ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 24 اگست، 2024

& چاچا غیاث۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


             چاچا غیاث

وہ جب سے اس محلے میں آباد تھے۔ ان کی کھڑکی پر نشہ لینے والوں کی ایک لائن لگی رہتی تھی۔
 گھر میں ان کی بیوی بھی پڑیاں بناتی اور یہ کھڑکی کے ذریعے اسے سپلائی کرتے۔
 پورے محلے میں چاچا غیاث کی ایک دھاک تھی۔
دنیا  کہتی تھی وہ ایک منشیات فروش تھا ۔
لیکن عجیب بات تھی کبھی اس محلے کی کسی عورت، کسی بچی یا بچے  پر آنکھ اٹھا کر نظر ڈالنا بھی چاچا غیاث کے اصول کے خلاف تھا۔
 تمیز سے، نرم سے لہجے میں بات کرنے والا ،صلح جو،
 پھر وہ منشیات فروشی میں کیسے اپڑا ۔۔۔
بس ہمارے ہاں کی پولیس کا کمال کہ ایک بار کے چالان میں ان کی جیب میں دو پڑیاں ڈال کر اسے ہتکڑی لگی اور اس کے بعد اسے مجبور کیا گیا۔
 یہاں تک کہ وہ کمبل کو چھوڑتا تھا۔ مگر کمبل اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
 اسے مجبور کیا جاتا اور انکار کرنے کی صورت میں کئی کئی دن حوالات میں بند کیا جاتا۔
 مار پیٹ ہوتی۔ آخر جب جسم میں مزید سزا بھگتنے کی ہمت نہ رہتی تو اقرار کر کے پھر سے وہ غریب واپس باہر آ جاتا۔
یوں پھر سے وہ دھندا شروع ہو جاتا۔
 محلے میں جب تک چاچا غیاث رہے، اس کے باوجود کہ اس کی کھڑکی پر ہمیشہ نشئیوں کا ایک ہجوم رہتا مگر پھر بھی اس محلے کی عورتیں، لڑکیاں خود کو محفوظ  تصور کرتیں۔
کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی سامنے کی کسی بھی گلی پر یا ان کے ااڑوس پڑوس کی کسی عورت پر نگاہ ڈالتا  
جو بھی وہاں سے ، جو کچھ بھی خریدتا،  خاموشی سے سر  جھکا کر دور تک چلا جاتا۔
 آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔
 کیونکہ یہ چاچا غیاث کا محلہ تھا۔
 لوگ بدمعاشوں کو بدنام کرتے ہیں۔ لیکن وہ کیسا بدمعاش تھا ، جو اپنے محلے کی عورتوں کی چادر تھا۔
 ایک بار چاچا غیاث نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی اور کاروبار کی طرف منتقل ہو جائے گا چاہے اسے پولیس کو بھتہ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
 لیکن وہ اس گندے کاروبار سے خود کو نکالے گا۔
 جس میں جوانوں کی جوانیاں برباد ہو رہی ہیں۔
 انہوں نے  پیسوں کی سبیل کی ۔ جمع پونجی اور ادھر ادھر سے کر کے اس سے 15 یا شاید 20 بھینسیں خرید لیں ۔
ایک روز ہم بچے سکول سے واپس آئے تو محلے میں میکے کا سماں تھا ۔
 پیچھے کی خالی میدان میں انہوں نے ان کا ایک باڑا بنانے کے لئے تمبو لگائے۔
ان ساری بھینسوں کا پہلے سارے دن کا دودھ اکٹھا کیا اور شام تک وہاں دیگوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔
 بچے سکولوں سے آئے اور حیرت سے دیکھنے لگے
 گلی کے خالی میدانوں کے اندر دیگیں ہی دیگیں چڑھی ہوئی ہیں۔
 انہوں نے اپنے گھروں سے پوچھا کہ امی کیا آج گلی میں کسی کی شادی ہو رہی ہے
 انہوں نے کہا
 نہیں تو ۔۔۔پتہ نہیں 
چاچا غیاث کی طرف سے  پھر دو تین گھنٹے کے بعد لاؤڈ سپیکر پہ اعلان ہوتا ہے
 کڑیو منڈیو ونڈی دی کھیر لے جاؤ۔۔۔
 اور پھر یہ کھیر ٹوٹیوں میں نہیں بٹی بلکہ یہ کھیر لوگوں اور بچوں میں دیگچیاں دیگچے گھروں کی بالٹیاں جس کے ہاتھ جو بھی کچھ لگا وہ اپنے ساتھ لے کر گیا 
چاچا غیاث کا حکم تھا کہ کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ تم پہلے لے جا چکے ہو۔۔
 اور بھر بھر کر اس دن کی بھینسوں کا سارا دودھ 15 سے 20 بھینسوں کا سارے دن کا دودھ اس دن خیرات کیا گیا
  اس دودھ سے وہ کھیر کی بیشمار دیگیں چڑھیں۔
  ان دیگوں کے ذریعے سارے محلے کو اتنی گھیر بانٹی گئی کہ جہاں جہاں تک یہ آواز پہنچی بالٹیوں میں بھر بھر کے کھیر لوگوں نے کھائی۔
 چاچا غیاث زندہ باد
 آج تک زندگی میں اس واقعے کو شاید 30،  40 سال گزر چکے ہوں گے لیکن اس کے مقابلے پر کبھی کسی کی خیرات ایک فرد واحد کے ہاتھوں گلی محلوں میں بٹتے نہیں دیکھی۔
