ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 24 ستمبر، 2023

ڈاکٹرمحمد اسلم ‏پرویز کی ‏کتاب ‏رباعیات ‏پر ‏تبصرہ ‏/ ‏تبصرے


رباعی شاعری کی وہ صنف ہے جس میں چار مصروں میں کسی بھی بات کا نچوڑ پیش کیا جاتا یے ۔  بلاشبہ یہ ایک مشکل صنف یے اور اس میں ماضی ہو یا حال، چیدہ چیدہ شعراء کرام کا کام ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ایسے میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز جیسے شاعر کا کام دیکھنے کو ملا جو کہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور بے حد حساس طبیعت کے مالک ہیں ۔ ان کی رباعی سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع بھی رباعیات ہی رہا ۔ اور بہت کم ایسے شعراء کرام گزرے ہیں جنہوں نے رباعیات کے مجموعہ کلام پیش کیئے  ہوں۔  
      
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز  کی کتاب "شخصیات" (جو کہ رباعیات کامجموعہ کلام ہے) پڑھنے کا موقع ملا ، جس میں معروف شخصیات پر،  ان کے کام پر اظہار خیال کو  رباعیات کے جامے میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے ۔۔ جس میں ان شخصیات کے فن کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے ، تو کہیں ان کی خوبیوں کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ کہیں ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا گیا ہے، تو کہیں ان کی بے تحاشا عقیدت جھلکتی دکھائی دیتی ہے ۔ ۔ 
یوں تو اردو زبان میں غالب سے لیکر اقبال تک سبھی بڑے بڑے شعراء کرام نے رباعی کی صنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے اور اسے عروج تک پہنچایا ہے ۔  لیکن اقبال کے بعد  اس صنف سخن پر شعراء کی زیادہ توجہ نہیں رہی۔ اس کی وجہ یقینا اس صنف سخن کے مشکل اوزان و بیانیہ ہے ۔ جو زیادہ وقت طلب ہے اور زیادہ توجہ چاہتا ہے ۔ 
ڈاکٹر اسلم کی اس کوشش کو میں دل سےسراہتی ہوں ۔اور امید کرتی ہوں کہ وہ اس صنف میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کر پائیں ۔
میری جانب سےانہیں اس خوبصورت تخلیق پر بہت سی مبارکباد اور نیک خواہشات ۔

(شاعرہ ۔کالمنگار۔ لکھاری )
ممتازملک 
پیرس۔فرانس

بدھ، 20 ستمبر، 2023

خود ترسی کی نوبت۔ کالم



خود ترسی کی نوبت
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)

