ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 28 جنوری، 2020

● شاپنگ ایک عالمگیر مرض / کالم




        (شاپنگ ایک عالمگیر مرض)
           (تحریر: ممتازملک.پیرس)



  ۫ ۖوَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (141)(سورہ۔6۔ الاانعام )
فضول خرچی نہ کیا کرو ، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہےo‘‘
 بنی اسرائيل، 17 : 26، 27
اسی طرح۔۔۔
اس قدر کنجوس مت بنو کہ ہاتھ اپنے گریبان سے باندھ لو اور اس قدر شاہ خرچ مت بنو کہ برباد ہو جاو ۔ جی ہاں یہ بھی اللہ پاک کی جانب سے نازل کی جانے والی ایک آیت کا مفہوم ہے ۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہیں لیکن انہیں اکثر اس کا علم ہی نہیں ہو پاتا لیکن ہاں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی زبان سے اکثر ایک جملہ تواتر سے سنائی  دیتا رہیگا کہ " اللہ جانے ہمارے حالات کب بدلیں گے؟"
آج سے بہت زیادہ دور نہ بھی جائیں تو کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ٹی وی کی ہماری زندگیوں میں آمد نہیں ہوئی تھی ، ہم لوگوں کے گھروں سے مہینے میں ایک ادھ بار ہی بازار جایا جاتا تھا اور ضرورت کی وہ تمام اشیاء جو پورے مہینے نوٹ کر لی گئیں یا یاد کروائی گئیں  مخصوص  دکانوں سے خرید کر  اپنے گھر کی راہ لی جاتی ۔ اس سامان میں گھر کے راشن کے ساتھ کوئی کپڑا لتہ ضروری ہوتا یا کوئی سوئی سلائی کا سامان چاہیئے ہوتا تو وہ بھی آ جاتا۔ کیونکہ اس وقت تک گھر کی خواتین کو بلکہ حضرات کو بھی وہ کئی امراض لاحق نہیں ہوئے تھے  جو آج ہماری معاشرت کو لاحق ہو چکے ہیں ۔ ٹی وی کے آنے کے بعد تو اشتہارات کہ بھرمار اور اکسا اکسا کر، ترسا ترسا کر سامان بیچنے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ الامان اور الحفیظ ۔ 
اس پر بھلا ہو انٹر نیٹ کا اور موبائل کی آمد کا، کہ مردوزن نے اسے اپنا ایسا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ زندگی کا ہر رنگ اس کے سامنے پھیکا پڑ گیا ، ہر رشتہ اس کے آگے کمزور کر دیا گیا ۔ یقین نہ آئے تو کسی  کا بھی چلیئے اپنے کسی بچے سے ہی اس کے ہاتھ کا موبائل تو لیکر دکھا دیں ۔ وہ ایسا سیخ پا ہو گا کہ اپنے ماں باپ چھوڑنے کو تیار ہو جائیگا لیکن فون چھوڑنے کو تیار ہر گز نہیں ہو گا۔ 
 ہم موبائل یا انٹر نیٹ کے مخالف بھی ہر گز نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بیجا اور بے مقصد استعمال کو نہ صرف صحت کے اصول سے غلط سمجھتے ہیں بلکہ معاشرتی طور پر اس کا منفی اثر  توڑنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس انٹر نیٹ پر ہماری جان کو لگی ہوئی فضول خرچی کے مرض کو اور زیادہ بے قابو کر دیا ہے ۔ اس پر کھلے نیٹ شاپنگ کے نام سے اب جو چیز فوٹو میں دکھ گئی بس اس کا خریدنا ایسا ہی ہے جیسے انگلیوں میں خارش ہو اور اسے کھجا لیا جائے۔ 
چیز گھر پہنچتی ہے تو اکثر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا  کچرا منگوا لیا ہے ؟ بھئی اس کی کیا ضرورت تھی؟ سیل کے نام پر پھر جو رکا ہوا فیشن سے آوٹ ہوا مال بیچا جاتا ہے اس کی الگ ہی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں خصوصا خواتین ایکدوسرے کا سر منہ توڑ کے ایکدوسرے کے گریبان پھاڑ کر ان پر ایسھ جھپٹتی ہیں جیسے دنیا میں یہ ہی جوڑا ، جوتا یا زیور انکی زندگی کی آخری خواہش اور  گارنٹی ہے یہ انہیں نہ ملا تو دنیا میں آنے کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔ یی انہیں کو دیدیں  ورنہ سمجھ لیں کہ ابھی ان کا دم نکلا کہ نکلا ۔۔۔
چاہے ان کے گھر مین کتنا ہی ضروری کام اس پیسے سے ہونا باقی ہو ، کسی بیمار عزیز کی دوا دارو ضروری ہو ، شوہر کوئی ضروری بل جمع کروانے کے لیئے دوستوں سے ادھا مانگ رہا ہو،  رشوت لے رہا ہو ، کوئی اور ناجائز زریعہ ڈھونڈ رہا ہو لیکن نہیں خاتون کو اپنا وہی تعیش پورا کرنا ہے تو کرنا ہے،  ضروریات جائیں بھاڑ میں ۔۔ کہیں مردوں کو ہر سال موبائل ، ٹی وی یا اور ایسی چیزوں کے جدید  ماڈلز لینے کا مرض لاحق ہو گیا یے ، کسی کو مہنگے برانڈ کے سگریٹ ،سگار ، یا کوئی اور لت لگ گئی ہے  تو وہ ساری کمائی اس پر اڑانا فخر سمجھتا ہے چاہے گھر میں  دال روٹی کے لالے پڑے ہوں ۔ ان تمام لوگوں کو مرض خریداری لاحق ہوتا ہے ۔شاپنگ کا نشہ جو انسان کو اکیلے نہیں اس کے پورے خاندان سمیت لے ڈوبتا ہے ۔ سوچیئے اور غور کیجیئے آپ نے اپنے گھر میں کتنا سامان خرید خرید کر ٹھونس رکھا ہے جو بعد میں ضائع ہو گیا ، اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ، وہ آپ کے استعمال کے لیئے تھا ہی نہیں  ، اس کے خریدنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی ، اس پیسے کو جمع کر کے کوئی بچت اکاونٹ کھولا جا سکتا تھا ۔ جس پر آپکو ماہانہ آمدنی ہو سکتی تھی یا اسے فکس کروا کے کل کو کوئی گھر خریدا جا سکتا تھا۔ کوئی کاروبار کیا جا سکتا تھا ۔ بچوں کی تعلیم اور  شادیوں میں کام میں لایا جا سکتا تھا ۔ اپنے حالات کو نہ بدلنے میں آپ خود زمہ دار ہیں کیونکہ کمانا جتنا مشکل ہے سوچ سمجھ کر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ، لیکن یہ ہی مشکل کام ایک بار کرنے کی عادت پڑ جائے تو حالات بدل دیتی ہے ۔  ہر وقت حالات کا رونا  رونے کے بجائے سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی عادت ڈالیئے ۔ اس سے انسان نہ تو کسی کا مقروض ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ شاپنگ کا مرض ہی تباہی کی بنیاد ہوتا ہے ،  فضول خرچ اللہ کی نظر میں بھی شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور شیطان کے بھائی کو سکون کیسے مل سکتا ہے ۔
                      ۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 27 جنوری، 2020

اک چپ سو سکھ / کوٹیشنز

     اک چپ سو سکھ 

تلخیاں بڑھنے پر بدزبانی سے بہتر ہے خاموشی اختیار کر لی جائے۔ اس عرصے میں اپنا احتساب کیجیئے۔ یہ خاموشی دلوں کو نرم کرتی ہے اور ناشکری اور دل شکنی کے تمام میل دھو دیتی ہے ۔
  (چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 24 جنوری، 2020

● بے تاج شہزادہ / کالم




             بے تاج شہزادہ 
      (تحریر:ممتازملک.پیرس)


ہم اکثر سوچتے ہیں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جن کی وجہ سے اب تک یہ دنیا چل رہی ہے یا قائم ہے ۔ پھر ہمارے ذہن میں ہمیشہ  ہی اللہ والوں کا خیال آتا ہے یا ان لوگوں کا جو دنیا سے الگ کسی گوشے میں بیٹھے ہر چیز سے لاتعلق زندگی سجدوں میں گزار دیتے ہیں ۔ ہاں یہ سچ ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ کتنے ہونگے شاید اتنے ہی جتنے انگلیوں پر گنے جا سکیں ۔ اور پھر جس زندگی سے اللہ کی مخلوق کا کوئی بھلا نہ ہو وہ چاہے سجدے میں گزار دی جائے یا کسی میکدے میں ، کیا فرق پڑتا ہے ۔ اگر فرق نہ پڑتا تو اللہ نے اپنے حقوق سے پہلے ہم پر اپنی مخلوق کا ، اپنے انسانوں کے تئیں حقوق کی ادائیگی  کا حکم نہ دیا ہوتا ۔۔ دنیا ایک مقناطیسی کشش رکھنے والی جادونگری ہے اور اس میں آج تو کامیابی کا  ایک ہی منتر ہے اور وہ  ہے  پیسہ ۔ کتنا ؟ اسکی کوئی حد نہیں ہے ۔ 