 نہ ہی یہ آواز دوبارہ سننے کو ملی اس محلے میں ہر ایک کے لیے لازم تھا کہ سر جھکا کر داخل ہوتا اور سر جھکا کے اکیلا کوئی بھی مرد جو اس محلے کا رہنے والا نہیں تھا داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
جب تک کہ اس سے کچھ خریدنا ہے تو سر جھکا کر آئے گا اور سر جھکا کر جائے گا۔
 پولیس کے لیے غیاث بدمعاش محلے کا چاچا غیاث کیا کمال کا انسان تھا۔
 اس کی بیٹی گلی کی لڑکیوں کے ساتھ سکول جایا کرتی ۔
دوسری تیسری جماعت کی وہ طالبہ اپنی اس دوست کے لیئے گھر سے دیسی گھی کی پنیاں بنا کر لے جاتی۔ کیونکہ محلے کی باقی بچیاں ان سے ڈرتی تھیں۔
 لیکن اس کی دوست جس کے والد بھی چاچا غیاث کو اچھی طرح جانتے تھے اور اس کی عزت کرتے تھے سوائے اس عیب کے اس میں کوئی عیب نہیں تھا کہ وہ منشیات فروش تھا۔
 لیکن وہ خود اتنے رعب دار تھے کہ محلے میں کوئی ان پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا
 کہ تم چاچا غیاث کے ساتھ دوستی میں کیوں ہو ۔
گھروں کا آنا جانا تو تھا بھی نہیں کسی کے ساتھ۔
 لیکن محلے میں باہر سے دعا سلام بہت اچھی تھی۔
 ان کی بیٹی بینو کے ساتھ چاچا غیاث کی بیٹی دل ناز مل کر سکول جاتیں۔
محلے کے کنارے پر ہی سکول تھا اور بینو کے حصے کے لیئے باقاعدہ دیسی گھی کی پنیاں بنا کر اس کا حصہ سکول میں دل ناز کے ہاتھوں جاتا ۔
دل ناز خود بھی دل کی بہت اچھی بچی تھی۔ محنتی تھی اور لائک تھی۔
 لیکن اس پر ایک ٹھپا تھا 
کہ وہ چاچا غیاس کی بیٹی ہے۔
 چاچا غیاس کے ایک عیب سے جو ان سے زبردستی کروایا جاتا۔
ان کی ہر خوبی کو داغدار کرنے کی کوشش کی جاتی۔
 کافی عرصے بعد جب بینو سکول بدل کر دوسرے سکول چلی گئی اور دل ناز اسی سارے ہنگامے میں کہیں گم ہو گئی تو پتہ چلا کہ
  15 سال کی عمر تک جب اسے میٹرک میں ہونا چاہئے تھا اس کی شادی کر کے غیاث چاچا نے اسے پولیس کے روایتی  کردار کے خوف سے اس گھر سے دور کر کیا ۔
 شاید اچھا ہی تو کیا ۔
یہاں ہوتی تو جانے کون کون اس پر کیا نظر ڈالتا ۔
لوگ اس کی کبھی شادی نہیں ہونے دیتے ۔
اس لیے انہوں نے انتظار نہیں کیا۔ خاموشی سے اس کا نکاح کر دیا ۔
 اسے رخصت کر دیا ۔
حالات بھی انسان کو کس کس نہج پہ کیسے کیسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔
چاچا غیاس کا یہ فیصلہ یقینا اپنے وقت اور اپنے حالات کے لحاظ سے بہت مناسب تھا۔
 اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیئے یہی بہتر تھا۔
 بڑا بیٹا جو ویسے ہی سکول سے بھاگ چکا تھا۔
 ان سارے حالات اور لوگوں کی باتوں پر  چاچا غیاث اپنی شرافت بھی نہیں چھوڑتا تھا  نہ وہ پورا بدمعاش بن پاتا نہ پوری طرح شرافت میں آسے آنے دیا جاتا. 
 اس کے دل کا شریف آدمی اس کے نفس کا شریف آدمی اسے لتاڑتا رہتا۔
 پھر ایک روز معلوم ہوا 
چاچا غیاث خاموشی سے اپنا گھر بیچ کر اپنی دوسری چھوٹی بیٹی 12 13 سال کی راشدہ کو  اپنے پڑوس میں آباد اپنے بھائی کے بیٹے کے نکاح میں دے کر خود خاموشی سے وہ گلی چھوڑ گئے ۔
وہ کہاں گئے
 شاید یہ ان کی اپنی بیٹیوں کو بھی معلوم نہیں تھا
 لیکن وہ اب مزید اس کیچڑ میں لت پت نہیں رہنا چاہتے تھے ۔
 چاچا غیاث آج بھی یاد آتے ہیں۔
 بڑے اچھے لفظوں کے ساتھ جھکی ہوئی نظریں دھیمہ لہجہ۔
ہر بیٹی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے والا چاچا غیاث۔
کاش ہمارے ذہنوں میں بدمعاش کا جو تصور ہے۔ آج کا بدمعاش جس گندگی میں لتھڑا ہوا ہے۔
 انہیں پتہ چلے کہ جب باعزت لوگ بدمعاش کی سیٹ پر بیٹھتے تھے تو وہ اپنی محلے کے پہرا دار بن جاتے تھے۔
 اپنے محلے کی عورتوں اور بچوں کے محافظ بن جاتے تھے۔ عورتوں کی عزتوں کے رکھوالے بن جاتے تھے۔
 چاچا غیاث ایک ایسی شخصیت جن پر جتنا جانا جائے کم ہے لیکن وہ جب یاد آتے ہیں۔
عزت سے محبت سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/