۫ ۖوَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (141)(سورہ۔6۔ الاانعام )
فضول خرچی نہ کیا کرو ، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہےo‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 26، 27
اسی طرح۔۔۔
اس قدر کنجوس مت بنو کہ ہاتھ اپنے گریبان سے باندھ لو اور اس قدر شاہ خرچ مت بنو کہ برباد ہو جاو ۔ جی ہاں یہ بھی اللہ پاک کی جانب سے نازل کی جانے والی ایک آیت کا مفہوم ہے ۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہیں لیکن انہیں اکثر اس کا علم ہی نہیں ہو پاتا لیکن ہاں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی زبان سے اکثر ایک جملہ تواتر سے سنائی دیتا رہیگا کہ " اللہ جانے ہمارے حالات کب بدلیں گے؟"
آج سے بہت زیادہ دور نہ بھی جائیں تو کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ٹی وی کی ہماری زندگیوں میں آمد نہیں ہوئی تھی ، ہم لوگوں کے گھروں سے مہینے میں ایک ادھ بار ہی بازار جایا جاتا تھا اور ضرورت کی وہ تمام اشیاء جو پورے مہینے نوٹ کر لی گئیں یا یاد کروائی گئیں مخصوص دکانوں سے خرید کر اپنے گھر کی راہ لی جاتی ۔ اس سامان میں گھر کے راشن کے ساتھ کوئی کپڑا لتہ ضروری ہوتا یا کوئی سوئی سلائی کا سامان چاہیئے ہوتا تو وہ بھی آ جاتا۔ کیونکہ اس وقت تک گھر کی خواتین کو بلکہ حضرات کو بھی وہ کئی امراض لاحق نہیں ہوئے تھے جو آج ہماری معاشرت کو لاحق ہو چکے ہیں ۔ ٹی وی کے آنے کے بعد تو اشتہارات کہ بھرمار اور اکسا اکسا کر، ترسا ترسا کر سامان بیچنے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ الامان اور الحفیظ ۔
اس پر بھلا ہو انٹر نیٹ کا اور موبائل کی آمد کا، کہ مردوزن نے اسے اپنا ایسا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ زندگی کا ہر رنگ اس کے سامنے پھیکا پڑ گیا ، ہر رشتہ اس کے آگے کمزور کر دیا گیا ۔ یقین نہ آئے تو کسی کا بھی چلیئے اپنے کسی بچے سے ہی اس کے ہاتھ کا موبائل تو لیکر دکھا دیں ۔ وہ ایسا سیخ پا ہو گا کہ اپنے ماں باپ چھوڑنے کو تیار ہو جائیگا لیکن فون چھوڑنے کو تیار ہر گز نہیں ہو گا۔
ہم موبائل یا انٹر نیٹ کے مخالف بھی ہر گز نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بیجا اور بے مقصد استعمال کو نہ صرف صحت کے اصول سے غلط سمجھتے ہیں بلکہ معاشرتی طور پر اس کا منفی اثر توڑنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس انٹر نیٹ پر ہماری جان کو لگی ہوئی فضول خرچی کے مرض کو اور زیادہ بے قابو کر دیا ہے ۔ اس پر کھلے نیٹ شاپنگ کے نام سے اب جو چیز فوٹو میں دکھ گئی بس اس کا خریدنا ایسا ہی ہے جیسے انگلیوں میں خارش ہو اور اسے کھجا لیا جائے۔
چیز گھر پہنچتی ہے تو اکثر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا کچرا منگوا لیا ہے ؟ بھئی اس کی کیا ضرورت تھی؟ سیل کے نام پر پھر جو رکا ہوا فیشن سے آوٹ ہوا مال بیچا جاتا ہے اس کی الگ ہی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں خصوصا خواتین ایکدوسرے کا سر منہ توڑ کے ایکدوسرے کے گریبان پھاڑ کر ان پر ایسھ جھپٹتی ہیں جیسے دنیا میں یہ ہی جوڑا ، جوتا یا زیور انکی زندگی کی آخری خواہش اور گارنٹی ہے یہ انہیں نہ ملا تو دنیا میں آنے کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔ یی انہیں کو دیدیں ورنہ سمجھ لیں کہ ابھی ان کا دم نکلا کہ نکلا ۔۔۔
چاہے ان کے گھر مین کتنا ہی ضروری کام اس پیسے سے ہونا باقی ہو ، کسی بیمار عزیز کی دوا دارو ضروری ہو ، شوہر کوئی ضروری بل جمع کروانے کے لیئے دوستوں سے ادھا مانگ رہا ہو، رشوت لے رہا ہو ، کوئی اور ناجائز زریعہ ڈھونڈ رہا ہو لیکن نہیں خاتون کو اپنا وہی تعیش پورا کرنا ہے تو کرنا ہے، ضروریات جائیں بھاڑ میں ۔۔ کہیں مردوں کو ہر سال موبائل ، ٹی وی یا اور ایسی چیزوں کے جدید ماڈلز لینے کا مرض لاحق ہو گیا یے ، کسی کو مہنگے برانڈ کے سگریٹ ،سگار ، یا کوئی اور لت لگ گئی ہے تو وہ ساری کمائی اس پر اڑانا فخر سمجھتا ہے چاہے گھر میں دال روٹی کے لالے پڑے ہوں ۔ ان تمام لوگوں کو مرض خریداری لاحق ہوتا ہے ۔شاپنگ کا نشہ جو انسان کو اکیلے نہیں اس کے پورے خاندان سمیت لے ڈوبتا ہے ۔ سوچیئے اور غور کیجیئے آپ نے اپنے گھر میں کتنا سامان خرید خرید کر ٹھونس رکھا ہے جو بعد میں ضائع ہو گیا ، اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ، وہ آپ کے استعمال کے لیئے تھا ہی نہیں ، اس کے خریدنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی ، اس پیسے کو جمع کر کے کوئی بچت اکاونٹ کھولا جا سکتا تھا ۔ جس پر آپکو ماہانہ آمدنی ہو سکتی تھی یا اسے فکس کروا کے کل کو کوئی گھر خریدا جا سکتا تھا۔ کوئی کاروبار کیا جا سکتا تھا ۔ بچوں کی تعلیم اور شادیوں میں کام میں لایا جا سکتا تھا ۔ اپنے حالات کو نہ بدلنے میں آپ خود زمہ دار ہیں کیونکہ کمانا جتنا مشکل ہے سوچ سمجھ کر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ، لیکن یہ ہی مشکل کام ایک بار کرنے کی عادت پڑ جائے تو حالات بدل دیتی ہے ۔ ہر وقت حالات کا رونا رونے کے بجائے سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی عادت ڈالیئے ۔ اس سے انسان نہ تو کسی کا مقروض ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ شاپنگ کا مرض ہی تباہی کی بنیاد ہوتا ہے ، فضول خرچ اللہ کی نظر میں بھی شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور شیطان کے بھائی کو سکون کیسے مل سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