ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 24 مارچ، 2023

یہ سوہنا مہمان۔ اردو شاعری ۔ کلام رمضان

یہ سوہنا مہمان
کلام: 
(ممتازملک۔پیرس)

اے ماہ رمضان اے ماہ رمضان
گیارہ مہینے بعد آتا ہے یہ سوہنا مہمان

چھانٹ کے اپنے نفس کے، چن چن عیب یہ دھوئے
مان کے اسکے ضابطے بس، پائے کچھ نہ کھوئے
روح معطر کرنے کو، رب بھیجا یہ گلدان 
اے ماہ رمضان ، اے ماہ رمضان

آس پاس میں رحمت بانٹو، تم پر رحمت ہووے
دردمندی بیدار کرو کہ، اس میں عظمت ہووے
چاہے سمیٹو اس میں جتنا، بخشش کا سامان 
اے ماہ رمضان، اے ماہ رمضان 

محرومی محسوس کرو، اوروں کی شکر بجاو
جھوٹ کو ظلم کو باندھو، سچ کی زنجیریں پہناو
یہی ہمیشہ رہنے والے، رب کا ہے فرمان 
اے ماہ رمضان ، اے ماہ رمضان 

اس کے ہر اک عمل میں برکت، نہیں کوئی نقصان 
ماہ مبارک کی ممتاز، گر ہے بڑھانی شان
بھوک میں سجدے اور نوافل، اور پڑھو قران
اے ماہ رمضان، اے ماہ رمضان 
               °°°°°°