لیکن قارون جیسے لوگوں کے انجام نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ زندگی اگر ضرورت میں رہے تو وہ تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور اگر تعیش میں چلی جائے تو بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں ۔ ۔۔
پیسے کے عشق میں جہاں آج کی دنیا میں ہم اپنے رشتے بیچ رہے ہیں ، اپنی عزتیں نیلام کر رہے ہیں ، اپنی محبتوں کو سولی چڑھا ریے ہیں اور خدا کو یہ کہہ کر چیلنج کر رہے ہیں کہ جب مریں گے تو دیکھی جائیگی ۔۔۔۔
وہیں اسی آج کی دنیا میں سب سے مقبول اور پسندیدہ برطانوی  شاہی خاندان  ، کہ جس میں شامل ہونے کے لیئے ہی نہیں ، صرف ان سے ملنے  اور دیکھنے کے لیئے بھی  لوگ مرے جاتے ہیں ، جہاں پر ایک تھی شہزادی ڈیانا ، جس نے عام سے گھر سے اٹھ کر شہزادی کا مرتبہ حاصل کیا ، اور پھر اس تاج کو ٹھکرا کر انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈال کر یہ سبق دیا کہ لوگ تاج کے نہیں بلکہ تاج اچھے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے ، اسی شہزادی ڈیانا کے بیٹے ہیری نے عام سی صورت والی ، طلاق یافتہ ، خود سے تین برس بڑی عورت میگھن مارکل سے شادی کر کے  محبت اور انسانیت کی ایک خوبصورت مثال پیش کی، تو محض تین سال میں ہی اس بیوی  میگھن کیساتھ مل کر دنیا کے لیئے ایک مثالی فیصلہ کر لیا کہ نہیں جینا محنت کشوں ، مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے نچوڑے ہوئے ٹیکس کے مال پر ، کہ وہ کمائیں اور ہم شاہی محلوں میں بیٹھ کر ان کے مال پر عیش کریں ۔۔ واللہ آج کی دنیا میں جب بھائی بھائی کے یتیم بچوں اور اسکی بیوہ کے سر پر سے گھر کی چھت چھین لیتا ہے اور اف نہیں کرتا ، بہنوں کے مال پر نگرانی کے بہانے ڈاکے ڈالتا ہے اور شرمسار نہیں ہوتا ، باپ کی چھت بیوہ ماں کے انگوٹھے  دھوکے سے لگوا کے باہر باہر ہی اسے بیچ کر بھاگ جاتا ہے اور اسے غیرت نہیں آتی کہ اس کی ماں سڑک پر کھڑی بھیک مانگ کر روٹی کھانے پر مجبور ہو گئی ہے ،اسے شرم سے موت نہ آئی ، اسی آج کی دنیا میں شہزادہ ہیری اور اس کی بیوی میگھن یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم پر محل میں رہنے کے دوران جو چوبیس لاکھ پاونڈز خرچ ہوئے ہیں وہ سب ہم قرض سمجھ کر تھوڑے تھوڑے کر کے خزانے کو واپس لوٹائیں گے کہ اب ہم اپنے ضمیر پر مذید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک ایک سکے کے لیئے محنت کرنے والی عوام کے مال پر عیش کریں، اس کے بجائے ہم ان کے جیسے ہی گھر میں رہیں گے ان جیسی ہی محنت کرینگے ، ان جیسے ہی مسائل کا سامنا کریں گے اور اسی عام آدمی کیساتھ ، ایک عام آدمی کی سی زندگی گزاریں گے ۔ 
بطور مسلمان یہ سبق ہمیں ہمارا  دین سکھاتا ہے لیکن افسوس اس کا عملی ثبوت ہر بار ہمیں کوئی غیر مسلم ہی کیوں پیش کرتا ہے ۔ ہیری اور میگھن نے آج کے انسانوں کو وہ پیغام دیا ہے جو ہمارے نبیوں اورولیوں نے ، جب سے دنیا بنی ہے ہمیشہ ہمیں دیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم میں سے ہر ایک نہ ہیری بننے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ ہی میگھن بننے کی خواہش  ۔ آج بھی ان کے اس اقدام پر ہزاروں لاکھوں جوان انہیں احمق بھی قرار دے رہے ہونگے اور بیوقوف بھی ۔ ان کی تعریف میں لفاظی کرنے والوں کو بھی ان کی تقلید کرنے کا کہیں گے تو کبھی اس پر آمادہ نہیں ہونگے کیونکہ ان کی بنیاد میں ہر رشتے اور احساس سے اوپر پیسے کا عشق ہی سوار ہے ۔ وہ اس سکون کو ، اس بلندی کو  کبھی محسوس نہیں کر سکتے جو ہیری اور میگھن نے پا لیا ہے  ۔ اب ان کے سروں کو تاج کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب وہ انسانیت کے تخت پر براجمان ہو چکے ہیں ۔ 
یہ وہی لوگ ہیں جن کے وجہ سے آج بھی انسانیت پر اعتبار اور اس کا بھرم قائم ہے ۔ یا شاید ان لوگوں میں سے     کہ جن کی وجہ سے اللہ پاک نے اس دنیا کو ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ ہاں وہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے سبب انسانیت پر اعتبار ابھی سلامت ہے ۔ 
ویلڈن ہیری اور میگھن ۔
 آپ دونوں کو میرا سلام ۔
 اور 
ایک عام آدمی کی دنیا میں
                            خوش آمدید 
                     ۔۔۔۔۔


جمعہ، 10 جنوری، 2020

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن/ کالم


حکومت پاکستان متوجہ ہو ۔۔۔

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن 
          (تحریر:ممتازملک.پیرس)
 
دنیا بھر میں ممالک اپنے شہریوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے کے باجود مکمل قانونی، معاشی اور معاشرتی تحفظ اور عزت فراہم کرتے ہیں۔ سماجی طور پر بھی انہیں اپنے ملک کے لیئے ذر مبادلہ  بھیجنے کی صورت میں عزت اور تحفظ دیا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ پہلے تو ہر حکومت چیخ چیخ کر رو رو کر  تارکین وطن کو مجبور کرتی ہے کہ آو ہماری اپنی ایئر لائن میں سفر کرو تاکہ ہمیں ایئر لائن چلانے کے لیئے پیسہ مل سکیں ، 
اچھا جی کر لیا سفر ، نتیجہ پھٹے پرانے ناقص اورناقابل اعتبار جہازوں میں سفر بھی کر لیا۔ یہ سوچ کر کہ زندگی رہی تو پہنچ ہی جائیں گے ، آیت الکرسی اور درود پاک کا ورد کرتے کرتے سفر بھی مکمل کر ہی لیا ، اب ایئر پورٹ پر اپنی جھنڈ منڈوانے کو تیار ہو جائیں۔ جو بھی افسر جس موڈ میں بیٹھا ہو گا وہ آپکے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریگا ۔ آپ کتنے سال کے بعد اپنے ملک کا سفر کر رہے ہیں ؟ آپ کو کیا کیا سامان یا الیکٹرانکس  ڈیوٹی فری میں لیجانے کی اجازت ہے؟ اس کی کوئی واضح ہدایات متروک ہیں ۔ 
اپنے ملک میں کاروبار کرو ۔۔۔ 
اچھا جی ساری جمع پونجی لا کر وطن کی محبت میں یہاں لگا دی ۔۔
۔ لیکن یہ کیا کاروبار تو بعد میں شروع ہو گا پہلے اس کے پرمٹ اور اجازت نامے جاری کرنے والے ایک ایک افسر سے لیکر منشی تک کو بھتہ اور رشوت بانٹیئے تب ہی آپ کی فائل کو پہیئے لگیں گے ۔ نہیں تو  یاد رکھیں بیٹھ کر کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جائے گا ۔  کسی طرح سے یہ معاملہ بھی نپٹ گیا تو کاروبار  شروع کرنے کیساتھ ہی آپ پر ایسے ایسے اور اتنے اتنے ٹیکسز کی بھرمار ہو جائیگی کہ آپکو لگے گا آپ اس ملک میں کاروبار کرنے نہیں آئے شاید کوئی جرم کرنے آئے تھے جس کی آپکو بھرپور سزا دی جا رہی ہے ۔ اس سے بھی نکل گئے تو کاروبار  کے لیئے جن ملازمین اور سٹاف کی ضرورت ہو گی وہ کتنا ایماندار ، سچا اور مددگار ہے اس کی گارنٹی کون دیگا ؟  جس پر بھی رتی بھر بھروسہ کرینگے وہ آپ کی پیٹھ پر لات مارنے کے لیئے سوچنے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کریگا ۔  
اپنے ملک میں گھر خریدو ۔۔۔
چلو جی گھر بھی خرید لیا ۔۔۔ اب آپ مستقل تو پاکستان میں سارے خاندان کو لیکر منتقل نہیں ہو سکتے ۔ سو واپس بھی جانا ہے ، اب گھر کا کیا کریں ؟ گھر کرائے پر دیدیں تو معلوم ہو گا کہ گھر کے کرائے دار ہی گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ، کرایہ خون تھکوا تھکوا کر ہزار فساد کے بعد بھی وقت پر نہیں مل رہا ۔ اور خالی کروائیں تو گھر کو خوب تباہ کر کے جانا انکا پہلا  کام ہوگا۔ اب قانونی طور پر آپ باہر بیٹھ کر اپنے گھر کی حفاظت اور توڑ پھوڑ کا کلیم کس پر اور کیسے کال کریں گے ؟ غلطی سے عدالت میں چلے گئے تو سالہا سال تک پیشیاں ہی بھگتتے رہیں ۔ 
اگر گھر کسی رشتے دار کی نگرانی میں دیدیا ہے  تو  آپکے جہاز تک پہنچنے سے پہلے ہی  وہ اس گھر کا مالک بننے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیگا ۔  سارے رشتے ، اعتبار ، لحاظ ایک ہی قبر میں دفن کرنا اس کا پہلا کام ہو گا ۔ آپ کی جائیداد بھی گئی، مال بھی گیا ، اعتبار بھی گیا ،  اور تو اور وہ رشتہ  بھی گیا ۔ 
تارکین وطن کے لیئے پاکستان میں نہ تو کوئی قانونی تحفظ موجود ہے اور نہ ہی کوئی بنیادی  حفاظت ۔ 
پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت  ہے کہ تارکین  وطن کے لیئے خصوصی اور فوری عملدرامد کرنے والے  قوانین  بنائے جائیں ۔ ان کے لیئے الگ سے کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے جسے تارکین وطن کورٹس کا نام دیا جائے ۔ جس میں تارکین وطن کی اپنے ملک میں وراثت ،  کاروباری اشتراک ، جائیدادوں ، کرایہ داریوں کے مسائل  پر خصوصی اور فوری قانونی امداد فراہم کی جائے جس کا فیصلہ ہونے تک کا دورانیہ تین سے چھ ماہ تک کا ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ اس سے زیادہ کا قیام ایک وقت میں ان کے لیئے ممکن نہیں ہوتا  ۔ اورجسے وہ پیروی کی ذمہ داری دیتے وہ کتنا مخلص ہو گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ گھروں اور جائیدادوں  پر دی جانے والی فل اٹارنی  (مختار نامہ عام ) کو فی الفور یا تو ختم کیا جائے یا اس  پر مالکانہ اختیارات کو بلاک کیا جائے ۔ کیونکہ اکثر گھروں،  جائیدادوں  اور  کاروبار پر انہیں  عام مختار ناموں کی صورت ہی قبضے ہو رہے ہیں ۔ مجسٹریٹ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی بھی اٹارنی پر اس کے مالک کی غیر موجودگی میں ملکیت کا اختیار استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیئے ۔ تارکین وطن کی گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو محض ایک مختارنامہ عام کے سٹامپ پر  ایسے قبضہ گیروں اور حرام خوروں  پر (جو کہ اکثر انکے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ) شکنجہ کسا جانا چاہیئے ۔ جو ایک قانونی آسانی کو اپنے ہی رشتہ داروں کو لوٹنے کے لیئے عذاب بنا دیتے ہیں ۔
ان نکات پر  فوری غور کیا جانا چاہیئے ۔ کیونکہ انہیں مسائل کی وجہ سے تارکین وطن اب پاکستان میں کہیں بھی پیسہ لگانے سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں ۔ انہیں قانونی  تحفظ فراہم کیجیئے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 7 جنوری، 2020

صدام ساگر /تبصرہ


کالم نویس صدام ساگر کا تبصرہ برائے  نعتیہ مجموعہ کلام
 اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)


3

پیر، 6 جنوری، 2020

سعید الرحمن ۔ منشاء قاضی ۔ شمیم۔خان ۔ ادریس تونسوی / رائے


آراء 

صوابی یونیورسٹی  کے پی کے،  کے ہونہار طالبعلم ، شعبہ اردو سے سعید الرحمن کی رائے  12 دسمبر 2020ء کے پروگرام کے بعد 


سینئیر صحافی اورمعروف تجزیہ کار جناب منشاء قاضی لاہور سے فرماتے ہیں ۔۔



پیرس سے معروف شاعرہ شمیم خان صاحبہ اور
لاہور سے ایڈیٹر ادریس تونسوی کی رائے ۔۔۔








ناصرنظیر/ رائے



سوشل ایکٹیوسٹ ناصر نظیر کی رائے 
2 جنوری 2020ء



واہ باکمال شخصیت کیلئے کمال کی تحریر 
ممتاز ملک صاحبہ اتنی پیاری شخصیت ھےجوایک باراسےسنےجس کسی کوانکی ملاقات کاشرف حاصل ھوجائے یقین مانواسی کےدل میں محل بناتی ھے پچھلے کئی سالوں سےمیڈم کوسوشل میڈیا پرفالوکررہاتھا پشاور میں سٹوڈنٹس کیلئے منعقدہ تقریب میں بذریعہ مسینجر دعوت نامہ بیجھا رات کوپنڈی سےپشاورآئی دورانِ تقریر سماعت سےمحروم صوبائی سکواش چمپئن قومی بیٹی جو کہ سامنے بیٹھی تھی کاذکرکرتےھوئے ہال میں موجود شرکاء کوابدیدہ کیا اس دن سےلیکرآج تک تمام دوست جب بھی ملتے ہیں یاکسی سےفون پربات ھوتی ھےتوسب سےپہلےمیڈم کاپوچھتےہیں اورساتھ میں یہ وعدہ بھی لینےکی کوشش کرتےہیں کہ اس نفیس ملنسار اوررہبرمیڈم کواگلے سال ھونیوالےتقریب میں ضرور بلانا
                   ......




جمعہ، 3 جنوری، 2020

● شفیق مراد۔ تبصرہ ۔ سراب دنیا




تبصرہ:     شفیق مراد۔ جرمنی

قلم کی امین

ادیب اور شاعر قلم کا امین ہوتا ہے جو اس بار امانت کو اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے اپنے مشاہدات و تجربات کو سپردِ قلم کرنے کی غرض سے کئی مرتبہ پُلِ صراط سے گزرتا ہے ۔جب مشاہدات و تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات ،احساس کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں تو وہ اشعار کا روپ دھارکر رنگ ونور کی شعاعیں بکھیرتے ہیں ۔ جو آنکھوں کو بینائی اور سوچ کو توانائی کے انمول خزانے عطاکرتی ہیں، تو گلستانِ حیات میں پھولوں کی نگہت اور کلیوں کی صباحت محسوس ہوتی ہے ۔
انقلاب کی سر زمین فرانس، خوشبوؤں اور محبتوں کے شہر فرانس میں مقیم ممتاز ملک کا قلم امانت کا حق ادا کرتے ہوئے، کبھی انقلاب کا جذبہ بیدار کرتا ہے تو کبھی وطن کی محبت کی مخملی چادر میں دیار غیر میں رہنے والے ہموطنوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس کا قلم رشتوں کے اثبات ، وطن کی محبت، انسان دوستی اورامن و آشتی کا پیغام دیتاہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خون جگر سے گلستان حیات کی آبیاری کر کے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے اور علم و ادب کی روشنی سے قلوب کو منور کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔وہ کہتی ہے ۔
ظلمتِ شب کو بہر طور تو ڈھلنا ہو گا 
اب  ہر اک سیپ سے موتی نکلنا ہو گا 
وہ حکمت ودانائی کے موتیوں کو سیپ سے نکالنے کا ہنر جانتی ہے اور اسی میں اسکا پیغام پوشیدہ ہے ۔جو انسان کو اسکے اندر پوشیدہ خزانے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ زندگی اور زندگی کی رعنائیوں کی نغمہ خواں دنیا کے باغ میں خوبصورتیاں اور مہکتے پھول دیکھنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ خارجی تاثرات اور داخلی کیفیات کو اشعار کی مالا میں پروتی ہے تو اس کے اشعار ملک اور رنگ ونسل کی حدود قیود سے آزاد نظر آتے ہیں ۔وہ انسان اور انسانیت کی بات کرتی ہے خواہ اسکا تعلق کسی بھی خطہ ارضی سے ہو ۔ یہی چیز اس کی شاعری کو آفاقی بنا دیتی ہے ۔اس کی شاعری میں خوشی وانسباط کے شادیانے ہیں تو درد وغم کے تازیانے بھی ہیں ۔ اس کی آنکھ معاشرتی مسائل، معاشی ناہمواریوں ،انسانوں کے اذیت ناک رویوں اور انسانوں کی بے بسی کا ادراک رکھتی ہے جو اسے درد آشنا کرتی ہے تو وہ اسی درد کی دولت سے تریاق کشید کرتی ہے جو کبھی دوستانہ ہوتا ہے تو کبھی ناصحانہ اور کبھی ناقدانہ ،وہ کہتی ہیں 
منہ میں زبانیں سنگ کے موافق ہیں دوستو 
نرمی نہیں ہے نرمئ گفتار چاہئیے
چاہت کے واسطے تو زمانے بھی کم ہیں اور 
نفرت کو ہر گھڑی نیا سنسار چاہئیے 
انسانی مسائل کی نمائندہ شاعرہ کے ہاں غم کی آندھیوں میں امید کا روشن دیا ہے۔ جو کاروانِ حیات کے مسافروں کو نئے راستوں اور نئی منزلوں کی خبردیتا ہے ۔
ممتاز ملک، شاعری میں انسانی منفی رویوں کا برملا اظہار کرنا جانتی ہے ۔ایک سچے ،کھرے اورنڈر فنکار کی طرح جو بوجھ وہ قلم پر محسوس کرتی ہے۔ اسے صفحے پر اتار دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں زندگی کے حقائق کا گہرا احساس ملتا ہے وہ احساس کی دولت کو قوموں کی زندگی کا سبب قرار دیتی ہے اور اسے اجاگر کرنا نہ صرف اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے بلکہ اس پر یقین بھی رکھتی ہے۔
دھڑکن کے بدلے سناٹے 
سوچ میں دقیانوسی جالے
یا
یہ الگ بات لہو میں تیرے دوڑے ہے جفا 
جا مری جان مری ساری وفائیں لے جا 

