برسوں کے بعد ہاتھ ملایا تو کیا ہوا
اس نے پیام دل کا سنایا تو کیا ہوا
ہر ایک کو بچاؤ کا اپنے ملا ہے حق
دامن سلیقے سے جو بچایا تو کیا ہوا
اوڑھے ہوئے تھا کتنے دنوں سے اداسیاں
ہلکے سے گیت آج جو گایا تو کیا ہوا
لازم نہیں کہ شاخ پہ مہکا گلاب ہو
ٹوٹی کلی کو دل سے لگایا تو کیا ہوا
آسان ہیں جدائیاں لوگوں میں ڈالنا
بچھڑے ہوئے کو گر ہے ملایا تو کیا ہوا
اس عمر میں دیوانگی کی بات کیا نئی
سودا کوئی ہے سر میں سمایا تو کیا ہوا
ہر بات کا سمجھنا ضروری نہیں جناب
اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو کیا ہوا
خلق خدا تو ساری ہی اپنوں سے ہے دکھی
تم نے بھی چین ان سے نہ پایا تو کیا ہوا
میرا بھی حق ہے خوشیوں پہ ممتاز ہونے کا
میں نے بھی زندگی کو سجایا تو کیا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں