ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 14 مئی، 2014

ایک اچھے مسلمان سے ملاقات۔ ممتازملک ۔ پیرس




ایک اچھے مسلمان سے ملاقات
ممتازملک ۔ پیرس


بہت کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے بلکہ کچھ تیزی کیساتھ ہی وقوع پذیر ہو رہا ہے ۔ کب صبح ہوئی اور کب رات ہو گئی کب ہفتہ شروع ہو ااور کب ختم کب ہو گیا ۔ کب سال کی ابتداء ہوتی ہے اور کب سال کا اختتام ہو رہا ہوتا ہے ۔ گویا ایک ایک پل سمجھنے والے کو موت کے در کے قریب کر رہا ہے ۔ اور نہ سمجھنے والے کو عیاشی کا ایک اور موقع فراہم کر رہا ہے ۔ ایک خدا کے سامنے جواب دہ آدمی کے لیئے ہر لمحہ ایک اور نیکی کی کوشش کا جذبہ فراہم کرتا ہے تو ایک خدا فراموش کے لیئے کل کس نے دیکھا ہے  اور جانے  کل کس کے ساتھ کیا ہو، کی بے خوفی کیساتھ'' کھل کے جی لے آج کی شام مہربانوں کے نام'' کر کے گناہ کی دلدل میں دھنستا ہی جا رہا ہے۔ ہر ایک اپنے گناہ کو گناہ سمجھنتا ہی کب ہے بلکہ اسے کرنے کے بعد اس پر خوب خوب تاویلیں بھی رکھتا ہے ۔ سب کے پاس اپنے اپنے جرائم کی معقول وجہ بھی ہوتی ہے اور گناہ کرنے کا بہانہ بھی ۔ کسی نے صرف نماز ہی پڑھنے کو  جنت کا مکمل راستہ جان لیا ہے تو کسے نے نبی پا ک ﷺ کی شفاعت کے وعدے کو اپنے گناہوں
اورجنت کے بیچ ایک ایسی گارنٹی بنا لیا ہے جسے دیکھ کر عیسائیت کا یہ عقیدہ بھی نظر آنے لگتا ہے کہ'' عیسی علیہ السلام نے سولی پر چڑھ کر ہمارے سارے گناہ معاف کروا لیئے ہیں اب ہم کچھ بھی کریں جنت تو ہے ہی ہمارے لیئے'' ۔ کیا ہم اپنے نظریات کو گنو اتو نہیں رہے ؟ اگر یہ سب اتنا سادہ تھا تو روز محشر کی ضرورت ہی کیا ہے جواب و سوال کا کیا تذکرہ ۔ قیامت کا قہر کیسا ۔ سب نے اپنے وقت پر مر جانا ہے آقا ئے نامدار نے آ کر ہمیں معاف کروا لینا ہے اور ہم سم جھومتے جھامتے جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ کسی کو بم باندھ کر پھٹ جانے پر جنت مل رہی ہے ۔ کسی کو اپنے بچے ذبح کرنے پر جنت مل رہی ہے ۔ کسی کو قبر کے مردے نکال کے ان کی بے حرمتی کے بدلےکوئی جاہل جنت دے رہا ہے ۔ کوئی انسانیت کو جاہلوں کی گود میں ڈال کر جنت کا طلبگار ہے ۔ اللہ پاک کی اصل کتاب، آخری کتاب ،کلام الہی یہ کیا کہہ رہا ہے اسے جُلدان سے نکالنے کا وقت ہی نہیں۔ اس پر سے ایک ادھ  مہینہ ہی گرد جھاڑی جاتی ہے سال بھر میں۔ اس کے بعد اسے ہر کسی کی پہنچ سے دور رکھ کے اپنے حساب سے جنت سنبھال کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہ باتیں اس لیئے لیئے بھی زہن کے پنجرے میں پھڑپھڑا رہی تھیں کہ بہت دنوں سے خواہش تھی کسے اچھے مسلمان سے ملاقات کی۔ کہتے ہیں کہ نیت اچھی اور ارادہ مضبوط ہو تو اللہ پاک راستے بھی پیدا کرتا ہے اور آسانیاں بھی ۔  پچھلے دنوں معروف عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب کو دیکھنے اور ان سے روبرو ملاقات کا شرف حاصل ہوا محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کے ہاں 10 مئی 2014 ڈیلی جائزہ کی ممبران خواتین کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام تھا جس میں محترم مولانا طارق جمیل صاحب سے ہماری ایک سرپرائزنگ ملاقات کا موقع بن گیا جسے تمام ساتھی خواتین نے اپنے لیئے ایک روحانی اعزاز جانا ۔ محترم کے ساتھ ان کی اہلیہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ نہایت ہی نفیس خاتون ہیں ۔ جنہوں نے نہایے محبت سے سب بہنوں سے تعارف لیا اور خود کو متعارف کروایا ۔ مولانا صاحب کی ایک بات نے خاص طور پر ہمیں بہت متاثر کیا کہ آپ صرف لوگوں سے ہی شفیق نہیں ہیں بلکہ اپنے بچوں کے ایک شفیق باپ اور اپنی بیوی کے ایک انتہائی مہربان شوہر ہیں ۔ جو انہیں اپنے ساتھ رکھنا اپنی عزت سمجھتے ہیں ۔اسے پردے میں ہوتے ہوئے بھی نمایاں مقام دیتے ہیں۔ ایک طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بیویوں کو پردے میں رکھنے اور دوسروں کو بے پردگی میں لانے کے لیئے بے چین رہتے ہیں ۔ یہ ہی فرق ہے مسلمان ہونے اور مسلمان نظر آنے میں ۔ مولانا صاحب بیشک آپ بہت اچھے مسلمان اور بہت اچھے انسان بھی ہیں کیوں کہ آپ اپنےرشتوں کیساتھ بھی انصاف کرتے ہیں ۔ اپنے کام کو اپنے گھر والوں سے چھپا کر نہیں کرتے ، دین کو آسان بنا کر اور خود پر اطلاق کر کے دکھاتے ہیں ۔ محبت سے بات سنتے بھی ہیں اور اسے دلائل سے سمجھاتے بھی ہیں ۔ اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کوئی چیز نہیں سمجھتے ، بلکہ خود کو لوگوں کے نزدیک تر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ سب دیکھ کر شدّت سے اس بات کا احساس ہوا کہ جو شخص لوگوں کے حقوق ادا نہیں کر سکتا وہ کبھی بھی اللہ کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ عبادت کے لیئے خدا کے پاس فرشتوں کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں تھی اسے تو ایک ایسی مخلوق تخلیق کی تھی جس میں خیر بھی ہو اور شر بھی ۔ جو گناہ کرے تو توبہ بھی ۔ ذیادتی کرے تو شرمندہ بھی ہو ، جس کی آنکھ صرف اپنی ہی نہیں دوسروں کی تکلیف پر بھی روئے ۔ جس کا چہرہ اپنی ہی نہیں دوسروں کا کامیابی پر بھی تمتمائے ۔ جو اپنے سوا دوسروں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی فکر کرے۔  اسی لیئے اللہ پاک نے اپنی ہر خوبی کی ایک ایک جھلک انسان کی مٹی میں بھی گوندھ دی ۔ لیکن آج انسان نے کیا کیا رحمن پر شیطان کی سنگت کو ترجیح دیکر نہایت خسارے کا سودا کر لیا ۔ کیا خوب فرماتا ہے تمام کائیناتوں کا رب کہ
'' عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے ۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور  نیک عمل کیئے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے'' ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





     

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/