کلام:
(ممتازملک۔ پیرس)
جب بھی پہلو میں تیرے رات بسر ہوتی تھی
ماں اسی رات کی بھرپور سحر ہوتی تھی
کیسے محفوظ نہ رہتی کہ دعائیں تھیں تیری
میری خوشیوں پہ جو دشمن کی نظر ہوتی تھی
رات اماوس کی بھی مجھ کو نہیں تاریک لگی
ہر قدم تو جو مجھے رشک قمر ہوتی تھی
کیسے بن داس رہے جگنو تیری یادوں کے
جس جگہ چاہا وہیں یاد امر ہوتی تھی
داب کر پاؤں جو ممتاز ہوا کرتی شب
کتنے سستے میں یہ جنت کا سفر ہوتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں