اس بات کا ثبوت دیں کہ  یہ جماعت صرف زبانی جمع خرچ کی جماعت نہیں ہے اسے بات بھی کرنا آتا ہے اور خود کو گولیوں کے لیئے پیش کرنا بھی آتا ہے ۔  حکومت کو اس بات کی مبارک ہو کہ اس نے خود بخود ایک پرامن ترین جماعت کو پاکستان کی فرنٹ لائن جماعت بنا دیا ۔  منھاج القران کو مبارک ہو کہ تبدیلی کے آغاز میں اس کے اراکین کے شہیدوں کا لہو بھی شامل ہو گیا ۔فوج کا دھیان  دہشت گرد جانوروں سے ہٹانے کے یہ عزائم قوم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیگی ۔ آپ کو اپنا لوہا بیچنا ہے یا آلو ، پیاز ، اور چینی اس کے لیئے آپ کو پاکستان کی صدارت اور وزارت سے کھیلنے کا کوئی حق نہیں ہے جایئے جا کر تجارت کریں حکومت کرنے کی آپ کی اوقات ہی نہیں ورنہ آپ تیسری بار بھی وہی کرتوت نہ کرتے جو آپ پہلے بھی دوبار کر کے اپنی حکومت کی معیاد پوری کرنے سے پہلے ہی لات کھا چکے ہیں ۔ کبھی آتے ہی آپ فوج سے پنگا لے لیتے ہیں کبھی  آپ کشکول توڑکے نام پر بھی مانگ مانگ کے غائب ہو جاتے ہیں کبھی معافیاں مانگ کر ملک سے فرار ہو جاتے ہیں ۔   اب پھر دھاندلی سے بنی گورنمنٹ بنانے کے باوجود آپ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے سچ کہا کسی نے کہ کوئی بھی بدل سکتا ہے لیکن نواز شریف کا بدلنا ناممکن ہے ۔ اگر کسی کو خطرہ نہیں ہے تو نواز شریف صاحب سب سے پہلے آپ کو کسی عالم دین کو نشانہ بنا کر غیر محفوظ کرنے کی بجائے اپنے محلات کے راستے سے رکاوٹیں ہٹا کر خود کو شیر ثابت کرنا چاہیئے ۔  نہ کہ کسی کے گھر کے باہر نہتی خواتین کو شہید کر کے اور  نبی پاک پر ہر گھڑی درودسلام کے  مرکز پر دھاوا بول کر فوج کو ملک کے اندر کی جانب دھوکے سے متوجہ کرنے کی گھٹیا ترین  کرتوت کرتے ۔   قوم آپکو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔  آٹھ بیگناہ مردوزن کی موت اور نوے سے زیادہ افراد پر بہیمانہ تشدد  کیا ثابت کرتا ہے کہ یہ حکومت دہشت گردوں سے بھی بڑی دہشت گرد گرد جماعت ہے ۔ جایئے شریف برادران گھر بیٹھ کر پاوے کھائیں حکومت کرنا اور چلانا اور چٹخارے لینا ایک جیسا کام  نہیں ہوتا ۔ اب ایک جعلی ٹیم بنا کر پولیس سٹیشن   پر حملے کی اطلاعات آ رہی ہیں ۔ جسکا الزام منہاج القران پر ڈالنے کی سازش تیار کی جارہی ہے ۔ شرم آنی چاہیئے اس حکومت کو ۔ فوج کو بیوقوف بنانا بند کرو ۔ غیر ملکی ایجنڈے پر عملدرامد بند کرو ۔ ورنہ پاکستانی قوم تمہیں نشان عبرت بنا ڈالے گی ۔ اپنے غنڈے گلو بٹ سے پوچھو کہ یہ غنڈہ گردی کس کے حکم پر کر رہا تھا گاڑیوں کے شیشے کس کے حکم پر توڑ رہا تھا علاقے کی دکانوں کو کس کے حکم پر لوٹا گیا ۔ پولیس کس کے ساتھ مل کر دکانوں کو لوٹتی رہی۔  ایسی حکومتی کارکردگی پر نواز حکومت کو ڈوب مرنا چاہیئے ۔حکومت ایسی ہوتی ہے یا جمہوریت ایسی ہوتی ہے تو لعنت ہے ایسی حکومت پر اور ایسی جمہورت پر ۔۔۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 20 جون، 2014

غنڈہ راج ۔ کالم


غنڈہ راج
ممتازملک۔ پیرس

       

کہتے ہیں کہ جب کسی انسان پر کافی دنوں تک کوئی پریشانی نہ آئے یا اسے کوئی تکلیف نہ ہو  تو یہ جان لینا چاہیئے کہ  خدا اس سے ناراض ہے ۔ اسی طرح جس انسان کو حد سے زیادہ طاقت عطا کر دی جائے اور کافی عرصے تک یہ طاقت اس کے پاس بنا کسی چون و چرا کے رہے تو یقین جانیئے کہ وہ آدمی فرعون بن جاتا ہے ۔ اور بلاشبہ خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے ۔  آپ کہیں گے کہ ہم نے آدمی کیوں کہا انسان کیوں نہیں کہا اس لیئے کہ ایسا کرنے والا انسانیت کے کسی بھی خانے میں فٹ ہی نہیں ہوتا ۔ 
لاہور جیسے شہر میں جہاں لوگ اپنی ماں بہنوں کے لیئے ان کی خوشی کے لیئے اپنے گھروں کو توڑ لیتے ہیں ۔ اس لاہور شہر میں ہم نے یہیں کے باشندے پولیس کے باوردی غنڈوں کے ہاتھوں انہیں باپردہ خواتین  کا  سفید ریش عبادت گزار بزرگوں کا دودہ پیتے بچوں کا حتَی کے ابھی دنیا میں آنے سے بھی پہلے کے بچے کے ساتھ وہ  وہ حال دیکھا کہ مسلمان تو کیا آج تو یہود اور فرنگی بھی شرما گئے ۔ آج تو سن 47 مین سکھوں کے ہاتھوں ہونے والی لٹنے والی بیٹیوں اور بوڑھوں کی روحیں بھی کانپ گئیں ہوں گی ۔ بربریت کی وہ مثال قائم کی گئی کہ یہ سوچ کر ہم شرما گئے کہ ہم بھی اس دیس کے باسی ہیں جس کے علاقے  مین گھنٹوں قاتل اعلی کے پالتو باوردی اور بے وردی غنڈوں نے سکھوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ سوچیئے انا للہ وانا الیہ رجحان پڑھتا ہوا جوان اپنی جوان بہن اور حاملہ بیوی کے وجود کے ٹکڑے سمیٹنے والے کے دل پر کیا گزری ہو گی ۔ اپنا بچہ گود میں اٹھائے کون سی عورت ہوتی ہے جو کسی پولیس والے پر حملہ کرے گی اور اسکی گردن میں اس کے بچے کے جسم میں گولی داغ  دی گئی ۔ ایک عورت کے منہ میں رائفل رکھ کر گولی مارنے والا قاتل اعلی کا کس درجے کا بڑا دلال ہو گا ۔ جو گھر جا کر شراب کی بوتل چڑھا کر  کسی عیاشی کے اڈے پر محو عیش ہو گیا ہو گا ۔  ان پر حملے کرنے والا بدمعاش  اب  پاگل قرار دیکر اسے قاتل اعظم کا  اپنے گھر سے کوئی رشتہ جوڑنے کا پروگرام ہے کیا ؟
 اس شہر کا قاتل اعلی تو پہلے ہی لوگوں کی اولادوں کو پھڑکانے کے لیئے بدنام  تھا ہی ۔ ان کے ذہنی مریض اور خاندانی ذہنی مریض ہونے میں بھی اب ہمیں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔  کیا معاملہ ہے ایسی کون سی وجوہات ہیں کہ انہیں اپنے ریکارڈز کا پیٹ بھرنے کے لیئے ایسے معصوم لوگوں  کو اپنے خون کی پیاس بجھانے کے لیئے اس بربریت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیا یہ کوئی انکی اپنی  آوارہ بیٹیوں بہنوں کے عاشقی معشو قی کے واقعات پر پردہ ڈالنے کے لیئے کوشش  تو نہیں جو انہیں ایسا کرنے پر  مجبور  ہونا پڑتا ہے  ۔ اگر ایسی کوئی بات ہے جبھی  تو آپ تمام ذہنی مریض اپنے گھروں کی ایسی گندی مچھلیوں کو سرکاری خزانے سے  کروڑوں روپے خرچ کر کے انہیں پاکستانی   گندی سیاست  میں اپنی گندی اور بد کردار اولادوں کو  سیاست کا ہیرو اور ہیروئین اور باپردہ باکردار ثابت کے کی کوششیں کرتے  ہیں ۔  ان کے گندگی کے ڈھیروں  پر چوری کے خزانے کا پرفیوم چھڑک دیا جاتا ہے ۔    کب تک یہ خوفناک کھیل کھیلتے کھیتے اپنی توندیں بڑھاتے رہیں گے یہ خونی پنجے کب تک بڑی بڑی پوزیشز کا سہارا لیکر اپنی غلاظتوں کو معصوم عوام پر تھوپتے رہیں گے ۔ 
 بات تو بہت سنتے تھے کہ کیسے  جوانوں کو پولیس جھوٹ میں بھی  گھروں سے ماؤں کی آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لیجاتے ہیں اور کس طرح ان کو ہاتھ پاؤں باندہ کر کسی بھی خاموش مقام پر لیجا کر علاقے میں پولیس مقابلے کا ماحول بنا کر ان معصوم لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ استغفار رررر۔ حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر ہی کہ کوئی انسان اس قدر شقی القلب بھی ہو سکتا ہے ۔ 
 چار دن پہلے تک جن لوگوں کی منتیں کر کر کے  ووٹ مانگنے والا منگتا آج اپنے غنڈوں کو شہر میں قانون کی وردی پہنا کر مولاجٹ کی سر عام شوٹنگ کرتا ہے اور خود صبح مدہوشی کی حالت میں کیمرے پر بیان دیتا ہے کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ یہ سب کب ہوا ۔ ارے قاتل اعظم یہ تو  جان کے خاموش رہنے سے بھی بڑا جرم ہے کہ چار کوس کی دوری پر بیٹھے ہوئے ڈرامہ باز کو شہر میں ہوتے ہوئے قتل عام کا پتہ ہی نہیں چلا ۔  کیا ہم امید کریں کہ قاتل اعظم خود اپنے آپ کو اللہ اور قانون کی سزا کے لیئے پیش کردیں گے ۔ پہلے بھی آپ کے نامی گرامی جھوٹوں پر آپ کو کئی نام دیئے جا چکے ہیں ۔ لیکن آج کے اس ہفتے کے آپ کے ایکشن سے بھرپور غنڈہ راج ہفتے نے آپ کو پاکستان کا ہی نہیں دنیا بھر کا قاتل  اعظم قرار دیدیا ہے ۔ ہم انتظار کریں گے کہ اپنے خاندانی پاگل پن کے دورے میں آپ اپنے ہی خاندان کو کب چُن چُن کر ماریں گے ۔ ان کی لاشیں کب سڑکوں پر گھسیٹیں گے ۔  کیوں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ایسا ہو گا اور ضرور ہو گا کسی اور کے ہاتھو ں نہیں خود آپ کے اپنے معصوم لوگوں کے خون میں سنے ہاتھوں ہی ہو گا ۔ ہر شہید اور اس کا خاندان  آپ کی پکڑ میں دامن پھیلا خدا کے حضور  آپ کی سزا کا طلبگا ر ہے اور خدا کا وعدہ ہے کہ جو اس سے امید لگاتے ہیں وہ انہیں کبھی مایوس نہیں کرتا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 14 جون، 2014