میرے کالم "خود ترسی بھی ایک مرض " پر ہمارے ایک فیس بک فرینڈ کا تبصرہ تھا کہ یہ مرض یورپ کی لڑکیوں میں عام ہے جہاں اکثر مائیں اپنی لڑکیوں کو لے کر سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتیں ہیں  اور کہتیں ہیں کہ "اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے"
یہ سوچ اور اس جیسی سوچ والے دوستوں کو ایک ہی جواب دینے کی غرض سے قلم اٹھایا ہے یہ آپکی خوش فہمی ہے جناب کہ یہ مرض محض یورپ سے منسوب ہے زرا اپنے گلی محلوں میں اونچے نیچے گھروں میں جھانکیں جہاں بوڑھی ہوتی رشتوں کے انتظار میں بیٹھی لڑکیاں بیوائیں مطلقہ خواتین  جو معاشرے میں دھتکار کر تنہا  بے آسرا زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جاتی ییں ۔ ان سے پوچھیئے جا کر بے بسی کا احساس کیا ہوتا ہے۔ اور جب کوئی ان کی پریشانی سمجھنے والا ان کے دکھ کو دکھ سمجھنے والا نہیں رہتا تو وہ خود اپنے اوپر ترس کھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ ۔ یورپ میں نہ شادی مسئلہ ہے نہ طلاق ۔ نہ دوستیاں مسئلہ ہیں نہ معاشی مجبوری ۔ لگتا ہے یورپ کے بارے میں ایسے لوگوں کی معلومات کافی ناقص ہیں ۔ معذرت کیساتھ
جی ہاں درست ہے کہ حد سے ذیادہ تنہائی پسندی ہی بعد میں ڈپریشن کی  صورت میں سامنے آتی ہے اور یہ تنہائی کبھی کبھی بھرے پرے گھر میں بھی انسان کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ کیونکہ وہاں جسم تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن۔ کسی کی سوچ کو جذبات کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا حتی کہ کبھی کبھی تو اپنے سگے والدین آپکے جذبات کچلنے اور آپکو تماشا بنانے میں فریق بن جاتے ہیں ۔  یہ  ڈپریشن یا مایوسی بھی ایکدم سے انسان پر حملہ آور نہیں ہوتی  بلکہ قدم بقدم بڑھتی اور اثر انداز ہوتی ہے ۔ اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم سب اتنے حساس ہوں کہ اپنے ملنے والوں اردگرد رہنے والوں کی باڈی لینگویج  اور طرز عمل میں ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کر سکیں اور برقت ہی کسی انسان کو اس کنویں میں گرنے سے بچا سکیں ۔
کسی انسان کا جہاں وجود ہے وہاں اس کا ذہنی طور پر حاضر نہ ہونا، اس کی آنکھوں کا وہاں پر اجنبیت کا اظہار، بات کچھ ہو جواب کچھ اور آ رہا ہو، اپنے لباس اور حرکات و سکنات سے  بے خبر ہونا ، بلاوجہ ہنسنے لگنا یا خوامخواہ رونے لگنا یا چڑچڑاہٹ کا شکار ہونا، جھگڑا کرنے کا بہانہ ڈھونڈنا، یہ سبھی کیفیات جو بیان کی گئی ہیں وہ ڈپریشن کی ہیں جو خود ترسی سے بہت زیادہ آگے کی یا لاسٹ سٹیج کہہ لیں ، کی ہیں  ۔ 
جبکہ خود ترسی عموما اس وقت آغاز ہوتی ہے جب بچپن ہی سے بچے کو اس کی صلاحیتوں پر حوصلہ افزائی نہیں ملتی ، ایک کا حق دوسرے کی جھولی میں یہ کہہ کر ڈال دیا کہ چلو تمہیں پھر لے دیں گے ،ابھی تمہیں اس کی زیادہ ضرورت نہیں ہے،  تم اس کا کیا کروگے/گی ، اسے اہمیت نہ دینا یا پھر اولاد  میں ہر وقت کسی کا ، دوسرے کی کسی بھی صلاحیت یا چیز سے غیر ضروری مقابلہ کرتے رہنا، مذہب سے دوری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے ،کیونکہ مذہب ہمارے اندر تقدیر اور نصیب کا تصور پختہ کرتا ہے ۔ برداشت اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ہمارے اندر صبر اور انتظار کی عادت کو جنم دیتا ہے ۔ ہمارے مزاج میں توازن پیدا کرتا ہے ۔ جبکہ آجکل بدنصیبی سے جو بھی شخص مذہب کی جانب متوجہ ہوتا ہے اس مذہب کے اکثر علماء اور راہب ہی اسے بھٹکا کر مذید تباہی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اس لیئے رہنمائی کا  یہ کردار بہرطور نزدیکی رشتوں کو ہی ادا کرنا ہو گا  ۔ خود ترسی سے شروع ہونے والا سفر اکثر گناہوں کی منزل یا خودکشی پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ لہذا اسے نظر انداز کرنا اس معاشرے میں ٹائم ب م فٹ کرنے کے برابر ہے ۔ اپنے معاشرے کو اس سے بچائیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں ۔ جس کا آغاز آپکے اپنے گھر سے ہو گا۔ 
                     ------

بدھ، 13 ستمبر، 2023

کیا کھویا کیا پایا؟ / کالم

کیا کھویا کیا پایا؟
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

عورت کے بدلتے زمانے کے روپ اسے تیزی سے تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ یہ وہی عورت ہے جو ماں ہے تو انسان کی سب سے بڑی ہمدرد اور خیر خواہ کہی جاتی رہی ہے اور اگر بیوی رہی تو اسے لباس کہہ کر اس کی حیثیت کو مکمل بیان کر دیا گیا ۔ لیکن پھر حرص و ہوس کی وہ آندھی چلی کہ رشتوں کے پرخچے اڑنا شروع ہو گئے ۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں میڈیا اور معلومات کا وہ سونامی ہے جس کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے اور اس سے کوئی فائدہ اٹھانے کے لیئے ہماری قوم کے پاس نہ تعلیم کا ہتھیار تھا ، نہ ہی ٹیکنالوجی کی سمجھ ، نہ ہی کوئی قومی شعور تھا اور نہ ہی تہذیب و اقدار کی کوئی مضبوط ڈھال۔ سو تنکے کی طرح ہمارا سارا معاشرتی ڈھانچہ بہتا چلا گیا ۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارا ہر غرور ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ مرد نے اپنی آنکھ کا پانی اور سوچ کا دائرہ کھو دیا تو عورت نے اپنی حیا اور نسوانی وقار کو اپنے ہاتھوں تار تار کر دیا ۔سر بازار اس کی قیمت لگوا لی ۔ کیونکہ آج کے مرد نے اسے یقین دلا دیا کہ عزت کی تلاش میں نکاح کا پٹہ گلے میں ڈالو گی تو تمہیں میرا کتا بن کر رہنا ہو گا اور داشتہ بنکر میرے ساتھ مجھے خوش کرتی رہو گی تو تمہاری سوچ سے بھی پہلے ہر ممکن اور ناممکن تمہارے نام لگاتا رہونگا ۔ سو روٹی کپڑا اور  ادھار کی چاردیواری پر تکیہ کرنے والی عورت نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے خود کو اس کے قدموں میں گرا کر بیوی بنکر کتے کی سی زندگی گزارنے اور  اس کے سارے خاندان کی چاپلوسی کے بدلے اپنے کانوں میں ان کا زہر آلود سیسہ پگھلانے اور سینے میں الاؤ دہکھانے کا۔ کیوں نہ اک گناہ (جو اس مرد کی خوشی کیساتھ) کر کے دنیا بھر کا اختیار اپنے نام کیا جائے؟  اسی سوچ نے اس معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ مرد نے اپنی بیوی کو ہر ایک اپنے بیگانے کے سامنے ذلیل کرنے، اس پر جملے کسنے اور اس پر لطیفے بنانے کے لیئے اپنی نکاحی بیوی کو آلہ بنا لیا ۔ گویا اپنا لباس اپنے ہاتھوں اتار دیا تو بدلے میں ایک کرائے کا تعلق بخوشی اپنے گلے کا ڈھول بنا لیا ۔ جس کے لیئے وہ صرف ایک اے ٹی ایم مشین ہے۔ جہاں اس کے پہنچنے کی دیر ہے فرمائشی ریکارڈ شروع ہو جاتا ہے ۔ جہاں مشین سے نوٹ ختم ہوئے ۔ آپ کو پڑی لات اور اس عورت کے لیئے ایک نیا اے ٹی ایم پہلے سے لائن میں موجود ملے گا۔ بلکہ کئی ایک کے ایک وقت میں بیشمار اے ٹی ایم ایکساتھ اپنی خدمات پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مرد اپنی نکاحی بیوی کو کیا عورت نہیں سمجھتا ؟ کیا اسے انسان نہیں سمجھتا ؟ یا اسے اس بات کا خوف لذت دیتا ہے کہ یہ کہاں جائیگی میرے دروازے کے سوا؟ کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ بطور بیوی اس دنیا کی ساری رنگینیاں وہ بھی نہ دیکھتی ہے ، نہ جانتی ہے اور نہ ان سب پر اختیار رکھتی ہے؟ کیا اسے یہ گمان ہے کہ اس کے اور اس کے خاندان کے ہاتھوں ذلت اور مقابلہ بازی ہی اس رشتے کا مقدر ہے؟ 
