ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 21 مئی، 2014

ڈیلی تاریخ کی شعبہ خواتین کی ٹیم / Shah Bano Mir 3 hrs · Edited ·




ڈیلی تاریخ کی شعبہ خواتین کی ٹیم

یورپ میں پہلی بار ایسی ذہین پڑہی لکھی گھریلو خواتین نے قلم کو تھاما ہے
ج پڑہی لکھی شائستہ ہیں ـ لیکن گھریلو ذمہ داریوں میں گم ہو کے اپنی صلاحیت کو مسلسل زنگ آلود کر رہی تھیں ـ
الحمد للہ چراغ سے چراغ جلا اور آج کئی خواتین اکٹھے ہو کر باقاعدہ حلف لے کر ایک متحد ٹیم کی طرح اپنی قوم اپنے ملک اور امت کیلیۓ میدان میں اپنے کام کے ساتھ دکھائی دے رہی ہیں ـ 
ٹیم ڈیلی تاریخ 
محترمہ شاہ بانو میر سرپرستِ اعلیٰ 
محترمہ روحی بانو صاحبہ ایڈیٹر 
شمیم خان صاحبہ ڈپٹی ایڈیٹر
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ ڈپٹی ایڈیٹر برائے یورپ 
محترمہ وقار النساء صاحبہ شعبہ خواتین 
محترمہ عاصمہ ذاکر علی شعبہ دین و دنیا 
محترمہ نگہت سہیل صاحبہ 
محترمہ انیلہ احمد صاحبہ 
محترمہ صفیہ خواجہ صاحبہ 
معاون خصوصی سرپرستِ اعلیٰ 
محترمہ روبینا آفتاب صاحبہ
محترمہ رفعت جہانگیر صاحبہ 
محترمہ شاہین مقصود صاحبہ 
محترمہ طاہرہ شہزاد صاحبہ

تعارف 
روحی بانو صاحبہ 
ایڈیٹر برائے ڈیلی تاریخ بہترین کپتان قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہستی ہیں ـ
پی پی پی کی شعبہ خواتین کی صدر ہیں 
حق باھو ٹرسٹ کی شعبہ خواتین کی صدر ہیں ـ
فی البدیہہ شاعری میں کمال حاصل ہے ـ اعلیٰ مقررہ بہترین شخصیت ہمدرد اوصاف کی مالکہ ہیں ـ 
معروف سماجی کارکن عرصہ دراز سے پاکستان کمیونٹی کیلیۓ بہترین مخلصانہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں ـ 
محترمہ شمیم خان صاحبہ

بزرگ خاتون ہیں سب احترام کرتے ہیں ـ شاعرہ ہیں ایک کتاب منظر عام ے آچکی ـ تحریری طور پے گزشتہ ایک سال سے اپنی شناخت بنا چکی ہیں ـ پاکستان کیلیۓ کام کرنا چاہتی ہیں ـ 2001 سے اب تک کسی نہ کسی طور پروگرامز میں شرکت کر کے پاکستان کیلیۓ اپنی ذمہ داری نبھاتی رہی ہیں ـ اب باقاعدہ ڈیلی تاریخ کے پلیٹ فارم سے پہلی بار ذمہ دار حیثیت سے سامنے آئی ہیں ـ
ممتاز ملک صاحبہ
ڈیلی تاریخ کی ڈپٹی ایڈیٹر برائےیورپ ہیں 
عرصہ دراز سے ایک مذہبی ادارے کے ساتھ دینی خدمات ادا کی ـ 
پختہ خیال مذہبی سوچ کی حامل شاعرہ ہیں 
دو کتابیں منظر عام پےآچکی ہیں ـ 
آرٹیکلز لکھتی ہیں گویا معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ پے ہاتھ رکھ دیا ہو ـ 
بہت حساس اور نازک مسائل پے بے دھڑک لکھتی ہیں ـ بہترین پاکستانی خاتون ہیں ـ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار

محترمہ وقار النساء صاحبہ
یورپ کے پہلے باقاعدہ پرنٹ میگزین برائے خواتین بانی شاہ بانو میر صاحبہ اور ایڈیٹر محترمہ وقار النساء صاحبہ نے بہت خوبصورتی کے ساتھ بنایا ـ بہترین کاوش "" در مکنون"" کی صورت سامنے آیا ـ 
محترمہ بہترین تخلیقی صلاحیتوں کی حامل سنجیدہ سوچ کی مالک ہیں ـ ادبی ذوق ورثے میں ملا ہے ـ تعلیمی شعبے سے وابستہ رہی ہیں ـ 
گھریلو مصروفیات نے علم کا سمندر قید کررکھا تھا جس کو ان باہر آنے کا جوہر دکھانے کا موقعہ ملا ہے ـ 
ڈیلی تاریخ میں ان کے آرٹیکلز پڑھے جاسکتے ہیں ـ

محترمہ عاصمہ ذاکر علی صاحبہ 
مذہبی اعتبار سے بہت پختہ سوچ رکھتی ہیں ـ پاکستانی کمیونٹی کیلیۓ بہت احسن کام کرنا چاہتی ہیں ـ تا کہ ہمارے ماحول میں بہتری لا کے نسلوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے ـ 
تحقیق اور علم حاصل کرنے کی جستجو ان کی گھٹی میں ہے ـ

محترمہ نگہت سہیل صاحبہ 
خوبصورت انداز کی مالک جیسی بذلہ سنج طبیعت ان کی ہے ویسی ہی شوخی سادگی معصومیت ان کی تحریر میں جھلکتی ہے ـ 
دو آرٹیکلز لکھ چکی ہیں ـ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ـ اعلیٰ سوچ رکھتی ہیں ـ پاکستان کیلیۓ مجاہدانہ سوچ کے ساتھ قلم کو تھام چکی ہیں ـ
ٹیم کی مضبوطی اور ایک ہو کرکام کرنے پے یقین رکھتی ہیں 
انیلہ احمد
گھریلو خاتون ہیں ـ ذہنی صلاحیتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کا خزانہ ہیں ـ مثبت ٹھوس اور جاندار تحریرکا عنوان ہیں ـ 
ان کے دو آرٹیکلز منظر عام پے آکے کافی پزیرائی حاصل کر چکے ـ ابتداء بتا رہی ہے کہ سفر کا آغاز بہت شاندار ہے اور مزید سفر اسی جوش و خروش کے ساتھ اسی طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گا ـ
صرف یہ کہنا ہے ایسے ٹیلنٹ کو اگر ویب پے جگہہ یہ کہ کر نہ دی جائے کہ پختگی نہیں ہے ـ تو میں نہیں مانتی 
پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس وقت ایک ایک سوچ کی ـ جسم تو بہت ہیں پاکستان میں دماغ بہت کم ہیں ـ 
اللہ کا خاص احسان کہ اس نے دماغ عطا کئے جو تعداد میں کم ہیں لیکن ہزاروں لاکھوں پے بھاری ہیں کیونکہ یہ احساس ذمہ داری سے آشنا ہیں ـ
لیکن 
سنجیدہ کام اور مثبت وہ کم ہے 
مجھے جہاں قربانی دینی پڑی مزید دوں گی 
کیونکہ
مقصد بہت بڑا ہے الحمد للہ 
شاہ بانو میر
......................