بدھ، 22 مارچ، 2023

پاکستانی بے قابو شادیاں۔ کالم




     پاکستانی بے قابو شادیاں
     تحریر:
      (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان میں اپنی اولاد کی شادی کسی بھی انسان کے لیئے خوشی سے زیادہ پریشانی اور ڈپریشن کا موقع بن چکا ہے ۔ منہ مانگی رسمیں اور پھر ان رسموں کا بوجھ اکثر لڑکی والوں کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، پھر پانی کی طرح ان رسموں کو پورا کرنے کے لیئے  پیسہ بہایا جاتا ہے ۔ لڑکے والوں کی اکثریت مصنوعی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر اور مانگے تانگے کے ایسے ملبوسات کا بکسہ اٹھائے لڑکی کے سر سوار ہو جاتے ہیں جو کھلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس میں سے کون سا کپڑا پہننے لائق ہے ۔ کونسا لڑکے کی باجی نے اپنا مسترد کردہ یا استعمال شدہ جوڑا بھائی پر قربان کیا ہے، اور کونسا لڑکے کی امی جی کی اپنی شادی کے وقت کا تیس سال پرانا نمونہ لڑکی کو جبرا پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اور لڑکا بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ یہ سارا بری ڈرامہ اسی طرح دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کیئے پڑا ہوتا ہے۔ یہ بھول کر کہ یہ سوغاتیں جب وہ لڑکی (جو اسکی دلہن بنکر آ رہی ہے ) جب دیکھے گی تو ساری عمر اس کی مٹی پلید کرتی رہے گی ۔ گویا وہ سیج تک پہنچنے کا خواب پورا کرنے کے لیئے اندھادھند اپنی ماں بہنوں کی تقلید میں دنبے کی طرح سر جھکائے ہاں جی، ہاں جی، کی جگالی میں مصروف رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ آنکھ کھلنے کے بعد شروع ہوتی ہے اسکی تاحیات "بزتی". تب مائیں بہنیں پھر اپنے مٹھو کو پٹی بازی کی چوری کھلاتی ہیں کہ ہائے ہائے ہمارے بھائی کے تو نصیب ہی جل گئے جو ایسی منہ زور بدتمیز لڑکی بیاہ لائے ۔ اس وقت ان زبان دراز عورتوں کو یہ ہر گز یاد نہیں رہیگا کہ اس لڑکی کے ارمانوں بھرے دن پر جو آپ نے اپنی جوٹھن ، دھوکے اور کمینگی کی جھاڑو پھیری ہے اسے تو اب ساری عمر برداشت کرنا ہی پڑیگا آپکو بھی اور آپکے بھائی اور بیٹے کو بھی ۔ اس کے بعد شروع ہو گا  لڑکی کی جانب سے ملے تحائف میں کیڑے نکالنے کا سلسلہ۔ یوں جیسے انہوں نے تحفے نہیں دیئے بلکہ انکے آگے پیسے لیکر کوئی سودا بیچا ہے جو ناقص نکل آیا ہو۔ اس کے باوجود کہ اعلان کر دیا گیا کہ  لڑکی کے گھر والوں کو دینے دلانے کی کوئی تمیز نہیں ۔ انکا انتخاب بھی بیحد گھٹیا ہے لیکن بے شرمی ہے کہ ہر چوتھے دن کوئی نئی رسم گھڑ کر اس کے نام پر فقیروں کی طرح نئے تحائف کا فرمائشی پروگرام جاری کر دیا جاتا ہے ۔ بیٹی دیکر پاکستان میں لوگ گویا اپنی جان ان سسرالیوں کے ہاتھوں سولی پر چڑھا لیتے ہیں ۔ آئے روز انکی کسی نہ کسی بہانے اب دعوتیں ہوتی رہنی چاہیئیں ۔ جن میں ہر بار کوئی نہ کوئی نئی فسادی شرلی چھوڑی جاتی رہے گی ۔  
ان تمام مسائل کا حل نکالنے کے لیئے ہماری حکومتوں کو مستقل بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ جسے کسی بھی حکومت کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہ پڑے اور اس میں کسی تبدیلی کو اس وقت تک منظور نہ کیا جائے جب تک اس پر کوئی حقیقی قومی سروے نہ کروا لیا جائے ۔ اس پر عوامی بحث مباحثے نہ کروا لیئے جائیں ۔ خدا کے لیئے شادیوں کو کسی قانون کے تحت لایا جائے جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ گھروں میں بیٹھی لڑکیاں لڑکے یا تو بوڑھے ہو رہے ہیں یا پھر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اور تو اور شادی کے یادگار دن کو بے قابو طوفان مہنگائی و بے حیائی کا موقع بنا دیا گیا ہے ۔ لوگ قرض لے لیکر اس موقع پر اپنی ناک اونچی رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو خود لڑکیوں نے لمبے لمبے فرمائشی پروگرام بنا بنا کر، لمبے لمبے خرچوں کی فرمائشوں سے اپنے ہی والدین کے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ والدین یہ کب اور کہاں سے لائیں گے انہیں تو ڈراموں اور فلموں کی تھیمز پر اپنی شادی کو بھی پوری فلم ہی بنانا ہے ۔کوئی انہیں بتائے کہ فلمی اور ڈرامے کی شادیوں کے مناظر پر خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں ہزاروں گنا کما کر واپس ملتا ہے جبکہ عام شادی پر والدین کا خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں کئی سال کے لیئے مقروض اور فقیر کر جاتا ہے ۔اپنے والدین پر رحم کھائیں ۔ اور لوگوں کو اپنی جعلی امارت کے رعب میں ذہنی مریض بننے اور جرائم کی راہ اختیار کرنے پر مجبور مت کریں ۔ شادیوں کے اخراجات کو ایک حد میں لانے کے لیئے ہم حکومت پاکستان کو چند تجاویز پیش کرتے ہیں جس کے لاگو ہونے سے لوگوں کی زندگی کو کافی ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ۔ 
1.شادی کو  ٹوٹل سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کے اجتماع تک محدود کر دیا جائے ۔ 
2. مخلوط محافل کو بین کیا جائے۔ 
3.شادی میں دس سال سے چھوٹے بچے لانے پر پابندی لگائی جائے۔ (جو تمام پروگرام اور انتظامات کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔)
4.ون ڈش کی پابندی کروائی جائے۔ 
5. جہیز میں لڑکی کو اسکے لیئے سات جوڑے ،صرف اسکا  بیڈ روم فرنیچر اور کچھ کچن اور لانڈری کا لازمی سامان دیا جائے ۔ 
6.بری میں سات نئے اور بھاری جوڑے کپڑے لڑکی کے ، حسب توفیق ایک آدھ سونے کا سیٹ
7.ذیادہ سے ذیادہ دس ہزار روپے تک کا شادی اور ولیمے کا جوڑا دلہن اور دولہے دونوں کا۔۔
8. آپ کتنی بھی مالی حیثیت رکھیں لڑکے والے  بارات میں اور لڑکی والے ولیمے میں ذیادہ سے ذیادہ صرف 50 افراد ہی لا سکتے ہیں ۔
9. شادی میں کرائے کے عروسی ملبوسات کو رواج دیا جائے۔ 
10.دولہے کی ماں بہنوں کو سونے کے زیورات تحفے میں دینے پر پابندی لگائی جائے۔ 
11.نکاح مسجد میں کرنے کا رواج عام کریں۔ اور نکاح میں صرف دولہا دلہن انکے والدین سگے بہن بھائی اور دو گواہوں کے سوا کسی کو شامل ہونے کی اجازت نہ ہو۔  رخصتی کے روز باقی سبھی مہمانوں کے سامنے  اس نکاح کی ویڈیؤ چلائی جا سکتی ہے ۔ 
12. شادی کے بعد کسی قسم کے تحائف کے لین دین جیسی تمام رسومات کو بین کیا جائے ۔ جسکے مواقع لڑکے والے آئے دن پیدا کرتے اور لڑکی والوں کی زندگی اجیرن بناتے رہتے ہیں ۔ 
جیسے کے مکلاوہ ، عیدیاں ، گود بھرائیاں ، بچے کی پیدائش وغیرہ وغیرہ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی بااختیار ان تجاویز کو غور کرنے اور لاگو کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کر کے بیشمار لوگوں کی دعائیں لینے کا وسیلہ ضرور بنے گا ۔     
                  °°°°°