تو پھر آج کی عورت خود مختار ہو کر خود اپنی دو روٹی، چادر اور چاردیواری بنا کسی ذلت و تماشے کے بنانا چاہتی ہے اور اکیلی اپنی مرضی سے سکون کیساتھ جینا چاہتی ہے ، بنا کسی کے جوتے سیدھے کیئے خوش رہنا چاہتی ہے، تو کیا برا کرتی ہے؟ بات دینی پہلو سے ہو یا معاشرتی ۔ رشتے تحفظ اور عزت کے لیئے بنائے جاتے ہیں اور اگر یہ دونوں چیزیں ناپید ہو جائیں تو رشتوں خصوصا میاں بیوی کے رشتے کی ضرورت ہی کہاں رہتی ہے؟ ہمارے معاشرے کا مرد خود اس رشتے کو تباہی کے دہانے پر لا چکا ہے ۔ بدلے میں اسے کیا ملا ۔ نہ دل کا چین، نہ وفا نہ عزت ۔ یہ سب وہ چاہتا تو اپنی زندگی کا ٹریک ہی کیوں بدلتا ۔ ورنہ نکاح کے بدلے تو اسے یہ سب کچھ خدائی تحفے کے طور پر بنا کسی تردد کے مل ہی رہا تھا ۔ جس سے وہ بیزار ہو کر جنگلی پھولوں کی خوشبو سونگھنے کانٹوں کے جھاڑ میں ناک گھسیڑ بیٹھا ۔ اور سونگھ کر جب باہر نکلتا ہے تو نہ اس کی ناک کسی قابل رہتی ہے نہ اس کی شکل کسی کو دکھانے لائق رہتی ہے۔ عورت نے بھی اسی کے دکھائے ہوئے تجربات کی روشنی میں یہ جان لیا کہ نکاح جیسا مقدس بندھن آج کے اس پرآشوب دور میں محض دو روٹی اور سر کی عارضی چھت کے لیئے باندھنا ناقابل برداشت اور اس رشتے کیساتھ بے ایمانی ہے۔   (ظاہر ہے چھت تو مرد اپنی داشتاؤں کے نام کرتا ہے  اس کے لیئے تو جب تک نکاح تب تک پناہ والا کھاتہ ہی ہوتا ہے , تو چھت اسکی کہاں سے ہو گئی؟) اس لیئے وہ اب ہمارے  سو کولڈ پاکستانی اور مشرقی معاشرے میں یہ رشتہ اس قدر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے کہ خود کو معاشی طور پر اس غم سے آزاد کرنے ہی میں عافیت سمجھنے لگی ہے ۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو آج کی عورت کو یہ راستہ دکھانے والا ہمارا مشرقی مرد جسے اپنی عیاشی کا سامان سمجھ بیٹھا ہے وہی اسکی تباہی کا انجام بن چکا ہے ۔ اپنی نسل اصل اور دین دنیا سب کچھ داؤ پر لگا کر اسے ہوش آیا بھی تو کیا آیا ۔ اس کا حل بیحد آسان ہے کہ اپنی داشتاؤں کے بجائے اس لڑکی کو پوری عزت وقار اور تحفظ دے جو نکاح کا مقدس بندھن باندھ کر اسکی زندگی میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر داخل ہوتی ہے۔ اسے اپنے گھر کی نوکرانی بنا کر اپنے خاندان کے قدموں میں ڈالنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کا سکون اور مددگار سمجھے ۔ اور یہ یاد رکھے کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ باز پرس جس رشتے کی ہو گی وہ اس کی بیوی ہی ہے ۔ تاکید کی گئی کہ لوگوں اپنی بیویوں کے لیئے تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ معاشرے کو مزید  بگاڑ اور تباہی سے بچانا ہے ، ہمارے مردوں کو اپنی نسل بچانی ہے تو نکاح کے رشتے کی توقیر بچائیں۔  
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/