بدھ، 14 مئی، 2014

ایک اچھے مسلمان سے ملاقات۔ ممتازملک ۔ پیرس




ایک اچھے مسلمان سے ملاقات
ممتازملک ۔ پیرس


بہت کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے بلکہ کچھ تیزی کیساتھ ہی وقوع پذیر ہو رہا ہے ۔ کب صبح ہوئی اور کب رات ہو گئی کب ہفتہ شروع ہو ااور کب ختم کب ہو گیا ۔ کب سال کی ابتداء ہوتی ہے اور کب سال کا اختتام ہو رہا ہوتا ہے ۔ گویا ایک ایک پل سمجھنے والے کو موت کے در کے قریب کر رہا ہے ۔ اور نہ سمجھنے والے کو عیاشی کا ایک اور موقع فراہم کر رہا ہے ۔ ایک خدا کے سامنے جواب دہ آدمی کے لیئے ہر لمحہ ایک اور نیکی کی کوشش کا جذبہ فراہم کرتا ہے تو ایک خدا فراموش کے لیئے کل کس نے دیکھا ہے  اور جانے  کل کس کے ساتھ کیا ہو، کی بے خوفی کیساتھ'' کھل کے جی لے آج کی شام مہربانوں کے نام'' کر کے گناہ کی دلدل میں دھنستا ہی جا رہا ہے۔ ہر ایک اپنے گناہ کو گناہ سمجھنتا ہی کب ہے بلکہ اسے کرنے کے بعد اس پر خوب خوب تاویلیں بھی رکھتا ہے ۔ سب کے پاس اپنے اپنے جرائم کی معقول وجہ بھی ہوتی ہے اور گناہ کرنے کا بہانہ بھی ۔ کسی نے صرف نماز ہی پڑھنے کو  جنت کا مکمل راستہ جان لیا ہے تو کسے نے نبی پا ک ﷺ کی شفاعت کے وعدے کو اپنے گناہوں
اورجنت کے بیچ ایک ایسی گارنٹی بنا لیا ہے جسے دیکھ کر عیسائیت کا یہ عقیدہ بھی نظر آنے لگتا ہے کہ'' عیسی علیہ السلام نے سولی پر چڑھ کر ہمارے سارے گناہ معاف کروا لیئے ہیں اب ہم کچھ بھی کریں جنت تو ہے ہی ہمارے لیئے'' ۔ کیا ہم اپنے نظریات کو گنو اتو نہیں رہے ؟ اگر یہ سب اتنا سادہ تھا تو روز محشر کی ضرورت ہی کیا ہے جواب و سوال کا کیا تذکرہ ۔ قیامت کا قہر کیسا ۔ سب نے اپنے وقت پر مر جانا ہے آقا ئے نامدار نے آ کر ہمیں معاف کروا لینا ہے اور ہم سم جھومتے جھامتے جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ کسی کو بم باندھ کر پھٹ جانے پر جنت مل رہی ہے ۔ کسی کو اپنے بچے ذبح کرنے پر جنت مل رہی ہے ۔ کسی کو قبر کے مردے نکال کے ان کی بے حرمتی کے بدلےکوئی جاہل جنت دے رہا ہے ۔ کوئی انسانیت کو جاہلوں کی گود میں ڈال کر جنت کا طلبگار ہے ۔ اللہ پاک کی اصل کتاب، آخری کتاب ،کلام الہی یہ کیا کہہ رہا ہے اسے جُلدان سے نکالنے کا وقت ہی نہیں۔ اس پر سے ایک ادھ  مہینہ ہی گرد جھاڑی جاتی ہے سال بھر میں۔ اس کے بعد اسے ہر کسی کی پہنچ سے دور رکھ کے اپنے حساب سے جنت سنبھال کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہ باتیں اس لیئے لیئے بھی زہن کے پنجرے میں پھڑپھڑا رہی تھیں کہ بہت دنوں سے خواہش تھی کسے اچھے مسلمان سے ملاقات کی۔ کہتے ہیں کہ نیت اچھی اور ارادہ مضبوط ہو تو اللہ پاک راستے بھی پیدا کرتا ہے اور آسانیاں بھی ۔  پچھلے دنوں معروف عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب کو دیکھنے اور ان سے روبرو ملاقات کا شرف حاصل ہوا محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کے ہاں 10 مئی 2014 ڈیلی جائزہ کی ممبران خواتین کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام تھا جس میں محترم مولانا طارق جمیل صاحب سے ہماری ایک سرپرائزنگ ملاقات کا موقع بن گیا جسے تمام ساتھی خواتین نے اپنے لیئے ایک روحانی اعزاز جانا ۔ محترم کے ساتھ ان کی اہلیہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ نہایت ہی نفیس خاتون ہیں ۔ جنہوں نے نہایے محبت سے سب بہنوں سے تعارف لیا اور خود کو متعارف کروایا ۔ مولانا صاحب کی ایک بات نے خاص طور پر ہمیں بہت متاثر کیا کہ آپ صرف لوگوں سے ہی شفیق نہیں ہیں بلکہ اپنے بچوں کے ایک شفیق باپ اور اپنی بیوی کے ایک انتہائی مہربان شوہر ہیں ۔ جو انہیں اپنے ساتھ رکھنا اپنی عزت سمجھتے ہیں ۔اسے پردے میں ہوتے ہوئے بھی نمایاں مقام دیتے ہیں۔ ایک طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بیویوں کو پردے میں رکھنے اور دوسروں کو بے پردگی میں لانے کے لیئے بے چین رہتے ہیں ۔ یہ ہی فرق ہے مسلمان ہونے اور مسلمان نظر آنے میں ۔ مولانا صاحب بیشک آپ بہت اچھے مسلمان اور بہت اچھے انسان بھی ہیں کیوں کہ آپ اپنےرشتوں کیساتھ بھی انصاف کرتے ہیں ۔ اپنے کام کو اپنے گھر والوں سے چھپا کر نہیں کرتے ، دین کو آسان بنا کر اور خود پر اطلاق کر کے دکھاتے ہیں ۔ محبت سے بات سنتے بھی ہیں اور اسے دلائل سے سمجھاتے بھی ہیں ۔ اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کوئی چیز نہیں سمجھتے ، بلکہ خود کو لوگوں کے نزدیک تر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ سب دیکھ کر شدّت سے اس بات کا احساس ہوا کہ جو شخص لوگوں کے حقوق ادا نہیں کر سکتا وہ کبھی بھی اللہ کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ عبادت کے لیئے خدا کے پاس فرشتوں کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں تھی اسے تو ایک ایسی مخلوق تخلیق کی تھی جس میں خیر بھی ہو اور شر بھی ۔ جو گناہ کرے تو توبہ بھی ۔ ذیادتی کرے تو شرمندہ بھی ہو ، جس کی آنکھ صرف اپنی ہی نہیں دوسروں کی تکلیف پر بھی روئے ۔ جس کا چہرہ اپنی ہی نہیں دوسروں کا کامیابی پر بھی تمتمائے ۔ جو اپنے سوا دوسروں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی فکر کرے۔  اسی لیئے اللہ پاک نے اپنی ہر خوبی کی ایک ایک جھلک انسان کی مٹی میں بھی گوندھ دی ۔ لیکن آج انسان نے کیا کیا رحمن پر شیطان کی سنگت کو ترجیح دیکر نہایت خسارے کا سودا کر لیا ۔ کیا خوب فرماتا ہے تمام کائیناتوں کا رب کہ
'' عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے ۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور  نیک عمل کیئے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے'' ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