منگل، 21 مارچ، 2023

عورت کی گھریلو ناکامیاں ۔ کالم ۔ خواتین



   عورت کی گھریلو ناکامیاں 
     (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

ہمارے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں  عورت کو اپنے شوہر اور اپنی سسرال کی نفسیات کے تناظر میں انہیں ہینڈل کرنا آنا چاہئے ۔
ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کو یہ تو سکھاتی ہیں کہ میاں کو کیسے قابو کرنا ہے یا عرف عام میں کیسے نیچے لگانا ہے لکن یہ سکھانا بھول جاتی ہیں کہ سب کے دل کو کیسے قابو میں کرنا ہے ۔ میاں کے گھر پہنچتے ہی دنیا بھر کی خبریں اور خصوصا بری خبریں اس کے کان میں پھونکنا، گھر داری سے جان چھڑانا، کھانے پکانے سے جان چھڑانا، مرد کے غصے میں برابر کی زبان چلانا، اپنے اور اس کے گھر والوں کا ہر وقت بلا ضرورت  کا تقابل کرتے رہنا ،اپنے میکے کو بھرنے میں لگے رہنا، اپنی آمدنی سے ذیادہ کے شوق پالنا، ہر عورت کا اپنی بہن کو اچھے عہدے یا کمائی والے دیور سے بیاہنے کے جبری منصوبے، اس کے گھر والوں کو نظر انداز کرنا،
یہ سب باتیں میاں بیوی کے رشتے میں زہر بھرنے کا باعث بنتی ہیں ۔ ہم ہر بات کا الزام مردوں یا شوہر کے  سر پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔
ہمارے سامنے آنے والے کئی گھریلو تشدد کے واقعات  بیحد افسوسناک ہیں، لیکن ان سب حالات کا کوئی دوسرا رخ بھی ضرور ہو گا ۔ اگر حالات ایسے خوفناک رخ پر جا رہے تھے ، لوگ اتنے برے تھے، شوہر اتنا جابر تھا تو کیوں طلاق نہیں لی ان بہنوں نے ؟ سو ہر بات پر جذبات کے بجائے عقل  کا استعمال کیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے ۔۔بجائے اس کے کہ طلاق کو ایک کلنک کا ٹیکہ سمجھ کر تو احتراز کیا جائے لیکن قاتل یا قاتلہ کا جھومر سر پر سجا لیا جائے ۔ کیا مطلقہ ہونا یا طلاق دینا  قاتل یا قاتلہ بننے سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے ؟ تو کیا اللہ نے ایک قابل نفرت کام کی اجازت دے رکھی ہے ؟
پھر یہ کہنا کہ حالات ایسے تھے، ویسے تھے طلاق نہیں لی جا سکتی تھی تو اس صورت میں دو ہی کام ہو سکتے ہہں یا تو صبر کیجیئے یا قتل کر دے یا  قتل ہو جائے ۔۔۔آپ اسے اگر حل سمجھتے ہیں تو ۔۔ معاشرے کو یہ بات ذہن نشیں کرانی ہو گی کہ طلاق لینا ایکدوسرے کو قتل کرنے سے ہزار گنا بہتر ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیوں بیٹیوں اور صحابیات نے جو عمل کیا اسی میں معاشرے کی بقاء ہے ۔ کئی نام نہاد مسلمان جو دین کی بنیاد تک سے نابلد ہیں وہ بہت زور و شور کیساتھ عورت مرد کی بحث میں اپنی ذاتی پسند اور ضرورت کے معاملات پر  غیر اسلامی فتوے تھوپ کر خود کو عالم ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں اپنا زور بیان صرف کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو کم علم اور دین سے نابلد لوگوں کے لیئے کھلی گمراہی کا سبب بنتا ہے اور وہ ان نیم ملا جیسی معلومات سے معاشرے میں شر پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ جیسا کہ ان کے نزدیک طلاق دینا بس مرد کا حق ہے عورت خود سے اپنے شوہر کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ جو کہ صریحا گمراہی ہے ۔ دین اسلام کو دین فطرت اسی لیئے کہا گیا ہے کہ اس میں صرف مرد یا عورت نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت میں شامل عادات و خصائل کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے اور احکامات مرتب کیئے گئے ہیں ۔ اور کسی کے ساتھ رہنا یا نہ رہنا زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے قوانین میں ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسی باتیں کرنے والے خود اللہ پاک پر جانبداری کی تہمت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ انہیں دن کا علم حاصل کرنا چاہیئے ورنہ کسی قابل عالم سے ایسے معاملات میں رائے لینا چاہیئے ۔ طلاق دینا مرد کا حق ہے تو خلع لینا اس کے برابر کا حق ہے جو اللہ پاک نے عورت کو دے رکھا ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر کیساتھ خوش نہیں ہے یا محفوظ نہیں ہے یا وہ اسکی جانب سے مسائل کا شکار ہے تو وہ اپنا حق خلع استعمال کر سکتی ہے ۔ جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دو صاحبزادیوں کے لیئے انکی رخصتی سے قبل ہی استعمال کروایا ۔ کیونکہ اسلام آ چکا تھا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت فرما چکے تھے اور جہاں طلاق سے متعلق احکامات نازل ہو چکے تھے وہیں خلع کا حق بھی عورت کے لیئے دیا جا چکا تھا ۔ 
 اسے گالی کی حیثیت دیکر ان سب معزز خواتین کی توہین مت کیجیئے ۔ یہ بات سمجھ کر ہی ہمارے معاشرے سے قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا ۔اور یہ کام ہماری ماؤں کو کرنا ہو گا جو اپنے کنوارے تو کیا چار بار بیاہے ہوئے  بیٹے کے لیئے بھی ان ٹچ  18 سالہ دوشیزہ ڈھونڈنے پر تلی رہتی ہیں ۔ لیکن کسی مطقہ یا بیوہ لڑکی کو نا تو باکردار سمجھتی ہیں اور نہ ہی گھر بسانے کے لائق ۔ انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے  کہ ایک جوڑے میں جدائی کی وجہ ان میں سے کسی کا بدکردار ہونا یا گھر نا بسا سکنا ہو بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ان کا ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور ان سب سے بڑی اور مستند وجہ تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس جوڑے کے درمیان اس رشتے کا وقت ہی اتنا لکھا تھا ۔ پھر وہ چاہتے یا نہ چاہتے انہیں الگ ہو ہی جانا تھا۔ چاہے اس کی وجہ کچھ بھی اور کتنی بھی معمولی بات ہی کیوں نہ بن جاتی ۔۔۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔  

ہفتہ، 18 مارچ، 2023

دوبارہ / نعت ۔ شاعری ۔ اور وہ چلا گیا

دوبارہ

سرکار پھر بلا لیں ہم کو وہاں دوبارہ 
جس در سے دیکھ پاوں جنت کا میں نظارہ

یہ دل میرا ہے عآصی اور آپ  شافعی ہیں 
پھر دور آپ سے یہ کیسے رہے بیچارہ

 رب کو کیا ہے ناخوش ہم نے ہر اک عمل سے
راضی اسے کریں ہم سن لیجیئے خدارا

جس جاء پہ ہم کو کوئی رستہ دکھائی نہ دے
آقا وہاں پہ ہم نے ہے آپکو  پکارا 

حرص و ہوس میں گر کر خود کو تباہ کیا ہے
ہم جیسے بدنصیبوں کو آپ کا سہارا 

ظالم جہان والے دیتے نہیں ہیں جینے
دل ان کے ہاتھوں آقا اپنا رہا سیپارہ 

ممتاز کر گدائی آقائے دو جہاں کی
کیا بیچتا ہے پھر یہ حاسد سماج سارا
●●● 
 

بدھ، 1 مارچ، 2023

مصرعہ طرح ۔ میرا بھی حال زار ہے اردو زبان سا

مصرعہ طرح 
(میرا بھی حال زار ہے اردو زبان سا)
کلام:
      (ممتازملک ۔پیرس)

بیٹھا کیئے تھے جس پہ  بوسیدہ دیوان سا
دل رہ گیا تھا ویسے ہی خالی مکان سا

جس گھر میں رہتے کوئی تحفظ نہ مل سکے
ویرانہ ہے کھنڈر ہے بجز سائبان سا 

وسعت میں اسکے سارا زمانہ سما سکے
دیکھو تو آزما کے ملے آسمان سا

اچھی دنوں کی بات تو رہنے ہی دیجیئے 
اچھے دنوں کا خیال ہے وہم و گمان سا 

کوشش کے باوجود ملن ہو نہی سکا 
رشتہ ہمارا اس سے رہا درمیان سا

سب جانتے ہوئے بھی تعارف طلب کریں
میرا بھی حال زار ہے اردو زباں سا 

پہچانتے تھے جو وہ مجھے روندتے رہے
ممتاز مرحلہ یہ رہا امتحان سا
         
            °°°°°°°°

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/