کسی بھی شاعر کی طرح ممتاز کا دل محبت کے جذبات سے خالی نہیں ۔ اسکی محبت خدائے عزو جل کی محبت سے شروع ہوتی ہے جو مدینے کی گلیوں کا طواف کرتے اور پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے پاوں کی خاک کو چھوتے ہوئے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی محبت کی طرف رواں دواں ہے ۔
وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی 
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی
وہ حُسن و عمل کا سرورآگئے ہیں 
حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 

ہجرت کا مضمون جس قدر درد ناک ہے انسانی تاریخ میں اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ ہجرت کے نوحے بھی لکھے گئے اور ہجرت کو نئی منزلوں کی تلاش اور نئی دنیا کی دریافت کا نام بھی دیا گیا ہے ہے ۔ ممتاز ملک کو پیرس کی حسین وجمیل گلیاں ، فلک بوس عمارتیں ،حیات پرور نظارے اور سکون بخش سیر گاہیں اپنے وطن سے جدا نہ کر سکیں ۔وطن کی محبت اس کے انگ انگ میں سموئی ہوئی ہے اور اس کا دل وطن میں ہے اور وطن کے لئے دھڑکتا ہے جس کا ذکراس کی شاعری اور نثر پاروں میں جا بجا ملتا ہے ۔وہ یورپ کی پر تعیش زندگی کو دیکھتی ہے تو انہیں اپنے وطن کے گلی کوچے یاد آجاتے ہیں  تو بے اختیار سراپا التجا بن جاتی ہے اور یوں اظہار محبت کرتی ہے ۔
میرا تو دن رات ہے وظیفہ مرے وطن کا خیال رکھنا 
خدا کے در پر جھکا کے سر کو یہ ایک ہی تو سوال رکھنا 
جو تیری رحمت سے ہو نہ خالی ترے کرم سے قریب تر ہو 
ہزیمتوں سے بچائے ہم کو ہمارے سر پہ وہ ڈھال رکھنا 

اس کی شاعری میں جہاں معاشرتی اور معاشی مسائل کا ذکر ہے وہاں عالمی حالات پر بھی اس کی گہری نظر ہے وہ ظلم و بر بریت کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار تمام تر شعری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مقصدیت سے بھر پور ہیں انسانوں کے غیر اخلاقی رویوں اور آداب معاشرت سے بے بہرہ لوگوں کے لئے اس کا رویہ بعض اوقات سخت بھی ہو جاتا ہے ۔جو اس کے جذبوں کی صداقت پر دلالت کرتا ہے وہ ایسے رشتوں کو جومحبت ہمدردی اور دوستی کے جذبات سے عاری ہوں ، لاش کی مانند قرار دیتی ہیں ۔ یعنی چلتی پھرتی لاش۔
ہم نہ پہچان پائے لاشے کو 
دوستی سرقلم ہے کیا کیجیئے
وہ رشتوں کے اثبات کی شاعرہ ہیں ۔اور انکا احترام کرنا جانتی ہیں ۔ایک طرف تو وہ بیٹی بن کر ماں کے لیے کہتی ہے
جنتوں کی کھلی فضا جیسی 
ماں مری مہرباں خدا جیسی 
تو دوسری جانب وہ ماں کے منصب پر فائز ہو کر اپنے بیٹے کو منظوم نصائح کرتی ہیں اس کی نظم ’’سنو بیٹے!میں تیری ماں ہوں ‘‘رشتوں کے تناظر میں ایک شاہکار ہے ۔
عام بول چال کے انداز میں الفاظ کو برتنے کا فن بخیر وخوبی جانتی ہے جذبوں کو اجاگر اور مثبت سوچ کو عام کرنا چاہتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ احساس کی دولت اور نیک جذبے انسانی زندگی اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا 
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے 
الغرض ان کی شاعری زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اشعار میں خیالات کی فراوانی، مشاہدات کی طغیانی ، کردار کی بلندی اور جذبوں کی طاقت پائی جاتی ہے ۔اس کے پانچویں مجموعۂ کلام ’’سراب دنیا‘‘ کی اشاعت پرمیری نیک تمنائیں اور میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں ۔
شفیق مراد
چیف ایگزیکٹو
شریف اکیڈمی جرمنی
18مارچ 2019ء
                        ۔۔۔۔۔۔۔

● تبصرہ ۔ ایاز محمود ایاز ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


معروف شاعر اور آٹھ کتابوں کے مصنف جناب ایاز محمود ایاز  کا پیرس ، فرانس سے  تبصرہ 



دورِ صحابہ سے لے آج کے دور تک جہاں صحابہ کرام رض اور علما کرام نے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعتوں کی روایت کو فروغ دیا ،  وہیں اولیاء اللہ نے بھی اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق کو ایمان کی تکمیل کے لیے ناگزیر قرار دیا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصول کے لیے نعت خوانی کو سب سے بہتر ذریعہ قرار دیا۔ 
 نعت گوئی کی ابتداء عربی زبان میں ہوئی ، سب سے پہلے قرآنِ کریم میں ہمیں حضورﷺ کی ہمہ جہت اور کامل شخصیت کا تعارف کرایا گیا۔ ربِّ کائنات نے پیارے نبیﷺ  کوجن جن الفاظ میں یاد فرمایا ہے ، ان پر غور کریں تو ہر لمحہ نعت و مدحت کے نئے باب کھلتے نظر آئیں گے، وما ارسلناک اِلّارحمۃً للعٰلمین، اِنک لعلیٰ خُلقٍ عظیم، خاتم النبیین ، بالمومنین رؤف رحیم ، داعیاً اِلی اللہ، صاحبِ مقامِ محمود ،سراجاً منیر، طٰہٰ، یٰس، شاہد، مبشر، مزمل، مصدق، معلمِ کتاب و حکمت، احمد، محمد اور حامد ، ۔۔۔۔۔خدائے بزرگ وبرتر کی طرف سے یہ تعارف پوری طرح نعت کے زمرے میں آتا ہے۔ 
زیرِ نظر نعتیہ مجموعہ کلام ۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔اپنے  نبی کریم ﷺ سے عشق ہے۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے حصے میں وہ سعادت آئی جو بڑے بڑے شعراء کو نصیب نہیں ہوتی ۔ میں سمجھتا ہوں نعت لکھی نہیں جاتی لکھوائی جاتی ہے جس پہ نبی کریمﷺ کی نظرِ خاص اور خصوصی کرم ہو وہ ہی نعت لکھ سکتا ہے۔ ممتاز ملک صاحبہ نے جہاں نبی کریم ﷺ سے اپنے عشق کو اپنا موضوع سخن بنایا وہیں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے  نبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ کو بھی موضوع بنایا ممتاز ملک صاحبہ کے لئے دعا گو ہوں کہ آپکا یہ ہدیہ نعت آپ کی بخشش کا سبب ہو اور آپکی عقیدتوں کا یہ سفر ہمیشہ اسی طرح جاری رہے ۔ آمین                                                                 ایازمحمودایاز
                               پیرس ۔ فرانس

شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



پیرس میں مقیم معروف شاعرہ اور ایسوسی ایشن فم دو موند کی بانی و صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ 
محترمہ ممتازملک جو نامور شاعرہ  اور خوبصورت  لکھاری بھی ہیں، اور  بہت سی خوبیوں  کے ساتھ بہترین نعت خواں بھی ہیں ان کی کتاب  
"اے شہہ محترم ص "کے نام سے منظر عام پر آرہی ہے حضور صلی علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عقیدت مندانہ  نعتیں وہ  اپنی  بے حد خوبصورت آواز میں بھی  پیش  کر رہی  ہیں۔ 
پہلی بار کسی مجموعے میں حمدیہ کلام کو بھی اتنی ذیادہ اہمیت اور جگہ دی گئی ہے ۔ ورنہ ایک ادھ حمد باری تعالی کو  رسما ہی کسی بھی مجموعہ کلام میں پیش کیا جاتا ہے ۔ خصوصا نعتیہ مجموعوں میں حمدیہ کلام کی تعداد بھی ایک دو سے زیادہ کم ہی ہوتی ہے ۔ لیکن ممتاز ملک نے اس کمی کو محسوس بھی کیا ہے اور اسکی تلافی کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے جس کے لیئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ 
 اللہ کے فضل و کرم سے ان کا پیش کردہ  حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ بے حد خوبصورت ہے۔  دعائیں اور اہل بیت کے نام  ان کے کلام نے کتاب کو اور زیادہ منفرد بنا دیا ہے ۔  
دعاگو ہوں کہ ممتاز ملک کا یہ  مجموعہ کلام
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم " پڑھنے والوں کی بھرپور پذیرائی اور توجہ حاصل کر سکے ۔ آمین 
 بہت سی دعاوں کیساتھ
        شمیم خان 
       پیرس ، فرانس

● تبصرہ ۔ عاشق حسین رندھاوی ۔ اے شہہ محترم(صلی اللہ علیہ وسلم)



عاشق  حسین رندھاوی (سیالکوٹ) کا تبصرہ 

نعت گوئی اہلِ ایمان اور  مذہب اسلام سے وابستہ لوگوں کا ایک فکری اور دلی عقیدت نامہ اور اصناف سخن کا سب سے اعلیٰ اور پاکیزہ حصہ ہے ۔ مگر یہ جس قدر سعادت وخوش بختی بلکہ آپ ﷺ سے بے پناہ عقیدت ومحبت کی دلیل ہے وہیں سب سے مشکل ،دشوار گزار اور بال سے زیادہ باریک راستہ ہے ۔ نعت کا موضوع جتنا اہم ،دل آویز اور شوق انگیز ہے اتنا ہی اس موضوع پر قلم اٹھانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے ۔
خود شعر و ادب کی تخلیق کوئی کسبی چیز نہیں کہ جس کے مخصوص اوزان وبحور کو رٹ کر کچھ طبع آزمائی کرلی جائے ، بلکہ یہ ایک انعامِ الٰہی ہے جو خالقِ کائنات کی جانب سے بعض مخصوص بندوں ہی کو عطا کیا جاتا ہے۔ 
انہی چند لوگوں میں سے
  ایک ایسی شاعرہ کی نعت گوئی کے حوالے سے تجزیاتی گفتگو کا ارادہ ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں شاید بہت زیادہ معروف نہیں ہیں ۔ لیکن  اسے نعت کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور اس نے کچھ اس انداز سے اپنے خیالات کو شعروں میں ڈھالا ہے کہ ان کے اشعار سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ آنے والے دور کی بہت معروف اور پختہ شاعرہ بن کر سامنے آئیں گی ۔ ان کے اشعار سننے کے بعد میرا پہلا تاثر تھا کہ محترمہ نے اگر کچھ اور نہ بھی کہا ہوتا تو بھی یہ نعت انہیں ادب میں زندہ رکھنے کے لئے کافی تھی ۔ میں اپنی پیاری بہن محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شاعری پر تجزیاتی گفتگو سے قبل ان کی لکھی نعت کےچند  اشعار پیش کرتا ہوں۔  
    دیارِ  نبی کا  ارادہ     کیا   ہے
   کہ خود سے ہی ہم نے یہ وعدہ کیا ہے

سجائیں گے صحنِ حرم آنسوؤں سے
 تو مانگیں گے ان کا کرم آنسوؤں سے

    وہ رکھیں گے اپنا بھرم آنسوؤں سے
   انھیں سب بتائیں  اعادہ کیا ہے

ان اشعار میں محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے اپنا عقیدہ بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور تخیل کا یہ عالم ہے کہ عام انسان بھی ان کے اشعار کو پڑھ کر مدینے کی گلیوں میں سیر کرنے لگتا ہے ۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے تخیل کو اور بھی پختہ اور بلند کرے  اور انکے
 نعتیہ مجموعہ کلام  
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم "کو بھرپور پذیرائی اور قبولیت عطا فرمائے ۔ 
آمین۔

معروف شاعر جناب عاشق حسین رندھاوی  جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے لیکن روزگار کے سلسلے میں فرانس کے شہر پیرس میں مقم ہیں،  کے اس خوبصوت  تبصرے کے لیئے میں ان کی دلی ممنون ہوں ۔  اور انکی خوشحالی و درازیء عمر  کے لیئے دعا گو ہوں ۔ 
ممتازملک۔ پیرس 

● شاز ملک کا تبصرہ ۔ سراب دنیا

تبصرہ
شاز ملک
پیرس ۔فرانس

کسی بھی شاعر اور ادیب کی تخلیق کا دارومدار اسکے تخیل کی اُڑان 
پر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی سوچ کو پر لگا کر تخیل کی اُڑان کو ہموار بناتا ہے 
اسکا قلم اسکی اعلی پرواز کا گواہ ہوتا ہے ۔۔  
محترمہ ممتاز ملک  صاحبہ کا قلم بھی انکی اعلی ذہنی سطح کا گواہ ہے
بحیثیت شاعرہ میں نے انکے احساسات و جذبات میں شدت کو محسوس کیا ہے 
اور وہ اشعار میں اپنا مدعا کہیں سادگی سے بیان کرتی نظر آتی ہیں اور کہیں 
تشبہات و استعارات سے مدد لیتے ہوۓ نہایت خوش اسلوبی سے اشعار میں اپنی جزباتی کیفیات کو بیان کرتی ہیں 
میں نے انکے قلم کو حساسیت کے دائرے میں رہتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوۓ پایا ہے وہ اپنے گمان میں ماضی سے حال تک کا سفر  کرتے ہوۓ مستقبل کی  خوش گمانیوں پر بھرپور نکاہ رکھتی ہیں۔
ممتاز ملک  سچائی کے علم کو تھامے ہوۓ اپنا ادبی سفر طے کر رہی ہیں 
انکی سوچ کی اُڑان تخیلاتی نہیں بلکہ زمانے کے حقائق اور تلخی کو اجاگر کرتی ہے ۔۔ وہ سچائی کو بلا تامل لکھتی ہیں اور اس سوچ کو عوامی راۓ کے ساتھ منسلک کرنے میں زرہ برابر بھی تامل نہیں کرتیں اور یہی انکی کامیابی کا راز ھے 
دل سے دُعا ہے کہ اللہ پاک انکے قلم کو سچائی کی روشنی سے منور رکھے 
اور وہ ادب کے آسمان پر روشن ستارے کی مانند اپپنے قلم کی روشنی سے چمکتی دمکتی رہیں ۔۔آمین
شاز ملک فرانس

● ایاز محمود ایاز 7واں مجموعہ کلام ۔ مضمون

 

 

             ایاز محمود ایاز

 کے 7ویں مجموعہ کلام

 "مجھے تم ہار بیٹھو گے" 

 کی رونمائ پر مقالہ برائے 

(ممتازملک.پیرس) 

 

ایاز محمود ایاز محبتیں بانٹنے والا شاعر ہے ۔ اس کے کلام میں جگہ جگہ اس کے واردات قلبی کا اظہار ملتا ہے ۔

وہ محبتوں کا شاعر ہے ۔  محبتوں سے وابستہ اس کے صدمات، اس کی توقعات، اس کی تمنائیں سب آپ کو اس کے اشعار  میں بہت واضح دکھائی دیتی ہیں ۔ ۔ ایاز محمود ایاز نے کم عمری ہی میں اپنے شعری سفر کو بڑی تیزی سے آگے بڑھایا ہے ۔ اتنی تیزی سے کہ ایک بار میں نے ہی اسے مذاقا  کہا کہ بیٹا جی سپیڈ ذرا کم کیجیئے ۔ نظر بھی لگ جایا کرتی ہے ۔ ماشاءاللہ آج ان کا یہ ساتواں مجموعہ کلام ہمیں دعوت سخن دے رہا ہے ۔ ایاز کے کلام میں سچائی بھی ہے اور پختگی بھی ۔