     

اتوار، 11 مئی، 2014

قدرت کے تحا ئف ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا


قدرت کے تحا ئف 


قدرت کے تحا ئف ہیں تیری ذ ات میں شامل
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل

دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ہے

جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل

اے ماں تیری ہستی میں میرا نام چُھپا ہے 

یہ بات الگ ہے تیرے درجات میں شامل 

خدمت ہو محبت ہو کہ قُربانی کا جذبہ

کچھ خاص ہیں یہ تیرے کمالات میں شامل

کیسی ہے عجب بات تیرے بعد بھی اب تک

ہائے ماں میرا کہنا بھی وظیفات میں شامل

ہر چوٹ میں لب سے ہے تیرا نام نکلتا 

ہے ذکر تیرا میری عبادات میں شامل 

مُدت ہوئی بچھڑے ہوئے پرسوچ میں اب بھی 

جیسے ہو یسیری سی خیالات  میں شامل

مُمتاز اس کے ساتھ بجے چین کی بنسی

بعد اسکے زندگی بھی ہے ظلمات میں شامل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 2 مئی، 2014

مزدور یا مجبور/ کالم




مزدور یا مجبور
ممتازملک۔ پیرس

مجھکو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ 
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

''مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اد کر دو'' ۔ ہم میں سے کون ہے جس نے یہ حدیث پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کبھی کہیں کسی نہ کسی موقع پر کبھی نہ سنی ہو لیکن ہم میں سے ہی کتنے ہیں جنہوں نے اپنی پوری اب تک کی ذندگی میں مزدور کی مزدوری اس کے مانگنے سے پہلے ادا کر دی ہو ۔ ہماری روایت رہی ہے کہ جب تک مزدور ہماری چوکھٹ پر تڑپنے لگے جھولیاں پھیلا پھیلا کر بددعائیں نہ دینے لگے تب تک ہمارا ہاتھ ہماری جیب میں جاتا ہی نہیں ۔ ہم سب کو گھروں میں، دکانوں میں ، فیکٹریوں میں ملاذمین تو چاہیئیں۔ بلکہ ہمارا بس چلے تو ہمیں کروٹ لینے کے لیئے بھی ملازم مل جائے ،لیکن بس مزدوری نہ مانگے ۔ ہمیں ہماری تنخواہ ہو سکے تو بغیر کسی محنت کے ملنی چاہیئے لیکن ہمارے پاس کام کرنے والے کو تنخواہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ملازمین اور خصوصا گھریلو ملازمین کے ساتھ تشدد اور بربریت میں کس قدر تیزی آئی ہے غریب لوگوں کے معصعم بچوں کو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت کام  کا جھانسہ دیکر اپنے گھروں میں ملازم رکھا جاتا ہے اسکے بعد ان کے سے اسقدر کام لیا جاتاہے کہ کسی بڑے آدمی کے بھی بھی بس میں وہ سارا کام اتنے وقت میں ممکن نہ ہو ۔ پھر ان بچوں کو ایسی سختیوں سے گزارا جاتا ہے جو کہ خرکار کیمپوں کے حوالے سے ہی سنی جاتی تھیں اور اس پر بھی اذیت ناک بات یہ کہ یہ سب کرنے والے کوئی اجڈ گوار نہیں ہوتے بلکہ خوب پڑھے لکھے ، الٹرا موڈ کہلانے والے  اور انتہائی ماڈرن لوگ ہوتے ہیں ان میں ڈاکٹرز بھی ہیں نامی گرامی وکلاء بھی ہیں تو بڑے بڑے بزنس میں بھی ہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے کے ہی انڈوپاک کے اخبارات  اٹھا کر دیکھ لیں نیوز ہی سن لیں کہ کیسے کیسی امیر کبیر اور پڑھے لکھے لوگوں نے اپنے ملازمین کے ساتھ کیسی کیسی شرمناک حرکتیں کی ہین اور کیسی کیسی اذیتناک صورت حالات سے دوچار کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔  اور ہمارا قانون افیم کھائے سو رہا ہے ۔ نہ تو آج تک ان کے مجرمان کو عملی سزائیں ہوئی ہین نہ ہی کوئی شرمندگی ان کے چہروں سے نظرآئی ۔  ہم لوگ اب بھی خود کو انسان کہتے ہیں اور اس پہ طُرّہ یہ کہ مسلمان بھی کہتے ہیں ۔ ان گھروں میں یا دکانوں میں کام کرنے والے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ کیسی کیسی ذیادتیاں کی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ پیٹ بھر کھانا تک نہیں دیا جاتا ۔  ایک ایک پیسے کے لیئے انہیں کیسے تڑپایا جاتا ہے یہ سوچ کر ہی ان کی روح کانپ اٹھنی چاہیئے کہ ان کی جگہ ان کی اپنی اولاد ہوتی تو کیا ہوتا ۔ یہ آدھے پیٹ کام کرنے والے مذدور جو آپکے گھروں کو فیکٹریوں کو دکانوں کو رواں رکھتے ہیں یہ ہمیں اس بات کا ہر لمحۃ احساس دلاتے ہیں کہ جگہ بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ شکر کیجیئے پیدا کرنے والے کا کہ اس نے آپ کو دینے والوں میں شامل کر رکھا ہے ورنہ مانگنے والوں میں بھی کھڑا کر دیتا تو ہم اور آپ کیا کر لیتے ۔   اور یاد رکھیئے کہ یہ سب لوگ جو ہمارے ماتحت اللہ کی مشیعت سے کیئے گئے ہیں، یہ سب ہماری رعیّت میں شامل ہیں اور ہم انکی ایک ایک تکلیف اور ایک ایک آہ کے لیئے جواب دہ ہیں ۔ یہ آپ سے بھیک نہیں مانگتے اپنی محنت کا عوضانہ طلب کرتے ہیں ۔ تو دل بڑا کیجیئے اور ان سے کام لینے سے قبل اپنی حیثیت اور اپنی جیب میں جھانک لیجیئے کہ آپ میں ان کی اجرت دینے کی سکت موجود ہے ۔ کیوں کہ مذدوری کرنا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے اور آپ مزدور کی اجرت نہ دیکر کہیں سنت رسول کا مذاق تو نہیں اڑا رہے ۔ ہاتھوں کی لگائی یہ گرہیں خدا نہ کرے کہ ہمیں کہیں دانتوں ہی سے کھولنی  نہ پڑ جائیں ۔ گزرا ہوا وقت تو پلٹ کر کبھی نہیں آسکتا لیکن آج ہی ہمیں اپنے آپ سے عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ   جب بھی ہم کسی بھی شخص کی خدمات کسی بھی کام کے لیئے حاصل کریں گے اس کی اجرت اس کے کام شروع کرنے سے پہلے طے کریں گے اور مانگے بنا جو بھی ادائیگی طے ہو گی بنا کسی حیل و حجت کے اس کی ہتھیلی پر خوش دلی سے رکھ دیں گے ۔ یہ نہیں کہ 50 روپے پر بات طے ہو اور کام ختم ہونے پر اسکے ہاتھ میں 30 روپے  احسان جتاتے ہوتے بھیک کی طرح ڈال دیئے ۔ یہ ظلم بھی ہے ، تکبر بھی ہے اور وعدہ خلافی بھی ۔ یہ تینوں چیزیں خدا کے عذاب کو دعوت دیتی ہیں ۔ دوسرا گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور بچیوں کو بھی اپنی ہی ماں بیٹیوں جیسی نظر سے دیکھیں کہ انہوں نے آپ سے اپنی محنت کا سودا کیا ہے عزت کا نہیں ۔ ان کی عزت بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ آپ کے گھر کی عورت کی ۔ ان پر زہنی اور جسمانی تشدد سے پرہیز کریں کہ کہیں ان کے آہ آپکے خاندان اور اولاد ہی کو نہ کھا جائے ۔ یہ سزائیں فوری نظر تو نہیں آتی ہیں لیکن ملتی ضرور بالضرور ہیں ۔ اپنے دل میں رحم اور خدا کا خوف پیدا کیجیئے ۔  تاکہ خدائے پاک بھی آپ پر رحم کرنا پسند فرمائے ۔ کیونکہ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
 خدا مہر باں ہو گا عرش بریں پر 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 1 مئی، 2014