میلہ بے شرمی




 میلہ بے شرمی
ممتازملک۔ پیرس

 لیجیئے  14 فروری کے آتے ہی دوسروں کی ماں بہنوں پر رال ٹپکانے والوں کو اوقات دکھانے کا ایک خاص موقع ہاتھ آ جاتا ہے ۔ بازاری قسم کی سوچ رکھنے والے اپنی بیوی کے سوا سارے جہاں کی خواتین میں عاشقی بانٹنا شروع کر دیتے ہیں ۔ بد شکل سے بد شکل خاتون کے ساتھ بھی  لو یو کا واہیات ڈرامہ  ۔ جبکہ اپنے گھر میں بیٹھی حُور جیسی بیوی بھی جناب کے ناک کے نیچے سے نہیں نکلتی ۔ ہاں اگر ان سے انہیں کی بہنوں کے ویلنٹائین کا حال پوچھ لیا تو گویا ان کی دم پر کسی نے گرم چمٹا ہی نہیں رکھ دیا ۔ اٹھ کھڑے ہوں گے غیرت کی دہائی دینے، لوگوں کا سر پھاڑنے  ۔ اور اگر ان کی امّاں کے ویلنٹائن کہیں گنوا دیئے تو جناب آپ کی شہادت ان کی غیرت مندی کے ہاتھوں پکی ہے ۔ 
ہماری غیرت کے انہیں منافقانہ معیارات نے نہ صرف اپنے معاشرے میں بلکہ ساری دنیا میں ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ جو شخص کسی دوسرے کے گھر کی عورت کی عزت نہیں کرتا وہ کس منہ سے اپنی بہن کو بے حیائی سے روک سکتا ہے ۔خود تو کوئی لڑکا بہن کی سہیلی سے عشق لڑائے ، بلکہ اس کے ساتھ ڈیٹ مارنے کے لیئے بھی اپنی بہن کو ہی استعمال کرے جب اسی بہن کے لیئے اپنے ہی کسی دوست کا رشتہ آ جائے  تو کبھی دوست کو مار ڈالے اور کبھی بہن کو قتل کردے ۔ بلّے بلّے ہے اس نا مکمل غیرت مندی کے بھی ۔ سچ ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی بنائی ہوئی حدود کو توڑتا ہے تو خدائے پاک کا کچھ نہیں جاتا ہاں انسان اپنی ہی تباہی کے لیئے ضرور کمر بستہ ہو جاتا ہے ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ آدھا سچ پورےجھوٹ  سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آدھی غیرت مندی پوری بےغیرتی سے بھی زیادہ بربادی لاتی ہے تھوڑے تھوڑے ماڈرن ہونے کے چکر میں  نہ تو ہم تیتر رہے ہیں نہ ہی بٹیر بن سکے بلکہ کوئی عجیب سی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔  مرد اور عورت کے بیچ کا کوئی رشتہ شرع کی حدود میں رہتا ہے تو نہ صرف خدا کی رحمتوں کے سائے میں ہوتا ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے  ۔ پہلے ہم رشتوں میں جیتے تھے تو محفوط تھے ۔ مطمئن تھے جسے چاچا جی کہہ دیا وہ تاعمر ہمیں چاچا جی کی نظر سے ہی دیکھتا رہا ۔ جسے ایک  بار بھائی کہہ دیا وہ تاعمر سگے بھائیوں سے بھی زیادہ بھائی بن کے رہا ۔ لیکن آج ؟ آج ہم جسموں میں زندہ ہیں ۔ اسی لیئے بے سکون بھی ہیں اور بےعزت بھی ۔ آج ہر ایک دوسرے کو مرد بن کے دیکھتا ہے یا عورت بنا کر سوچتا ہے ۔ اسی سوچ نے ہمارے کردار کی پاکیزگی کو بھی مشکوک  کر کے رکھ دیا ہے ۔  اپنے اصل رشتوں کو جو احترام دیا جانا چاہیئے وہ تو ہم نے دینا ضروری سمجھا ہی نہیں ۔ لیکن جن سے ہمارا کوئی رشتہ ہے ہی نہیں ،ان کے لیئے ہمارے جذبات سنبھالے ہی نہیں جاتے اور چھلک چھلک پڑتے ہیں ۔ اگر ہمیں اتنا ہی شوق ہے کہ ہم ان اُدھار کے مواقعوں کو منائیں تو انہیں اپنے حقیقی رشتوں کے ساتھ منا کر خوش ہوں۔ اپنی بیگمات کو ہی ایسے موقعہ پر کوئی تحفہ دیکر اپنے اس رشتے میں محبت اور حسن پیدا کریں ،پائیداری لائیں اور اپنی کمائی کو اچھی جگہ صرف کریں ۔ ایسا کوئی بھی کام جو آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی حدود سے دود کر رہا ہے  ،کرنے سے پہلے یہ سوچ لیجیئے کہ کہیں ایسا ہی کوئی لاوا آپ کے اپنے ہی گھر میں تو نہیں پک رہا ۔ دوسروں کو ہرے باغ دکھانے سے کہیں اچھا نہیں کہ ہم اپنے گھروں کو آباد رکھیں اور اپنے رشتوں کی عزت کریں کیوں کہ رہنا تو بلآخر ہم نے انہیں کے ساتھ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کوئی جا کے ماں لے آئے ۔ کالم



کوئی جا کے ماں لے آئے 
(ممتازملک۔ پیرس)