پیرس ہی کیا پورے فرانس میں پاکستانیوں کی ایک لاکھ دس ہزار کی آبادی میں ہم پندرہ سے بیس لکھاری اور شاعر ہیں ۔ جنہیں ایک پلیٹ فارم پر مل جل کر پروگرامز کرنے کا بہانہ فراہم کرنے کی جستجو کرنے والوں میں ایاز کا نام سرفہرست رہا ہے ۔

میں فرانس میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم راہ ادب کی صدر کے طور پر ایاز محمود ایاز کو دل کی گہرائیوں سے اس کے نئے مجموعہ کلام "مجھے تم ہار بیٹھو گے "پر مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہونگے کہ ہماری تنظیم 12 اپریل 2018 ء کو وجود میں آئی ۔ اور ہمیں بزم سخن کے پروگراموم میں ایاز کی دعوت پر شرکر کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے  ۔۔اور امید ہے کہ پیرس میں موجود تمام تنظیمات عملی طور پر ایک دوسرے کے پروگرامز میں نہ صرف شرکت کرتی رہینگی ۔ بلکہ ایکدوسرے کی تصنیفات اور کاوشوں کو بھی اپنی محبتوں سے نوازتے رہینگے ۔ اور اردو کی ترویج میں ہم سب کا یہ حصہ جو ہم شاعر اور لکھاری کتابیں لکھ کر چھپوا کر ڈالتے ہیں ۔ اس میں  ہمارے پاکستانی خواتین و حضرات کتاب خرید کر اپنا حصہ بھی ضرور ڈالیں گے ۔ یہ اس لیئے ضروری ہے ہماری اگلی نسل تک ہم اپنے زبان کے ورثے کو بحفاظت منتقل کر سکیں ۔ کیونکہ کتاب خریدی جائے گی تو ہی اگلی کتاب باآسانی چھپنے کے لیئے بھیجی جا سکتی ہے ۔

 

ایاز مجھے بالکل چھوٹے بھائیوں جیسا عزیز ہے ۔ ہم سب کی بہت عزت کرتا ہے ۔ ہمیں بھی اس پر مان ہے ۔ میں ہر قدم پر اس کی کامیابی کے لیئے دعا گو ہوں ۔ کہ اللہ پاک اسے آسمان ادب کی بھرپور بلندیاں چھونا نصیب فرمائے۔ آمین 

جمعرات، 2 جنوری، 2020

● (77) زمانہ ہو گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(77)   زمانہ ہو گیا 
   

زمانہ ہو گیا اس کو  ملے بھی
کھلا تھا زخم جو اسکو سلے بھی

کوئی رنجش نہ اسکی رکھ سکا دل
بظاہر تو کیئے اکثر گلے بھی
  
نہ کہہ پائے جو اپنا مدعا تھا 
اگرچہ لب یہ  کہنے کو  ہلے بھی

نہیں بھولے ہیں تیری بیوفائی
سبھی دیوانگی کے سلسلے بھی

ہمیشہ آنکھ اس کی نم رہی ہے 
تھے ضرب المثل جسکے حوصلے بھی
  
انہیں راہوں پہ ہے  اپنا بسیرا 
گزرتے ہیں جدھر سے قافلے بھی

لگن سچی ہو گر ممتاز تو پھر 
سمٹ جاتے ہیں اکثر فاصلے بھی

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
           ●●●                

● سراب دنیا ۔ ٹائیٹل کلام ۔ سراب دنیا


سراب دنیا 
(کلام/ممتازملک.پیرس) 



سراب دنیا 

یہ خواہشوں کا
ہے ایک گہرا کنواں کہ جسمیں
ہے لذتوں کا عذاب دنیا

ٹپک رہی ہے جو قطرہ قطرہ 
یہ آنسووں کی کتاب دنیا

سنائی نہ دے کسی کو ماتم
یہ قہقہوں کا نصاب دنیا 

ہے آنکھ والے کا صرف دھوکا 
اور ایک اندھے کا خواب دنیا 

کبھی یہ بیچے کبھی خریدے
بڑی ہے خانہ خراب دنیا

ہزار رنگوں میں جی کے آخر
سفید اوڑھا سراب دنیا

ہے بھول جانا ہی ریت اسکی
یہ دل جلوں کا عتاب دنیا

ذلیل ہوتے سب اسکی خاطر
نہیں ہے کار ثواب دنیا

کبھی مکمل نہ ہو سکا جو
یہ ایک ایسا ہے باب دنیا

انوکھا ممتاز بھید ہے یہ
سوال دنیا جواب دنیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●



●(61) درد کی شام/ شاعری ۔ سراب دنیا



(61) درد کی شام


درد کی شام گزرتی نہیں ہے کیا کیجئے 
سحر خوشی کی ٹہرتی نہیں ہے کیا کیجیئے

اب تو کوشش بھی تھک کے چور ہوئی
وقت کی زلف سنورتی نہیں ہے کیا کیجئے

کون سمجھائے کہ تحمل سے 
بات بنتی ہے بگڑتی نہیں ہے کیا کیجئے

جب نظر ہی میں دم نہیں باقی 
کوئی تصویر نکھرتی نہیں ہے کیا کیجئے 

ہم نے ممتاز بارہا چاہا 
دل سے ہی یاد اترتی نہیں ہے کیا کیجئے 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●

میرا چہرہ کتاب ۔ سراب دنیا



میرا چہرہ کتاب 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس) 


وہ جو زیر عتاب ہے لوگو
اس پہ لازم عذاب ہے 

میرے لہجے پہ اعتبار  کرو
میرا چہرہ کتاب ہے لوگو



جو ہے بیخواب خواب دو اسکو
یہ تو کارِثواب ہے لوگو



ایک جھوٹا ہے اک منافق ہے
بہتریں انتخاب ہے لوگو



ایک میں اور ایک تُو ہو مگر
کچھ ادھورا سا خواب ہے لوگو



پشت پہ میری ایسی کی تیسی
ویسے حاضر جناب ہے لوگو



جن سے سیکھا انہیں کو لوٹایا
کچھ پہ میرا حساب ہے لوگو



جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
دائمی احتساب ہے لوگو



جو ہے ممتاز حاسد اوّل
اس کا خانہ خراب ہے لوگو

۔۔۔۔۔


مشکل ہے ۔ سراب دنیا



مشکل ہے
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

☀️اتنی  وعدہ خلافیاں کی ہیں 
    اب تیرا اعتبار مشکل ہے

☀️پہلے زخموں کی ٹیس باقی ہے 
     اب کریں پھر سے پیار مشکل ہے


☀️دوسرے کے لیئے جو غم بوئے
      اس کو  آئے قرار مشکل ہے


☀️جو لکھا ہے نصیب میں اپنے 
      اسے سے راہ فرار مشکل ہے


☀️زندگی سے بڑی سزا کوئی 
      ماننا یہ ہی یار
مشکل ہے


☀️خود سے راہیں تلاش کرنی ہیں
      تجھ پہ اب انحصار مشکل ہے


☀️اشک شوئی کریگا وہ ممتاز
     دل کو یہ انتظار
 مشکل ہے
   ......  

بدھ، 1 جنوری، 2020

● شکیل عادل کا تبصرہ/ تبصرے



قلندر صفت شاعرہ
 ممتاز ملک 
تحریر: (شکیل عادل ۔ پشاور)