دعوت نامہ ۔ ڈیلی تاریخ

1۔05۔2014  
 ڈیلی تاریخ انٹرنیشنل
  ایڈیٹر برائے یورب محترمہ روحی بانو صاحبہ 
 کی جانب سے خواتین ممبران کی ایک آفیشل میٹنگ کال کی گئی ہے جس میں تمام شعبہ کی ذمہ دار خواتین کو  سرپرست اعلی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ ، ریذیڈنٹ ایڈیٹر محترمہ طاہرہ سحر صاحبہ ، جوائنٹ ایڈیٹر محترمہ شمیم خان صاحبہ ،کالمسٹ اور بزم ادب کی ذمہ دار ممتاز ملک صاحبہ ۔اور انکی جوائنٹ محترمہ سلطانہ سہیل صاحبہ ، شعبہ دینی مسائل کی اسماء علی صاحبہ ۔ بچوں کی دنیا کی وقار النساء صاحبہ ، دریس ڈیذائینگ کے شعبے سے نینا خان صاحبہ کو شرکت کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ 
وقت میٹنگ ۔ دن 2 بجے تا چار بجے تک
لا کورنیوو سی غوت کے پاس کوئیک  میں میٹنگ کی جائے گی ۔ 
شکریہ 
 منجانب  
  روحی بانو
 ایڈیٹر ویمن یورپ تاریخ انٹرنیشنل

ڈیلی تاریخ ۔ ضوابط


ڈیلی تاریخ انٹرنیشنل        2014 ۔05۔ 1
وویمن ونگ فرانس
اصول و ضوابط

1۔ ایڈیٹر صاحبہ تمام ٹیم کو لیڈ کریں گی ۔ اور ضوابط کی پابندی کروائیں گی ۔ 
2۔ تمام شعبہ جات کی ذمہ داران کو اپنے شعبے کا کام تین ماہ بعد جائوہ لینے کے لیئے پیش کرنا ہو گا ۔ جس میں کام کا معیار اور مقدار دونوں کا جائزہ لیا جائے گا ۔ 
3۔ تمام ٹیم کو کسی بھی پروگرام ”ذاتی نہیں” میں دعوت ملنے کی صورت میں ایڈیٹر صاحبہ کو باخبر کیا جائے اور انکی مشاورت سے وہاں پر کسی ایک کا دو کا یا سب کے جانے کا مشورہ لیا جائے ۔
4۔ کسی مسئلے میں اگر مذید مشاورت کی ضرورت ہو تو سرپرست اعلی صاحبہ کی رائے لی جائے ۔ یا ان کے کہنے پر ڈیلی تاریخ انٹرنیشنل کے ذمہ دار سے مشاورت کی جائے گی ۔ اور ایڈیٹر صاحبہ اور سرپرست اعلی صاحبہ اس کی ضرورت محسوس  کریں تو ۔ ورنہ انہی کی رائے حتمی تصور کی جائے گی ۔
5۔ جب بھی میٹنگ کال کی جائے گی اس میں بغیر کسی جائز وجہ کے سب کا موجود ہونا لازمی ہے ۔
6۔ ہرمیٹنگ اور پروگرام میں وقت کی پابندی کا سختی سے خیال رکھا جائے ۔
7۔ کسی بھی قسم کے اختلافی معاملات پر لکھنے سے پرہیز کیا جائے ۔
 8۔ ہماری تحریر کا مقصد صرف اور صرف پاکستان ۔ اسلام اور اپنی کمیونٹی کی بھلائی ہونی چاہیئے ۔ 
9۔ ذاتی جھگڑوں کو یا اختلافات کو ہماری تحریر میں نہیں جھلکنا چاہیئے ۔
تمام ذمہ داران کو ایک دوسرے کی عزت اور عزت نفس کا ہر معاملےمیں خیال رکھنا ہے ۔
10۔ اپنے شعبے کے کام کو لگاتار نظر انداز کرنے پریا ضوابط کی پابندی نہ کرنے پر تمام ٹیم ممبرز اس ساتھی کے اپنے شعبے سے الگ ہونے کا مطالبہ کر سکتی ہیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