 لالہ لالہ لوری دودہ کی کٹوری 
دودھ میں پتاشہ منّا کرے تماشا 

جانے کب وہ مُنّا بڑا ہو جاتا ہے اس کی رگوں میں خون کی تیزی ماں کی آنکھوں میں ایک عجیب فخریہ چمک پیدا کر دیتی ہے ۔ اسے ایک نئی توانائی عطا کر دیتی ہے ۔ پھر اس منّے کو دنیا سے محبت ہوجاتی ہے ۔ وہ دنیا دار ہو جاتا ہے اسے ماں کی روک ٹوک چُبھنے لگتی ہے ۔ اسے ماں کی نصحتیں بیزار کر دیتی ہیں وہ سوچنے لگتا کہ کیا مصیبت ہے اس بڑھیا سے جان کیوں نہیں چھوٹتی ہر وقت نصیحتوں کی پٹاری کھولے بیٹھی رہتی ہے ۔ کیوں میرے عیش کے راستے میں حائل ہوتی ہے ۔ اس وقت پر تو ایسے بدنصیب یہ بھی سوچنے لگتے ہیں کہ یہ مر کیوں نہیں جاتی۔ اب میں جوان ہو چکا ہوں ماں کو باپ کو اب اس دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے ۔ کئی لوگ میری بات سے اختلاف اس لیئے کرینگے کہ انہیں ایسا دیکھنے یا کرنے کا اتفاق نہیں ہوا ہو گا، یا پھر ان میں اتنا اخلاقی حوصلہ نہیں ہو گا کہ وہ ایسے دور سے گزرنے  کے بعد اسے قبول کر سکیں ۔ لیکن کیا کریں ہزار بار برا لگنے کے باوجود وہ کون سے لوگ ہیں جن کی ماں آنکھیں پونچھ پونچھ کر راستہ دیکھ دیکھ کر اندھی ہو جاتی ہیں ۔ وہ کن کی مائیں ہیں جو سارا سال دو جوڑوں میں گزار دیتی ہیں باوجود کہ اسکا بیٹا بہترین کمائی کر رہا ہے۔ اس کی بہو ہزاروں روپے  کے ایک ایک جوڑے میں نظر آتی ہے ۔ وہ کن کی مائیں ہیں جو سٹیشن کے پلوں پر دوپٹہ پھیلائے ویران  آنکھیں لیئے دو روٹی کے لیئے ایک ایک سکّہ مانگ رہی ہوتی ہیں وہ کس کی ماں ہوتی ہے  جو اپنے بچے کو سوکھے پہ سلا کر خود گیلے پر سوتی رہی لیکن جب اسے ضرورت پڑی تواس کے پاس سرد راتوں میں پہننے کو گرم کپڑے نہیں ہوتے ۔ وہ کس کی ماں ہوتی ہے جسکے پاس لکھ پتی بیٹا تو ہے مگر دوائی کے پیسے نہیں ہیں وہ کس کی ماں ہے جسکو گھر میں امیر بیٹا اپنی بیوی کے عشق میں  شرمندگی محسوس کرتے ہوئے مہمانوں سے نوکرانی کہہ کے متارف کرواتا ہے ۔ وہ کون سی ماں ہے جسے بیٹے کو اپنی کوئی بنیادی  ضرورت کی بات بتانے کے لیئے بھی کتنے دنوں تک سوچنا پڑتا ہے اور اسکے موڈ کو دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ وہ کون سی ماں ہے جسکا بیٹا اس کے جعلی انگوٹھے لگوا کے  یا دھوکے سے بیان دلوا کر اس کے چھت بھی اپنے قبضے میں کر لیتا ہے، وہ کون سی ماں ہے جس کا بیٹا راتوں رات اسکا گھر بیچ کر پیسے جیب میں ڈال کر فرار ہوجاتا ہے اور ماں اگلے دن کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ہوتی ہے ۔ وہ کیسی ماں ہوتی ہے جسکا بیٹا اسے اسی کی بےخبری میں کسی بیرون ملک رہنے والے کے ہاتھوں ایک  نوکرانی کے طور پہ بیچ کر پیسے کھرے کر لیتا ہے ، وہ کون سے ماں ہے جس کا بیٹا ہی اپنی ماں پر غلیظ ترین الزامات لگا کر اسے بہتان تراشی کی زمیں میں جیتے جی گاڑھ دیتا ہے ۔ اور وہ کون سی ماں ہوتی ہے جس کا بیٹا اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیئے کبھی اپنے باپ سے پٹواتا ہے اور کبھی خود اس کی چٹیا پکڑ کر اس کے منہ پر تمانچے مارتا ہے ۔ جو خود تو اےسی میں پڑا ہے اور ماں ایک ننگی چارپائی پر سٹور روم میں ٹوٹے فرنیچر کا حصّہ بنی ہاتھ سے پنکھا جھل رہی ہوتی ہے کیوں کہ بجلی کا بل بہت آتا ہے ۔ بیوی چولہے پر روٹی بنا کر کیوں کالی ہو۔ ماں کو کسے خوش کرنا اس عمر میں، کہ روٹی نہیں بنا سکتی ۔ یہ تو اس ماں کا فرض ہے کہ بہو دن بارہ بجے سو کر اٹھے تو سارا گھر ماں نام کی اس نوکرانی کو صاف کر چکا ہونا چاہیئے۔ کھانا پک چکا ہو اور بہو کی پلیٹ میں گرم گرم کھانا اس کی انگڑائی ٹوٹنے سے پہلے موجود ہونا چاہیئے ۔ آخر کو یہ کم احسان ہے کہ اسے گھر میں پناہ دے رکھی ہے۔ دونوں وقت کھانے کو ملتا ہے ۔ اللہ اکبر ۔ جس ماں نے اپنی کوکھ کی پوٹلی میں اسے نو ماہ رکھا ۔ موت سے لڑ کر اسے اس درد سے گزر کر پیدا کیا کہ جس سے بڑا کوئی درد نہیں ہو سکتا ۔اپنی بھوک کاٹ کراسےرزق دیا ۔ انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھایا ۔ بابابا سے باتیں کرنا سکھائیں ۔ راتوں کو اس کی پرسکون نیند کے لیئےجاگ جاگ کر اپنے پپوٹے سُجا لیئے ۔ اس کی تعلیم اور اس کے سر کی چھت کے لیئے اپنے گہنے بیچ دیئے ۔ کہ میرا بیٹا ہی میرا زیور گہنا سب کچھ ہے ۔ اپنے پیروں کی چپل سے پہلے بیٹے کے بوٹ خریدے ۔ اپنے جوڑے کے پیسے کاٹ کر اسے بہترین کپڑا پہنانے کی کوشش کی اور اس کا قد نکالنے کے لیئے اپنی ہڈیاں گھسا کر اپنا قد چھوٹا کر لیا ۔  اس لیئے کہ اب مجھے اس کی بیوی کی خدمت کرنی ہے ۔اس کے بچوں کی آیا گیری کرنی ہے ۔ اس کے بڑے گھر کی چوکیداری کرنی ہے ، وہ لڑکیاں بھی جو آج یہ سب پڑھ رہی ہوں غور کر لیں کہیں آنے والے وقت میں یہ سب ان کے ساتھ بھی تو ہونے نہیں جا رہا۔ جوانی کی دوڑ میں یہ سب کچھ ناممکن لگتا ہے ۔ لیکن 35 سال کی عمر کا پڑاؤ پار کرتے ہی یہ ذور جب ٹوٹنے لگتا ہے اور جوش پر ہوش غالب آنے لگتا ہے تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے ۔ کہیں یہ ہی مقام ہمارا دُلارا ہمارے لیئے بھی تو نہیں ڈھونڈنے کی تگ و دو میں ۔  خدا نہ کرے ۔ کہ آپ بھی ان ماؤں میں سے ہوں۔ تو یاد رکھیں آج سے ابھی سے اپنے بیٹوں کو اچھا انسان بننے کی تربیت دینا شروع کر دیں آج جو سبق ہم اسے دوسرے سے پیش آنے کے لیئے پڑھا رہے ہیں۔ وہی سبق باہر والوں کے ساتھ اگر  وہ مہینے میں ایک بار دہرائے گا تو اپنی ہی ماں کے ساتھ دن میں دس بار دہرائے گا ۔ لہذااسے آج ہی سے اپنی ماں ہی نہیں دوسروں کی ماؤں کی بھی بلکہ ہر عورت کی عزت کرنا سکھائیں کہ جس نے عورت کی عزت کرنا سیکھ لی ۔ یقین جانیں نہ وہ کبھی بھٹکے گا نہ کسی کا حق مارے گا نہ ہی کل کو آُپ کو کسی ایدھی ٹرسٹ یا اولڈ ایچ ہوم میں بیٹوں کی راہیں دیکھ کر صبح سے شام کرنا ہو گی ۔ نہ ہی کسی کو خدائی عذاب میں گھر کر یہ کہنا پڑیگا کہ کہ کوئی جا کے ماں لے آئے کہ میں اس کے پاؤن کے تلؤں سے اپنی آنکھیں رگڑ سکوں ۔ اس کے پھٹے دُوپٹے میں منہ دیکر رو سکوں ۔ یاد رکھیں جنت کا سودا دیکھ کر نہیں کیا جاتا۔ یہ سودے بن دیکھے کیئے جاتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ماں کیسی ہے میٹھا بولتی ہے یا کڑوا اہم نہیں ہے۔ اس کا ہونا اہم ہے کیوں کہ یہ ہوتی ہی سراپا دعا ہے ،  مرد اور عورت دونوں ہی اپنی بھی اور ایک دوسرے کی ماں کااحترام بھی  یہ سوچ کر کریں کہ یہ محبت خدا کی جانب سے فرض کی گئی تو اس کا اجر بھی وہی دیگا ۔ اسی میں خدا نے اپنا آپ چُھپا رکھا ہے ۔ اسکے لہجے کی سختی کی بجائے اسکے وجود کی رحمت پر نظر رکھیں ۔ اس کے سامنے اپنی آواز نیچی اور لہجہ نرم رکھیں ۔ اس کی ضرورتوں کو بغیر کہے پورا کرنے کو سعادت جانیں اسکی زیادتی پر خاموشی اختیار کریں ۔ اس کے غصے پر صبر کریں ۔ پہلے ماں بچے کو پالتی ہے لیکن اب آپ کو اپنی ماں کو اپنا لاڈلا ضدی بچہ سمجھ کر پالنا ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اپنا بچہ کبھی برا نہیں لگتا نہ ہی اپنا بچہ کسی پر بوجھ ہوتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچیئے سوچیئے ؟


 سوچیئے سوچیئے ؟
ممتازملک۔ پیرس


پاکستانیوں کی سب سے بڑی بد نصیبی یہ رہی ہے کہ اول تو یہ ووٹ کرتے وقت اپنی عقل کو استعمال کرنے کی تکلیف کرنے کی بجائے اپنی مالکوں ۔، سرداروں ، چودھدریوں جاگیرداروں کی عقل سلیم پر اعتبار کرنا پسند فرماتے ہیں اور جب جیتنے کے بعد یہ ہی لوگ  اپنے مطلب نکالنے کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور حکومتیں انہیں بھگو بھگو کر مارنا شروع کرتی ہیں تو انہیں ہوش آتا ہے ۔ لیکن کہتے ہیں کہ
 اب پچھتاوے کیا ہووت 
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت 
 اب کی بار بھی جب کہا گیا کہ سیاست نہیں ریاست بچاؤ، الیکش دو چار ماۃ ڈیلے بھی ہو گئے تو کوئی بات نہیں، ایمانداراورشفاف تو ہونگے ،تو کئی ناعاقبت اندیشوں نے کہیں اس بیان کا مذاق اڑایا، تو کئی لوگوں نے ذاتی مفادات کی آڑ میں علامہ صاحب کی شان میں گستاخیوں سے بھی پر ہیز نہیں کیا ۔ 
اب بھی کچھ ایسا ہی نظارہ پیش ہوتا نظر آ رہا ہے  لیکن یاد رکھیں ملک اس وقت جس اندرونی اور بیرینی انتشارمیں گھراہوا ہے۔ یہ ملک اس بات کا بلکل متحمّل نہیں ہو سکتا کہ اس کے ساتھ کوئی سیاسی مذاق کیا جا سکے ۔ پاکستان کے دشمن ہر محاذ پر پنجے تیز کیئے وار کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ ایک صحافی پر ہونے والے حملے اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی سے یہ معاملہ ایک خطرناک شکل اختیار  کرتا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف تحریک انصاف جو کہ پہلے ہی ایک صوبے میں اپنا انتظامی ڈھانچہ بنانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسے مذید صوبوں پر حکومت کرنے کا شوق چرارہا ہے ۔ جناب عالی پہلے اس ایک صوبے میں تواس قابل کام کر کے دکھائیں کہ باقی ساراملک بھی آپ کو اپنے ہاں کام کرنے کا خود موقع دے ۔ ایک سال میں آپ نے وہ کون سا کمال کر دیا ہے کہ اب آپ باقی ملک پر حکومت کے قابل ہو گئے ہیں ۔ پچھلی حکومت نے پانچ سال عیش کرتے کرتے گزارے اور آخری مہینے بلکہ آخری ایّام حکومت میں فیتے اور ربن کاٹتی نظر آئی اور عوام بھی گھوڑے گدھے بیچے سوتے رہے۔ ملک سے آٹا غائب ، چینی غائب روزگار غائب ، تحفظ غائب اورعوام صمُُّ بُکمُُ  کی عملی تفسیر بنی رہی ۔ جب کہ مُسلم لیگ نون کی حکومت آئ تو بہت سارے الزامات کے سائے میں اور ایک سال تک انہیں سارا پھیلا ہوا کچرا سمیٹنے میں لگ گیا ۔ اب جب کہ ملک بھر میں نئے ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان شروع ہو چکا ہے۔ تھرمل بجلی پراجیکٹ ، ڈیمز کی منظوری ، پاور پلانٹس کی ابتداء ، سڑکوں کی تعمیر اور بھی درجنوں منصوبے جنکا آغاز کیا جا چکا ہے ۔ ان سب کو مکمّل کرنے کے لیئے کم از کم بھی دو سال مزید دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت الیکشن کی ہانک لگانے والے کیا یہ بتانا پسندکرینگے کہ ان انتخابات میں خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں سے آئینگے ۔ ایک سال میں وہ کون سی گیدڑ سنگی ان کے ہاتھ آ گئی ہے جو ملک کے سارے مسائل کو تو راتوں رات حل کر دے گی لیکن جس صوبے کی حکومتیں ان لوگوں کو  ملی ہیں ۔ ان میں ایسا  کوئی کمال کیوں نہیں دکھایا گیا ۔
 سوچیئے سوچیئے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مٹھائی کا ڈبہ یا ذہر کی بوتل/ ممتازملک ۔ پیرس



مٹھائی  کا ڈبہ یا ذہر کی بوتل
ممتازملک ۔ پیرس


گھروں کی ہیئت جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے ۔ اس سے کہیں ذیادہ تیزی سےہماری  سوچ بدل رہی ہے ہمارا پہناوہ بدل رہا ہے ۔ ہماری عزت اور بے عزتی کا معیار بدل رہا ہے ۔ گویا ایک حدیث پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کا مفہوم تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے اور دِکھنے بھی لگا ہے کہ
'' ایک وقت آئے گا جب لوگ کسی کی عزت اس کے کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لیئے کریں گے ۔ دولت کو شرافت کا پیمانہ بنایا جائے گا ۔ چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے حاصل کی گئی ہو ۔   عورت مرد کی کمزوری بن جائیگی'' ۔ 
آج کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہر بات واضح  ہو گئی ہے۔  کیا ایسا نہیں ہو رہا  ؟ جب کہ ہر ہر رشتے میں غرض کا کیڑا لگ چکا ہے ۔ اور تو اور شادی اور طلاق ہی کو لے لیں  ایک کھیل بنا لیا گیا ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام ہی ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ نہیں کروا رہا، یہ ہماری ہی تربیت اورپرورش ہے جو ہمیں یہ دن دِکھا رہی ہے ۔ کسی بھی عمارت کی بنیاد میں ریت بھرکراس پر عمارت کبھی تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔ ہم کیا کر رہے ہیں اپنی نسلوں کی تربیت پرغور کریں تو کل تک جو کچھ دشمن کسی کی اولاد کے لیئے برا کرنے کا نہیں سوچتا تھا اس سے بھی ذیادہ  برا ہم خود اپنی اولاد کے ساتھ کر رہے ہیں ۔                                                  
آج شادی جیسا پیارہ اور مقدس بندھن ایک ٹائم پاس یا کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس میں آج کی تعلیم کا پروردہ مردوزن اسے ایک سوشل کنٹریکٹ کہہ کر اپنی اپنی ذمّہ داریوں سے بری الذَِمّہ ہونے کو ہے ۔ آج کی بیٹی اپنی ہی ماں سے یہ سیکھ کر جا رہی ہے۔ کہ "کوئی ایک بات کرے تو تم آگے سے اسے دس سنا کر آؤ ۔ کوئی تمہارے ایک گناہ کو پکڑے تو اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس پر آگے سے اتنا بڑا الزام لگا دو کہ اگلا دانتوں میں اپنی انگلیاں داب کر رہ جائے ۔ جہاں دیکھو کہ بات ماننے سے تمہارے پھنسنے کا ڈر ہے تو فورَََا اس بات سے مُکر جاؤ چاہے اس کے لیئے تمہیں کسی کی بھی جھوٹی قسم کھانا پڑے بس اپنی جان بچاؤ ۔                                                                                              
شادی سے پہلے  ہر ایک  کے سامنے خود کو گونگا بہرا  ظاہر کرو ۔ اور ہاں جی ہاں جی کام نیک پروین ڈرامہ کرو ۔ لیکن جیسے ہی لڑکا قابو میں آتا نظر آئے تو سب سے پہلے شادی کی شاپنگ کے نام پر اس کی کمائی پر ڈاکہ ڈالو۔ پھر شادی کے اگلے دن ہی اسکی ماں کا سامان باندھنے کی مہم کا آغاز کر دو ۔ اگر لڑکا غیرت مند ہے تو ڈوز ڈبل اور تھوڑا لمبا عرصہ دینا ہو گی ۔ اور اگر لڑکا تمہاری خوش نصیبی سے گھامڑ نکل آیا تو چار دن کی ہلکی سی ڈوز بھی مکمل کام دکھائے گی ۔ پہلے تو سُسَرکی کمائی آرہی ہے تو خدمت گزاری کا کبھی کبھی ڈھونگ کرتی رہو ۔ جب دیکھو کہ امّاں باوا کے نام کوئی پراپرٹی، روپیہ  ، گہنا نہیں رہا تو انہیں ہری جھنڈی دکھانے میں زرا دیر نہ کرو  ۔ آخر کو تم نے انکا ٹھیکہ تھوڑا ہی اٹھا رکھا ہے ۔ انکا کام تھا پیدا کرنا ، پالنا پوسنا ، اسے کسی قابل بنانا ، بس یہ ہی انجوائمنٹ کافی تھی ان کے لیئے ۔  اب آخر تمہیں بھی کچھ پرائیویسی چاہیئے ۔ اب ماں باپ کا اور خاص طور پر ماں کا کیا کام  کہ بیٹے کے گھر پر ڈیرا ڈالے پڑی رہے ۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم نے ابّا کا ذکر نہیں کیا ۔ تو آخر گھر کا سودا سلف لانے کے لیئے بھی کوئی ہونا چاہیئے  ۔ ہاں امّاں بھی اگر گھر کے کام اور بچہ پالنے کو تیار ہیں تو دو چار سال تک انہیں جھیلا جا سکتا ہے ۔ آجکل آیاؤں کے بھی بہت نخرے ہیں ناں ۔  اور پھر دنیا کا منہ بھی بند رہے گا ۔ تمہارا بچہ خود کھانے ، پہننے ، نہانے لائق ہو جائے تو یا یہ کنگال یا بیمار ہو جائیں تو دوسری بار سوچنے سے بھی پہلے انہیں گھر سے رخصت کر دو ۔                                                 
 اب جو بیٹی اتنے سارے زہریلے سبق جہیز میں  لیکر ماں کے گھر سے رخصت ہو رہی ہے  ۔ اسکی ماں کو ایک اور کام بھی ضرور کرنا چاہیئے۔ کہ جب اسکی بیٹی کے ہاںجیسے ہی  بیٹا پیدا ہو تو اس کے لیئے مبارک میں مٹھائی کا ڈبہ نہیں  بلکہ زہر کی ایک چھوٹی سی بوتل لیکر جائیں ۔  کیوں کہ کل اس بیٹے نے بھی اپنی زندگی شروع کرنی ہے اسے بھی پرائیویسی چاہیئے ہو گی ۔ اب آپ کی بیٹی کی جگہ کسی اور کی بیٹی آگئی ۔ تو یہ زہر کی بوتل ہی ہو گی جو آپ کو آپ کے پیارے بیٹے سے دنیا میں جدا ہونے سے بچائے گی ۔ کیا خیال ہے ماؤںکا ؟                  
آپ اپنی بیٹیوں کو اسکے بیٹے کی پیدائش پر کیا دینا پسند کرینگی ؟ مٹھائی کا ڈبہ یا زہر کی بوتل ۔ فیصلہ آپکااور سو فیصد مُہر وقت کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
  

پیر، 9 جون، 2014

دجال سے بچاؤ سورہ کہف


دجال سے بچاؤ سورہ کہف _____ اور دجال کتنے تک دنیا میں رہے گا

نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا:
’’ اگر وہ ظاہر ہوا اور میں تم میں موجود رہا تو تمہارے بجائے میں اس سے جھگڑوں گا، اور اگر وہ ظاہر ہوا اور میں تم میں نہیں رہا تو آدمی خود اس سے نپٹے گا، اور اللہ ہی ہر مسلمان کے لئے میرا خلیفہ ہے،
پس تم میں سے جو اس کو پائے تو اس پر سورہ ٔ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے کیونکہ یہ تمہیں اس کے فتنے سے بچائیں گی‘‘۔

ہم نے عرض کیا: وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ چالیس دن تک، اس کا ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا، اور ایک دن ایک مہینہ کے، اور ایک دن ایک ہفتہ کے، اور باقی دن تمہارے اور دنوں کی طرح ہوں گے‘‘۔

تو ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول ! جو دن ایک سال کے برابر ہوگا ،کیا اس میں ایک دن اور رات کی صلاۃ ہمارے لئے کافی ہوں گی ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں، تم اس دن اندازہ کرلینا، اور اسی حساب سے صلاۃپڑھنا، پھر عیسی بن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے، اور اسے (یعنی دجال کو) باب لُدّ ۱؎کے پاس پائیں گے اور وہیں اسے قتل کردیں گے‘‘۔

وضاحت ۱؎ : بیت المقدس کے پاس ایک شہر کا نام ہے۔

* تخريج: م/الفتن ۲۰ (۲۹۳۷)، ت/الفتن ۵۹ (۲۲۴۰)، ق/ الفتن (۴۰۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۱)، وقد أخرجہ: حم ( ۴/۱۸۱، ۱۸۲) (صحیح)

جمعہ، 6 جون، 2014

خدا کراچی کی حفاظت فرمائے۔ کالم



خدا کراچی کی حفاظت فرمائے
(ممتازملک۔ پیرس)



زمانہ ہی ہو گیا ہے جب ہم کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا کرتے تھے یا سنا کرتے تھے ۔ اور بڑی خواہش ہوا کرتی تھی کہ ہم بھی کراچی گھوم کر آئیں لیکن خدا کی مار ہو اس سیاست کی ہوس گیری پر ،کہ اب نہ اس کے ہاتھوں کراچی کا حسن رہا، نہ دلکشی رہی ،نہ تحفظ رہا ۔ ایک ڈکٹیٹر نے آکر ایک آدمی کو اپنے ایجنٹ کے طور پر چنا اسے قتل عام کی تربیت دیکر اسے ایک جان لیوا جراثیم کی طرح پاکستان کے دل کراچی پر چپکا دیا ۔  کیوں کہ عالمی طاقتوں کا یہ ایجنٹ اچھے سے جانتا تھا کہ پاکستان ایک جسم ہے تو کراچی اس کا دھڑکتا ہوا اسے تازہ خون کی سپلائی بروقت کرنے والا دل ہے جو بجا طور پر منی پاکستان کہا ہی نہیں مانا بھی جاتا تھا ۔ کیوں کہ ہم نے اپنے بچپن میں ایسے کئی لوگ دیکھے جن کی یاوری قسمت نے کہیں نہیں کی تو انہیں کراچی نے اپنے دامن میں نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کا نصیب ہی بدل ڈالا ، لیکن 80 کی دہائی کے بعد عالمی طاقتوں کوپاکستان کی اپنے بل پر آگے بڑھنے کی خواہش اور کوشش پسند نہیں آئی ۔ وہ جو ایک ڈالر دیکر ہمارا خون سالوں تک چوسنے کے عادی تھے اور پھر اس ملک کے فیصلوں میں براہ راست اس کے عوض ان کی دخل اندازیوں کے اختیارات تھے وہ بھلا اسے کیسے چھوڑ دیتے ،سوہمارے ہی نام نہاد دوستوں( کو ساتھ ملا کر کہ جن کے چاند کے بنا پاکستان کے کئی محبت کے مارے ایک اور دو دن پہلے ہی عیدیں منا لیتے ہیں ۤ)کو ہماری ہی آستین کا سانپ بنانے کے پروگرام کا آغاز ہو گیا ۔ یہ وہ دوست ہیں جن کے لیئے کہا جاتا ہے کہ                                     ہوئے تم دوست جس کے 
دشمن ان کا آسماں کیوں ہو
تو ہمارے انہیں حد سے آگے کے مسلمان بھائیوں کی ہی عنایت تھی کہ ہمارے دل اور ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی پر وار کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا گیا ۔ مسمانوں کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ انہیں  باہر سے کوئی نہیں مار سکا کبھی ،جب بھی مارا انہیں ان کے اپنے ہی بھائیوں نے ا ندر ہی سے بِِک کر، توڑ کر مارا ہے ۔ ان کی کشتی حقیقت میں وہیں ڈوبی ہے جہاں پانی تھا ہی نہیں۔ ایسی صورت میں رکشوں پہ لکھے جانے والا معروف شعر یاد آتا ہے کہ
 ہمیں اپنوں نے مارا غیروں میں کہاں دم تھا 
ہماری کشتی وہاں پہ ڈوبی جہاں پانی کم تھا
آج کی تاریخ میں کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کراچی کے سب سے قیمتی لوگوں کو چن چن کو مارا جا رہا ہے ۔ جوانوں کے لاشے گرائے جا رہے ہیں ۔ یہ لوگ چاہے کسی سیاسی جماعت کا نام لیں یا کسی دینی جماعت کا ۔ وہ اس ملک کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں جو اسکے جوانوں کو ہر روز خون سے غسل دے رہے ہیں آج لیاری سمیت سارے کراچی کی ماؤں کی چیخوں سے آسمان کانپ رہا ہے ۔ کیسے کیسے جواں ان خود پرست نام نہاد سیاستدانوں اور دین کے ٹھیکیداروں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ کب تک پاکستان سے محبت کرنے واکے خود کو خاموش تماشائی بنائے رکھیں گے ، کیا انہیں بھی اپنی لاش کے گرنے کا انتظار ہے ۔ کیا کوئی کسی اور دنیا کا باسی آ کر انہیں اس ذلت اور خوف سے نجات دلائے گا ، نہیں بلکل نہیں ۔ آج جو کچھ کرنا ہے اس قوم کو خود سے کرنا ہے ۔ اپنی بقاء کی اپنی نسل کی بقاء کی لڑائی انہیں خود لڑنی ہے اور کشتیاں جلا کر لڑنی ہے ۔ ورنہ یاد رکھیں
 ہمارا نام تک بھی نہ ہو گا داستانوں میں
پاکستان کو بچانا ہے تو اس کے دل کو بچانے کے لیئے سر دھڑ کی بازی لگانا ہو گی ۔ کیوں کہ یہ لڑائی محض کرسی کی نہیں رہی بلکہ یہ لڑائی اب بقاء کی لڑائی ہے ۔ انصاف کی لڑائی ہے ۔ جینے کے حق کی لڑائی ہے ۔ اور جنگیں آنسوؤں سے کبھی جیتی نہیں جاتیں اس کے لیئے دل گردے کو مضبوط کر کے بڑے بڑے فیصلے لینا ہوتے ہیں ۔ اپنی خودی کی حفاظت کرنا ہوتی ہے اور سربلندی کے لیئے اپنی بھینٹ دی جاتی ہے اپنی خود غرضیوں کی بھینٹ دی جاتی ہے ۔ اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ دیجاتی ہے اپنی ناجائز خواہشات کی بھینٹ دیجاتی ہے ۔ جبھی تاریخ میں اپنا نام غیرت مندوں کی فہرست میں درج کروایا جاتا ہے ۔ ہمیں ہمارا نام اس فہرست میں کب ڈلوانا ہے یہ فیصلہ بھی ہمیں خود ہی کرنا ہےیا یہ بھی کوئی اور آ کر کرے گا ، موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح کہ ،
 جاؤ موسی تم اور  تمہارا خدا جا کر دشمنوں سے لڑو جب جیت جاؤ تو ہمیں بتا دینا ہم آ جائینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


http://thejaiza.com/news25/images/todaycolumn/mumtazart/d/88.png

......................

http://dailytareekhinternational.com/articles?aname=57&t=%D9%85%D9%85%D8%AA%D8%A7%D8%B2%20%D9%85%D9%84%DA%A9
.................


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/