معاشرتی برائیوں کو اگر بیماریاں کہاجائے تو شاعر اورادیب ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے ڈاکٹرز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ نت نئے اشعار اوران اشعار میں بیان کئے گئے مضامین کوا نکی بیخ کنی کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔ وہ طنز سے، ہلکے پھلکے مزاح سے ، غصے سے ، دکھ سے اور افسوس سے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے چلے جاتے ہیں ۔اور ایسا اس لئے ہے کہ رب تعالےٰ نے انہیں یہ وصف دیا ہے کہ وہ چیزوں کو الگ زاویہِ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ اعلیٰ دماغ ہوتے ہیں اس لئے معاشرے کے باشعور لوگ ان کی باتوں کا اثر لیتے ہیں اور معاشرہ سدھار کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے 
  ممتاز ملک ایک ادیبہ ، شاعرہ اورصحافی ہیں وہ نظم سے بھی ، اور نثر سے بھی ایک عرصے سے اصلاحِ معاشرہ کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ تمام ادیبوں اور شاعروں کی طرح وہ بھی نیکی کا پرچار کررہی ہیں ۔ اور برائی کی روک تھام کےلئے کوشاں ہیں ۔ اگر بنظرِ غائر جائزہ لیاجائے تو یہ پیغمبرانہ کام ہے کیونکہ ہر پیغمبر نےبھی نیکی کا حکم دیا ہے اور برائی سے روکا ہے ۔ اردو کے شعراءمیں ناصر کاظمی ،احمد فراز ، محسن نقوی، پروین شاکر، اور قتیل شفائی میں ایک قدر یہ مشترک تھی کہ وہ عوامی سطح پر مقبول تھے کیونکہ ان کی شاعری سادگی سے مزیّن تھی اور اس میں عام فہم مضامین وارِد ہوتے تھے ۔ 
 ممتاز ملک نے بھی سادگی کو اپناہتھیار بنایا اور جہاد میں مصروف ہوگئیں۔ ممتاز ملک نے چھوٹے چھوٹے معاملات کو نہایت خوبصورتی سے شہہ سرخیوں میں بدل کر اس انداز میں پیش کیا ہے کہ لوگوں نے اپنے رویّےاگر بدلے نہیں اور بدلنے کا سوچا ضرور ہے ۔ یعنی ممتاز ملک کی شاعری بلا واسطہ طورپر ضمیروں کو جھنجھوڑنے، آنکھوں کو کھولنے اور احساس کو جگانے کا کام کرتی ہے ۔
  ” میرے دل کا قلندر بولے“ممتاز ملک کا شعری مجموعہ کلام ہے جو نظموں پر مشتمل ہے ۔ اس میں پابند نظمیں بھی ہیں اور آزاد نظمیں بھی۔ مگر تمام میں سادگی چھائی ہوئی ہے ، سادہ لفظ ، سادہ مضامین، سادہ باتیں، سادہ کلام ، تمام نے مل کر ایک سماں باندھ دیا ہے ۔ اور ممتاز ملک کی سچائی اورخلوص پر مہر ثبت کردی ہے ۔ 
 رشتوں کی ناقدری کس قدر تکلیف دہ ہے اس کا کامل ادراک اس کو ہی ہوسکتا ہے جواس کا شکار رہا ہو یا وہ جسے ربِ کائنات نے احساس کی بے کراں سے دولت سے نوازا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ حساس شاعرہ ممتاز ملک نے سب سے زیادہ دکھوں کو بیان کیا ہے اور رشتہ کی ناقدری سے بڑھ کر اور کیا دکھ ہوسکتا ہے ۔
 ” چار بیٹوں کی ماں“ ایک خوبصورت نظم ہے جو انسان کو خون کے آنسو رلاتی ہے اس میں سادگی اور پر کاری سے بتایا گیا ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد کے لئے خاص طورپر بیٹوں کے لئے تمام زندگی کیا کیا کرتی ہے ، اپنے من کو مار کر کیا کیا قربانیاں دیتی ہے ۔ اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے بیٹوں کی خوشیوں کاخیال رکھتی ہے ۔ اور وہی بیٹے اس کی ناقدری کرکے اپنی دنیا وآخرت بگاڑ لیتے ہیں ۔اور نظم کا اختتامیہ تو اور بھی درد ناک ہے ۔ کہ چار بیٹوں کی ماں کا کفن چاروں بیٹوں کے چندہ کرنے سے آتا ہے ۔ 
” یارب یہ کیسے بیٹے ہیں“ اس نظم میں اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر بدیسی تہذیب کے زیر اثر والدین کی ناقدری کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ آئینہ دکھایا گیا ہے ۔ ایسے بیٹوں کو جو والدین کے احسانات ، قربانیوں اور محبتوں کو بھلا کر دنیاوی جاہ و حشم اور دولت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ۔ والدین  اور اپنے ذمہ فرائض کو یکسر بھلا دیتے ہیں ۔
”سنو ایسا نہیں کرتے“ ایک ناصحانہ نظم ہے جس میں ان چھوٹے چھوٹے جذبوں کو بیان کیا گیا ہے جن کی ہم پرواہ نہیں کرتے ان معمولی غلطیوں ، کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی طرف سے ہم آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ چھوٹی چھوٹی خامیاں انسان کی شخصیت کو داغدار کردیتی ہیں ۔ 
 ممتاز ملک ایک وطن پرست خاتون ہیں اوروطن کی محبت ان کی رگ رگ میں لہو کے ساتھ گردش میں ہے ۔ اپنی اس محبت کا اظہار وہ باقاعدہ اپنے اشعار میں کرتی ہیں وہ نہ صرف وطن کی ترقی و کامرانی کے لئے دعا گو رہتی ہیں بلکہ وطن کو درپیش مسائل اور ملک میں بڑھتی پھیلتی ہوئی برائیوں پر بھی قلم اٹھاتی ہیں ۔ 
”صلیبِ وقت“ میں وطن میں پھیلتی دہشت گردی اورر قتل وغارت کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اپنے وطن کو اس سے پاک کرنے کے لئے انہیں ڈھونڈنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ 
 ” ارفع کریم رندھاوا کے نام “ ایسی خوبصورت نظم ہے جو”میرے دل کا قلندر بولے“ کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ 
” آﺅ کہ کچھ خواب بنیں“ خوشگوار امیدوں کی خوشبو سے بھری نظم ہے اس نظم میں شاعرہ نے اچھے دنوں کی آمد ، خوشیوں کے زمانوں اور نیک جذبوں کا اظہار خوبصورتی سے کیا ہے ۔
” آئینے “ ایک طنز ہے ، چوروں ، لٹیروں ، ڈاکوﺅں اور خود پسندوں پر خاص طورپر ان پر نفرین کی گئی ہے جو چاپلوسی کرنے سے پہلے مسکینی کا غلاف اوڑھ لیتے ہیں ۔مسلمان ہونے کے باوجود مذہب سے دور ہیں اور برائیوں سے گردن تک ڈوبے ہیں ۔ 
 ” ایک جیب ایک پتھر“ ایک ایسی نظم ہے جس میں شعور کو جگایا گیا ہے کہ اٹھو اپنے حق کو پہچانو جو تمہارے حقوق غصب کررہا ہے اس کے سامنے ڈٹ جاﺅ اس کا پتھروں سے سواگت کرو پھولوں سے نہیں۔عزتوں کے لٹیروں کو ، جھوٹوں کو اور دھوکے بازوں کو ان کی اوقات یاد دلادو ۔
” بستی“ ایک خوبصورت نظم ہے جس میں آج کی محبت اورر کل کی پاکیزہ و سچی محبت کا موازنہ کیا گیا ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روح کی محبت دیرپا ، پاکیزہ اور پر خلوص ہوتی ہے جبکہ جسمانی محبت عارضی و بے اعتباری۔
” میرے پیارے شہر کراچی“ روشنیوں کا شہر کراچی کئی دہائیاں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بہتے خون کی ندیوں میں ڈوبا رہا یہ نوحہ ہے اس وقت کا جب کراچی ماتمی لباس میں تھا اور شکر ہے کہ اب کسی حد تک ان رویوں اور عملوں میں بہت بہتری آئی ہے مگر شہر کراچی کا ایک سیاہ باب ہے۔  بہر حال تاریخ کا حصہ رہا ہے ۔ممتاز ملک کا ایک ایک لفظ ایک ایک مصرعہ دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہے کیونکہ ممتاز ملک نے ذاتی دکھ کو بیان کیا ہی نہیں تو دوسروں کے دکھ پر دکھی ہیں اور ہمیں ایسے حساس اور قیمتی لوگوں کی قدر ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ پذیرائی بھی کرنی چاہئے ۔
 ہم دعا گو ہیں کہ ممتازملک یونہی ہمیشہ چمکتی مہکتی رہیں اور اپنی تحاریر سے رنگِ ادب کو نکھارتی ہیں۔

● نبھاتے گزری ۔ سراب دنیا


              نبھاتے گزری 
              کلام:(ممتازملک ۔پیرس)


درد کی سیج پہ اشکوں کو سجاتے گزری 
کیا گزرنی تھی بھلا جبر نبھاتے گزری

یوں تو ارمان تھے اس دل میں گلستانوں کے 
خارزاروں پہ میرے پاوں بچاتے  گزری

وہ  جو ہر بار بچھاتے ہو محبت کہہ کر 
عمر ساری انہیں کانٹوں کو ہٹاتے گزری

کون کہتا ہے قرار آئے گا آتے آتے 
بیقراری کو دلاسے ہی دلاتے گزری

ہے قریب آپ کے جتنا کوئی اتنا ظالم
اپنے مطلب کے سوا جان چھڑاتے گزری

چھوڑ کراہم تعلق سبھی رشتے ناطے
بے سروپا سے نظریات بچاتے گزری

اپنی تقدیرکےمسکن میں کوئی در نہ ملا
دائرے میں ہمیں ہر چند گھماتے گزی

کوئی پہلونہیں ممتاز جلن سے محفوظ  
راکھ چنگاری کی امید اڑاتے گزری
    
●●●

ہم بھی بادشاہ ہوتے ۔ شاعری ۔ سراب دنیا



         ہم بھی بادشاہ ہوتے
         (کلام/ممتازملک.پیرس)

   محبتوں میں کبھی ہم جو نہ تباہ ہوتے
دیار دل کے کہیں ہم بهی بادشاہ ہوتے


اگر نہ ذات کو اپنی نقاب پہناتے
نہ اس طرح سے یہاں راندہ درگاہ ہوتے

 اگر جو درد کی منزل سے کچھ سبق لیتے
 کسی بهی ٹوٹے ہوئے دل کی ایک آہ ہوتے

رقیب کو یہ بتائو کہ بن تمہارے بهی
ہاں ہوتے کچه بھی مگر ہوتے بے پناہ ہوتے


زہن کو پڑهتے نظر بین اس قدر ہوتے
دلوں کے پار اترنے کا راستہ ہوتے

نظر تمہارے تعاقب میں رائیگاں ٹہری
وگرنہ ہم بهی کہیں مرکز نگاہ ہوتے

عروج کا جو سفر ان کو راس آ نہ سکا
نہ پستیوں میں جو گرتے توانتہا ہوتے

قدم جو وقت کی آواز پہ اٹھتے ممتاز
زمانہ دیکھتا واللہ کیا سے کیا ہوتے 
............



یہ دل بنجر ۔ شاعری ۔ سراب دنیا


یہ دل بنجر

امیدوں کی دوڑ میں اکثر
اپنے آپ سے کھو جاتا ہے 

قطرہ قطرہ رستے رستے 
یہ دل بنجر ہو جاتاہے  


روتے روتے ہنس دیتا ہے 
ہنستے ہنستے رو جاتا ہے

میٹھے زہر جو عریاں ہوں تو
لہجہ خنجر ہو جاتا ہے

خوب ستمگر ہے یہ جوبن
گل پہ خار پرو جاتا ہے  

ہر فقرہ بےفکر ہے کتنا
لٹنے کا ڈر کھو جاتا ہے 

ہاتھ کے تکیئے پر سر رکھ کر
بے فکری سے سو جاتا ہے 

خوش کیسے ممتاز رہے جب
شک وہ دل میں بو جاتا ہے  
۔۔۔۔




● سونے کا انڈا دینے والی مرغی ، مہنگائی کا ملبہ/ کالم




سونے کا  انڈا دینے والی مرغی
مہنگائی کے ملبے میں دب گئی
تحریر: (ممتازملک.پیرس)


جنوبی ایشیاء کے ممالک خصوصا پاکستان  میں عوام کی سہولت کے نام سے کوئی آسانی دستیاب نہیں ہے ۔ جب بھی وہاں حکومت بدلتی ہے تو "خزانہ خالی ہے " کہہ کر عوام کی گردن کاٹنے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے ۔ 
بڑے ہی جوش و خروش کیساتھ دنیا بھر کے جھوٹ پر پچھلی حکومت کی بھرپور کردارکشی کی مہم چلائی جاتی ہے ۔ جو کبھی بھی ثابت نہیں کی جا سکتی ۔ اس مہم پر عوام کی کھال بیچ بیچ کر اربوں روپیہ خرچ کیا  جاتا ہے ۔ آنے والی نئی حکومت کے کل کے فکرے اور بھوکے ننگے ممبران کھا کھا کر دنبے طن جاتے ہیں ۔ دونوں ہاتھ لوٹ مار کی گنگا میں جی بھر کر دھوئے جاتے ہیں ۔ ہر وہ قانون سازی کی جاتی ہے جس سے صاحب اختیار ٹولے کو خوب خوب موج کروائی جا سکے ۔ ہر قانون ہر اس سیاستدان کے لیئے ہوتا ہے جو موجودہ حکومت میں شامل نہیں  ہوتا ۔ اور ہر وہ  سیاستدان نیک اور متقی قرار دیدیا جاتا ہے جو موجودہ حکومت کے پرنالے کے نیچے  پہنچ کر اشنان کر لے ۔ 
اسی کھینچا تانی میں جلوس نکلتا ہے ہماری عوام کا ۔ ہمارے ملک کا بھی سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہے کہ ہر حکومت اور اس کا ہر نمائندہ پچھلی حکومت کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا ایسا تیہ پانچہ کرتا ہے جیسے اس پر لگا ہوا مال عوام کا نہیں ہے بلکہ اپوزیشن اپنے گھر سے لائی تھی جسے برباد کر کے سابقہ حکومت یا اپوزیشن کو سزا دی جا رہی ہے ۔ یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنے اللے تللوں کے لیئے اور اپنی انا کی پوجا کے لیئے ہر حد حد پار کر دیتی ہے ۔ حکومتوں کی اس خود پرستی میں عوام کی حالت بالکل دھوبی کے کتے کی سی کر دی جاتی ہے جو نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا ۔ اس وقت پاکستان کی بات کریں تو مہنگائی کا وہ سونامی برپا کیا جا چکا ہے جسے دیکھ کر حکمران کا بیان سو فیصد سچ ثابت ہوا کہ میں ان کو رلاونگا ، میں ان کو تڑپاونگا ، میں ان کی چیخیں نکلواونگا۔ واقعی  ہماری حکومت نے یہ ہی  سب کیا لیکن وطن دشمنوں کیساتھ نہیں بلکہ اپنی ہی مظلوم عوام کیساتھ ۔ جہاں مڈل کلاس کا وجود ختم کرنے کی پوری پوری منصوبہ بندی عملی جامہ پہنے نظر آ رہی ہے ۔  بکرے کا گوشت کھانا تو پہلے بھی پاکستانیوں کی اکثریت کا خواب ہی رہی ہے اب تو وہاں گائے کا گوشت کھانا بھی خواب ہو چکا ہے ۔ اور تو اور سبزی کے بھاو آسمانوں سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی پھل کو دیکھ کر حسرت سے نگاہیں واپس پلٹ جاتی ہیں ۔ 
حکومت کسی کی بھی ہو ان سے ایک ہی درخواست ہے کہ آپ کی ساری عیاشی اور موج مستی بلکہ آپ کے وجود کا انحصار بھی اس عوام نامی سونے کا انڈا دینے والی مرغی پر ہے ۔ سو برائے مہربانی انڈے تبھی کھائے جا سکتے پیں جب اس مرغی کو اس کی ضرورت کے حساب سے دانہ دنکا ملتا رہے ۔  اور اسی دانے کو جب آپ اس تک پہنچنا ناممکن بنا دینگے تو نہ تو یہ مرغی رہے گی اور نہ ہی آپ کو کھانے کو اس کا سونے کا انڈا مل سکے گا ۔ اس لیئے براہ کرم عوام نام کی مرغی کو پوری حفاظت اور پوری خوراک کیساتھ زندہ رہنے دیجیئے ۔ اس کی دوا دارو کو اس پر آسان کیجیئے ۔آج ہمارے ملک میں  گھر کا ایک فرد اگر  بیمار ہو جائے تو سمجھ جائیے کہ اس بیچارے کا سارا خاندان اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہونے اور بھیک مانگنے کی حالت تک پہنچنے کو جا رہا ہے ۔ تعلیم حاصل کرنا بھی خود کو بیچنے جیسا ہو چکا ہے ۔ تعلیم کے نام پر صرف دو نمبر ڈگریاں ہیں جو یہ تعلیمی اداروں کے  دکاندار چلا رہے ہیں ۔ نہ تو اس کے طلبہ کے پاس کوئی دنیا کو دکھانے اور مقابلہ کرنے کا تعلیمی معیار ہے اور نہ ہی اخلاقی تربیت ۔ ایسے میں اگر کوئی طالبعلم کہیں  سے بھی نکل کر قومی یا بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بناتا یے تو یہ اس پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے جس پر وہ تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنی ذاتی محنت سے کوئی پڑاو پار کر لیتا ہے ۔ ورنہ عام طالبعلم محض سال پر سال گزار رہا ہے اور کاغذ کی ردی کو اسناد کے نام پر جمع کر رہا ہے ۔ اتنی مہنگی تعلیم کے بعد بھی ردی ہی جمع کرنی ہے تو وہ وقت یاد کیجیئے جب ہر چیز گلیوں میں ریڑھیوں پر بکتی تھی اور سستی اور خالص تھی ۔ جب سرکاری سکولوں کے ایک ہی بینچ پر مزدور ، کرنل اور جاگیرداروں کے بچے پڑھا کرتے تھے اور بہترین علم مفت میں حاصل کیا جاتا تھا ۔ 
غور کیجیئے ہمارے ملک کی ہر اخلاقی گراوٹ پیسے کی ہوس اور اختیار کی لالچ میں دفن ہو گئی ہے ۔ اب بھی وقت ہے اس مہنگائی کے ملبے کے نیچے سے عوام نام کی سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو بچا کر نکال لیجیئے ۔ اس کے انڈے  یی اس ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں ۔ سو اس اثاثے کی دیکھ بھال کے لیئے پہلا اور سب سے اہم قدم اٹھایئے اس کی خوراک میں سے مہنگائی کا زہر نکال دیجئے تاکہ یہ زندہ رہ سکے ۔ 
                   ۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/