  

منگل، 22 اپریل، 2014

اے راہ حق کے شہیدو/ ممتازملک۔ پیرس



اے راہ حق کے شہیدو
ممتازملک۔ پیرس


اے راہ حق کے شہیدووفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں 


قارئین کی جانب سے کافی دنوں سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے پاکستان دشمنی کی ہر حد لانگ لی ہے اس پر قلمکاروں کو ضرور کچھ لکھنا چاہیئے ۔ پہلے تو یہ ہی بات لکھنے کا ارادہ تھا کہ جیو نیوز نے باقاعدہ طور پر انڈین ایجنٹ کاکردار ادا کرتے ہوئے اخلاقی قدروں کا جو ناس مار رکھا ہے اس کی آخری حد کہاں تک جاتی ہے ۔ جہاں اور جب دیکھو گانے انڈینز ، ننگے ڈانس اور کلچر انڈینز ، ایک ایک ایسے اداکار اور اکارہ کی سالگرہ اس چینل نے منائی ہے جو کسی انڈین کو بھی اب یاد نہیں ہے نہ ہی ان کے چینلز منا رہے ہیں ۔ ان کے ایکٹر نے چھینک ماری تو جیو  کو بخار ہو گیا ۔ان کی ااکارہ کا پاؤں مڑا تو جیو والوں کا بھیجہ اڑ گیا ۔ فلمیں ان کی ریلیز ہوتی رہی ہیں اور پورے گھنٹے کی خبروں میں کوریج جیو کے ایجنٹ دے رہے ہیں ۔ آج تک جیو نے کبھی بھی پاکستانی فلموں کو اس طح ٹی وی پر پروموٹ نہیں کیا جیسے انڈینز کو کرتا رہا ہے ۔ پاکستان کو انڈین سوچ کے تابع کرنے کے لیئے وہ کون سا ہتھکنڈہ ہے جو اس چینل نے نہیں آزمایا ۔ یہاں تک کہ مارننگ شوز کے نام پر بھی پاکستان کی پہلے سے اخلاقی اور معاشی طور پر تباہ حال قوم کو شادی بیاہ کی ہندووانہ طرز کی بے مقصد رسموں کی ادئیگی کے لیئے برین واش کرنا اور برینڈیڈ ملبوسات کا لالچ دیکر خواتین کو لالچ کی اس بیماری مبتلا کرنے کا خوفناک پروگرام کب سے چلایا جارہا ہے ۔  اور ہمارے نمائندگان غالبا افیم کھا کر اپنے ایوانوں میں اورکبھی ریائش گایوں میں گل کھلانے میں مصروف ہیں انہیں قوم  کے ساتھ ہونے والی ان سازشوں کو پتہ ہی نہیں ۔   جب کہ پاکستان کے حوالے سے اس چینل نے جب بھی منہ کھولا صرف اور صرف بُری خبروں کے لیئے ہی کھولا ہے۔ میاں بیوی کی لڑائیوں کو بھی اس چینل نے پاکستان کی بدنامی میں خوب خوب اچھالا ۔ دنیا کا کوئی بھی چینل لے لیں اس طرح سے انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر آکر اپنے ملک کو بدنام کرنے کا کام کہیںاس طرح  نہیں کر رہا جو اس نام نہاد پاکستانی اور اصلا انڈین چینل جیو نے کیا ہے ۔  لیکن اب تو گویا جیو نے اپنے کرتوتوں کی اُلٹی ہی کر دی ہے کہ حامد میر پر ہونے والے حملے کو باقاعدہ پاکستان کی سلامتی کی ذمہ دارایجنسی آئی ایس آئی کے سر تھوپ دیا ۔ جبکہ خبروں کا جائزہ لیں کہ پہلے دن کی فوری خبروں میں حامد میر صاحب کو دو گولیاں لگیں، لیکن انہیں زیادہ اثر نظر نہ آیا تو اگلی ہی خبروں میں اگلے دن گولیاں بھی چار اور چھ کر دی گئیں ۔  شرم آنی چاہیئے میر شکیل الرحمن صاحب کو بھی کہ جن کے والد میر خلیل الرحمن صاحب نے جنگ گروپ کو اس مقام تک لانے کے لیئے کیا کیا پاپڑ بیلے اور کسی سودے بازی کا کبھی حصہ نہ بنے اور کہاں ان کا رنگیلا سپوت میر شکیل الرحمن جو انڈین پلاسٹک بیوٹیز کے عشق میں مبتلا ہو کر حرام کے ڈالر جیب میں بھر کر اشتہار سے لیکر پاکستان کی سب سے حساس ایجینسی تک کو داؤ پر لگانے کے لیئے تیار ہو گیا ۔ لعنت ہے ایسے پیسے پر جس کے لیئے اس شخص نے پاکستان کی مٹی یعنی اپنی ماں ہی بیچ دی ۔   حامد میر کے اس ڈرامے کو فوری طور پر بے نقاب کیا جانا چاہیئے کیوں کہ یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے۔  پاک فوج اور آئی ایس آئی کو آج ہی اس چینل اور اس سے وابستہ ہر ٹھیکیدار کو عدالت میں ملک دشمنی اور پاکستانی قوم کو منقسم کرنے کے الزام میںنوٹس بھیجنا چاہیئے کہ یا تو یہ چینل ان الزامات کو ایک ہفتے کے اندر اندر ثابت کرے یا پھر اس چینل کو ہمیشہ کے لیئے بین کر دیا جائے اور اسے ایک ملک دشمن ادارہ قرار دے کے اس کے تمام اثاثے ضبط کرنے کا حکم جاری کروائے ۔ اس کے ایک ایک اینکر کے اثاثوں کی چھان بین  کروائے اور ان کی تنخواہوں اور لیونگ سٹینڈرڈ کا جائزہ لے ۔ ان کو کروڑوں میں تنخواہیں یہ چینل کس بات کے دیتا ہے صرف ایک گھنٹہ اونچی آواز میں چلانے کے لیئے ۔ نہیں۔  تو پھر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ اب جیو کو بے نقاب کرنے میں تاخیر کرنا اسے چور راستے ڈھونڈنے دینا اور ہشیار کرنے کے مترادف ہے ۔ پاکستان کی فوج کا ہر جوان پاکستان کی شان اور فخر ہے۔ آئی ایس آئی دنیا کی وہ بے مثال ایجینسی ہے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو ہم نہ جانے اور کس کس کے جوتے چاٹ رہے ہوتے ۔ دنیا بھر کی مسلم دشمن اور خاص طور پر پاکستان دشمن طاقتیں جو آئی ایس آئی کو اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں ۔ انہں اب یہ بتانے کا وقت آگیا ہے کہ یہ جوان صرف ڈالروں کی خوشبو سے اپنی جان ہتھیلی پر لیئے نہیں گھومتے بلکہ انہیں ان کی مائیں اپنے دودہ ہی میں اپنی زمین سے محبت گھول کر پلا دیتی ہیں اور انکے سہرے سے بہت پہلے ان کے سر پر ملک کی حفاظت کا کفن باندھ دیتی ہیں ۔ اور خود ان کی شہادت کی خبر کا انتظار کرتی ہیں کہ جاؤ جنت کے راستے کی خوشبو تمہارا انتظار کر رہی ہے ، جاؤ رسول اللہ کی باہیں تمہیں اپنے سینے سے لگانے کے لیئے پھیلی ہوئی ہیں ، جاؤ کہ ہر جوان شہید نہیں ہوتا یہ تو وہ شہزادے ہوتے ہیں جنہیں ان کی ماؤں کی کوکھ میں آنے سے بھی بہت پہلے جنت کے باغوں میں بٹھانے لے لیئے چن لیا جاتا ہے ۔ ہے کوئی دنیا میں ایسی ماں اور  ہے کوئی دنیا میں اور ایسا جذبہ رکھنے والی قوم ، نہیں کہیں نہیں۔  یہ ہی تو خوف ہے پاکستان کے دشمنوں کو، کہ کیسے ان جوانوں کے زور کو توڑا جائے ۔ آج میڈیا کا دور ہے تو ہمارے میر صادق اور میر جعفر یہیں سے آزمائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ لیکن پاکستانی قوم اب بے وقوف بننےکو بلکل تیار نہیں ۔ اب میر صادقوں اور میر جعفروں کو کوئی انگریز یا ہندو آقا کام نکلنے کے بعد گولی نہیں مارے گا بلکہ اسے پاکستانی قوم اپنے ہاتھوں سے جوتے بھی مارے گئی اور گدھے پر بھی بٹھائے گی ۔ان کے کانوں میں یہ آواز بھی سیسے کی طرح ڈالی جائے گی کہ 
اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے تو لبدی پھریں بازار کڑے
اے دین اے میرے داتا دی نہ ایویں ٹکراں مار کڑے  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 15 اپریل، 2014

شہید جمہوریت یا نوحہء بے حسی ۔



 
شہید جمہوریت
  یا
 نوحہء بے حسی
ممتاز ملک۔ پیرس


کینیڈی نے کہا کہ ''  ایک آدمی  مر سکتا ہے ایک ملک ابھر سکتا ہے ڈوب سکتا ہے لیکن نظریہ ہمیشہ ذندہ رہتا ہے '' بے شک یہ ایک حقیقت ہے لوگ تو دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن نام اسی کا ذندہ رہ جاتا ہے جو کوئی نظریہ ، کوئی کام ، کوئی کردار چھوڑ جاتا ہے ۔ یہ چھاپ صرف باتوں میں ہی نہیں بلکہ دلوں پہ چھوٹتی ہے ۔  جسے کوئی مٹانا چاہے بھی تو مٹا نہیں سکتا ۔ ایسا ہی ایک تاریخی کردار ذوالفقار علی بھٹو کا بھی رہا۔ بحیثیت انسان ہمیں ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہم اس بات کو کیسے جھٹلائیں کہ  بھٹو نے اپنی سمجھداری سے پاکستان کے نوے ہزار قیدی آذاد کروائے ، ہمیں اس بات سے بھی انکار نہیں کرنا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی پہلی اینٹ بھٹو نے ہی رکھی ،  دنیا بھر میں بکھری ہوئی اسلامی ریاستوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا سہرا بھی اسی بھٹو کے سر ہے ،پاکستان جیسے  اس وقت کے سب سے بڑے  اسلامی ملک کے ساتھ بے آئین ہونے کی کالک کو بھی بھٹو نے ہی آئین دیکر مٹایا ، پاکستان کا میڈیا  جو آج کھلم کھلا ہندوستانی ایجنٹ کا کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے اسی میڈیا پر یکجہتی پیدا کرنے اور صوبوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سب سے ذیادہ کام بھٹو نے ہی کیا ۔ پاکستانی میڈیا جہاں آج ڈھونڈنے سے بھی پاکستانیت نظر نہیں آتی اور اپناریڈیو ٹی وی ، اخبار اٹھاتے کھولتے ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ یہ پاکستانی ہی ہے. وہاں بھٹو دور کے ٹی وی کو کھول کر ریڈیو سن کر دیکھیئے آپ کو بھی میری بات سے اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ واقعی ایک ملک کی یہ ہی  میڈیا پالیسی ہونی چاہیئے ۔ فوجی آمروں کے پنجے میں جکڑے پاکستانیوں  کو جمہوریت کی راہ بھٹو نے ہی دکھائی ۔ ہمیں پورا حق ہے کہ ہم کسی کے نقطئہ نظر سے اختلاف کریں لیکن ہمیں اس بات کا بلکل کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کسی کے ذندگی بھر کے کئے ہوئے کاموں پر اپنے منافرت کا پانی پھیر دیں ۔ ہماری قوم کا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ ہم نہ تو کسی کے اچھے کاموں کا اعتراف کرتے ہیں نہ ہی اسےجیتے جی وہ مقام دیتے ہیں جو اسکا حق  بنتا ہے۔ ہم مردہ پرست لوگ ہیں۔ اس کے جانے کے بعد اسکا جیوے جیوے تو گاتے ہیں۔ اس کے تصویریں اسکے نعرےبیچ کر جیبیں  تو بھرتے ہیں۔ لیکن اس کےوہ نطریات جس کے لیئے اس نے اپنی جان سولی پر لٹکا دی ، اس کی نہ تو قدر کریں گے نہ انہیں اپنی ذندگی میں اپنانے کی کوشش کریں گے ۔  اور یہ ہی ہماری ناکامی کی وجہ ہے ۔ کیا آج بھٹو کے دشمنوں سے بدلا لینے کا یہ بہترین طریقہ نہیں تھا کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ پورا کر کے پیپلز پارٹی  سب کے منہ بند کر دیتی ۔ لیکن افسوس بھٹو کے نعرے کو بھی اس کے مزار کی چادر بنا لیا گیا ۔ جسے ایک کے بعد ایک مجاور آتا ہے چومتا ہے آنکھوں سے لگاتا ہے اور چند روز بعد اس پر ایک اور چادر کا چڑھاوا چڑھا جاتا ہے ۔ یوں تو میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میرا یہ ماننا ہے کہ جو بھی شخص آپ کے ملک کے لئے قوم کے لیئے اچھا کام کرے اچھی کوشش کرے ، اسے ہر صورت سراہا جانا چاہیئے اور نمک حرامی کی روایات کو اب توڑ دینا چاہیئے ۔
   پچلھے دنوں 5 اپریل 2014 کوپیرس کے علاقہ لاکورنیوو میں  بھٹو مرحوم کی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی نے ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں پارٹی کارکنان نے قران خوانی کی اور فاتحہ خوانی ہوئی اس کے بعد  ایک پروگرام رکھا گیا جس میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان سے زیادہ دوسرے سیاسی اور غیر سیاسی مکتبہ فکر کے خواتین و حضرات کی بڑی تعداد کی اسمیںشرکت تھی جنہوں نے بھٹو کی پاکستان کےلیئے کی گئی خدمات کو بڑے بھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ جو کہ انتہائی خوش آئیند اور حوصلہ افزاء بات ہے ۔ اور جس سے اس بات کو بھی بڑھاوا ملتا ہے کہ اب  سوچ بدل رہی ہے اپنی پارٹی کے سوا کسی اور کو قبول نہ کرنے کا بت اب ٹوٹ رہا ہے ۔  جو کہ بہت ہی خوش آئیند ہے ۔ پروگرام کے منتظم جناب کاممران گھمن صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور انکی آمد پر انکا شکریہ ادا کیا ۔ پارٹی کے جنرل سیکٹری جناب ملک منیراحمد صاحب نے بہترین انداز میں سٹیج سیکٹری کے فرائض اد کیئے ۔ اور خوبصورتی کیساتھ تمام پروگرام کو لیکر چلے ۔ تلاوت کلام پاک حافظ حبیب الرحمان  نے بہت خوش الحانی سے پیش کی ۔ ایک بچے ارسلان افتخار نے نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ سلم پیش کی اور پھرحافظ معظم صاحب نے نہایت پرسوز انداز میں نعتیہ کلام سنا کر سب کو مسحور کیا ۔ سینیئرنائب صدر جناب کامران گھمن صاحب صدرمحفل  تھے صدرجناب ذاھد اقبال خاں صاحب علالت کی وجہ سے نہ آ سکے لہذا انہوں نے  اورجنرل سیکٹری پنجاب پیپلز پارٹی   لطیف کھوسہ نے ٹیلی فون پر اپنے خیالات کا اظہار کیا    مقررین میں ذاھد ہاشمی پاکستان پیپلز پارٹی آذاد کشمیر کے صدر ، عارف مصطفائی تحریک انصاف کے سینیئیر کارکن،ہیومن رائٹس کے چئیر میں چودھدری  صفدر برنالی صاحب   نے خطاب کیا ۔ پروگرام کی انتظامیہ میں ایم اے صغیر اصغر صاحب میڈیا ایڈوائزر ، چیف آرگنائزر قاری فاروق احمد فاروقی صآحب، فنانس سیکٹری صوفی محمد سرفرازصاحب شامل تھے ۔ جبکہ مالی معاونت کامران گھمن صاحب نے کی ۔                                                      خواتین میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شعبئہ خواتین کی پہلی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ جو کہ کمیونٹی میں ایک نہایت محترم مقام رکھتی ہیں اور ایک پڑھی لکھ باشعور، نہایت خوش مزاج اورملنسار خاتون ہیں جو اپنےخاندان کی ذمّہ داریوں کیساتھ اپنی تمام مصروفیات کو نبھاتی ہیں اور اس بات کا ایک بیّن ثبوت ہیں کہ اگر آپ میں اہلیت ہے آپ میں کوئی صفت ہے تو آپ کو اس کے لئے کوئی غلط راستہ اپنانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا کام ہی آپ کو لوگوں سے ایک نہ ایک دن منوائے گا ۔ روحی  بانو صاحبہ نے بڑے بھرپور انداز میں بھٹو صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا اور اپنی  اسی موقع پر آمد ہوئی ایک فی البدیہہ نظم بھی پیش کی جسے شرکائے محفل نے بہت سراہا ۔   دیگر خواتین  مقررین میں تحریک انصاف کی ترجمان محترمہ شاہدہ افضل صاحبہ ، ڈیلی تاریخ کی ریذیڈینٹ ایڈیٹرمحترمہ طاہرہ سحر صاحبہ  اورجوائنٹ ایڈیٹر دیجائزہ ڈاٹ کام ، کالمسٹ ،اورشاعرہ  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انصاف کا آغاز اپنے اپنے گھروں سے کرنے پر زور دیا ۔  معروف کالمسٹ ۔ رائٹر اور مدر آف پی ٹی آئی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کا پیغام روحی بانو صاحبہ نے پڑھ کر سنایا۔ جس میں انہوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ ہمیں بے قدری کی اس روش کو اب ترک کرنا ہو گا جس نے ہماری  بڑی بڑی قیمتی اور نایاب ہستیوں  کو ان کا جائز مقام نہ دیکر انہیں گمنام کرنے کی کوششوں میں خود کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا ۔ اس پروگرام کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسمیں اکثر لوگوں نے اپنی خواتین اور بچیوں  کیساتھ شرکت کی  ۔ اور اسے ایک فیملی پروگرام بنا دیا ۔ تمام پروگرام کا فوکس کسی رنگا رنگی اور شو بازی کے بجائے اصل موضوع ہی رہا ۔ یہ ہی فرق ایک نمائشی پروگرام اورایک بامقصد پروگرام میں ہوتا ہے ۔ جسے پوری طرح حاصل کیا گیا جس کے لیئے انتظامیہ بہرطور مبارکباد کی مستحق ہے ۔ کسی نے اپنے ذہنی قابلیت کے ذور پر بڑا بھرپور تبصرہ کیا کہ ارے یہ کیا یہ تو چولہے چوکے والی خواتین کو لاکر اسٹیج پر کھڑا کر دیا گیا ہے تو ان تمام  ایسی سوچ رکھنے والوں  سے بہت احترام اور محبت کیساتھ عرض ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے، کوئی ملک بنتا ہے ،کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کی بنیاد اور اسکی طاقت یہ ہی چولہا چوکا عزت اور کامیابی کیساتھ کرتی ہوئی عورت ہی ہوتی ہے ۔ وگرنہ جو عورت اپنا ہی  چولہا چوکا اور گھرنہ سنبھال سکے تو وہ دوسروں کے چولہے کی راکھ میں ہی پھونکیں مار مار کر اپنا سر منہ کالا کرتی رہتی ہے ، وہ بھلا کسی کے لیئے کیا اچھا کر سکے گی ۔ دنیا کی کوئی تحریک فیشن پریڈ کرنے والوں اور فوٹو سیشن کرنے والوں کے ہاتھوں کبھی کامیاب نہیں ہوئی اگر ہوئی ہے تو ہمیں بھی ضرور بتایئے گا کہ شاید ہمارے علم میں بھی اضافہ ہو جائے ۔ روحی بانو صاحبہ کو اس پروگرام کی کامیابی کا خاص سہرا جاتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پڑھی لکھی سلجھی ہوئی خواتین خانہ کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر انہوں نے اپنے اوپر خواتین کے اعتماد کو ظاہر کیا ۔ بھٹو کے چاہنے والوں سے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ جس معاشرتی انصاف ، رواداری ، برابری کے لیئے بھٹو صاحب نے اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا اس کا تقاضہ ہے کہ اپنے اندر صبر ، تحمل اور برداشت پیدا کریں ۔ دوسروں کی جانب سے ہونے والی تنقید کو اپنی اصلاح کے لیئے استعمال کریں اور بھٹو کے نظریئے کے مطابق جاگیر دارانہ اور خاندانی سیاستوں کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ انسانوں کو پرستش کرنے کی بجائے ان کے دیئے ہوئے اچھے اصولوں پر اپنی زندگی کے راستے متعین کریں ۔ لوگ آتے جاتے ہیں  لیڈرز بھی مل جاتے ہیں لیکن ملک بار بار نہیں بنا کرتے ۔ گھر اور ملک بنانے میں صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن اسے توڑنے میں چند لمحے ہی کافی ہوتے ہیں ۔ ہمیں ہمارے لیڈرز کی یہ قربانیاں ضائع ہونے سے بچانی ہیں تو ہمیں پاکستان بچانا ہے ۔ 
 موج اٹھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو آخر اپنا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 11 اپریل، 2014

سالگرہ کے پیغامات برائے 2014

  • Mumtaz Malik
    Muhammad Umar بھائی صاحب یہ ہی پردیس میں بیٹھے لوگ اپنی ساری ساری عمر کی کمائیاں پاکستان نام کے چولہے میؐں جھونکے بیٹھے ہیں ، فکر تو ہونی چاہیئے
  • This comment has been removed.
  • Israr Alam salam o walikum
  • Malik Atif Raza http://earnwithatifraza.weebly.com/

    earnwithatifraza.weebly.com
    Earn money at home free with Ojooo.com Ojooo is a king Of PTC websites Best PTC wesite. http://wad.ojooo.com/register.php?ref=asifali60
  • Atique Khan hmmmmm well said
  • Mumtaz Malik
    Muhammad Umar بھائی صاحب ہم اپنا خون نچوڑ نچوڑ کر ہی پاکستان کے دیئے میں تیل ڈالنے کے لیئے بھیجیتے ہیں ان نوٹوں کی صورت میں ۔ جن کے بنا روٹی بھی نہیں آتی ۔ دوسرت بات آپ نے یہاں کس کس کا محل دیکھ لیا ہے ۔ کیا یہ بات جو بنا ثبوت کے کہی جائے کسی بہتان کے زمرے میں نہیں آتی ؟ ان باتوں کو نظر میں رکھا کریں کیوں کہ کئی بار ہم بہت چھوٹا سمجھ کر بہت بڑا گناہ کر جاتے ہیں ۔
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    اپنے مرض کو نہ پہچاننے اور نہ ماننے والے ہمیشہ ہی تکلیف میں رہتے ہیں پیارے بھائی ۔ جب کسی برائی کو ہنم برائی سمجھیں گے تبھی اس کے خاتمے کے لیئے بھی کانم کریں گے نا ۔ کوڑے کو کارپٹ کے نیچے کرنے سے وقتی طور پر تو صفائی ہوتی ہے پر بھر وہ بو دینے لگتا ہے...See More
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    اس کا مطلب ہے کہ آپ کو برائیاں دکھا کے اچھائی پہ مجبور کرنے والا صحافی نہیں بلکہ ایک خوشامدی طوطا چاہیئے جو وہی کہے جو آپ کو اچھا لگے کیا یہ قوم کو افیم دینے کے برابر نہیں ہے ۔ کہ جو کہیں ہے ہی نہیں وہ سناتے جائیں آپ ایسے کام کریں کہ ہم بھی سربلندی ...See More
  • Mumtaz Malik
    اس خوش خبری کے لیئے پیارے بھائی Muhammad Umar ایک پی ٹی وی ہی کافی تھا جو بتاتا تھا کہ شاہ کے دور میں سب اچھا ہے دودہ دہی کے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ عورتوں کو لوگ ماں بہن بہن جی کہہ کے آنکھیں نیچی کر کے چلتے ہیں ۔ ہر گھر میں گودام اناج سے لبالب بھرے ہیں ڈاکٹر فری ہر گھر کے باہر بیتھا ہے کہ کون چھینکے اور ہم اسے مفت دوا دیں ۔ کیا خیال ہے؟
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    آپ کی ساری باتوں کا نچوڑ ہی یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ نے نہ تو میرے آرٹیکلز پڑھے ہیں نہ ہی کہیں اور کے لہذا بحث بیکار ہے خوش رہیں آباد رہیں ۔ اور آئندہ مجھے خوشی ہو گی کہ آپ مجھےکمنٹ کرنے سے پہلے میرا کام ضرور ایک نظر دیکھیں ، دوسرے ملک کے صحافی وہ لکھتے ہیں جو ان کے ملک میؐ ہوتا ہے ہم وہ لکھتے ہیں جو ہمارے ملک میں ہوتا ہے ، اور آپ اگر اس بات سے انکار کرتے ہیں تو آپ کی رائے کا آپ کو پورا حق ہے والسلام
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik Aisi lanka ko dhe hi jana chahiey jo logon ki izeaton k jnaze pr khari ho.
  • This comment has been removed.
  • Mumtaz Malik
    یہ ہے آپ کا پاکستانی حسد جو اب بولا ۔ آج پاکستان میں وہی رہ رہا بھائی جو آپ کی طرح تلملا رہا ہے اور کہیں جا نہیں سکتا ورنہ کب کا نکل چکا ہوتا ۔ آپ وہ لوگ ہیں جو بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے ۔ آپ کو کوئی کچ نہیں کر سکتا بھائی ۔ ہم ج...See More

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/